شریعہ اینڈ بزنس۔۔۔۔کاروباری طبقے کے لئے ایک مفید میگزین

جیہ

لائبریرین
مطلب یہ کہ کہاوت آپ پر صادق آتی ہے۔ :)

میں نے پڑھی ہے کتاب میں۔ پشتو کہاوتیں اردو ترجمے کے ساتھ ۔ شایع کردہ پشتو ایکڈمی پشاور یونیورسٹی
 

قیصرانی

لائبریرین
مطلب یہ کہ کہاوت آپ پر صادق آتی ہے۔ :)

میں نے پڑھی ہے کتاب میں۔ پشتو کہاوتیں اردو ترجمے کے ساتھ ۔ شایع کردہ پشتو ایکڈمی پشاور یونیورسٹی
اوہو، پڑھی پڑھائی بات ہے، میں سمجھا سنی، سمجھی اور بھگتائی ہوئی کہاوت ہوگی :)
 

منیجمنٹ میں عام طور پر پائی جانے والی خرابیاںدیانت،نظم وضبط اور وقت کی پابندی جیسی جن اقدار کا حامل آپ اپنے سٹاف کو دیکھنا چاہتے ہیںاگر آپ کااپنا عمل ان کے موافق نہیں تو آپ کبھی بھی دوسروں سے اپنی عزت نہیں کرواسکتے۔تجربات سے سیکھنا ایک سست رفتار عمل ہے جب کہ ٹریننگ سے سیکھنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں منیجرز کو اپنا 25 فیصد وقت اپنے عملے کودینے میں صرف کرنا چاہیے۔پیشہ ورانہ ماحول میں منیجرز پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر اپنے ماتحت ہر ہر شخص کو اس کی کارگردگی کی بنیاد پر چانچے ورنہ تنظیم اپنے مقصد کی جنگ ہار جائے گی۔منیجمنٹ کا ایک اصول ہے: ’’(تنظیمیں کام کرنے والے )لوگ تنظیم کو(انتظامیہ کے)لوگوں کی وجہ سے چھوڑتے ہیں نہ کہ خود تنظیم کی وجہ سے‘‘۔اگر کوئی تنظیم مسابقتی برتری کا سنہری مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو تو اس کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے پاس مہارت یافتہ لوگ ہوں۔مہارت یافتہ لوگوں سے ہماری مراد ہے:
(الف)وہ رہنما جو حکمت عملی سے متعلق ایک موزوں وژن تشکیل دیں اور اسے پروان چڑھائیں۔
(ب)وہ منیجر جو (اپنی تنظیم کی تیار کردہ اشیا کی خدمات کی)قدرو قیمت میں اضافہ کرنے والے فیصلے کریں،باکفایت کاروباری سرگرمیاں تشکیل دیں اور اپنے کارکنوں کو تربیت بھی دیں اور ترغیب بھی۔
(ج)وہ باصلاحیت کارکن جو اپنی کمپنی کی حکمت عملیوں اور تدابیر پر عمل پیرا ہوں ۔
مختلف تنظیموں میں (جن میں وسیع حجم رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی شامل ہیں اور محدود غیر شراکتی کاروبار والی تنظیمیں بھی)گزشتہ 12 سال سے متوسط انتظامی شعبے میں بحیثیت ملازم کام کرتے ہوئے مجھے ایسے متعدد انتظامی رویوں کا سامنا کرناپڑا جنہیں میں انتظامی ذمہ داریاں موثر طور پر ادا کرنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہوں ۔درحقیقت ایسے رویے کام کے ماحول پر برا اثر ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں حالا ت مزید ابتر ہوجاتے ہیں ۔چنانچہ ملازمین نا خوش رہتے ہیں ،مورال پست ہوجاتا ہے ،پیداوار میں کمی آجاتی ہے اور ایک ایسا ماحول تشکیل پاتا ہے جو تمام متعلقہ لوگوں میں ذہنی تناؤ پیدا کرتا ہے ،اور ان سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تزویراتی(سٹریٹیجک)سطح پر تنظیم مکمل طور پر ناکام ہوجاتی ہے۔
ذیل میں منیجر کے ان مضر رویوں میں سے جو کام کے ماحول پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں،چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے:
(۱۔)خود عملی نمونہ بننا:
موثر قیادت کے لیے ’’اپنی عملی مثال پیش کرنا‘‘یا’’اپنے قول پر خود عمل کرکے دکھانا‘‘انتہائی اہم ہے۔دیانت،نظم وضبط اور وقت کی پابندی جیسی جن اقدار کا حامل آپ اپنے سٹاف کو دیکھنا چاہتے ہیںاگر آپ کااپنا عمل ان کے موافق نہیں تو آپ کبھی بھی دوسروں سے اپنی عزت نہیں کرواسکتے۔بہترین منیجر جس چیز کی دوسروں کو تلقین کرتے ہیں اس پر خود عمل کرکے دکھا تے ہیں ۔بہت سے لیڈر اور منیجر یہ کہتے ہیں کہ ہم تبدیلی اورمسلسل بہتری چاہتے ہیں لیکن اس تبدیلی کے لیے خود کچھ نہیں کرتے،بلکہ اس کی بجائے اپنے ماتحت لوگوں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی انفرادی صلاحیتوں میں اپنے طور پر ہی بہتری لاکر(تنظیم کے کاروبار میں مثبت)تبدیلیاں لائیں، حالانکہ ملازمین کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز موثر نہیں کہ وہ اپنے برتر لوگوں کو خود ایسے رویوں پر عمل پیرا پائیں جن کو اپنا نے کا وہ اپنے عملے کو حکم دیتے ہیں۔ نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ نے ’’اپنی عملی مثال پیش کرکے قیادت کرنے ‘‘کی حقیقت کو ثابت کردکھایا۔
(2)رابطے کا فقدان:
ایک اچھا باہمی رابطہ یہ ہے کہ اپنے عملے کو یہ بتایاجائے کہ آپ کی ان سے کیا توقعات ہیں ؟آپ کے کام کا معیار کیاہونا چاہیے ؟نیز آپ کے مسائل کون کون سے ہیں؟اپنے عملے کو(اس طرح کی چیزوں سے)آگاہ رکھنے میں ناکامی یا یہ فرض کرلیناکہ آپ کا عملہ یہ جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے(لہذا اسے بتانے کی یہ ضرورت نہیں)،اس طرح کا رویہ واضح طور پر پست کارگردگی کی طرف لے جاتا ہے۔(اپنے ماتحت لوگوں سے)یہ توقع کرنا کہ وہ (آپ کے بتائے بغیر ہی )جانتے ہیں، ایک انتہائی غیر محفوظ خیال ہے، کیوں کہ لوگ کا م کے بارے میں مختلف آرائ، خیالات اور اقدار رکھتے ہیں۔میں نے کئی مواقع پر منیجر کو اس طرح کی ہدایات دیتے ہوئے دیکھا ہے:’’رپورٹ تیا کریں!‘‘
’’اب آپ ایک سینئیر آدمی ہیں، لہذا آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے، کیا میں آپ کو بتاؤں؟‘‘(اس طرح کے احکام کے علاوہ)اور کچھ نہیں بتاتے اور اگر متعلقہ آدمی(رپورٹ کی تیاری کے حوالے سے اپنے منیجر سے)کچھ پوچھ لیں تو اس کے سوالات کو اس طرح کے بیانات کے ذریعے نظر انداز کردیا جاتا ہے: یقینا ’’آپ رپورٹ تیار کرنا جانتے ہیں ‘‘۔پھر جب چند دن بعد رپورٹ جمع ہوتی ہے تو منیجر صاحب برہم ہوجاتے ہیں اور اس طرح کے جملے ارشاد فرماتے ہیں :’’آپ نے اخراجات اور آمدنی کا صرف خلاصہ کیوں تحریر کیا ہے ؟تفصیلات کہاں ہیں؟گوشوارے اور جدول کیوں نہیں بنائے ؟مثالیں کیوں نہیں دیں؟‘‘
میرا مطلب یہ ہے کہ کیا رپورٹ کی تیاری سے پہلے یہ سب باتیں نہیں بتائی جاسکتی تھیں؟اگر ایسا ہوجاتاتو وقت بھی بچتا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ کہ رپورٹ تیار کرنے والے کی حوصلہ شکنی نہ ہوتی۔
باہمی رابطے کا ایک اہم عنصر’’ٹھیک ٹھیک سننا‘‘ہے ۔یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جو میرے خیال میں بہت سے منیجرز میں نہیں پائی جاتی ۔ایسا لگتا ہے کہ منیجرز’’میری بات سنو!اس لیے کہ میں باس ہوں‘‘قسم کے رویے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔ ’’ٹھیک ٹھیک سننا!‘‘منیجرز کو یقینا اپنے ماتحت لوگوں کے مسائل سے آگاہ ہونے کے قابل بنائے گا اور اس سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ وہ کام سے متعلق (کارکنوں کے )رد عمل( فیڈ بیک) سے باخبر رہیںگے۔اس کے پیش نظر منیجرز اپنے کام ،کام کے مراحل،پالیسیوں اور گاہک کے مفاد کا خیال رکھنے جیسے امور میں بہتری لانے والے اقدام اٹھانے کے قابل ہوسکیں گے ۔
(3)ماتحت عملے کی ٹریننگ اور ان (کی مہارتوں)میں بہتری لانے میں ناکامی:
کاروباری مقاصد کے حصول اور کارگردگی میں اضافے کے لیے تنظیم کی ہر سطح کے لیے صحیح تربیت یافتہ ملازمین ضروری ہیں۔اپنی ذمہ داریاں باکفایت اور موثر طور پر ادا کرنے کے لیے عملے کو جدید ترین مہارتوں اور بہترین عملی طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مہارتوں اور علم کی ترقی کا یہ عمل کاروبار کی ایک اہم اور قابل قدر سرمایہ کاری ہے۔
اکثر تنظیموں کے منیجرز،میرے مشاہدے کے مطابق یہ فرض کرلیتے ہیںکہ ان کے ماتحت لوگ آخر کار کام کے ٹریک پر آجائیں گے یا یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا کام خود بخود سیکھ لیں گے ۔جی ہاں !یہ درست ہے لیکن تجربات سے سیکھنا ایک سست رفتار عمل ہے جب کہ ٹریننگ سے سیکھنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں منیجرز کو اپنا 25 فیصد وقت اپنے عملے کو دینے میں صرف کرنا چاہیے۔چنانچہe.bay کے چیف ایگزیکٹو آفیسر’’میک وائٹ مین‘‘جیسا شخص یہ تسلیم کرتا ہے:’’میری کمزوری یہ ہے کہ میں نے (اپنے عملے کی)روزانہ کی بنیاد پر تربیت اور اصلاح نہیں کی ہے۔(اس کے برخلاف )میں نے بہت سے منیجرز کو یہ کہتے ہوئے سناہے:’’اپنے ماتحت لوگوں کی ٹریننگ پر پیسے خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مہارت حاصل کرنے کے بعد ان کی خواہش ہوگی کہ ہمیں چھوڑ کر دوسری کمپنی میں چلے جائیں۔ ‘‘ عموماً میں(اس کے)جواب میں یہ سوال کرتاہوں:’’اگر آپ ان کو ٹریننگ نہ دیں اور یہ آپ کی کمپنی چھوڑ کر دوسری کمپنی میں نہ جائیں تو(پھر کیا ہوگا)؟‘‘یہ خطرہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے کہ کارکن ٹریننگ لینے کے بعد کہیں اور چلے جائیں گے لیکن میرے خیال میں اس سے زیادہ بڑاخطرہ منیجرز کا ان لوگوں کو تربیت نہ دینا ہے،اور اس کا نتیجہ غیر تربیت یافتہ اور غیر مہارت یافتہ عملے کی صورت میں نکلتا ہے۔
(4)خوف کا عنصر:
ایسا لگتا ہے کہ منیجر سب سے زیادہ اسی طریقے کو استعمال کرنا پسند کرتے ہیں ۔دھمکیوں سے کام کرواناآسان دکھائی دیتا ہے، کیوں کے اس طرح نتائج فوراً حاصل ہوتے ہیں۔
اس قسم کے رویے کی ایک خامی یہ ہے کہ کام کا ماحول تناؤ اور خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے ،جبکہ یہ صورت حال کام کی مقدار اور معیار کے لیے انتہائی غیر موزوں ہوتی ہے۔ (ایسے ماحول میں)ملازمین گویا کہ روبوٹ ہوتے ہیں جو(تفویض کردہ)چھوٹے چھوٹے کام کر کے خوش ہوتے ہیں ،اس(طرح کا غلط رویہ رکھنے والے منیجرز)کے برعکس ٹھوس قائدانہ صلاحیتوں کے حامل حوصلہ افزائی کرنے والے(انتظامی)لوگ اپنے کارکنوں کی بہترین صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں،کارکنوں(کی صلاحیتوںکو)پہچاننا،ان کو انعام دینا،ان کی حوصلہ افزائی اور ستائش یہ سب امور پیداوارمیں نمایاںحد تک اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ملازمین اپنی قدراورستائش سے جِلاپاتے ہیں اور منصفانہ سلوک سے کے متمنی ہوتے ہیں۔(لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ)یہ چیز اکثر تنظیموں میں مفقود دکھائی دیتی ہے۔
(5)بے جا ترجیح وناجائز پاسداری کا مظاہرہ:
ستم ظریفی ہی کہہ سکتے ہیں کہ بہت سے منیجر کچھ چہیتوں کو اپنے ارد گرد جمع رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔حالانکہ انہیں عام طور پر یہ پسند ہوتا ہے کہ دریافت کرنے پر ہم میں سے اکثر تنظیموں کے ملازمین میں سے کم از کم پانچ ایسے ’’ترجیح یافتہ‘‘ناموں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو اپنے برابر درجے کے’’غیر ترجیح یافتہ‘‘ملازمین میں سے کم تر کارگردگی دکھاتے ہیں ۔تاہم جب انتظامیہ ان لوگوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام نہیںکرتے تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟تنظیمیں بھاری تنخواہیں دیتی ہیں،لیکن ان کے عوض اچھی خدمات کا مطالبہ کیوں نہیں کرتیں؟ ایک مرتبہ پھر اس کا ذمہ دار، اپنے کلچر کو قرار دوں گا جس میں ہم سب کی اپنی اپنی پسند وناپسندہے اور جب ماتحت لوگوں کی قدروقیمت چانچنے اور ان کو ترقی دینے کا وقت آتا ہے تو یہی پسندوناپسند اپنا کام دکھاتی ہے۔مجھے معلوم ہے کہ دوسروں کو پسند یا نا پسند کرنا انسانی طبیعت کا خاصہ ہے ،لیکن پیشہ ورانہ ماحول میں منیجرز پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر اپنے ماتحت ہر ہر شخص کو اس کی کارگردگی کی بنیاد پر چانچے ورنہ تنظیم اپنے مقصد کی جنگ ہار جائے گی، کیوں کہ (تنظیم میں کام کرنے والے)دوسرے لوگوں پر منفی اور حوصلہ شکن اثر ڈالنے کے لیے ’’ترجیح یافتہ اور چہیتے‘‘قسم کا صرف ایک ہی ملازم کافی ہے۔
(6)معیار کے بجائے مقدار پر زیادہ توجہ:
اکثراوقات منیجرز کی نظر صرف مقاصد پر ہوتی ہے،ذرائع پر نہیں۔وہ’’مقدار کے لحاظ سے‘‘انتظام کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔انتظامیہ صرف چند اعداد حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوتی ہے اور بس۔ جب (ان مطلوبہ اعدادکا)ہدف حاصل ہوجاتا ہے تو منیجر(غرور میں)اندھے ہوجاتے ہیں۔میرا، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اعداد تو تنظیم کے صرف کامیاب اور سوچے سمجھے لائحہ عمل اور پالیسیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جب کہ معیار پر سمجھوتہ کرنا اور معیار(کو یقینی بنانے والی)پالیسیوں کا عدم نفاذ متعلقہ مارکیٹوں میں تنظیم کی اثر انگیزی ااور شہرت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو منیجرز کو ایک یا دو سال کے لیے کنٹریکٹ پر رکھتی ہیں۔ بعد میں ان کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ معاہدے کی تجدید ،آپ کی کارگردگی(مختصر الفاظ میں منافع)پر منحصر ہے۔چنانچہ منیجر قلیل مدتی اہداف پر نظر رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ’’نمبر گیم‘‘کھیلتے ہیں۔یہ (قلیل مدتی اہداف)متعلقہ تنظیم کو طویل مدتی نقصان پہنچا کر ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔اپنی کتاب’’Great Good t‘‘میں مائیکل کولنز کہتا ہے :’’بڑی کمپنیاں ہر گز ہرگز راتوں رات کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ یہ (کامیابی)اس ایک فرد کی طرف سے کمپنی کی طویل نگرانی کا پھل ہے جس نے اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور خاص طور پر طویل مدتی اہداف کو سامنے رکھا۔‘‘
ستم تو یہ ہے کہ اکثر منیجر مذکورہ بالا(خامیوں)سے آگاہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جو لوگ اس قسم کے رویوں میں سے اکثر کو کم کرنے میں یا اس سے بڑھ کر بالکلیہ ختم کرنے کے قابل ہیں وہی آخر کار اس کا پھل بھی کھائیں گے۔خصوصاً انتظامی فوقیت صورت میں ،اور اسی سے ہی آپ کو اپنے کیرئیر بحیثیت منیجر میں اطمینان،ترغیب وحوصلہ افزائی حاصل ہو گی۔
بحوالہ: http://www.shariahandbiz.com/index.php/business-management/molana-imran-qureshi/99-imran-quershi
 

ابن عادل

محفلین
اردو میں بزنس اور تجارت کے حوالے سے پہلے ہی بہت کم مواد شایع ہوتا ہے ۔ اور پھر شریعۃ کی روشنی میں تو نہ ہونے کے برابر ۔۔ میں نے اس کے شاید چار پانچ شمارے مطالعہ کیے ہیں ۔ اچھا رسالہ ہے ۔ ابتدائی کاوش ہے ۔ ان شاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید پختگی بھی آتی جائے گی ۔ میرا خیال ہے جو بزنس سے دلچسپی رکھتے ہوں انہیں ضرور ایک دفعہ ملاحظہ کرنا چاہیے ۔
 

بنتِ سلیم

محفلین
ان شا اللہ کوشش ہو گی عمومی کاروباری مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے مضامین یہاں شامل کئے جا سکیں۔
اس کے علاوہ کھانے میں شامل مشکوک اجزائے ترکیبی پر تحقیق بھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی
جزاک اللہ میں منتظر رہونکی۔
 

خریدار تک پروڈکٹ کی تفصیلا ت پہنچانے میں شریعت ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے اس کے لیے ذخیرہ احادیث میں غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار فرامین موجو د ہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے اگر خریدار متاثر ہوگیا اورآپ نے چرب زبانی یا کسی بھی طریقہ سے خریدار کو اپنے دام میں پھنسالیا ، اس نے وہ چیز خرید لی اور پھر وہ مطلوبہ معیار کی نہ ہوئی تو یہ خریدارکو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا اور دھوکہ شرعاً حرام ہے پروڈکٹ کی تشہیر میں جاندار کی تصویر بنانا اور بنوانا حرام ہے۔ احادیث مبارکہ میں تصویر سازی کرنے والوں کے بارے میں بہت سخت وعیدات ذکر کی گئی ہیں

زمانہ موجودہ میں تشہیر(ایڈورٹائزنگ) ایک پروفیشن کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور اس حد تک ترقی کرچکی ہے کہ تجارتی کمپنیوں کو اپنے اداروں میں مستقل ڈیپارٹمنٹ قائم کرنا پڑاہے ۔ آئے روز اس کی ڈیمانڈ میں مزیداضافہ ہورہاہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ مارکیٹ میں عوام الناس جس پروڈکٹ کی زیادہ تشہیر(ایڈورٹائزنگ) دیکھتے ہیں، اس کو زیادہ سے زیادہ خریدتے ہیں۔ اسی لیے تاجروں کے ہاں تو یہ جملہ مشہور ہوچکاہے کہ ’’وہی چیز بکتی ہے جس کی تشہیر(ایڈورٹائزنگ)زیادہ ہوتی ہے ۔‘‘

ایڈورٹائزنگ کیاہے؟

مارکیٹنگ میں فروخت کرنے والا (seller )خریدار (Buyer )کو اپنی پروڈکٹ کی تفصیلات اس طرح پہنچاتاہے کہ خریدار اس کی طرف راغب ہو کر اس کو خریدے اور زیادہ سے زیادہ Sale ہو۔

تشہیر فی نفسہ جائز ہے ۔یہ جواز احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے ۔

خریدار تک پروڈکٹ کی تفصیلا ت پہنچانے میں شریعت ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے اس کے لیے ذخیرہ احادیث میں غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار فرامین موجو د ہیں ،ان میں سے چند نقل کیے جاتے ہیں:

    1. حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ کوفہ کے بازارمیں اپنی تلوارلہراکر اعلان کررہے تھے کہ کون ہے جو مجھ سے میری یہ تلوار خریدے گا۔ (الاوسط للطبرانی)
    2. حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خرید وفروخت کرنے والوں کو اختیار ہوتاہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدانہ ہوں، پس اگر انہوں نے ایک دوسرے سے سچ بولا اور درست وضاحت کی تو ان کی بیع میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولا اور مبیع کو چھپایا تو ان کی بیع سے برکت اٹھالی جائے گی ۔(شرح النووی علی مسلم ج۵ص۳۴۰)
    3. عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نہیں حلال کسی مسلمان کے لیے کہ وہ اپنا سامان (پروڈکٹ )بیچے، اس حال میں کہ اس کو معلوم ہو کہ اس میں خرابی ہے مگر یہ کہ اسے خریدار کو بتادے۔ (صحیح مسلم ج۱ص ۲۶)
    4. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ حفص بن عبدالرحمان کے پاس ’’خز‘‘ کے تھان بھیجے اور کہلا بھیجا کہ فلاں فلاں تھان میں عیب ہے خریدار کو بتادینا۔ (سیرت النعمان مولفہ مولاناشبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ )
تشہیر(ایڈورٹائزنگ)کے لیے چونکہ آج کل کے زمانہ میں بہت سے ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں، مثلا: Personal selling ،آن لائن ،ای میل ،ریڈیو ،ٹی وی ،اخبارات ،سائن بورڈ ،بینرز وغیر ہ وغیرہ ۔ان کے ذریعہ سے اشتہارکو ایسے انداز میںترتیب دے کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتاہے، تاکہ پروڈکٹ سے عوام الناس باخبر ہوں اور پروڈکٹ ان میں مقبولیت پائے ۔

درج بالا دلائل کے پیش نظر چند باتیں ایسی ذکر کی جارہی ہیں کہ تشہیرمیں ان کا ٰخیال رکھنا ضروری ہے :

1. معلومات کی درستی:

خریدار کو پروڈکٹ کے بارے میں درست معلومات دینا چاہیں۔ جو جو خوبیاں ہوں وہ بھی بتائی جائیں اور اس میں اگر کوئی خامی ہوتو وہ چیز یا تو فروخت ہی نہ کی جائے، ورنہ اس کا وہ عیب بتا کر فروخت کیا جائے۔جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے واقعہ تجارت سے سبق ملتاہے ۔

2. پروڈکٹ کے بارے میں مبالغہ آرائی کرنا:

پروڈکٹ میں جتنی خصوصیات واقعتا پائی جاتی ہیں اتنی ہی خریدار کو Communicateکرنی چاہیں۔ زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے اگر خریدار متاثر ہوگیا اورآپ نے چرب زبانی یا کسی بھی طریقہ سے خریدار کو اپنے دام میں پھنسالیا ، اس نے وہ چیز خرید لی اور پھر وہ مطلوبہ معیار کی نہ ہوئی تو یہ خریدار کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا اور دھوکہ شرعاً حرام ہے ۔

3. خوبیوں اور خامیوں کو پیش کرنے کا انداز:

آج کل تشہیر ی اشتہارات میں پروڈکٹ کی خوبیوں (Qualities )کو جلی حروف میں لکھا جاتاہے، جبکہ اس کے نتیجہ میں خریدار پر عائد ذمہ داریوں کو اتنا باریک لکھا جاتاہے کہ بسااوقات اس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ جس سے مبیع کی مناسب وضاحت خریدار کے سامنے نہیں آتی اور مبیع کو خریدار سے چھپانا لازم آتاہے اور مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں مبیع کو چھپانا بیع میںبے برکتی کا باعث بنتاہے ۔

4. موسیقی کا استعمال:
پروڈکٹ کے ریڈیو ،ٹی وی وغیرہ پر تشہیر کے لیے موسیقی کا استعمال بھی عام رواج پاچکا ہے ۔گانا بجانا ،ساز ،موسیقی اور اس طرح کی دوسری خرافات پر شریعت مطہرہ نے وعید ذکرکی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما ن کے مطابق موسیقی اللہ تعالیٰ کی لعنت کا باعث ہے۔ جو کام اللہ عزوجل کی جانب سے باعث لعنت ہو اس میں کیا برکت ہوگی۔اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

5. تصاویر کا استعمال:

پروڈکٹ کی تشہیر میں جاندار تصاویر خصوصاً عورتوں کی تصاویر کا استعمال کسی طرح بھی شرعاً درست نہیں ہے۔ جاندار کی تصویر بنانا اور بنوانا حرام ہے۔ احادیث مبارکہ میں تصویر سازی کرنے والوں کے بارے میں بہت سخت وعیدات ذکر کی گئی ہیں ۔ا س پر مستزاد یہ کہ عورتوں کی فحش تصاویر جنسی ہیجان کا باعث بھی بنتی ہیں ۔

6.مہنگائی کا سیلاب:

تشہیر کے درج بالا اور اس قسم کے تما م ذرائع استعمال کرنے سے عوام الناس کو مہنگائی کے بوجھ میں لاددیا جاتاہے، کیونکہ موسیقی والے اور عورتیں جو مخصوص اسٹائل کے ساتھ پروڈکٹ کے لیے ماڈلنگ کرتی ہیں۔ اس کے عوض لاکھوں روپے کمپنی ان کو اداکرتی اور اس کے علاوہ مزید سہولیات بھی مثلا تین سال وہ پروڈکٹ اس عورت کو جب اور جتنی مقدار میں مطلوب ہوگی وہ کمپنی کی طرف سے اسے مفت دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کمپنی یہ سارے اخراجات اپنی جیب سے تو نہیں کرتی بلکہ یہ رقم پروڈکٹ کی قیمت (Cost ) میں شامل کرکے عوام الناس سے وصول کرتی ہے۔ اس طرح پانچ کی چیز پچاس کی بن جاتی ہے، جس کاعوام کو نقصان ہی نقصان ہی ہے ۔

7.اخلاقی تباہی:

آج کل کی نوجوان نسل میں چونکہ دین سے دوری پائی جاتی ہے اور اس پر مستزاد اس طرح سے فحش قسم کے تشہیر ی اشتہارات کی اتنی بھرمار کہ ہر طرف بے حیائی ہی بے حیائی نظر آئے ۔اس سے ایک طرف تو نوجوان نسل جنسی بے راو روی کا شکار ہوتی ہے اور دوسری طرف معاشرے میں ان لوگوں کو تشہیر کے ذریعہ ملنے والے پروٹوکول سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہی انداز عزت کامعیار ہے۔ جس سے وہ ان کے اسٹائل ،لباس ،فیشن وغیرہ کی نقالی کرتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح سے ان کا دین اور اخلاق دونوں تباہ ہوجاتے ہیں ۔

اس لیے موجودہ دور میں مسلمان تاجروںکو مارکیٹنگ کرنے کے لیے جدید طریقوں کا استعمال سیکھنا چاہیے۔ اسلام اس سے منع نہیں کرتا، لیکن اس کے اپنانے میں اگر اللہ کی ناراضگی مول لینی پڑے تو یہ مہنگا سوداہے جو کہ دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خسارے کا باعث ہے۔جدید ذرائع میں سے جو جائز ہیں ان کو استعمال کیا جائے اور جو ناجائز ہیں ان سے اجتناب کیا جائے ۔
http://www.shariahandbiz.com/index.php/mufti-sajjad-hussain-zafar/93-advertisement-k-shari-ussol
 
قدرتی اور مصنوعی دودھ سے متعلق چشم کشا حقائق؟
تازہ دودھ کی زندگی کتنی ہوتی ہے؟
پیکنگ والا دو دھ اگر کینسر کا باعث ہے تو پھر متبادل کیا ہے؟

7 قسم کے کیمیکل دودھ پر کیا مثبت یا منفی اثرات ڈالتے ہیں؟
''ایمبریو'' کے استعمال سے آسٹریلین گائے کیسے 55 تا 80 دودھ دینے لگی ہے؟
اس کے علاوہ دیگر حیرت انگیز انکشافات جاننے کے لیے آئیے! پاکستان کے مشہور ڈیری فارمر جمیل میمن سے
ملاقات کرتے ہیں!
شریعہ اینڈ بزنس
سب سے پہلے آپ کا تعارف چاہےں گے؟
جمیل میمن
1978ء میں انٹر پاس کرنے کے بعد ملازمت شروع کردی۔ والد صاحب بھی ملازمت پیشہ تھے۔ 3 سال تک جوڑیا بازار میں ملازمت کرنے کے بعد 1981ء سے وہاں بروکری کی۔ 1991ء میں بروکری کو بھی خیر باد کہتے ہوئے ڈیری فارم سے منسلک ہو گیا۔ ڈیری فارم کا آغاز 400 بھینسوں سے ''سندھ ڈیری فارم'' کے نام سے کیا، جو آج الحمد ﷲ 9 سے 10 ہزار بھینسوں پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں تو مکمل بھینسیں ہی تھی، لیکن اب بھینسیں اور گائیں دونوں ہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس
ڈیری فارمنگ کو اختیار کرنے کی کوئی خاص وجہ ؟

جمیل میمن
جانور پالنا سنت نبوی ہے۔ اس پیشے میں بڑی برکت ہے۔ یہ ایک حلال کاروبار ہے۔ حلال کمانا ضروری بھی ہے اور ثواب کا کام بھی۔ سود میں جکڑی معیشت سے بھی چھٹکارا ملتا ہے۔ دودھ ایک نہ ختم ہونے والا کاروبار ہے۔ 2 سے 3 کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں دودھ کی بہت مانگ ہے۔ کراچی کے عوام تازہ دودھ پینے کے عادی ہےں۔ میڈیا کے زور پر عوام کا اب پیکنگ والے دودھ کی طرف کسی قدر رجحان مائل ہوگیا ہے۔ یہ لوگ پبلسٹی کی وجہ سے 6 فیصد زیادہ شیئرز لے گئے ہیں۔ شریعہ اینڈ بزنس
ڈیری فارمنگ ''میں سندھ ڈیری فارم'' کو کیا مقام حاصل ہے؟

جمیل میمن
سندھ ڈیری فارم اب 65 ایکڑ کے رقبے پر پھیل چکا ہے۔ اس میں جانوروں کی تعداد 9 سے 10 ہزار ہو گئی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پردودھ کی مقدار 42 ہزار کلو ہے۔ یہاں عملے کی تعداد 450 ہے۔فارم کادودھ صرف کراچی میں سپلائی ہوتا ہے۔کیونکہ تازہ دودھ کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے برف ، کیمیکل اور چلر وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے، جو ہم نہیں کرتے۔
شریعہ اینڈ بزنس
پاکستان کی معیشت میں لائیو اسٹاک کا حصہ کتنے فیصد اور اس کا حب کہاں واقع ہے؟

جمیل میمن
پاکستان کی معیشت میں لائیو اسٹاک کا حصہ 24 فیصد ہے۔ دنیا بھر میں لائیو اسٹاک کا سب سے بڑا مرکز کراچی میں ''لانڈھی کیٹل کالونی'' ہے۔ جہاں صرف دودھ دینے والی بھینسیں اور گائیں 4 سے 5 لاکھ کی تعداد میں ہیں۔ جانوروں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر لانڈھی کیٹل کالونی میں مزید جانوروں کو رکھنے کی گنجائش نہیں رہی، جس کے باعث اب یہ سلسلہ کراچی کے اطراف میں بڑھنے لگا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں دودھ دینے والی بھینسیں اور گائیں 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس
ڈیری فارموں سے دودھ کی ترسیل کیسے ہوتی ہے؟
جمیل میمن
ڈیری فارموں والے مڈل مین کودودھ دیتے ہیں۔ اس کام میں مڈل مین کا 90 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی گاڑیاں اور افراد رکھے ہوتے ہیں۔ پھر مڈل مین آگے ملک شاپس تک یہ دودھ پہنچاتے ہیں۔ ڈیری فارموں سے تازہ دودھ ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر مِلک شاپس تک پہنچ جاتا ہے۔ کراچی میں مِلک شاپس 22 ہزار سے زائد ہو چکی ہیں۔ شریعہ اینڈ بزنس
دودھ کی زندگی کتنی ہوتی ہے؟
جمیل میمن
دودھ کی زندگی اﷲ تعالیٰ نے 4 گھنٹے رکھی ہے۔ اس کے بعد دودھ پھٹ جاتا ہے۔ اس کو مزید دیرپا بنانے کے لیے فریج، برف اور چلر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چلر دودھ کو 4 سینٹی گریڈ پر ٹھنڈا کرتا ہے، جس کی وجہ سے دودھ کی زندگی 4 گھنٹے سے بڑھ کر 16 گھنٹے تک ہو جاتی ہے، جبکہ برف اور فریج میں 44 سینٹی گریڈ پر رکھا جاتا ہے، جس کے بعد دودھ کی زندگی 8 سے 10 گھنٹے بڑھ جاتی ہے اور کیمیکل مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ٹائمنگ بھی جدا جدا دیتے ہیں، لیکن کیمیکل جتنے زیادہ استعمال کیے جائیں گے دودھ اتنا ہی گاڑھا اور مضر ہوگا۔

شریعہ اینڈ بزنس
چرچا ہے کہ ڈبے کا دودھ تمام جراثیم سے پاک اور توانا ہوتا ہے، جبکہ عام دودھ کے دوہنے میں احتیاط نہیں کی جاتی؟
جمیل میمن
معصوم عوام کو میڈیا کے زور پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ ہر لمحہ، ہر چینل پر ٹی ملک کی ایڈ چل رہی ہے۔ عوام کو زبردستی خشک دودھ کی طرف لایا جارہا ہے۔ یاد رکھیے! خالص تازہ، قدرتی دودھ میں اتنی بچت نہیں ہے کہ اس سے 4 ارب سالانہ ایڈورٹائزنگ کا بجٹ نکالا جاسکے۔ تازہ دودھ تو نسل در نسل سے چلتا آرہا ہے اور ہمارے آباؤ اجداد زیادہ صحت مند تھے یا آج کی نسل؟ کون ڈبے کا دودھ پیتا تھا اور کون تازہ؟ یہ بات سب کے سامنے ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس
بعض حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ گوالے دودھ میں جوہڑ کا پانی ملاتے ہیں گندگی اور مکھی کسی بھی قسم کی احتیاط نہیں کرتے؟

جمیل میمن
یہ ہم پر اعتراض ہے کہ گوالے کا دودھ گندا ہے، جوہڑ کا پانی شامل کیا جاتا ہے۔ مکھی کے بارے میں تو حدیث مبارکہ میں آیا کہ مکھی اگر کسی چیز میں گر جائے تو اس کو نکال کر اس کا دوبارہ ایک پر ڈبو کر اس کو باہر پھینک دیا جائے۔ سوال یہ ہےہم لوگ احتیاط نہیں کرتے تو دودھ پیک کرنے والی کمپنیاں دودھ لیتی کہاں سے ہیں؟ ہمارے قریب میں ''ایک مشہور کمپنی'' والے روزانہ سوا لاکھ لیٹر دودھ کی پیکنگ کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنی ایک بکری بھی نہیں ہے، جبکہ انہوں نے انڈسٹری لگانے سے پہلے یہ حلف اٹھایا تھا کہ ہم دودھ کی پیداوار کے لیے اپنا انتظام کریں گے، مگر آج تک ان کے پاس کچھ نہیں۔ دودھ پیک کرنے والی تمام کمپنیاں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ اگر ہم اپنے جانور خود پالیں تو کتنی مشکلات اٹھانی پڑےں گی؟ ظلم یہ بھی ہے کہ وہ دودھ ہم سے لے کر ہم ہی کو مارتے ہیں۔ دنیا میں لائیو اسٹاک کا سب بڑا حب ''لانڈھی کیٹل کالونی'' والے تو ایک ارب کی بھی ایڈ نہیں چلا سکتے۔ مگر ان کمپنیوں کے پاس 4 ارب سالانہ کا ایڈورٹائزنگ کے لیے بجٹ کہاں سے آتا ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
دودھ دودہنے کے قدیم اور جدید طریقوں کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟
جمیل میمن
گائے کو دوہنے کے لیے تو یورپ نے مشین ایجاد کرلی، لیکن بھینس کو دوہنے کے لیے ابھی تک کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی۔ گائے کو دوہنا آسان ہے۔ اس کو دوہتے وقت اتنی طاقت خرچ نہیں کرنی پڑتی۔ نرمی، آسانی اور سہولت کے ساتھ آدمی دوہ لیتا ہے، اس کے برعکس بھینس کو دوہتے وقت کچھ نہ کچھ مشقت سے ضرور دوچار ہونا پڑتا ہے۔ بھینس کا دودھ دوہنے کے وقت گوالے کی کچھ نہ کچھ توانائی تو ضرور صرف ہوگی جس کا اثر دودھ میں شامل ہوسکتا ہے، لیکن دودھ ابال لینے کے بعد وہ اس قسم کے جراثیم سے پاک ہوجاتا ہے۔
[url]http://www.shariahandbiz.com/index.php/interviews/246-pack-dood-cancer-ka-sabab-ban-sakta-hai[/URL]
 
Top