اردو محفل سالانہ مشاعرہ 2014 - تبصرہ جات کی لڑی

قبا سرخ ہو تو عَلَم کیوں سفید؟
پھر اس پر بھی خوں کا نشاں چاہیے

خرد نے مسخّر کیا یہ جہاں
مگر مجھ کو سوزِ نہاں چاہیے

جبیں وقفِ جبر ِِ رسومِ سجود
اِسے روبرو لامکاں چاہیے
- سید عاطف علی

سبحان اللہ، بہت خوب۔
 
ایک دو پیگ لگا کر جو بہک جاتے ہیں
ہم انہیں ساتھ پلانے کے نہیں ہیں قائل
- مہدی نقوی حجاز

کیا کہنے حضور :)۔ گزشتہ ماہ لکھا ایک شعر آپ کی خدمت میں

اب صحبتِ یاراں کی خاطر پیتے ہیں یہاں جو پیتے ہیں
ہم نشہء مے سے واعظ جی! آزاد ہوئے ہیں سو فیصد
- نوید
 
ایک دو پیگ لگا کر جو بہک جاتے ہیں
ہم انہیں ساتھ پلانے کے نہیں ہیں قائل
- مہدی نقوی حجاز

کیا کہنے حضور :)۔ گزشتہ ماہ لکھا ایک شعر آپ کی خدمت میں

اب صحبتِ یاراں کی خاطر پیتے ہیں یہاں جو پیتے ہیں
ہم نشہء مے سے واعظ جی! آزاد ہوئے ہیں سو فیصد
- نوید
آج کل یوں مجھ کو بہکاتے ہیں یار
چل ذرا تھوڑی سی پی آتے ہیں یار!
حجازؔ
آداب! :) بہت بہترین شعر ہے جناب! :)
 
واہ ابن سعید بھیا واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مر جاواں گُڑ کھا کے انی سوہنی آواز ۔۔۔ :p ۔۔۔ :love: ۔۔۔۔۔۔۔ :) :) :)
رضا بھائی آواز کے جادو سے تو نکلنے دیں :rolleyes: ،،، لیکن نثر ہو یا سُخن ۔۔۔۔ ہر شے میں ملکہ حاصل ہے بھیا کو :) :) :)
محبت ہے آپ احباب کی۔ :) :) :)
 

منصور آفاق

محفلین
فاتح الدین فاتح کی نظم بہت خوبصورت ہے غزلیں بھی دونوں اچھی ہیں ۔ خاص طور پر یہ غزل بہت اچھی لگی

لکھتے پھریں جو لکھتے ہیں فلسُوف خیر و شَر
سب سوچنے کی طرز پہ موقوف خیر و شَر
اس میں جو قافیہ انہوں نے استعمال کیا ہے میرے خیال یہ قافیہ اردو شاعری میں پہلی بار استعمال ہوا ۔ شاید فارسی میں بھی نہ ہوا ہو۔ میری نظر سے نہیں گزرا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فاتح الدین فاتح کی نظم بہت خوبصورت ہے غزلیں بھی دونوں اچھی ہیں ۔ خاص طور پر یہ غزل بہت اچھی لگی
لکھتے پھریں جو لکھتے ہیں فلسُوف خیر و شَر
سب سوچنے کی طرز پہ موقوف خیر و شَر
اس میں جو قافیہ انہوں نے استعمال کیا ہے میرے خیال یہ قافیہ اردو شاعری میں پہلی بار استعمال ہوا ۔ شاید فارسی میں بھی نہ ہوا ہو۔ میری نظر سے نہیں گزرا۔
اپنے فاتح بھائی ذرا نیا ہی لاتے ہیں مارکیٹ میں ۔ ویسے میرے خیال میں فلسوف کی بجائے فیلسوف بندھتا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ فاتح بھائی۔ ماشاءاللہ۔۔۔ بہت ہی پرلطیف اور سب سے منفرد کلام ۔۔۔ تعریف کے لئے میرے پاس لفظ نہیں۔

عسرتِ ارتباط تھی شرطِ وصالِ مستقل
کارِ عذاب ہو سو ہو، ہاں بخدا مگر کیا

آخری شاہ زاد تھا حرمتِ عشق شہر کا
شوقِ وصال و لمس نے جس کو وطن بدر کیا


آدم پہ ہے اجارہ و معراجِ اختیار
صدیوں کے اقتدار میں ملفوف خیر و شر

کاسے میں ان کے ساغرِ جم اور امیدِ حور
بانٹے ہیں ٹھیکروں میں جو موصوف خیر و شر​
 
Top