خیمہ حرؑ سے در شبیرؑ تک۔۔۔۔

حسینی

محفلین
تحریر: عباس حسینی

وہ امام ؑ کے سامنے سر جھکائے ندامت بھرے انداز میں کھڑا تھا۔آنکھیں اس کی زمین کو چیر رہی تھیں۔۔۔ ہمت نہیں ہو پا رہی تھی کہ امام ؑکے چہرہ مبارک کا سامنا کرسکے۔۔۔ کیونکہ یہ وہی تھاجس نے سب سے پہلے قافلہ امامؑ کو روکا تھا۔۔۔ وہ امام ؑ سے معافی کا طلبگار تھا۔۔۔ اور امامؑ کا دل جو مخز ن راز امامت تھا۔۔۔ وہ اتنا وسیع تھاکہ فورا بخوشی امامؑ نے حر ؑ کو معاف کر دیا۔۔۔ کیونکہ اللہ معاف کرنے والوں کو پسندفرماتاہے۔
محرم ٦١ ہجری کی دوسری تاریخ تھی۔۔ نیکوکاروں کا وہ قافلہ اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ اچانک سامنے سے گھڑ سواروں کا اک دستہ نمودار ہوا۔۔ یہ گھڑسوار قریب سے قریب ہوتے گئے۔۔ وہ لوگ پیاسے تھے۔۔ دستہ کے سپہ سالار نے آگے بڑھ کر امام ؑسے پانی کی بھیگ مانگی۔۔ مولا نے فورا حکم دیا کہ ان سب کو پانی پلایا جائے۔۔ اور ان کے جانوروں کو۔۔ کیونکہ جائز نہیں کہ پانی موجود ہو اور کوئی ذی روح پانی کے لیے تڑپ رہا ہو۔۔ اور یہ تو صفین والے امام ؑ کے فرزند ہیں۔۔ جب انہوں نے بھی دشمن کے لیے پانی نہیں روکا تھا۔۔ انسان جانور سب نے جی بھر کے پانی سے پیاس بجھا لی۔۔ انسان تو ہمیشہ سے ناشکرا واقع ہوا ہے۔۔ لیکن جانوروں نے اپنی معصوم زبان میں امام ؑ کا شکریہ ضرور ادا کیا ہو گا۔۔ یہ وہی دستہ تھا جو حرؑ بن یزید ریاحی کی سربراہی میں امام ؑ کا رستہ روکنے کربلا پہنچا تھا۔
سرزمین کربلا نے اک اور عجیب منظر بھی دیکھا۔۔ وقت کا امام ؑ اس لق ودق صحراء میں نماز کی امامت کے لیے کھڑا ہوتاہے۔۔ نماز میں وہ اثر ، تکبیر میں وہ خلوص، سجدہ میں وہ خشوع۔۔ کہ صحرا کے جنگلی جانور بھی رک رک کر دیکھتے ہیں۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں امام وقت کی امامت میں۔۔ صف بہ صف ہو کر خالق حقیقی کے سامنے سر جھکائے ۔۔ اس کی حمد وثناء میں مصروف ہو جاتے ہیں۔۔ وہ فوجی دستہ جو امام ؑ کا راستہ روکنے آیا تھا۔۔ وہ جو امام ؑ کا دشمن تھا۔۔وہ بھی اسی امام ؑکی امامت میں نماز پڑھنے کو شرف سمجھتا ہے۔۔ حر ؑ اور اس کے ساتھی صف بستہ امام وقت کی امامت میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔۔ اور فضیلت وہ کہ جس کا اعتراف دشمن کرے۔
حر ؑ اپنے آپ کو جنت ودوزخ کے درمیان پاتا ہے۔۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ عرب کے شجاع ترین فرد کو کیاہو گیا۔۔ کیوں متردد ہے؟۔۔حر ؑنے جب دیکھا کہ قوم حسین ؑ کے قتل سے کم پر راضی نہیں ہے۔۔ حر ؑ نے بہت مشکل فیصلہ کیا۔۔ میں جنت پر کسی چیز کو فوقیت نہیں دوں گا۔۔ اگرچہ مجھے جلایا جائے اور ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے۔۔اپنے گھوڑے کو دوڑایا اور لشکر حسینؑ میں آشامل ہو ا۔
ازل سے جاری اس خیر وشر کی جنگ کو حر ؑجیت چکا تھا۔۔ وہ فاصلہ جو خیمہ حر ؑ سے در شبیر ؑ تک کا تھا انتہائی کم مگر دشوار تھا۔۔ لیکن حر ؑ بہت خوش قسمت تھا ۔۔ کیونکہ وہ یہ دشوار فاصلہ طے کر چکا تھا۔۔ لیکن اس سے بڑھ کر حر ؑ کی خوش قسمتی اس امامت کی نوید میں تھی۔۔ کہ '' اے حر ؑ تیری ماں نے تیرا نام سچ رکھا ۔۔ کہ تو دنیا میں بھی حر اور آخرت میں بھی حر ہے۔''
جس نے حسینؑ مان کے سر کو جدا کیا آدیکھ تو حسین ؑ نے اس حر ؑ کو کیا دیا
ماں کا رومال باندھ کے زھراء ؑ کے لعل نے حرؑ کی جبیں سے داغ ندامت مٹا دیا
خیر وشر کی یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔۔ اور ہم میں سے ہر کسی نے یہ جنگ لڑنی ہے، حر ؑ ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں، ہم نے بھی خیمہ حر ؑ سے در شبیر ؑ تک کا سفر طے کرنا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top