پاک و ہند سے شائع ہوئے اردو کے شخصی خاکے

راشد اشرف

محفلین
پاک و ہند سے شائع ہوئے اردو کے شخصی خاکے
محفوظ کردہ سرورق اور اندرونی صفحات
معہ اشاعتی تفصیل




پہلے خاکہ نگاری کی یہ تعریف پڑھیے:

خاکہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلووں کو اس طرح اجاگر کرے کہ وہ شخصیت قاری کو ایک زندہ شکل میں نظر آئے اور خاکہ نگار نے اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو، غیر جانب داری سے اس سے متعلقہ حالات و واقعات کو قاری کے مطالعہ میں لے آئے۔
شخصیت نگاری کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ البتہ زمانہ قدیم میں یہ فن صرف بادشاہوں، نوابوں، راجاوں یا مذہبی شخصیات کے حالاتِ زندگی لکھنے تک محدود تھا۔ یہ حالاتِ زندگی سوانحِ عمری کی صورت رقم کیے جاتے اور ان میں کئی جگہ لکھنے والے کی جانب داری نمایاں ہوتی کیوں کہ ایسی تحاریر عموماً کسی خاص مقصد کے تحت لکھی جاتیں یعنی مصنف کا مطمحِ نظر کسی شخصیت سے عقیدت یا لگاؤ کے سبب اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرنا یا رنجش و عداوت کے سبب اس پر الزام تراشی اور اس کی کردار کشی کرنا ہوتا تھا۔ ایسی سوانحِ عمریوں کے مقابلے میں بہرحال خاکہ نگاری ایک نئی صنف ہے۔

بقول خامہ بگوش:
شخصی خاکہ نگاری کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
1.سب بسے پہلے تو ایسی آنکھ چاہئے جو کسی شخص کے ظاہر و باطن کا مشاہدہ کرسکے۔
2.پھر وہ بصیرت چاہئے جو ان عوامل کا تعین کرسکے جو کسی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
3.تیسری چیز حقیقت بیانی ہے۔ یعنی موضوع کو اسی طرح پیش کیا جائے جیسا وہ ہے، نہ کہ لکھنے والا اپنی منشا کے مطابق اس کے خد و خال سنوارے یا بگاڑے۔
4.چوتھی اور سب سے اہم چیز یہ کہ خاکہ نگار کو لکھنے کا فن آتا ہو۔ وہ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی پیش کرنے کے ہنر سے واقف ہو

==٭==


28 جنوری 2014 کی ایک ڈھلتی شام ۔ ۔ ۔ ایک معروف کتب خانے کا نیم تاریک کونہ اور راقم الحروف کی بے چینی اس وقت یہ سطور لکھتے وقت یہ سب چیزیں گڈ مڈ سی ہوکر رہ گئی تھیں ۔ بے چینی کچھ ایسی لاحق تھی کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کتابوں کے سرورق و دیگر تفصیلات کو محفوظ کرلیا جائے۔ کچھ ہی دیر میںتکان سے برا حال ہوا لیکن شخصی خاکوں کے ایسے ایسے قیمتی مجموعے پیش نظر تھے کہ ان کو دیکھ کر ہونے والی مسرت ہر احساس پر غالب آچکی تھی۔ گرچہ راقم کے پاس بھی شخصی خاکوں کے مجموعے لگ بھگ ایک سو تیس تو رہے ہوں گے لیکن وہاں موجود کتابیں دیکھ کر طبیعت صاف ہوگئی۔ مذکورہ کتب خانہ تو ایک عجائب عالم ہےایک دنیا وہاں اکتساب علم کے لیے آیا کرتی تھی ۔ ان دنوں شہر کے خراب حالات کے سبب طلبگاران ِعلم و ادب کو اپنی جان عزیز ہے سو اس گلی میں جانے سے ذرا کتراتے ہیں۔

شخصی خاکوں کی صنف کو اردو خوددنوشت آپ بیتیوں کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے تقریبا ً تمام اہم و نامور اشخاص نے خودنوشت ہی میں شمار کیا ہے اور اہم مثالوں سے ثابت بھی کیا ہے۔

واضح رہے کہ شخصی خاکوں کے مجموعوں کی ایک فہرست ماہنامہ انشاء حیدرآباد، سندھ کے 2011 کے ایک شمارے میں ضیاءاللہ کھوکھر صاحب پیش کرچکے ہیں جبکہ اسی موضوع پر ان دنوں ایک انتہائی اہم کام ہمارے عزیز دوست محترم شاہد حنائی بھی کررہے ہیں۔ شاہد صاحب کے کام کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ایسی کتاب بن رہی ہے جس میں شخصی خاکوں کے مجموعوں کی تفصیل کو یکجا کردیا گیا ہے۔ کتاب کب شائع ہوئی، ناشر کون تھا، سن اشاعت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان شخصیات کے نام جن پر خاکے لکھے گئے۔

ذکر ہے اس کتب خانے کا جہاں تکان نے جسم و جاں پر قبضہ تو کیا لیکن دو گھنٹے میں سات سو اوراق کی تصاویر محفوظ کرنے کے بعد احساس طمانیت نے دوسرے ہر احساس کو مٹا ڈالا ۔

گزشتہ برس راقم پاک و ہند سے شائع ہوئے شخصی خاکوں کے سرورقوں پر مشتمل ایک فولڈر اسکرائیبڈ نامی سائٹ پر پیش کرچکا تھا جس میں 130 کے لگ بھگ مجموعوں کی تفصیل شامل تھی، لنک یہ ہے:


بہرکیف اس مرتبہ جو کچھ محفوظ کیا، گرچہ اتنا واضح تو نہیں مگر جیسا بھی ہے، پیش خدمت ہے۔ کہیں باوجود احتیاط کے، ہاتھ میں لرزش آہی جاتی تھی۔ اور پھر نیم تاریکی میں تصاویر لینے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ اس نیم تاریک گوشے میں لحظہ بہ لحظہ کیمرے کی فلیش یوں چمکتی تھی گویا بادلوں سے بھرے آسمان میں رہ رہ کے بجلی چمکتی ہو۔

یوں سمجھ لیجیے کہ زیر نظر فولڈر اور درج بالا لنک پر موجود شخصی خاکوں کے مجموعوں کی تعداد 100 کے قریب ہوگی۔ تمام کتابوں کی اشاعتی تفصیل اور کچھ کے پیش لفظ بھی محفوظ کیے گئے۔ اور ساتھ ہی چند کتابوں کی فہرست میں موجود شخصیات کے نام دیکھ کر جی ایسا للچایا کہ ان کو بھی محفوظ کرتے ہی بن پڑی۔ یوں ایک ایسا ریکارڈ بن گیا کہ اب جسے دیکھ کر خود بھی حیرت ہورہی ہے۔ انشاءاللہ ، کچھ وقت کے بعد وہ تمام خاکے بھی یہاں پیش کیے جائیں گے۔

اسی دوران کلکتے کی گوہر جان پر ایک دلچسپ خاکہ ایک حیرت انگیز کتاب میں نظر آیا تھا
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

افسوس کہ فرط مسرت سے ہاتھ کانپے اور تمام اوراق کے عکس دھندلا گئے۔ خیال ہے کہ پھر کسی وقت وہاں جایا جائے اور وہ خاکہ محفوظ کرلیا جائے۔ یہ کتاب شیخ عبدالشکور نامی ایک صاحب کی تحریر کردہ ہے، عنوان ہے ” سبزہ بیگانہ“۔ کراچی سے شائع ہوئی، لاہور میں فروخت کے لیے پیش کی گئی۔ مولانا گرامی پر خاکہ، گوہر جان پر خاکہ، میر محبوب علی خاں کا تذکرہایک دلکش مجموعہ ہے رنگا رنگ تحریروں کا۔ خدا جانے شیخ عبدالشکور کون تھے، کیا ہوئے۔ سن اشاعت کے درج نہ ہونے کے باوجود کتاب کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ستر یا اسی کی دہائی میں شائع ہوئی ہوگی۔ پروفیسر مرزا محمد منور نے مصنف کے بارے میں ایک تعارفی مضمون بھی لکھا ہے، خیال ہے کہ اسے بھی محفوظ کرلیا جائے بس اک ذرا انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔!

کتب خانے میں موجود شخصی خاکوں کے مجموعے گرد میں اٹے تھےبعض کے سن اشاعت سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے لکھنے والے کب کے تہ خاک ہوچکے ہوں گے۔ بہتیروں نے کتاب ارسال کرتے وقت اپنے دستخط کندہ کیے تھے۔کتابوں کو ٹٹولتے، ان کا جائزہ لیتے وقت ان سے ایک نوع کی دوستی ہوہی جاتی ہے دل گرفتگی کا ایک حملہ ہوا اور خواجہ شفیع کی یہ سطور (کچھ تبدیلی کے ساتھ)یاد آئیں:
”عالم ارواح سے آئے کتب خانے کے مالک نے کتاب کے ایک دوانے کی جانب دیکھا اور کہا کل کی صورتیں نظر نہیں آتیں، وہ لوگ کہاں گئے، جواب ملا، تہ ِخاک. یہ سن وہ جوگی اٹھ کھڑا ہوا، سب نے تعظیم دی، موجودہ منتظم کتب خانہ خانہ دروازہ تک چھوڑنے آیا۔
رات بہت جاچکی ہے ، ہر سمت سکوت مرگ طاری ہے، چشم ِفلک سے شہاب ِثاقب آنسو بن بن کر ٹپک رہے ہیں۔مالک اپنی کٹی میں جا پڑا، باقیوں نے بھی اپنے اپنے گھر راہ لی۔
رہے نام سائیں کا۔“
٭٭٭
خیر اندیش۔راشد اشرف
 

نایاب

لائبریرین
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم راشد بھائی
آپ کتنی محنت کرتے نادر و عنقا کتب ہمارے سامنے لے آتے ہیں ۔
آپ کے جذبہ جنوں کو سلام
اللہ سدا آپ کی ہمتوں کو جواں رکھے آمین
 
Top