کئی زمانوں کا راستہ تھا۔ آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
دو غزلیں جو ایک ہی تسلسل میں کہی گئی تھی، ملاحظہ کیجیے.

کئی زمانوں کا راستہ تھا
وہ ایک لمحہ جو کھو گیا تھا
نجوم و مہ کی بلندیوں سے
زمیں کو شب بھر میں دیکھتا تھا
وہ میرے حصے کی روشنی تھی
جسے میں اوروں میں بانٹتا تھا
نئے سفر کا جواز لے کر
خلا سے بھی میں گزر گیا تھا
تھکن کا احساس راستے میں
کہیں بھی ظاہر نہیں ہوا تھا
میں خاک اڑاتا تھا ساحلوں کی
مرا ہوا سے مکالمہ تھا
نئے ستاروں کی انجمن میں
میں خود کو تقسیم کر رہا تھا

وجودِ شب کا یہ معجزہ تھا
چراغ جلتا ہی جا رہا تھا
کسی خیالِ حسیں کی صورت
وہ میرے دل میں اتر گیا تھا
مری طرح تھا وہ پر شکستہ
جو شب کے آنگن میں آ گرا تھا
وہ لمحہ بھر میں جدا ہوا ہے
میں رات دن جس کو سوچتا تھا
ہمارے حصے میں خواب آئے
صلہ وفا کا یہی ملا تھا
وہ خود کو شہکار جانتا ہے
مرے مقابل بھی آئنہ تھا
وہی ہوا ہے وفا میں آصفؔ
جو لوحِ ایام پر لکھا تھا
- آصف شفیع -
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ ۔۔۔۔۔!

لاجواب کلام ہے آصف شفیع صاحب۔۔۔۔!

دونوں غزلیں اور سارے اشعار، سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔

خاکسار کی جانب سے نذرانہء تحسین پیشِ خدمت ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آصف شفیع صاحب اردو محفل کے پرانے ساتھی ہیں اور شعر بھی اچھے کہتے ہیں۔

یہ ایک ساتھ وارد ہوئی دو غزلیں بہت خوب ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اسے آپ سے شئر کیا جائے۔
 
Top