احسان دانش وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کیلیے (احسان دانش)

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کیلیے
وہ ھنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کیلیے

بندھا ھوا ھے ، بہاروں کا اب وھیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کیلیے

کوئی نسیم کا نغمہ ، کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کیلیے

خدا نکردہ ، زمین پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کیلیے

اتر پڑے ھیں کدھر سے یہ آندھیوں کے جلوس
سمندروں سے جزیرے نکالنے کیلیے

تری سلیقہ ترتیب نو کا کیا کہنا
ھمیں تھے قریہ ء دل سے نکالنے کیلیے

کبھی ھماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کیلیے
 

طارق شاہ

محفلین
تری سلیقہ ترتیب نو کا کیا کہنا
ھمیں تھے قریہ ء دل سے نکالنے کیلیے
کیا کہنے صاحب

بہت ہی خوب غزل ہے ، جناب پیاسا صاحب
 

عمر سیف

محفلین
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے
بندھا ہوا ہے اب بہاروں کا وہاں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کےلیے
کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لیے
کنویں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں دانش
کمند جو تھی مناروں پہ ڈالنے کے لیے
احسان دانش
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واہ
خوبصورت غزل

بندھا ھوا ھے ، بہاروں کا اب وھیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کیلیے

تری سلیقہ ترتیب نو کا کیا کہنا
ھمیں تھے قریہ ء دل سے نکالنے کیلیے
 
Top