سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

مہوش علی

لائبریرین
صحابہ پر یہ اعتراض آپ کریں یا صدیوں پہلے کوئی اور، اوپر لکھے گئے فرمان رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی کو استثنیٰ نہیں دیا گیا۔ اور دلیل اوپر نقل کر دی گئی ہے۔ لہٰذا بقول رانا صاحب اگر آپ لوگ پانی میں مدھانی چلانا جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ضرور جاری رکھیں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے کسی ساتھی پر زبان طعن دراز نہ ہو۔ کیونکہ تمام صحابہ کرام اور اھل بیت عظام اھل سنت والجماعت کے سروں کے تاج ہیں۔۔۔
آپ کے سمجھنے کا شکریہ۔۔۔

بھیا کسی کی ذات کو برا بھلا نہیں کہا جا رہا ہے، بلکہ یہاں صرف علمی قابلیت پر گفتگو ہو رہی ہے تاکہ اسے درست میزان میں رکھا جا سکے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ کسی کی علمی غلطی کا احاطہ نہ کر کے طعن کا رخ بذات خود مذہب اسلام کی طرف ہو جائے جیسا کہ اوپر بیان کردہ حدیث میں ہے؟
نیز یہ "فضائل" والی روایات اتنی مستند نہیں ہوتیں اور آپکی نظر پوری تصویر پر ہونی چاہیے۔ کیا آپ کو علم ہے کہ بخاری و مسلم و صحاح ستہ و حدیث و تاریخ کی کتب میں درجنوں اور سینکڑوں واقعات ہیں جہاں صحابہ کا آپس میں جھگڑا ہو رہا ہے، ایک دوسرے سے لڑائی ہو رہی ہے، ایک دوسرے پر طعن ہو رہے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کو برا بھلا تک کہا جا رہا ہے۔ اگر آپکی بیان کردہ "فضائل" والی روایت کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر بذات خود صحابہ پر رسول (ص) کے حکم کی مخالفت کا الزام لگ جائے گا۔

نیز میرے خیال میں جناب ابو ہریرہ کے حوالے سے گفتگو اس تھریڈ میں ختم ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس مسئلے کو یہاں پر ہی روک دیتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
مہوش علی اتنے صفحے پڑھنے کے باوجود میں آپ کی رائے جاننے میں ناکام ہوں۔ آپ نے ارتقاء کے متعلق کہا کہ اس کا ثبوت نہیں ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر نیندرتال کا معاملہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف آپ کسی طرح سائنس کے خلاف مذہب کے موقف کو بھی غلط ہی قرار دے رہی ہیں۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ کے خیال میں سائنس اور مذہب دونوں غلط ہیں؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
مجھے خود اس بات کی سمجھ نہیں آئی اس ساری بحث کے دوران۔۔۔۔۔۔۔! شروع کے مراسلوں سے لگتا ہے کہ محترمہ مذہب بیزار ہو گئی ہیں اورکہیں کہیں مذہب کی صداقت کا علم بھی تھامے نظر آتی ہیں۔ اپنے ہی مراسلوں میں بہت سی جگہوں پر مذہب اور سائنس کو اس انداز سے آمنے سامنے بھی لا کھڑا کیا ہے جہاں کسی ایک کو ہی صیح ماننا بن پڑتا ہے مگر ان کا اپنا موقف کھل کے سامنے نہیں آیا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش علی اتنے صفحے پڑھنے کے باوجود میں آپ کی رائے جاننے میں ناکام ہوں۔ آپ نے ارتقاء کے متعلق کہا کہ اس کا ثبوت نہیں ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر نیندرتال کا معاملہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف آپ کسی طرح سائنس کے خلاف مذہب کے موقف کو بھی غلط ہی قرار دے رہی ہیں۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ کے خیال میں سائنس اور مذہب دونوں غلط ہیں؟

میں یہاں پہلے سے کوئی ذہن بنا کر نہیں آئی ہوں، بلکہ آپ لوگوں سے تبادلہ خیال کر کے سیکھنے آئی ہوں۔ مجھے نیوٹرل رہتے ہوئے علم حاصل کرنا ہے اور میں نے یہاں کچھ سیکھا ہی ہے۔

مذہب اور سائنس کے حوالےسے میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے۔ اسی بنیاد پر بحث شروع ہوئی۔ سائنس نے کچھ چیزیں تجربات کے بعد حق الیقین کی سطح کے قریب پہنچا دی ہیں، اور یہاں سے ہی میں نے بحث کا آغاز کیا۔

ارتقاء تو ہوا ہے، مگر یہ ایک بہت بڑی تھیوری ہے۔ اس تھیوری کی کچھ چیزیں ثابت ہو چکی ہیں (مثلا اسکی ایک شاخ Interbreeding، جسکا ہمارے موضوع میں نیندرتھال سے تعلق ہے)، مگر کچھ پر جیوری آؤٹ لگتی ہے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ میرا مؤقف درست نہ ہو۔ چنانچہ یہاں سائنسی ارتقاء میرے لیے ایک ثانوی بحث ہے، اور اصل بحث میں ان نکات پر کر رہی ہوں کہ جہاں میرے قلیل علم کے مطابق سائنس نے تجربات سے چیزیں حق الیقین کے قریب پہنچا دی ہیں اور سائنس اور مذہب کا ٹکراؤ ہوتا نظر آ رہا ہے، جیسا کہ زمیں کا فرش ہونا، اور سورج چاند کا زمین کے گرد چکر لگانا وغیرہ۔
 

asim10

محفلین
السلام علیکم کچھ کچھ پڑھا لیکن کچھ سمجھ نہیں آئی کہ مہوش کا اعتراض کس پر تھا۔ اسلام پر احادیث پر یا سائنس پر ۔ کچھ تذبذب کا شکار لگ رہی ہیں
 

asim10

محفلین
اسلا م علیکم دوستو۔ بات شروع ہوئی تھی نیندر تھال سے ۔ یہ مخلوق آج بھی اس دنیا میں موجود ہے۔ لیکن اسے ہم کسی طرح سے یہ نہیں کہ سکتے کہ یہ مخلوق سیدنا آدم ؑ سے پہلے کی مخلوق ہے۔۔ میں سائنس کو نہیں جھٹلا رہا لیکن بہر حال سائنس پر یقین بھی نہیں کرتا۔ کہ یہ صرف سائنسی تھیوریز ہیں جسکو ابھی اپرو ہونا ہے اور تھیوری پر ہم کیسے یقین کر لیں ۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائیں ۔
مہوش نے ایک حدیث پیش کی اور اسپر اعتراض بھی کیا لیکن میرا دعوی ہے کہ یہ اعتراض انکا نہیں کہیں کسی ملحدین سے بحث کے دوران کچھ تذبذب کا شکار لگتی ہیں ۔اول تو یہ حدیث آپ نے پوری پیش ہی نہیں کی اور نہ اسکا کوئی مکمل حوالہ دیا اور دوسری بات کہ آپ کو خود بھی یہ حدیث پڑھنی چاہیے تھی۔ اس حدیث کی سب سے اہم بات یہ کہ اس حدیث میں الفاظ یہ ہے کہ جب اللہ نے سیدنا آدم کو پیدا کیا۔ تو اس وقت انکا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔
اللہ نے یہ کب کہا کہ جب آدم کو ہم نے زمیں پر بھیجا تو انکی لمبائی ساٹھ ہاتھ ہی تھی۔یہ بات لا محالہ اس عالم کی ہے کہ جس کا ادراک انسانی عقل کو اب تک نہیں ۔
اور اسی حدیث کے آخری الفاظ ہیں کہ :
مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
کہ جو بھی جنت میں داخل ہوگا اسکی صورت بھی سیدنا آدم ؑ جیسی ہو گی اور قدبھی ساٹھ ہاتھ ہوگا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب میں جنت میں جاوں گا انشااللہ تو میرا قد بھی ساٹھ ہاتھ کا ہو جائے گا۔ حالانکہ دنیا میں اس وقت میرا قد کچھ 2 گز سے زیادہ نہیں ۔ تو حدیث کے یہ الفاظ صاف بتا رہیں ہیں انسانی قد و کاٹھ میں اس دنیا میں پہنچ کر بلکل ویسا ہی کو جائے گا جیسا ابتداٗ انسان کا تھا۔ اور اس سے ایک اور بات پتہ چلی کہ اس دنیا اور اس دنیا کے حا لات و واقعات میں بہت فرق ہے ۔ اور جب ہمیں عالم ارواح کا علم ہی نہیں تو ہم اس پر اس دنیا کا قد کیسے قیاس کر سکتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح جس طرح سیدنا عیسیٰؑ جو آج ۲۰۰۰ سال تک آسمان پر زندہ ہیں انکی خوراک کیا ہے۔ یہ ایک سوال ضرور ہے لیکن اسکا جواب تو وہی دے سکتا ہے جو کبھی آسمانوں پر سیدنا عیسیٰؑ سے ملاقات کر کے آیا ہو۔بہر حال اس حدیث کے حوالے سے میرا خیال ہے کافی بات کلیر کو گئی ہوگی انشااللہ
 

مہوش علی

لائبریرین
اسلا م علیکم دوستو۔ بات شروع ہوئی تھی نیندر تھال سے ۔ یہ مخلوق آج بھی اس دنیا میں موجود ہے۔ لیکن اسے ہم کسی طرح سے یہ نہیں کہ سکتے کہ یہ مخلوق سیدنا آدم ؑ سے پہلے کی مخلوق ہے۔۔ میں سائنس کو نہیں جھٹلا رہا لیکن بہر حال سائنس پر یقین بھی نہیں کرتا۔ کہ یہ صرف سائنسی تھیوریز ہیں جسکو ابھی اپرو ہونا ہے اور تھیوری پر ہم کیسے یقین کر لیں ۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائیں ۔
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ نیندرتھال کے حوالے سے آپ کو مزید کونسا ثبوت چاہیے ہے؟
نیندرتھال کوئی "سائنسی تھیوری" نہیں ہے کہ جس کے اپرو ہونے کا آپ انتظار کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کے لاکھوں سال پرانے ڈھانچے مل چکےہیں، ان پر تحقیق ہو چکی ہے، انکے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جا چکا ہے جو کہ صاف صاف بتلا رہا ہے کہ یہ انسان سے علیحدہ نسل ہے۔
جبکہ جنابِ آدم کا زمانہ فقط 6 ہزار سال پرانا ہے۔
مگر یورپ میں رہنے والے آج کے انسانوں میں 1 تا 4 فیصد ڈی این اے نیندرتھال کا پایا جاتا ہے جسکا مطلب ہے کہ جناب آدم سے ہزاروں سال پہلے ہی انسانوں اور نیندرتھال میں "انٹربریڈنگ" ہوئی تھی۔
مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں کوئی بھی بہانہ کارگر ہو سکتا ہے۔
بہت ڈھونڈنے کے باوجود مجھے مسلمانوں کی طرف سے اسکے متعلق کوئی جواب نہیں مل سکا ہے اور انہوں نے سوائے لنگڑے لولے بہانوں کے اور کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔

مہوش نے ایک حدیث پیش کی اور اسپر اعتراض بھی کیا لیکن میرا دعوی ہے کہ یہ اعتراض انکا نہیں کہیں کسی ملحدین سے بحث کے دوران کچھ تذبذب کا شکار لگتی ہیں ۔اول تو یہ حدیث آپ نے پوری پیش ہی نہیں کی اور نہ اسکا کوئی مکمل حوالہ دیا اور دوسری بات کہ آپ کو خود بھی یہ حدیث پڑھنی چاہیے تھی۔ اس حدیث کی سب سے اہم بات یہ کہ اس حدیث میں الفاظ یہ ہے کہ جب اللہ نے سیدنا آدم کو پیدا کیا۔ تو اس وقت انکا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔
اللہ نے یہ کب کہا کہ جب آدم کو ہم نے زمیں پر بھیجا تو انکی لمبائی ساٹھ ہاتھ ہی تھی۔یہ بات لا محالہ اس عالم کی ہے کہ جس کا ادراک انسانی عقل کو اب تک نہیں ۔
اور اسی حدیث کے آخری الفاظ ہیں کہ :
مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
کہ جو بھی جنت میں داخل ہوگا اسکی صورت بھی سیدنا آدم ؑ جیسی ہو گی اور قدبھی ساٹھ ہاتھ ہوگا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب میں جنت میں جاوں گا انشااللہ تو میرا قد بھی ساٹھ ہاتھ کا ہو جائے گا۔ حالانکہ دنیا میں اس وقت میرا قد کچھ 2 گز سے زیادہ نہیں ۔ تو حدیث کے یہ الفاظ صاف بتا رہیں ہیں انسانی قد و کاٹھ میں اس دنیا میں پہنچ کر بلکل ویسا ہی کو جائے گا جیسا ابتداٗ انسان کا تھا۔ اور اس سے ایک اور بات پتہ چلی کہ اس دنیا اور اس دنیا کے حا لات و واقعات میں بہت فرق ہے ۔ اور جب ہمیں عالم ارواح کا علم ہی نہیں تو ہم اس پر اس دنیا کا قد کیسے قیاس کر سکتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح جس طرح سیدنا عیسیٰؑ جو آج ۲۰۰۰ سال تک آسمان پر زندہ ہیں انکی خوراک کیا ہے۔ یہ ایک سوال ضرور ہے لیکن اسکا جواب تو وہی دے سکتا ہے جو کبھی آسمانوں پر سیدنا عیسیٰؑ سے ملاقات کر کے آیا ہو۔بہر حال اس حدیث کے حوالے سے میرا خیال ہے کافی بات کلیر کو گئی ہوگی انشااللہ

یا حیرت!
انتہائی عجیب و غریب بہانہ کیا ہے آپ نے۔ ۔۔۔ آپ نے یہ روایت پیش کی:
مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
(اور آپکا ترجمہ تھا) کہ جو بھی جنت میں داخل ہوگا اسکی صورت بھی سیدنا آدم ؑ جیسی ہو گی اور قدبھی ساٹھ ہاتھ ہوگا۔

آپ نے ترجمہ میں تحریف کی ہے، اور اوپر موجود سرخ رنگ کی عبارت کا ترجمہ نہیں کیا۔ ۔۔۔ کیوں؟
کیا آپ نے جان بوجھ کر یہ تحریف کی ہے؟

مکمل حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ وَهُمْ نَفَرٌ مِنْ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَايُحیوْنَكَ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ قَالَ فَذَهَبَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُہُ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ قَالَ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
(مسنداحمد:۲/۳۱۵۔ بخاری شریف:۳۳۲۶۔ مصنف عبدالرزاق:۱۰/۳۸۴)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کوان کی (بہترین) صورت پرپیدا فرمایا ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا، جب اللہ تعالیٰ نے ان کوپیدا کیا توفرمایا آپ جاکر اس جماعت کوسلام کیجئے یہ فرشتوں کی ایک جماعت تھی جوبیٹھی ہوئی تھی اور (ان سے) سنئے یہ آپ کوکیا جواب دیتے ہیں؛ یہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حضرت آدم تشریف لے گئے اور فرمایا السلام علیکم، توانہوں نے جواب میں کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ان فرشتوں نے سلام میں ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضافہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پس جوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ حضرت آدم علیہ السلام کی شکل وشباہت پرہوگا اس (کے قد کی لمبائی) ساٹھ ہاتھ ہوگی؛ لیکن (حضرت آدم کے) دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے اب تک حسن وجمال اور قدکاٹھ کم ہی ہوتا جارہا ہے۔



Taken with Webpage Screenshot
 

x boy

محفلین
ہٹلر کون تھا کیا ہٹلر تھا بھی یا نہیں؟
ڈارون کون تھا ،ڈارون انسان تھا بھی یا نہیں؟
مارکس کون تھا کیا یہ انسان تھا بھی یا نہیں؟
میں نے تو سنا ہے جو اوپر دئے گئے سوالات ہیں انکا تعلق ایکدوسرے سے ہے
اور انکو ملحد بھی کہتے ہیں ان لوگوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں تھا لیکن
ان کو ماننے والوں نے پوری دنیا میں فساد پھیلایا، ہٹلر نے تین ملین یہودیوں کو مارے،
اس کے علاوہ جنگ میں دنیا کو دکھیلا۔
اسی طرح کی بہت ساری باتیں ہیں
کلمہ حق پر اقرار اور عمل کرنے والوں کو بھی مرنا ہے
انکار والوں کو بھی مرنا ہے
آج کی محفلین والے اس صدی میں ذندہ ہیں پھر مرحومین بھی ہونگے۔
یہ ملحدین کیوں مسلمانوں کے ہی پیچھے پڑے ہیں بڈھست، ہندو،قادیانی، عیسائی،یہودی،مجوسی وغیرہ کے پیچھے نہیں پڑے،
کیونکہ اس وقت ملحدین کے راستے میں صرف اور صرف حق والے رکاوٹ ہیں دیگر کوئی اور نہیں۔
اسی لئے کہا گیا کہ مسلم امہ ایک ملت، دوسرے سب ایک ملت۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہٹلر کون تھا کیا ہٹلر تھا بھی یا نہیں؟
ڈارون کون تھا ،ڈارون انسان تھا بھی یا نہیں؟
مارکس کون تھا کیا یہ انسان تھا بھی یا نہیں؟
میں نے تو سنا ہے جو اوپر دئے گئے سوالات ہیں انکا تعلق ایکدوسرے سے ہے
اور انکو ملحد بھی کہتے ہیں ان لوگوں کا تعلق کسی مذہب سے نہیں تھا لیکن
ان کو ماننے والوں نے پوری دنیا میں فساد پھیلایا، ہٹلر نے تین ملین یہودیوں کو مارے،
اس کے علاوہ جنگ میں دنیا کو دکھیلا۔
اسی طرح کی بہت ساری باتیں ہیں
کلمہ حق پر اقرار اور عمل کرنے والوں کو بھی مرنا ہے
انکار والوں کو بھی مرنا ہے
آج کی محفلین والے اس صدی میں ذندہ ہیں پھر مرحومین بھی ہونگے۔
یہ ملحدین کیوں مسلمانوں کے ہی پیچھے پڑے ہیں بڈھست، ہندو،قادیانی، عیسائی،یہودی،مجوسی وغیرہ کے پیچھے نہیں پڑے،
کیونکہ اس وقت ملحدین کے راستے میں صرف اور صرف حق والے رکاوٹ ہیں دیگر کوئی اور نہیں۔
اسی لئے کہا گیا کہ مسلم امہ ایک ملت، دوسرے سب ایک ملت۔

ایک طریقہ ہے کہ سائنس جو مذہب کے حوالے سے سوالات اٹھا رہی ہے، انکا براہ راست سادگی سے جواب دے دیا جائے۔
دوسرا طریقہ ہے کہ کائنات بھر کے کردہ اور ناکردہ گناہ ملحدین کے سر پر ڈال دیے جائیں اور اسے مذہب کی طرف سے سائنسی سوالات کا جواب سمجھا جائے۔
 

x boy

محفلین
ایک طریقہ ہے کہ سائنس جو مذہب کے حوالے سے سوالات اٹھا رہی ہے، انکا براہ راست سادگی سے جواب دے دیا جائے۔
دوسرا طریقہ ہے کہ کائنات بھر کے کردہ اور ناکردہ گناہ ملحدین کے سر پر ڈال دیے جائیں اور اسے مذہب کی طرف سے سائنسی سوالات کا جواب سمجھا جائے۔

آپ کن کے ساتھ ہیں؟
 

x boy

محفلین
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ نیندرتھال کے حوالے سے آپ کو مزید کونسا ثبوت چاہیے ہے؟
نیندرتھال کوئی "سائنسی تھیوری" نہیں ہے کہ جس کے اپرو ہونے کا آپ انتظار کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کے لاکھوں سال پرانے ڈھانچے مل چکےہیں، ان پر تحقیق ہو چکی ہے، انکے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جا چکا ہے جو کہ صاف صاف بتلا رہا ہے کہ یہ انسان سے علیحدہ نسل ہے۔
جبکہ جنابِ آدم کا زمانہ فقط 6 ہزار سال پرانا ہے۔
مگر یورپ میں رہنے والے آج کے انسانوں میں 1 تا 4 فیصد ڈی این اے نیندرتھال کا پایا جاتا ہے جسکا مطلب ہے کہ جناب آدم سے ہزاروں سال پہلے ہی انسانوں اور نیندرتھال میں "انٹربریڈنگ" ہوئی تھی۔
مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں کوئی بھی بہانہ کارگر ہو سکتا ہے۔
بہت ڈھونڈنے کے باوجود مجھے مسلمانوں کی طرف سے اسکے متعلق کوئی جواب نہیں مل سکا ہے اور انہوں نے سوائے لنگڑے لولے بہانوں کے اور کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔



یا حیرت!
انتہائی عجیب و غریب بہانہ کیا ہے آپ نے۔ ۔۔۔ آپ نے یہ روایت پیش کی:
مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
(اور آپکا ترجمہ تھا) کہ جو بھی جنت میں داخل ہوگا اسکی صورت بھی سیدنا آدم ؑ جیسی ہو گی اور قدبھی ساٹھ ہاتھ ہوگا۔

آپ نے ترجمہ میں تحریف کی ہے، اور اوپر موجود سرخ رنگ کی عبارت کا ترجمہ نہیں کیا۔ ۔۔۔ کیوں؟
کیا آپ نے جان بوجھ کر یہ تحریف کی ہے؟

مکمل حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ وَهُمْ نَفَرٌ مِنْ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَايُحیوْنَكَ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ قَالَ فَذَهَبَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُہُ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ قَالَ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
(مسنداحمد:۲/۳۱۵۔ بخاری شریف:۳۳۲۶۔ مصنف عبدالرزاق:۱۰/۳۸۴)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کوان کی (بہترین) صورت پرپیدا فرمایا ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا، جب اللہ تعالیٰ نے ان کوپیدا کیا توفرمایا آپ جاکر اس جماعت کوسلام کیجئے یہ فرشتوں کی ایک جماعت تھی جوبیٹھی ہوئی تھی اور (ان سے) سنئے یہ آپ کوکیا جواب دیتے ہیں؛ یہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حضرت آدم تشریف لے گئے اور فرمایا السلام علیکم، توانہوں نے جواب میں کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ان فرشتوں نے سلام میں ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضافہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پس جوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ حضرت آدم علیہ السلام کی شکل وشباہت پرہوگا اس (کے قد کی لمبائی) ساٹھ ہاتھ ہوگی؛ لیکن (حضرت آدم کے) دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے اب تک حسن وجمال اور قدکاٹھ کم ہی ہوتا جارہا ہے۔



Taken with Webpage Screenshot

بات کو کاٹ کر کیوں پیش کیا پوری پیش کریں نا باجی جی؟
چلیں میں آپ کا کام آسان کردیتا ہوں

: آدم علیہ السلام کی لمبائ سے تعجب ہے
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 246 ) میں یہ ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئ تو ان کی لمبائ تیس ( 30 ) میٹر تھی ۔
میری سمجھہ میں یہ نہیں آرہا یا میں اسے اپنے خیال میں نہیں لاسکتا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کی شرح کردیں ۔

الحمد للہ
اول :
یہ الفاظ ابوھریرہ رضي اللہ تعلی عنہ کی حدیث میں ہیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ نے فرمایا :

( آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے پیدا فرمیا توان کی لمبائ ساٹھ ھاتھ تھی پھر اللہ تعالی نے انہیں فرمایا کہ جاؤ ان فرشتوں کوسلام کرو توجو وہ جواب دیں اسے سنو کیونکہ وہی تیرااور تیری اولاد کا سلام ہوگا ، توآدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا توانہوں نے جواب میں رحمۃ اللہ کا اضافہ کرکے علیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) صحیح البخاری حدیث نمبر ( 3336 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 7092 ) ۔

اورمسلم کے لفظ یہ ہیں (توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا اوراس کی لمبائ ساٹھ ھاتھ ہوگی ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے )۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ (توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) کے بارہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:

یعنی ہرنسل اوردورمیں قد پہلے دور سے کم ہوگا اور قدکی یہ کمی امت محمدیہ پر آکر ختم ہوچکی ہے اور یہ معاملہ یہاں پر آکر ٹھر چکا ہے ۔ ا ھ۔ ۔ فتح الباری ( 6 / 367 ) ۔

تومسلمان پر ضروری اوروجب ہے کہ وہ ہر اس خبر جس کی دلیل قرآن وسنت میں مل جائے اور حدیث بھی صحیح ہو تو اس پر ایمان لائے ، امام شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :

( میں اللہ تعالی اور جو کچھ اللہ تعالی کے متعلق وارد ہے اللہ تعالی کی مراد کے مطابق ایمان لایا اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورجو کچھ ان کے بارہ میں آیا ہے اس پررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے مطابق ایمان لایا ) دیکھیں : الارشاد شرح لمعۃ الاعتقاد ص ( 89 ) ۔

تومومن پریہ واجب اورضروری ہے کہ وہ جس چیزکی اللہ تعالی نے خبردی ہے اس پرایمان جازم رکھے اور اسی طرح جس چیزکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے اگروہ صحیح طورپرثابت ہوتواس پربھی ایمان لانا ضروری ہے ، اوراس ایمان میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہیے ۔

اورضروری ہےکہ اس خبرکی سمجھ آئے یا نہ آئے اسے اجمالی اورتفصیلی طورپرمانا جائے ان خبروں پرتعجب ہویا نہ ہو اس لیے کہ یقینی طورپرصحیح اور ثابت ہونے والے امر کا عدم کونہ پانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ ثابت ہی نہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ اس کی عقل اس کا احاطہ کرنےاور سمجھنے سے قاصر ہے ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے توہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے اپنے متعلق جو کچھ بتایا ہے یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے بارہ میں جو بتایا اس پرایمان لائيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر پکا ایمان لائیں پھر اس میں شک وشبہ نہ کریں اور اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے اللہ تعالی کے راہ میں جہاد کرتے رہیں تویہی لوگ ( اپنے دعوی ایمان میں ) سچے اور راست گوہیں } الحجرات ( 15 ) ۔

اورایمان میں سے ہی ایمان بالغیب بھی ہے ، اوریہ حديث جو اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ بھی انہیں غیبی امورمیں سے ہے ، اللہ تعالی نے غیب پرایمان لانے والوں کی تعیرف کرتے ہوئے فرمایا ہے :

{ الم ، اس کتاب میں کوئ شک نہیں ، متقی اورپرہیزگاروں کوراہ دکھانے والی ہے ، جولوگ غیب پرایمان لاتے ہیں اور نماز ۔۔۔ } البقرۃ ( 1 - 3 ) ۔

عزیزبھائ آپ کویہ علم ہونا چاہيے کہ اللہ تبارک وتعالی ہرچيز پرقادر ہے توجس طرح اللہ تعالی نے انسان کواس کی موجودہ شکل میں پیدا فرمایا وہ اس پربھی قادر ہے کہ وہ اسے اس سے بڑی یا چھوٹی شکل میں پیدا فرمائے ۔

تواگر پھر بھی آّپ کواس مسئلہ میں کوئ مشکل پیش آئے توآّپ ان ٹھگنے قد کے لوگوں کوجنہیں ہم بچوں جتنے قد کاٹھ میں دیکھتے ہیں سے عبرت حاصل کریں ، تواگر یہ واقعتا اورحقیقتا موجود ہے توپھر اس میں کیا چيزمانع ہے کہ اس کے برعکس لمبے قد نہ ہوں جن کا قد ساٹھ ھاتھ نہ ہو ، اورتاریخ انسانی اس پرگواہ بھی ہے جیسا کہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بشری تاریخ میں بہت زیادہ لمبے قد کے لوگ پائے جاتے تھے ۔

اوراصل مسئلہ تویہی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اوراللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ کی دی گئ خبروں کوتسلیم کیا جائے اورہم بھی وہی کہيں جس طرح علم میں رسوخ رکھنے والے کہتے ہیں :

{ ہمارا اس پرایمان ہے کہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے } آل عمران ( 7 ) ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں حق کوحق دیکھنے اوراس پرچلنے اور باطل کوباطل سمجھنےاوراس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین یارب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم .
 

مہوش علی

لائبریرین
بات کو کاٹ کر کیوں پیش کیا پوری پیش کریں نا باجی جی؟
چلیں میں آپ کا کام آسان کردیتا ہوں

: آدم علیہ السلام کی لمبائ سے تعجب ہے
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 246 ) میں یہ ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئ تو ان کی لمبائ تیس ( 30 ) میٹر تھی ۔
میری سمجھہ میں یہ نہیں آرہا یا میں اسے اپنے خیال میں نہیں لاسکتا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کی شرح کردیں ۔

الحمد للہ
اول :
یہ الفاظ ابوھریرہ رضي اللہ تعلی عنہ کی حدیث میں ہیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ نے فرمایا :

( آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے پیدا فرمیا توان کی لمبائ ساٹھ ھاتھ تھی پھر اللہ تعالی نے انہیں فرمایا کہ جاؤ ان فرشتوں کوسلام کرو توجو وہ جواب دیں اسے سنو کیونکہ وہی تیرااور تیری اولاد کا سلام ہوگا ، توآدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا توانہوں نے جواب میں رحمۃ اللہ کا اضافہ کرکے علیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) صحیح البخاری حدیث نمبر ( 3336 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 7092 ) ۔

اورمسلم کے لفظ یہ ہیں (توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا اوراس کی لمبائ ساٹھ ھاتھ ہوگی ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے )۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ (توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) کے بارہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:

یعنی ہرنسل اوردورمیں قد پہلے دور سے کم ہوگا اور قدکی یہ کمی امت محمدیہ پر آکر ختم ہوچکی ہے اور یہ معاملہ یہاں پر آکر ٹھر چکا ہے ۔ ا ھ۔ ۔ فتح الباری ( 6 / 367 ) ۔

تومسلمان پر ضروری اوروجب ہے کہ وہ ہر اس خبر جس کی دلیل قرآن وسنت میں مل جائے اور حدیث بھی صحیح ہو تو اس پر ایمان لائے ، امام شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :

( میں اللہ تعالی اور جو کچھ اللہ تعالی کے متعلق وارد ہے اللہ تعالی کی مراد کے مطابق ایمان لایا اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورجو کچھ ان کے بارہ میں آیا ہے اس پررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے مطابق ایمان لایا ) دیکھیں : الارشاد شرح لمعۃ الاعتقاد ص ( 89 ) ۔

تومومن پریہ واجب اورضروری ہے کہ وہ جس چیزکی اللہ تعالی نے خبردی ہے اس پرایمان جازم رکھے اور اسی طرح جس چیزکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے اگروہ صحیح طورپرثابت ہوتواس پربھی ایمان لانا ضروری ہے ، اوراس ایمان میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہیے ۔

اورضروری ہےکہ اس خبرکی سمجھ آئے یا نہ آئے اسے اجمالی اورتفصیلی طورپرمانا جائے ان خبروں پرتعجب ہویا نہ ہو اس لیے کہ یقینی طورپرصحیح اور ثابت ہونے والے امر کا عدم کونہ پانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ ثابت ہی نہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ اس کی عقل اس کا احاطہ کرنےاور سمجھنے سے قاصر ہے ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے توہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے اپنے متعلق جو کچھ بتایا ہے یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے بارہ میں جو بتایا اس پرایمان لائيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر پکا ایمان لائیں پھر اس میں شک وشبہ نہ کریں اور اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے اللہ تعالی کے راہ میں جہاد کرتے رہیں تویہی لوگ ( اپنے دعوی ایمان میں ) سچے اور راست گوہیں } الحجرات ( 15 ) ۔

اورایمان میں سے ہی ایمان بالغیب بھی ہے ، اوریہ حديث جو اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ بھی انہیں غیبی امورمیں سے ہے ، اللہ تعالی نے غیب پرایمان لانے والوں کی تعیرف کرتے ہوئے فرمایا ہے :

{ الم ، اس کتاب میں کوئ شک نہیں ، متقی اورپرہیزگاروں کوراہ دکھانے والی ہے ، جولوگ غیب پرایمان لاتے ہیں اور نماز ۔۔۔ } البقرۃ ( 1 - 3 ) ۔

عزیزبھائ آپ کویہ علم ہونا چاہيے کہ اللہ تبارک وتعالی ہرچيز پرقادر ہے توجس طرح اللہ تعالی نے انسان کواس کی موجودہ شکل میں پیدا فرمایا وہ اس پربھی قادر ہے کہ وہ اسے اس سے بڑی یا چھوٹی شکل میں پیدا فرمائے ۔

تواگر پھر بھی آّپ کواس مسئلہ میں کوئ مشکل پیش آئے توآّپ ان ٹھگنے قد کے لوگوں کوجنہیں ہم بچوں جتنے قد کاٹھ میں دیکھتے ہیں سے عبرت حاصل کریں ، تواگر یہ واقعتا اورحقیقتا موجود ہے توپھر اس میں کیا چيزمانع ہے کہ اس کے برعکس لمبے قد نہ ہوں جن کا قد ساٹھ ھاتھ نہ ہو ، اورتاریخ انسانی اس پرگواہ بھی ہے جیسا کہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بشری تاریخ میں بہت زیادہ لمبے قد کے لوگ پائے جاتے تھے ۔

اوراصل مسئلہ تویہی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اوراللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ کی دی گئ خبروں کوتسلیم کیا جائے اورہم بھی وہی کہيں جس طرح علم میں رسوخ رکھنے والے کہتے ہیں :

{ ہمارا اس پرایمان ہے کہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے } آل عمران ( 7 ) ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں حق کوحق دیکھنے اوراس پرچلنے اور باطل کوباطل سمجھنےاوراس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین یارب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم .


آپکے اس مراسلے میں وہ کونسی ایسی سائنسی یا دیگر کوئی دلیل کی بات ہے جسکا جواب دیا جائے؟؟
بلکہ الٹا انتہائی احمقانہ سائنسی استدلال پیش کیا گیا ہے جب یہ مفتی صاحب بطور سائنسی دلیل فرما رہے ہیں کہ:۔
تواگر پھر بھی آّپ کواس مسئلہ میں کوئ مشکل پیش آئے توآّپ ان ٹھگنے قد کے لوگوں کوجنہیں ہم بچوں جتنے قد کاٹھ میں دیکھتے ہیں سے عبرت حاصل کریں ، تواگر یہ واقعتا اورحقیقتا موجود ہے توپھر اس میں کیا چيزمانع ہے کہ اس کے برعکس لمبے قد نہ ہوں جن کا قد ساٹھ ھاتھ نہ ہو ، اورتاریخ انسانی اس پرگواہ بھی ہے جیسا کہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بشری تاریخ میں بہت زیادہ لمبے قد کے لوگ پائے جاتے تھے ۔

۔ اول بات یہ ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہرین کو دور دور تک بشری تاریخ میں لمبے قد کے لوگ نہیں مل پائے ہیں ۔
رسول اللہ (ص) کا زمانہ 1400 سال پہلے کا ہے۔ جبکہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو اس سے کئی ہزار سال پرانے انسانی ڈھانچے مل چکے ہیں اور ان سب کا قد آج کے انسان کے برابر ہی ہے اور ہرگز آج کے انسان سے زیادہ نہیں۔
جبکہ سائنس کے مقابلے میں دین دعویٰ کر رہا ہے کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے سے قبل کے لوگوں کے قد آجکے انسان سے زیادہ تھے جو کہ سراسر غلط ہے۔ آپ 5 ہزار پہلے فراعنہ مصر کے ڈھانچے دیکھ لیں۔ وہ ہرگز کئی کئی "گز" کے نہیں ہیں بلکہ انکے قد وہی ہیں جو کہ آج کے انسان کے ہیں۔
جنابِ آدم کا زمانہ تو فقط 6 ہزار سال پرانا ہے جبکہ انسانی تہذیبیں تو اس سے بھی قبل کے وقت کی مل چکی ہیں اور وہ لوگ ہرگز 30 گز یا اس سے لمبے نہیں تھے، اور نہ ہی انکے گھر 30 گز اونچے تھے، نہ ہی انکی دوسری استعمال کے اشیاء 30 گز کے دیو قامت لوگوں کی تھیں۔

۔ اور سائنسی اعتبار سے ٹھگنے قد کا ہونا 2 وجوہات کی بنا پر ہے۔ یا تو کسی بیماری کی وجہ سے، یا پھر چائنیز نسل۔
چنانچہ بیماری کے شکار لوگوں کو بطور ثبوت پیش کرنا انتہائی احمقانہ فعل ہے۔
جبکہ چائنیز اور جاپان وغیرہ میں جو انسانی ڈھانچے 1400 سال سے قبل کے ملے ہیں، انکے قد ایسے ہی چھوٹے ہیں۔

سچ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے لیے ناممکن ہے کہ وہ سائنس کی طرف سے اٹھائے گئے ان سوالات کا جواب دے سکے۔ مذہب کے پیروکار اندھے پیروی کر سکتے ہیں، ڈھٹائی دکھا سکتے ہیں، ہر حقیقت کا انکار کر سکتے ہیں، مگر سائنس کے ان سوالات کا دلیل سے جواب کبھی نہیں دے سکتے۔
 

T.K.H

محفلین
آپکے اس مراسلے میں وہ کونسی ایسی سائنسی یا دیگر کوئی دلیل کی بات ہے جسکا جواب دیا جائے؟؟
بلکہ الٹا انتہائی احمقانہ سائنسی استدلال پیش کیا گیا ہے جب یہ مفتی صاحب بطور سائنسی دلیل فرما رہے ہیں کہ:۔


۔ اول بات یہ ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہرین کو دور دور تک بشری تاریخ میں لمبے قد کے لوگ نہیں مل پائے ہیں ۔
رسول اللہ (ص) کا زمانہ 1400 سال پہلے کا ہے۔ جبکہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو اس سے کئی ہزار سال پرانے انسانی ڈھانچے مل چکے ہیں اور ان سب کا قد آج کے انسان کے برابر ہی ہے اور ہرگز آج کے انسان سے زیادہ نہیں۔
جبکہ سائنس کے مقابلے میں دین دعویٰ کر رہا ہے کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے سے قبل کے لوگوں کے قد آجکے انسان سے زیادہ تھے جو کہ سراسر غلط ہے۔ آپ 5 ہزار پہلے فراعنہ مصر کے ڈھانچے دیکھ لیں۔ وہ ہرگز کئی کئی "گز" کے نہیں ہیں بلکہ انکے قد وہی ہیں جو کہ آج کے انسان کے ہیں۔
جنابِ آدم کا زمانہ تو فقط 6 ہزار سال پرانا ہے جبکہ انسانی تہذیبیں تو اس سے بھی قبل کے وقت کی مل چکی ہیں اور وہ لوگ ہرگز 30 گز یا اس سے لمبے نہیں تھے، اور نہ ہی انکے گھر 30 گز اونچے تھے، نہ ہی انکی دوسری استعمال کے اشیاء 30 گز کے دیو قامت لوگوں کی تھیں۔

۔ اور سائنسی اعتبار سے ٹھگنے قد کا ہونا 2 وجوہات کی بنا پر ہے۔ یا تو کسی بیماری کی وجہ سے، یا پھر چائنیز نسل۔
چنانچہ بیماری کے شکار لوگوں کو بطور ثبوت پیش کرنا انتہائی احمقانہ فعل ہے۔
جبکہ چائنیز اور جاپان وغیرہ میں جو انسانی ڈھانچے 1400 سال سے قبل کے ملے ہیں، انکے قد ایسے ہی چھوٹے ہیں۔

سچ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے لیے ناممکن ہے کہ وہ سائنس کی طرف سے اٹھائے گئے ان سوالات کا جواب دے سکے۔ مذہب کے پیروکار اندھے پیروی کر سکتے ہیں، ڈھٹائی دکھا سکتے ہیں، ہر حقیقت کا انکار کر سکتے ہیں، مگر سائنس کے ان سوالات کا دلیل سے جواب کبھی نہیں دے سکتے۔
السلام علیکم !
آپ کے نزدیک مذہب سے کیا مراد ہے ، قرآن؟
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم !
آپ کے نزدیک مذہب سے کیا مراد ہے ، قرآن؟

کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپکو یہ سوال تو مسلمانوں سے کرنا چاہیے کہ انکا مذہب فقط قران تک محدود ہے یا پھر قرآن و حدیث پر؟

نیز، قرآن کہہ رہا ہے کہ زمین فرش کی طرح ہے، اور سورج اور چاند تارے اسکے گرد گھوم رہے ہیں۔
اسی وجہ سے اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں کوئی قران فہم عالم ایسا نہیں گذرا جس نے قرآن کی بنیاد پر کہا ہو زمین گول ہے۔
کیوں؟
ہاں آج ذاکر نائیک جیسے حضرات لنگڑے لولے بہانے بناتے نظر آتے ہیں تاکہ قرآن کو سائنس کے مطابق ثابت کر سکیں۔ تو ذاکر نائیک کے یہ بہانے تو فقط وہی لوگ قبول کر سکتے ہیں جو مذہب کی ناموس کی خاطر جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کر اندھا و بہرا بننا چاہیں۔ وگرنہ جو بھی انصاف کے ساتھ حقائق پر نظر ڈالے گا، اسکے لیے ذاکر نائیک کے بہانے قبول کرنا ناممکن ہے۔
 

T.K.H

محفلین
کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپکو یہ سوال تو مسلمانوں سے کرنا چاہیے کہ انکا مذہب فقط قران تک محدود ہے یا پھر قرآن و حدیث پر؟

نیز، قرآن کہہ رہا ہے کہ زمین فرش کی طرح ہے، اور سورج اور چاند تارے اسکے گرد گھوم رہے ہیں۔
اسی وجہ سے اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں کوئی قران فہم عالم ایسا نہیں گذرا جس نے قرآن کی بنیاد پر کہا ہو زمین گول ہے۔
کیوں؟
ہاں آج ذاکر نائیک جیسے حضرات لنگڑے لولے بہانے بناتے نظر آتے ہیں تاکہ قرآن کو سائنس کے مطابق ثابت کر سکیں۔ تو ذاکر نائیک کے یہ بہانے تو فقط وہی لوگ قبول کر سکتے ہیں جو مذہب کی ناموس کی خاطر جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کر اندھا و بہرا بننا چاہیں۔ وگرنہ جو بھی انصاف کے ساتھ حقائق پر نظر ڈالے گا، اسکے لیے ذاکر نائیک کے بہانے قبول کرنا ناممکن ہے۔
تو کیا آپ کی نظر میں اگر قرآن اور سائنس کا تصادم ہو تو ہمیں قرآن سے توبہ کرکےسائنس پر ایمان لے آنا چاہیے جو آئے دن بدلتے رہتے ہیں اٹل نہیں ہوتے؟ حدیث کے متعلق میرا نظریہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی طرح اُمت کو منتقل نہیں ہوئی ہیں اس لیے کسی حدیث کی سند صحیح ہونے سے اسکا متن کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا ۔ ہمارے معاشرے میں جو دو انتہائی نظریے حدیث کے متعلق پائے جاتے ہیں(روایت پرستی اور انکارِ حدیث) وہ بھی کوئی صحیح علمی رویہ نہیں ہے ۔ویسے میں نے صرف قرآن کی بات کی تھی۔میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے متعلق خدائی کا دعویٰ تو منسوب نہیں کرتا لیکن کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ جو بھی بات دلیل سے کہیں تو اسے قبول نہ کیا جائے۔
 

x boy

محفلین
مسلمانوں کو کوئی صفائی دینے کی ضرورت نہی.

قرآن الکریم کے تفسیر میں ایک بات ایسی ملی جو مجھے بہت کم یاد ہے لیکن مفہوم اچھی طرح ذہن نشیں ہوچکا ہے،، وہ یہ کہ
ان لوگوں اللہ اگر جنت اور جہنم دکھا بھی دیں تو وہ پھر بھی اس کو ہرگز قبول نہیں کریںگ۔
اللہ کا وعدہ ہے ایک مقررہ وقت تک انسان کو اور جنوں کو آزادی ہے
۹۹ سال گناہ اور شرک کرنے والا اگر ۹۹ سیکنڈ قبل موت یہ اقرار کرلے "لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ" تو اللہ پاک اس کو معصوم قرار دے دیتے ہیں اور اس کو اچھو میں اٹھایا جاتا ہے،،، اللہ ہی غفور الرحیم ہے۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
تو کیا آپ کی نظر میں اگر قرآن اور سائنس کا تصادم ہو تو ہمیں قرآن سے توبہ کرکےسائنس پر ایمان لے آنا چاہیے جو آئے دن بدلتے رہتے ہیں اٹل نہیں ہوتے؟
اگر آپ نے یہ مکمل تھریڈ غور سے پڑھا ہو تو اس میں پہلے ہی اس آرگومینٹ کا جواب تفصیل اور دلیل سے پیش کیا جا چکا ہے۔
مختصراً سائنس میں کچھ چیزیں "تھیوری" کی سٹیج پر ہوتی ہیں۔ یہ تھیوریز نئی تحقیقات اور مشاہدات کی بنیاد پر تبدیل ہو سکتی ہیں۔
لیکن کچھ چیزیں ہیں جو سائنس نے ثبوتوں کے ساتھ "حق الیقین" تک پہنچا دی ہیں۔ انکا تبدیل ہونا محال ہے، انکا انکار محال ہے، انکے مقابلے میں کسی اور کی تھیوری (چاہے وہ کسی مذہب کی تھیوری ہی کیوں نہ ہو) قبول کرنا محال ہے۔
مثلا سائنس بلا شک و شبہ کے ثابت کر چکی ہے کہ زمین گول ہے۔
اب اسکی مخالفت میں اگر کوئی بھی تھیوری یہ کہے کہ زمین گول نہیں ہے بلکہ فرش کی طرح ہے، تو پھر اس دوسری تھیوری کو قبول کرنا محال ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کی 1400 سالہ تاریخ قرآن کی بنیاد پر دعویٰ پر مشتمل ہے سورج زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اس صدی میں بھی سعودیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز صاحب نے کھل کر فتویٰ دیا ہے کہ سورج زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے اور جو اسکے خلاف کہتے ہیں، وہ قرآن کا انکار اور کفر کر رہے ہیں۔
لیکن یہ 1400 سالہ مسلمان بمع اپنی مذہبی کتاب کے ایک طرف اور سائنس ایک طرف۔ اسکے باوجود سائنس کو ٹھکرانا محال ہے۔

حدیث کے متعلق میرا نظریہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی طرح اُمت کو منتقل نہیں ہوئی ہیں اس لیے کسی حدیث کی سند صحیح ہونے سے اسکا متن کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا ۔ ہمارے معاشرے میں جو دو انتہائی نظریے حدیث کے متعلق پائے جاتے ہیں(روایت پرستی اور انکارِ حدیث) وہ بھی کوئی صحیح علمی رویہ نہیں ہے ۔ویسے میں نے صرف قرآن کی بات کی تھی۔میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے متعلق خدائی کا دعویٰ تو منسوب نہیں کرتا لیکن کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ جو بھی بات دلیل سے کہیں تو اسے قبول نہ کیا جائے۔

اگر آپ ایک مرتبہ "حدیث" پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں، تو پھر آپ کو تمام کی تمام حدیث کا انکار کرنا پڑے گا۔
یہ ممکن نہیں کہ جو آپ کو "پسند" آئے، اسے قبول کر لیں۔ اور جو آپ کو پسند نہ آئے، اسے رد کر دیں۔
وگرنہ اس طرح ایک لاکھ، بلکہ اس سے بھی زیادہ شریعتیں جاری ہو جائیں گی جہاں ہر کوئی اپنی من پسندیدہ روایت کو قبول کر کے یا پھر اپنی خواہشات کے مخالف حدیث کو رد کر کے نئی شریعت کو جاری کیے ہوئے ہو گا۔

اور ذاکر نائیک کے متعلق بالکل ٹھیک ہے۔ اگر وہ کوئی بات دلیل سے کرے گا تو وہ مانی جائے گی۔۔۔ لیکن اگر اسکی بات دلیل کے مخالف ہے تو پھر اس صورت میں کیا کیا جائے گا؟
نہ صرف یہ کہ یہ ثابت ہوتا کہ ذاکر نائیک کی دلیل غلط ہے، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ذاکر نائیک جان بوجھ کر جھوٹ پھیلا رہا ہے۔
 
Top