ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کردینے والا لطیفہ

شمشاد

لائبریرین
کہتے ہیں ایک لڑکی کے پڑھنے سے ایک نسل تعلیم حاصل کرتی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔

لیکن اس لڑکی کے کالج آنے جانے سے جو دس لڑکے فیل ہو جاتے ہیں ان کا کون ذمہ دار ہے؟
 
آخری تدوین:
میرا اپنا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک منگنی کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ غلطی سے میری 2 سالہ بچی کا پاؤں دولہا کی پینٹ سے لگ گیا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا "بیٹا بری بات انکل کی پینٹ گندی نا کرو ، انکل نے نئی لی ہے"۔
 
ایک مرد نے اپنی بیوی سمجھ کر ایک راہ چلتی خاتون کا ہاتھ پکڑ لیا مگر فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا . وہ جلدی سے ہاتھ چھوڑ کر بولا:
”معاف کیجیے گا محترمہ! محض اپنی غلط فہمی کی بنا پر میں آپ کو اپنی بیوی سمجھ بیٹھا تھا“
وہ عورت غصے سے بولی: ”قسمت پھوٹ گئی ہوگی اس عورت کی ، جسے تم جیسا بے وقوف اور بد صورت شوہر نصیب ہوا . کبھی آئینے میں اپنی شکل دیکھی ہے . کالا منه ، فضول قسم کے کپڑے اور آنکھیں تو ایسی سرخ ہیں جیسے نشہ کیا ہو۔“
”خدا کی پناہ . . .! محترمہ! آپ کی صورت ہی نہیں، بلکہ گفتگو بھی میری بیوی جیسی ہے۔“
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک چوہییا جنگل سے گزر رہی تھی ، ہاتھی نے اپنی سونڈ سے اسے چھیڑ دیا ،
فورا سے گئی ہتھنی کے پاس اور ہاتھ نچا کے بولی
اے بی
اپنے مرد کو سنبھال کے رکھو ورنہ مرد ہمارے گھر بھی بہت ہیں ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
پنگے باز بیوی شوہر سے: ذرا نمک تو لا دو کچن سے
شوہر: بھاگم بھاگ کچن میں جا کر آواز لگاتا ہے کہ یہاں نمک تو کہیں نظر نہیں آ رہا۔
بیوی: کمبخت پھوہڑ مجھے پتا تھا کہ تمھیں کچھ نہیں ملتا میں اسی لیے (نمک)ساتھ ہی لے آئی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
استانی نے چھوٹے بچوں کو بادشاہ اور ملکہ پر مضمون لکھ کر لانے کو کہا۔

ایک چھوٹی بچی نے مضمون لکھا :

بادشاہ اور ملکہ صبح کے وقت دربار میں آئے اور اپنے اپنے تخت پر بیٹھ گئے۔ بادشاہ نے دربار میں موجود لوگوں کے مسائل سُنے اور بہت اچھے فیصلے کیے۔ اتنے میں ملکہ کی ایک کنیز بھاگتی ہوئی آئی اور ملکہ کے سامنے جھک کر سلام کیا۔ اور خوشخبری سُنائی۔ "ملکہ عالیہ مبارک ہو۔ اللہ نے آپ کو بیٹے سے نوازہ ہے۔"
 
اس عورت کی ایک ہی بیٹی تھی جس کی عمر چار پانچ سال تھی وہ اپنی بیٹی کا بہت خیال رکھتی تھی وہ ہمیشہ اسے صاف ستھرا رکھتی بال سنوارتی پونیاں بناتی تاکہ اس کی بیٹی سب سے خوبصورت لگے۔
کچھ دنوں سے وہ عورت بہت پریشان تھی اس کی بیٹی کو عجیب بیماری لگ گئی تھی کہ اس کی آنکھیں ہمیشہ اوپر کو چڑھی رہتی۔
اس نے بہت سے ڈاکٹرز کو دکھایا لیکن پھر بھی مسلئہ حل نہ ہوسکا۔
کسی نے اسے بتایا کہ ایک بابا جی ہیں انہیں دکھاؤ شاید کوئی علاج ہو سکے۔
اس نے باباجی کو اپنا مسئلہ بتایا اور اپنی بیٹی دکھائی۔
بابا جی نے ایک منٹ میں اس کا علاج کردیا وہ عورت بہت حیران ہوئی اور بابا جی سے پوچھا کہ بابا جی آپ نے کیا علاج کیا کہ میری بیٹی تو بالکل ٹھیک ہوگئی۔
بابا جی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ "کوئی خاص علاج نہیں بس اس کی پونیاں ڈھیلی کردی ہیں۔۔۔ "
 
اُستاد نے کلاس میں ایک لڑکے سے پوچھا : بتاؤ یہ شعر کس کا ہے؟

سرہانے" میر " کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے

لڑکا:سر یہ شعر میر تقی میر کی والدہ کا ہے

کیا؟۔ استاد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا

جی سر یہ اُس وقت کی بات ہے جب میر تقی میر سکول میں پڑھتے تھے ایک دن ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے استاد نے ان کی بہت پٹائی کی جس پر وہ روتے روتے گھر آئے اور سو گئے تھوڑی دیر بعد میر صاحب کے باقی بہن بھائی کمرے میں کھیلتے ہوئے شور کرنے لگے جس پر ان کی والدہ نے یہ شعر کہا:

سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
ایک انجنیئرننگ یونیورسٹی کے تمام انجنیئرز کو بلا کر ایک جہاز میں بٹھایا گیا۔

جہاز کے سٹارٹ ہونے سے پہلے اعلان کیا گیا، "خواتین و حضرات میں اس جہاز کا کیپٹن بول رہا ہوں۔ آپ کو سُن کر خوشی ہو گی کہ یہ جہاز آپ کے شاگردوں نے تیار کیا ہے۔ امید ہے آپ اس سفر سے لطف اندوز ہوں گے۔"

یہ سُننا تھا کہ تمام کے تمام انجنیئرز ڈر کے مارے جہاز چھوڑ کر چلے گئے۔ صرف پرنسپل صاحب جہاز میں بیٹھے رہ گئے۔

کیپٹن نے پرنسپل صاحب سے پوچھا "جناب سب انجنیئرز ڈر کے مارے جہاز چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کو ڈر نہیں لگا کیا؟"

"یہ جہاز ہمارے شاگردوں نے بنایا ہے اور میں اپنے شاگردوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ جہاز سٹارٹ ہی نہیں ہو گا، تو ڈرنا کیسا۔" پرنسپل صاحب نے جواب دیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے کزن نے بتایا کہ وہ یو ای ٹی یعنی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور کی طرف سے کامرہ ائیر کامپلیکس کی سیر پر گئے۔ مکینکل انجینئرنگ کے طالب علم نے جہاز کو تفصیلی معائینے کے بعد ریجکٹ کر دیا کہ اس میں انجن اور ٹائروں کے درمیان کنکٹکنگ شافٹ ہی نہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے کزن نے بتایا کہ وہ یو ای ٹی یعنی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور کی طرف سے کامرہ ائیر کامپلیکس کی سیر پر گئے۔ مکینکل انجینئرنگ کے طالب علم نے جہاز کو تفصیلی معائینے کے بعد ریجکٹ کر دیا کہ اس میں انجن اور ٹائروں کے درمیان کنکٹکنگ شافٹ ہی نہیں
پسِ نوشت: گاڑیوں میں انجن اور ٹائروں کے درمیان رابطے کا کام کنکٹنگ شافٹ دیتی ہے جو انجن کی پیدا کردہ حرکت کو ٹائروں تک پہنچانے کا کام کرتی ہے۔ عام موٹر سائیکل میں یہی کام چین کرتی ہے۔ ہوائی جہاز میں اس کا کوئی کام نہیں ہوتا کہ ہوائی جہاز کا انجن ہوا کو پیچھے دھکیل کر یہ کام کرتا ہے۔ ٹائروں کا کام محض رن پر اترنے اور پرواز کرنے میں مدد دینا ہے۔ اصل کام انجن کرتا ہے۔ اب مکینیکل انجینئرنگ کے طالبعلم کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں تھی :)
 

شعیب اصغر

محفلین
جج (ملزم سے)۔ کیا ثبوت ہے کہ تم موٹروے پر اوور سپیڈ نہیں جارہے تھے؟
ملزم ۔۔ جناب اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو واپس لانے سسرال جارہا تھا۔

جج ۔۔ اس معصوم کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔
 
Top