غزل: جینے کو اے خدا رہا کیا ہے۔۔۔

(غالب کی زمین اتفاقیہ ہے۔ مطلع کہنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ تو 'دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے' والی زمین ہے)

جینے کو اے خدا رہا کیا ہے
کون جانے تری رضا کیا ہے


شبِ غم بیت جائے گی لیکن
صبحِ نو کے لیے بچا کیا ہے

بے وفائی پہ داد ملتی ہے
آخر اخلاص کی سزا کیا ہے

یہ زمانہ ہے دعوے داروں کا
وعدہ کیا ہے یہاں وفا کیا ہے

دل دُکھانا جو بن گیا معمول
بے ضمیری کی انتہا کیا ہے

اب کوئی جستجو نہیں باقی
اب نہ پُوچھو مجھے ہوا کیا ہے

دل کو مسمار کر گئے تم کیوں
گھر کو اپنے ہی کر دیا کیا ہے

نام انسانیت کا لیتے ہو
ظلم تم نے مگر کِیا کیا ہے

چلو اِجلؔال اب تو اُٹھ جاؤ
جام خالی ہے اب بچا کیا ہے

الف عین
فاتح
محمد خلیل الرحمٰن
مزمل شیخ بسمل
قیصرانی
محمد وارث
متلاشی
محمد اسامہ سَرسَری
محمد بلال اعظم
 
مدیر کی آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
(غالب کی زمین اتفاقیہ ہے۔ مطلع کہنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ تو 'دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے' والی زمین ہے)
شبِ غم بیت جائے گی لیکن
صبحِ نو کے لیے بچا کیا ہے

صبحِ نو سے یہ اتنی بے زاری
محترم دوست ماجرہ کیا ہے
:idontknow:

بہت عمدہ جناب، بہت خوش رہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شبِ غم بیت جائے گی لیکن
صبحِ نو کے لیے بچا کیا ہے

بے وفائی پہ داد ملتی ہے
آخر اخلاص کی سزا کیا ہے

اب کوئی جستجو نہیں باقی
اب نہ پُوچھو مجھے ہوا کیا ہے

نام انسانیت کا لیتے ہو
ظلم تم نے مگر کِیا کیا ہے

واہ بہت خوبصورت اشعار محترم اجلال صاحب
بہت سی داد قبول فرمائیں
 
شبِ غم بیت جائے گی لیکن
صبحِ نو کے لیے بچا کیا ہے

بے وفائی پہ داد ملتی ہے
آخر اخلاص کی سزا کیا ہے

اب کوئی جستجو نہیں باقی
اب نہ پُوچھو مجھے ہوا کیا ہے

نام انسانیت کا لیتے ہو
ظلم تم نے مگر کِیا کیا ہے

واہ بہت خوبصورت اشعار محترم اجلال صاحب
بہت سی داد قبول فرمائیں

غزل پسند کرنے اور ڈھیروں داد دینے پر تہ دل سے شکریہ قبول فرمائیں۔

جیتے رہیے!
 
Top