تعارف خراسان سے نعمان حجازی

فلک شیر

محفلین
حالیہ افغان انتخابات ، جس میں ساٹھ فی صد کے قریب پولنگ شرح رہی ہے، طالبان کا مؤقف، کہ عوام ان کے نکتہ نظر کے حامی ہیں ، کچھ کمزور نہیں پڑا؟
 
اس بارے میں ایک واقعہ ذہن میں آرہا ہے وہ یہاں آپ کے ساتھ شیئر کر لیتا ہوں۔
دو سال قبل بہار کے موسم میں ہم کچھ لوگ صوبہ لوگر میں تھے تو ایک ایک صبح ایک گاؤں کے باہر کھیتوں میں وہاں کے مقامی کمانڈر کے ساتھ نشانہ بازی کا مقابلہ کر رہے تھے۔
ایسے میں گاؤں کے ایک شخص کا مرغ سامنے آگیا اور وہ اس مقامی کمانڈر کی گولی کی زد میں آگیا اور مر گیا۔
وہ گاؤں والا بھاگا بھاگا آیا کہ تم نے میرا مرغ کیوں مار دیا۔
مقامی کمانڈر نے اسے زیادہ گھاس نہیں ڈالی اور کہا کہ جاؤ کچھ نہیں ہوتا ایک مرغ ہی تو تھا۔

جن علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں ہفتے میں ایک بار ایک وفد لازمی چکر لگاتا ہے جس کے اندر ایک قاضی بھی ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے مسائل سنتا ہے اور ان کو حل کرتا ہے۔
دو دن بعد ہی وہاں وہ وفد پہنچ گیا تو اس دیہاتی نے جا کر اسے شکایت کی کہ یہاں کے مقامی کمانڈر نے میرا مرغ مار دیا ہے۔ تو قاضی نے کہا کہ اس کمانڈر کو بلا کر لاؤ

میں بھی اس وفد کے پاس موجود تھا اور جو اس میں قاضی تھا وہ انتہائی دبلا پتلا سا نوجوان تھا۔ جبکہ جس کمانڈر کو بلایا تھا وہ اچھا خاصا تگڑا آدمی تھا۔ میں اپنی عام لوگوں والے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ اتنا تگڑا طاقتور کمانڈر اس بیچارے نحیف سے قاضی کو کہاں لفٹ کروائے گا۔

لیکن جب وہ آیا تو وہ کمانڈر قاضی کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ قاضی نے پوچھا کہ جو اس دیہاتی نے الزام لگایا ہے وہ ٹھیک ہے تو وہ کمانڈر مان گیا۔

قاضی نے اسے حکم دیا کہ تمہارے پاس 2 گھنٹے کا وقت ہے بالکل اسی مرغ جیسا مرغ ڈھونڈ کر لاؤ اور اس دیہاتی کا حق ادا کرو۔
وہ کمانڈر وہاں سے بھاگا سارا گاؤں پھرا لیکن اس گاؤں میں ویسا مرغ کہیں نہیں تھا تو وہ تیزی سے ساتھ والے گاؤں پہنچا تو خوش قسمتی سے اسے مرغ مل گیا۔ وہاں سے وہ مرغ خرید کر لایا اور لا کر پیش کر دیا۔

قاضی نے دیہاتی سے پوچھا کہ کیا یہ ویسا ہی ہے جیس تمہارا تھا۔ تو دیہاتی نے کہا جی بلکہ یہ اس سے زیادہ صحت مند ہے۔

تو قاضی نے کہا کہ یہ تو دیہاتی کا حق ادا ہو گیا۔ اب جو تم نے اسے اسی وقت اس کا حق ادا نہیں کیا اس کی سزا کے طور پر تم اب اس علاقے کے کمانڈر نہیں رہے اور اسے ایک اور علاقے کا بتایا کہ اس علاقے میں چلے جاؤ اور وہاں کے کمانڈر کے تحت جا کر کام کرو۔

یہ سب میرے لئے بہت حیران کن تھا اور میں تب اس سے بہت متاثر ہوا۔ لیکن اب دو سال گزرنے کے بعد میرے لئے یہ بات معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہاں اسی طرح فوری حق ادا کیا جاتا ہے اور غلطی کرنے والا چاہے جتنا بھی بڑا ذمہ دار ہو اسے فوری معزول کر دیا جاتا ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
نعمان بھائی، چلیے سوال ایک اور طرح کرتے ہیں، کیا واقعی ہی اتنی بڑی تعداد میں افغان عوام نے ووٹ ڈالے ہیں ؟
 
یہ سب میڈیا کا کھیل ہے کہ افغانستان میں 60 فیصد وؤٹ پڑے۔ میڈیا کے نمائندے صرف بڑے شہروں تک محدود رہے جہاں جہاں نیٹو فورسز کا اثرو رسوخ موجود ہے۔ ان علاقوں میں بھی مجھے عینی شہادتیں ملی ہیں کہ لوگوں کو زبردستی گاڑیوں میں بھر بھر کر وؤٹ ڈالنے کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔

باقی میں بہت سے دیہاتی علاقوں میں پچھلے دنوں پھرا ہوں وہاں پولنگ تو دور کی بات کسی پولنگ سٹیشن کا بھی نام و نشان نہیں تھا۔

صرف کابل ایسا علاقہ ہے جہاں کی آبادی نے واقعی میں پوری طرح انتخابات میں حصہ لیا۔ لیکن کابل ہمیشہ سے ہی ایسا تھا یہ کوئی نئی بات نہیں۔
 
جتنے میڈیا نے تجزیے کیے ہیں وہ سب کابل کی صورتحال دیکھ کر کئے ہیں اور کابل میں یقینا 60 فیصد تک لوگوں نے وؤٹ ڈالے ہیں باقی سب ڈھونگ ہے اس کا میں عینی شاہد ہوں
 
ہرگز نہیں۔
خانہ جنگی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے انشااللہ۔
پچھلی دفعہ خانہ جنگی اس لئے ہوئی کیوں کہ مجاہدین کے گروہوں میں بہت سی حکومتوں کے پراکسی گروہ بھی شامل تھے جو اپنی اپنی حکومتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے اقتدار میں آنا چاہتے تھے۔ اس سے افغان عوام کو شدید نقصان پہنچا۔ افغان عوام پر ہونے والی انہی زیادتیوں کی وجہ سے پھر طالبان میدان میں آئے اور انہوں نے ان سب پراکسی گروہوں کو بھگا کر وہاں شرعی نظام نافذ کیا۔

اب حالات بہت فرق ہو چکے ہیں۔ اس بار کوئی پراکسی گروہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ جنگ ان تیرہ سالوں میں طالبان نے اللہ کی مدد سے پوری طرح اپنے ہی بل بوتے پر جیتی ہے۔

رہ گئی بات افغان نیشنل آرمی سے جنگ کی تو افغان نیشنل آرمی کے ہزاروں کی تعداد میں فوجی پچھلے سالوں میں ویسے ہی طالبان کے ساتھ آملے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں اندر موجود ہیں÷ جو باقی رہ جاتے ہیں وہ اپنی زبانوں سے اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد وہ ایک دن بھی مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
 
میں ایک سوال پوچھنا چاہ رہا ہوں ۔۔
آپ کیا سوچ کر افغانستان ہجرت کر گئے؟ کس سوچ نے آپکو ابھارا کہ بیوی بچوں سمیت پاکستان کو چھوڑ کر افغانستان میں سکونت اختیار کرلی جائے؟
 
شمالی اتحاد کی جہاں تک بات ہے تو جو میں نے افغان نیشنل آرمی کا ذکر کیا جو بقایا رہ جاتی ہے وہ زیادہ تر شمالی اتحاد پر ہی مشتمل ہے۔ پچھلے تیر سال میں ایک تو ویسے ہی شمالی اتحاد لڑ لڑ کر تھک چکی ہے دوسرا یہ کہ انہیں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ جب اڑتالیس ملک مل کر طالبان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو وہ کیا کر لیں گے؟ اس لئے ان کا مورال پہلے سے شدید کم ہے۔ اس لئے افغان نیشنل آرمی کے علاوہ بقیا شمالی اتحاد کا اثر و رسوخ اب چند صوبوں تک محدود ہے اور وہ کوئی بہت بڑا خطرہ نہیں ہے اور زیادہ امید یہی لگ رہی ہے کہ وہ کسی معاہدے کے تحت طالبان کے تحت رہنے پر رضامند ہو جائیں گے۔
 
محمود بھائی اس سوچ کے بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ تو ایسے کہ امت مسلمہ کا ایک حصہ ہونے کے ناطے اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے۔ ان وجوہات پر تو انشااللہ آگے اپنے بلاگ میں لکھتا رہوں گا تفصیل سے۔
وہ وجہ جس سے میں نے اپنے ساتھ ہمیشہ کے لئے اپنی فیملی کو بھی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بالکل سیدھی سی ہے۔
آپ بھی پاکستانی معاشرے میں رہتے ہیں میں بھی وہیں سے اٹھ کر آیا ہوں۔ آپ کے سامنے ہے کہ یہ معاشرہ بے رہروی کے کس سیلاب میں بہتا جا رہا ہے۔
یہ بات کس حد تک جا چکی تھی تو اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ میں جب ایم بی اے میں تھا تو میری کلاس کے 80 فیصد لڑکے ایسے تھے جو زنا کر چکے تھے یعنی شادی سے پہلے اپنی ”گرل فرینڈ“ کے ساتھ۔
اب میری ایک بیٹی ہے ایک بیٹا ہے۔ میں نے تو جیسے تیسے اس ماحول میں زندگی گزار لی اور اللہ نے پھر بھی اس گٹر جیسے ماحول میں بھی ہدایت دے دی لیکن اپنی اولاد کا کیا کروں؟ معاشرہ جس سمت جا رہا ہے تو میرے پاس کیا گارنٹی ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھٹکنے سے بچا سکتا ہوں؟ میں صرف ان کی دنیا بنانے کا ذمہ دار تو نہیں ہوں ان کی آخرت کی ذمہ داری بھی تو میرے ذمہ ہے۔ اگر وہ اپنی آخرت خراب کر بیٹھے تو ؟ کیا میں برداشت کر سکتا ہوں کہ میری اولاد جہنم میں جلے؟

یہ دور نبی اکرم کی احادیث کی تمام نشانیوں کو پورا کرتے ہوئے بلا شبہ دور فتن ہے۔ اور نبی اکرم کا ارشاد پاک ہے کہ ”دور فتن میں پہاڑوں کی جانب ہجرت کرو کیونکہ پہاڑوں کے لوگ دین کے زیادہ قریب تر ہوتے ہیں“۔

بس اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے میں نے اللہ پر توکل کیا اور اپنے بیوی بچوں کو لے کر یہاں منتقل ہو گیا۔ اور آج تین سال بعد میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی زندگی کا یہ سب سے بہترین فیصلہ لگتا ہے۔ ہم پہلے سے کہیں زیادہ خوش ہیں اور انتہائی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔
 
اچھا سوال ہے۔:) لیکن اور کچھ کرنے کے لئے پاکستان میں بہت کچھ تھا میرے پاس:)۔ ”جہاد“ کے ”علاوہ“ ہی تو سب کچھ چھوڑ کر خراسان آیا ہوں۔ باقی جہاد کرنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ میں اگر یہاں آگیا ہوں تو صرف یہاں لڑائی ہوتی ہے اور بہت سے کام ہوتے ہیں اسی جہاد سے متعلقہ وہ بھی کرتے ہیں :)
 

زیک

مسافر
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کمپیوٹر سائنس اور بزنس ڈگری کے بعد وہاں کیا جاب کر رہے ہیں؟
 
زیک بھائی میں نے اسی بات کا جواب دیا ہے۔ جاب ہی کرنی تھی تو پاکستان کیوں چھوڑتا۔ ایک ملٹی نیشنل میں مینجر لیول پر اچھی جاب کر رہا تھا۔ اب اللہ کے رستے میں ہوں اور معاشی فکروں سے الحمد اللہ آزاد ہوں۔ جو قت دو ٹکے کمانے کے لئے گزارنے ہیں وہی دین کی سربلندی کی کوششوں میں گزر جائیں تو اور کیا چاہیے۔
 
محمود بھائی اس سوچ کے بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ تو ایسے کہ امت مسلمہ کا ایک حصہ ہونے کے ناطے اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے۔ ان وجوہات پر تو انشااللہ آگے اپنے بلاگ میں لکھتا رہوں گا تفصیل سے۔
سب سے پہلے تو آپکا شکریہ کہ آپ نے سوال کا جواب دیا۔۔۔
آپ نے جو جواب لکھا ہے، اسکے حوالے سے ایک دو گذارشات ہیں۔
وہ وجہ جس سے میں نے اپنے ساتھ ہمیشہ کے لئے اپنی فیملی کو بھی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بالکل سیدھی سی ہے۔
آپ بھی پاکستانی معاشرے میں رہتے ہیں میں بھی وہیں سے اٹھ کر آیا ہوں۔ آپ کے سامنے ہے کہ یہ معاشرہ بے رہروی کے کس سیلاب میں بہتا جا رہا ہے۔
یہ بات کس حد تک جا چکی تھی تو اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ میں جب ایم بی اے میں تھا تو میری کلاس کے 80 فیصد لڑکے ایسے تھے جو زنا کر چکے تھے یعنی شادی سے پہلے اپنی ”گرل فرینڈ“ کے ساتھ۔
اب میری ایک بیٹی ہے ایک بیٹا ہے۔ میں نے تو جیسے تیسے اس ماحول میں زندگی گزار لی اور اللہ نے پھر بھی اس گٹر جیسے ماحول میں بھی ہدایت دے دی لیکن اپنی اولاد کا کیا کروں؟ معاشرہ جس سمت جا رہا ہے تو میرے پاس کیا گارنٹی ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھٹکنے سے بچا سکتا ہوں؟ میں صرف ان کی دنیا بنانے کا ذمہ دار تو نہیں ہوں ان کی آخرت کی ذمہ داری بھی تو میرے ذمہ ہے۔ اگر وہ اپنی آخرت خراب کر بیٹھے تو ؟ کیا میں برداشت کر سکتا ہوں کہ میری اولاد جہنم میں جلے؟
آپکی اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں کافی بے راہ روی پائی جاتی ہے۔ لیکن گذارش یہ ہے کہ اسی معاشرے میں اولیائے کرام بھی بستے ہیں، اللہ کا نظام ہے کہ اس دنیا میں جہاں برائی پائی جاتی ہے وہیں نیکی بھی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اگر ہماری آنکھ صرف معاشرے میں موجود برائیوں اور کوتاہیوں کمیوں خامیوں کو ہی دیکھ پائے اور تصویر کا دوسرا رخ نہ دیکھ سکے تو شائد اس میں کچھ کچھ ہماری نظر کی بھی کوتاہی ہوسکتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ :
اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اسکا
صفائے پاکیءِ طینت سے ہے گہر کا وضو
آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، شیطان وہاں بھی اپنی کارگزاریوں کیلئے آزاد ملے گا، اور رحمٰن کے بندے وہاں بھی اسکے تسلط سے آزاد ملیں گے۔ رہی یہ بات کہ ہماری اولاد بھٹکنے سے بچی رہے، تو اس بات کی گارنٹی نہ آپ یہاں دے سکتے ہیں اور نہ کہیں اور۔ اس بات کا دارومدار کسی مخصوص علاقے یا کسی مخصوص وضع قطع کے لوگوں میں بودوباش رکھنے پر نہیں ہے بلکہ اللہ کے فضل پر ہے۔ وہی اللہ جو مردے میں سے زندے کو نکالتا ہے اور زندہ میں سے مردے کو۔ اور جو مشرق و مغرب دونوں کا رب ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ باپ کے ذمہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے اور بچے اپنی انسپائریشن اپنے ماں باپ سے لیتے ہیں سب سے زیادہ۔ اور معاشرے اور ماحول کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ اگر گھر میں اچھی اقدار سکھائی گئی ہوں اور ماں باپ کے کردار سے اچھی انسپائریشن ملی ہو تو معاشرے کے چیلنجز اولاد کیلئے اتنے خطرناک ثابت نہیں ہوتے۔ اور ویسے بھی انسان کی جسمانی و روحانی نشونما کیلئے چیلنجز اور مزاحمت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ رکاوٹیں ہی تو ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کتنے مضبوط ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اندھیرا خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، روشنی کی چھوٹی سی کرن کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔

یہ دور نبی اکرم کی احادیث کی تمام نشانیوں کو پورا کرتے ہوئے بلا شبہ دور فتن ہے۔ اور نبی اکرم کا ارشاد پاک ہے کہ ”دور فتن میں پہاڑوں کی جانب ہجرت کرو کیونکہ پہاڑوں کے لوگ دین کے زیادہ قریب تر ہوتے ہیں“۔
اگر حدیث شریف کا کوئی حوالہ یا مآخذ مل جا ئے اور زمانی و مکانی اعتبار سے اسکے سیاق و سباق کا پتہ چل جائےتو شائد بات زیادہ واضح ہوسکے ورنہ پہاڑ تو اپنے پاکستان میں بھی بہت ہیں (بلکہ شائد بلند ترین پاہاڑوں میں سے ہیں)۔

بس اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے میں نے اللہ پر توکل کیا اور اپنے بیوی بچوں کو لے کر یہاں منتقل ہو گیا۔ اور آج تین سال بعد میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی زندگی کا یہ سب سے بہترین فیصلہ لگتا ہے۔ ہم پہلے سے کہیں زیادہ خوش ہیں اور انتہائی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ بات زیادہ قابلِ قبول معلوم ہوتی ہے(بقیہ دلائل کی نسبت)۔ یعنی جب آپ اور آپکی فیملی خوش ، پرسکون اور مطمعئن ہیں تو اور کیا چاہئیے۔ خوش رہئیے جناب۔ :)
 
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محفل میں خوش ٓمدید

یہ دور نبی اکرم کی احادیث کی تمام نشانیوں کو پورا کرتے ہوئے بلا شبہ دور فتن ہے۔ اور نبی اکرم کا ارشاد پاک ہے کہ ”دور فتن میں پہاڑوں کی جانب ہجرت کرو کیونکہ پہاڑوں کے لوگ دین کے زیادہ قریب تر ہوتے ہیں“۔
اس حدیث کا حوالہ مل سکتا ہے۔۔
 

Rehmat_Bangash

محفلین
خوش آمدید تعمان بھائی، بہت خوشی ہوئی آپ کے مراسلے پڑھ کر، افغانستا ن کے حالت بتانے میں اگر آپ نے کوئی مبالغہ آرائی نہیں کی تو میں پورے یقین سے کہ سکتاہوں کہ
جہان نو ہورہا ہے پیدا وہ عا لم ِ پیر مر رہا ہے
میر اپنا آبائی تعلق بھی اسی افغانستان سے ہے لیکن ہمیں وہاں سے ہجرت کیے ہوئے اب تو کوئی سو سال ہونے کو ہیں۔
محفل پر خوش آمید
 
Top