پھانسی کی سزا

تمام احباب کوعید الاضحٰی مبارک !

حال ہی میں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں اس حوالے سے خبریں گرم ہیں کہ دنیا بھر میں پھانسی کی سزا ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
اس حوالے سے شاید حکومتِ پاکستان کو بھی عالمی دباو کا سامنا ہے۔
اسی تناظر میں وہ گروہ بھی جو خود کو سیکولر قرار دیتا ہے، اس سزا کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کچھ آوازیں ایسی بھی سُنائی دے رہی ہیں کہ پھانسی اور ہاتھ کاٹنے جیسی اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں، اس لیے آج کے مہذب معاشرے میں ان کا اطلاق ممکن نہیں۔
محفل میں موجود اہلِ علم سے اس سلسلے میں اپنی آرا کے اظہار کی درخواست ہے۔
البتہ اہلِ بزم سے درخواست ہے کہ صرف موضوع کے حوالے سے بحث کریں۔ کسی بھائی کے آپ کے خیالات سے عدمِ اتفاق کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ آپ کا ذاتی مخالف ہے۔ شکریہٖ
 

شمشاد

لائبریرین
قتل کی سزا قتل، دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ

اسلامی سزائیں وحشیانہ نہیں بلکہ عین عدل ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔
 
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّ۔هُ فَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (سورۂ مائدہ:٤٥)

ترجمہ: اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے لیکن جو شخص بدلہ معاف کر دے وہ اس کے لیے کفارہ ہوگا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےانصاف ہیں۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّ۔هِ ۗ وَاللَّ۔هُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورۂ مائدہ:٣٨)

ترجمہ: اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے اور خدا زبردست (اور) صاحب حکمت ہے۔

وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَاللَّ۔هِ فَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (سورۂ بقرہ: ٢٢٩)

ترجمہ: اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
چونکہ آپ نے یہ تھریڈ اسلامی تعلیمات میں شروع کیا ہے تو لگتا ہے کہ آپ اس موضوع پر محض اسلامی نکتہ نظر میں بحث چاہتے ہیں۔ لہذا میں کچھ کہنے سے گریز کروں گا۔
 
جدید مغربی تہذیب کے مطابق مذہب فرد کا ایک ذاتی معاملہ ہے اور اس کا ، کاروبارِ سلطنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جب کہ اسلام اپنی پوری زندگی اور تمام تر معاملات کو اللہ کی رضا کے مطابق بنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایک تاجر اگر ایمان داری سے تجارت کرے تو یہ عین عبادت ہے، اسی طرح اگر اساتذہ، منصفین بلکہ زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اگر اللہ کی رضا کے مطابق اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں تو یہ بھی عبادت ہے۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ مذہب سے لاتعلق ہو کر اُمورِ سلطنت کیسے چل سکتے ہیں۔ بہر حال آپ اپنی رائے یہاں دے سکتے ہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
تمام احباب کوعید الاضحٰی مبارک !

حال ہی میں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں اس حوالے سے خبریں گرم ہیں کہ دنیا بھر میں پھانسی کی سزا ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
اس حوالے سے شاید حکومتِ پاکستان کو بھی عالمی دباو کا سامنا ہے۔
اسی تناظر میں وہ گروہ بھی جو خود کو سیکولر قرار دیتا ہے، اس سزا کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کچھ آوازیں ایسی بھی سُنائی دے رہی ہیں کہ پھانسی اور ہاتھ کاٹنے جیسی اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں، اس لیے آج کے مہذب معاشرے میں ان کا اطلاق ممکن نہیں۔
محفل میں موجود اہلِ علم سے اس سلسلے میں اپنی آرا کے اظہار کی درخواست ہے۔
البتہ اہلِ بزم سے درخواست ہے کہ صرف موضوع کے حوالے سے بحث کریں۔ کسی بھائی کے آپ کے خیالات سے عدمِ اتفاق کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ آپ کا ذاتی مخالف ہے۔ شکریہٖ
جیسا کہ زیک نے کہا کہ یہ موضوع اسلامی زمرے میں پوسٹ کیا گیا ہے ۔مگر انہوں نے کچھ کہنے سے گریز کیالیکن سلامی حوالے سے میں استدلال پیش کردیتا ہوں ۔
کچھ دوستوں نے اپنے تبصرے کیساتھ کچھ آیاتیں بھی کوٹ کیں ہیں۔ ان آیتیوں کو اس طرح کوٹ کرنے اور اس کے معنی پر ( مفہوم پر نہیں ) تبصرہ کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جن جرائم کی سزا اللہ نے قرآن میں بیان کیں ہیں ۔ یہ ان کی پہلی اور حتمی سزائیں ہیں ۔ جبکہ اگر آپ ان آیاتیوں کا سیاق و سباق کیساتھ مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب انتہائی سزائیں ہیں ۔ یہاں جو آیاتیں کوٹ کی گئیں ہیں ۔ ان میں مختلف سزاؤں کا ذکر ہے ۔ مگر میں موضوع کے پیرائے میں رہتے ہوئے صرف " قتل " کی سزا پر اپنی رائے پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔
جزا و سزا کے معاملے میں ایک اصولی بات مد نظر رہنی چاہیئے کہ ہمارے پاس اسکے تعین کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے ۔ یعنی انسانی عقل کے پاس یہ بنیاد ہی نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کرسکے کہ جرم کی کیا سزا ہوگی ۔ انسان کی جان ، مال اور آبرو کو حرمت حاصل ہے ۔ یہ حرمت دین نے بھی دی ہے ، عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ یہ حرمت ہونی چاہیئے ۔ عمومی تجربات میں بھی یہی بات شامل ہے ۔ مختصر یہ کہ انسانیت کا اس پر اتفاق ہے ۔ مگر جب ایک شخص کسی جرم کا ارتکاب کربیٹھتا ہے تو آپ اس کو سزا دیں گے یا معاف کردیں گے ۔ اگر آپ سزا دیں گے تو یہاں یہ بات لاگو ہوتی ہے کہ اب آپ اس کے مال ، جان اور آبرو کے خلاف کوئی قدام کریں تو کوئی سزا دی جائے گی ۔ یہاں اس کے تعین میں انسان کے سامنے پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یعنی چوری کی سزا کتنی ہونی چاہیئے ۔ بدکاری کی سزا کتنی ہوچاہیئے ۔ قتل کی سزا کتنی ہونی چاہیئے ۔ اس معاملے میں انسان ہمیشہ خلفشار کا شکار رہا ہے ۔ اور اس افراط و تفریق کی نوعیت یہ رہی ہے کہ انسان پر اس قسم کا غلبہ ہوا کہ جرائم کا قلم قلمع کرنے کے لیئے عبرتناک سزائیں دینی چاہیئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر پھانسی کی سزائیں دیدیں گئیں ۔ بادشاہوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے ۔ معمولی باتوں پر انسان کو کولہو میں ڈال کر پس دیا گیا ۔ جانوروں کے سامنے چیرنے اور پھاڑنے کے لیئے پھینک دیا گیا ۔ دوسری جانب لوگوں پر ہمدردی کا ایسا بھی غلبہ طاری ہوجاتا ہے کہ پھر ایسے فلسفے وجود پذیر ہو جاتے ہیں کہ یہ انسانی نفسیاتی امراض ہیں ۔ جس کے تحت انسان یہ جرائم کربیٹھتا ہے ۔ اس میں رعایت برتنی چاہیئے ۔پھر عموماً لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوجاتا ہے کہ ان سزاؤں میں تخفیف ہونی چاہیئے ۔ اگر آپ غور کریں تو یہ رحجان کم وبیش ہر اس معاملے میں ہے جہاں انسان کے پاس کوئی ایسی عقلی بنیاد موجود نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کر سکے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت دی ہے اس کودینے کہ وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ جن معاملات میں انسان کے پاس فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کو اس یہاں اللہ کی رہنمائی حاصل ہوجائے ۔
موت کی سزا ایک غیر معمولی سزا ہے ۔ یعنی آپ ایک شخص کو اس کی سب سے بڑی نعمت سے محروم کرنے جا رہے ہیں ۔ اس معاملے میں قرآن میں ارشاد ہے کہ " کسی نے کسی کو قتل کر دیا ہے ، یا وہ کسی کے مال و جان کے لیئے خطرہ بن کر کھڑا ہوگیا ہے ۔ تو آپ اس کو موت کی سزا دے سکتے ہیں ۔ " لیکن اگر اس سے یہ دو جرائم نہیں ہوئے ہیں تو کسی اور جرم میں اس کو قتل کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔ یہاں اللہ نے انسانیت پر رحم کرکے دوسرے جرائم میں انسانی جان کو تحفظ دیدیا ۔ اب یہ دو جرائم ہیں ۔ یعنی کسی نے کسی کو قتل کردیا یا وہ معاشرے میں مال و جان کے لیئے خطرہ بن گیا ہے ۔ اس جرائم میں بھی اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو وہاں پھر اللہ نے انسان کے لیئے ایک راستہ کھولا ہے ۔ یعنی جو اعتراضات کیئے جارہے ہیں ۔ ان کا قرآن نے کس عمدگی سے راستہ کھولا ۔ یعنی تخفیف کے لیئے جو بھی استدلال پیش کیا جا رہا ہے ۔ ان کو سامنے رکھ کر سزا بیان کردی ۔ تاکہ مجرموں کو یہ احساس رہے کہ ان کو قتل کیا جاسکتا ہے ۔ اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ " اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچ جاتی ہے کہ مجرم کو رعایت ملنی چاہیئے ( اس کے اسباب کچھ بھی ہوسکتے ہیں ) ۔ یعنی قاضی یا عدالت اس درجے میں مطمئن نہیں ہوئی کہ قتل کی سزا کا طلاق کیا جا سکے ۔ تو یہاں مقتول کے ورثاء کو راضی کرلیا جائے ۔ اگر وہ راضی ہوجاتے ہیں تو دیعت پر معاملہ ہوسکتا ہے ۔ " یعنی اس میں تو قید کی بھی سزا نہیں رکھی گئی ۔ معافی یا مالی تاوان دیکر آدمی بری ہوجائے گا ۔ یہ دوسرا راستہ اختیار کیا گیا ۔ مگر یہ طریقہ نہیں اختیار کیا گیا جو کہ اس حوالے سے دنیا بھر میں اٹھایا جا رہا ہے کہ مجرموں کو اس سزا سے رعایت دے کر ان کو دوسروں کی جان ، مال اور آبرو کیساتھ کھیلنے کا لائسنس دیدیا جائے ۔ کیونکہ انسان جس طرح خیر کو جزا کے حوالے سے اپنا تا ہے بلکل اسی طرح وہ خوف کو سامنے رکھ کر شر سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چناچہ خالق نے خوف بھی برقرار رکھا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ قتل کی سزا بھی ہوجائے ۔ لیکن ایک راستہ بھی نکال دیا ۔
فساد الارض کی سزاؤں میں بھی یہی کیا ۔ عبرتناک سزاؤں کیساتھ ، جلاوطنی کی سزا ۔ یعنی قاضی یا عدالت کو یہ اختیار دیدیا کہ وہ مجرم کے حالات ، شواہد اور واقعات دیکھ کر اس سزاؤں میں سے کسی بھی سزا کا اطلاق کرسکتے ہیں ۔ یہ دراصل اللہ کی حکمت ہے ۔ اگر اس حکمت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے قانون پر نظرِ ثانی کرلیں تو بہت سی ابحاث کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ جس میں یہ مذکورہ تھریڈ بھی شامل ہے ۔
 
آخری تدوین:
آرا کے لیے شکریہ۔
آپ کی آرا سے مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ مخصوص حالات میں اس سزا کا اطلاق عین انصاف ہوگا۔ اس سلسلے میں قرآن میں ہدایات موجود ہیں۔
میں متفق ہوں کہ جزا وسزا کے حوالے سے انسان الہامی راھنمائی کا محتاج ہے۔

اگر اس سزا کا غلط استعمال ہوا ہے تو اس میں اس سزا کو ساقط کرنے کا جواز پیدا نہیں ہو جاتا۔ طُولِ اقتدار کے لیے بادشاہوں نے جب کسی کو موت کے گھات اتارا تو یہ صریح ظلم تھا، "پھانسی" کی سزا نہیں۔
قاضی کے پاس یقینا اختیار ہوگا کہ وہ سزا میں تخفیف یا تبدیلی کردے مگر اس سے بھی یہ طے کرلینا کہ آئندہ کسی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، زیادہ منطقی بات نہیں ہوگی۔
میں نے صرف اُن امور کے حوالے سے رائے دینے کے لیے احباب کو دعوت دی تھی جن میں خود قرآن سزائے موت کو روا قرار دیتا ہے۔
آج کل سزائے موت کو ختم کرنے کی جو عالمی مہم جاری ہے، کیا ہمیں قرآنی تعلیمات کو نظر انداز کرکے اس کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں، اس حوالے سے بحث کی جائے تو مناسب ہوگا۔ نیز یہ کہ اگر اس سزا کا کلیتا خاتمہ کردیا جائے تو کیا اللہ کے خلاف کُھلی بغاوت نہیں ہوگی؟
 

ظفری

لائبریرین
آرا کے لیے شکریہ۔
آپ کی آرا سے مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ مخصوص حالات میں اس سزا کا اطلاق عین انصاف ہوگا۔ اس سلسلے میں قرآن میں ہدایات موجود ہیں۔
میں متفق ہوں کہ جزا وسزا کے حوالے سے انسان الہامی راھنمائی کا محتاج ہے۔

اگر اس سزا کا غلط استعمال ہوا ہے تو اس میں اس سزا کو ساقط کرنے کا جواز پیدا نہیں ہو جاتا۔ طُولِ اقتدار کے لیے بادشاہوں نے جب کسی کو موت کے گھات اتارا تو یہ صریح ظلم تھا، "پھانسی" کی سزا نہیں۔
میرا خیال ہے کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا اور پھانسی دینا ۔ دونوں ہی صورتوں میں انسانی جان لی جاتی ہے ۔ بادشاہوں کے مظالم کے اسباب اور مختلف حالات ( طولِ اقتدار ) میں کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا ، یہ ایک الگ بحث ہے اور یہاں یہ اسباب زیرِ بحث نہیں ہیں ۔ سزا کو مکمل طور پر ساقط کرنا میری پوسٹ سے ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ قرآن کی ہدایات کے مطابق مجرم کے حالات و شواہد کی روشنی میں انتہائی سزا بھی دی جاسکتی ہے اور کم سزا بھی ۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بھی قحط کے زمانے میں چوری کی سزا ( ہاتھ کاٹنے کی سزا ) کو ساقط کردیا تھا ۔ جو بلکل اللہ کی اس حکمت کے مطابق تھی۔ جو قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔

قاضی کے پاس یقینا اختیار ہوگا کہ وہ سزا میں تخفیف یا تبدیلی کردے مگر اس سے بھی یہ طے کرلینا کہ آئندہ کسی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، زیادہ منطقی بات نہیں ہوگی۔
یہ بات تو میری پوسٹ میں کہیں بھی واضع نہیں ہے کہ آئندہ کسی کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی ۔ باقی منطقی والی بات سمجھ نہیں آئی ۔

میں نے صرف اُن امور کے حوالے سے رائے دینے کے لیے احباب کو دعوت دی تھی جن میں خود قرآن سزائے موت کو روا قرار دیتا ہے۔
میرا خیال ہے آپ یہاں الجھ رہے ہیں ۔ قرآن نے واضع الفاظ میں قتل کی سزا قتل مقرر کی ہے ۔ مگر واضع رہے کہ یہ انتہائی سزا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن دوسرا راستہ ہرگز نہیں پیدا کرتا کہ دیعت کے معاملے پر مجرم بری ہوسکتا ہے ۔ آپ زبردستی موت کی سزا کو ہرحال میں حتمی سزا بنا رہے ہیں ۔ جبکہ میں اپنی پچھلی پوسٹ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر مجرم کسی بھی رعایت کا مستحق نہیں ہے تو پھر سزائے موت دی جاسکتی ہے ۔ یہی قرآن کا بھی تقاضا ہے ۔ مگر قتل کی سزا صرف قتل ہے ، چاہے عوامل کچھ بھی رہے ہوں ۔ تو میرے خیال میں یہ رائے غلط ہے ۔ ورنہ قرآن دیعت کے قانون کو کبھی بھی متعارف نہیں کراتا ۔

آج کل سزائے موت کو ختم کرنے کی جو عالمی مہم جاری ہے، کیا ہمیں قرآنی تعلیمات کو نظر انداز کرکے اس کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں، اس حوالے سے بحث کی جائے تو مناسب ہوگا۔ نیز یہ کہ اگر اس سزا کا کلیتا خاتمہ کردیا جائے تو کیا اللہ کے خلاف کُھلی بغاوت نہیں ہوگی؟
یہ بلکل ایک الگ استدلال ہے ۔ میرا خیال ہے کہ قرآن کے قانون کو یہاں آسان لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس سے میں واضع ہے کہ قرآن سزائے موت یکسر ختم کرنے کا قائل نہیں ہے ۔ چونکہ انسانی زندگی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس لیئے اللہ نے سزائے موت کیساتھ دیعت کے قانون کو بھی شریعت بنا کر متعارف کرایا ہے کہ جہاں گنجائش نکلتی ہے وہاں یہ معاملہ کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ سزائے موت دی جائے گی ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ شریعت میں اس خوف کو بھی قائم کیا گیا ہے کہ کسی کو قتل کرنے کے جرم میں قتل بھی کیا جاسکتا ہے ۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر کوئی قتل کا لائنس حاصل کرلے ۔ اور یہ بھی خیال رکھا گیا ہے کہ حالات اور واقعات کو مدنظر رکھ کر کہیں ایسی لچک پیدا ہو رہی ہے کہ دیعت پر معاملہ ہو رہا ہے تو مجرم بری ہوسکتا ہے ۔
عالمی سطح پر جو بھی مہم جاری ہے ۔ اس سے قرآن کے قانون پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اول و آخر ہمیں اپنی شریعت کو ہی اپنا نا ہے ۔
 
میرا خیال ہے کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا اور پھانسی دینا ۔ دونوں ہی صورتوں میں انسانی جان لی جاتی ہے ۔ بادشاہوں کے مظالم کے اسباب اور مختلف حالات ( طولِ اقتدار ) میں کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا ، یہ ایک الگ بحث ہے اور یہاں یہ اسباب زیرِ بحث نہیں ہیں ۔ سزا کو مکمل طور پر ساقط کرنا میری پوسٹ سے ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ قرآن کی ہدایات کے مطابق مجرم کے حالات و شواہد کی روشنی میں انتہائی سزا بھی دی جاسکتی ہے اور کم سزا بھی ۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بھی قحط کے زمانے میں چوری کی سزا ( ہاتھ کاٹنے کی سزا ) کو ساقط کردیا تھا ۔ جو بلکل اللہ کی اس حکمت کے مطابق تھی۔ جو قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔


یہ بات تو میری پوسٹ میں کہیں بھی واضع نہیں ہے کہ آئندہ کسی کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی ۔ باقی منطقی والی بات سمجھ نہیں آئی ۔


میرا خیال ہے آپ یہاں الجھ رہے ہیں ۔ قرآن نے واضع الفاظ میں قتل کی سزا قتل مقرر کی ہے ۔ مگر واضع رہے کہ یہ انتہائی سزا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن دوسرا راستہ ہرگز نہیں پیدا کرتا کہ دیعت کے معاملے پر مجرم بری ہوسکتا ہے ۔ آپ زبردستی موت کی سزا کو ہرحال میں حتمی سزا بنا رہے ہیں ۔ جبکہ میں اپنی پچھلی پوسٹ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر مجرم کسی بھی رعایت کا مستحق نہیں ہے تو پھر سزائے موت دی جاسکتی ہے ۔ یہی قرآن کا بھی تقاضا ہے ۔ مگر قتل کی سزا صرف قتل ہے ، چاہے عوامل کچھ بھی رہے ہوں ۔ تو میرے خیال میں یہ رائے غلط ہے ۔ ورنہ قرآن دیعت کے قانون کو کبھی بھی متعارف نہیں کراتا ۔


یہ بلکل ایک الگ استدلال ہے ۔ میرا خیال ہے کہ قرآن کے قانون کو یہاں آسان لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس سے میں واضع ہے کہ قرآن سزائے موت یکسر ختم کرنے کا قائل نہیں ہے ۔ چونکہ انسانی زندگی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس لیئے اللہ نے سزائے موت کیساتھ دیعت کے قانون کو بھی شریعت بنا کر متعارف کرایا ہے کہ جہاں گنجائش نکلتی ہے وہاں یہ معاملہ کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ سزائے موت دی جائے گی ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ شریعت میں اس خوف کو بھی قائم کیا گیا ہے کہ کسی کو قتل کرنے کے جرم میں قتل بھی کیا جاسکتا ہے ۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر کوئی قتل کا لائنس حاصل کرلے ۔ اور یہ بھی خیال رکھا گیا ہے کہ حالات اور واقعات کو مدنظر رکھ کر کہیں ایسی لچک پیدا ہو رہی ہے کہ دیعت پر معاملہ ہو رہا ہے تو مجرم بری ہوسکتا ہے ۔
عالمی سطح پر جو بھی مہم جاری ہے ۔ اس سے قرآن کے قانون پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اول و آخر ہمیں اپنی شریعت کو ہی اپنا نا ہے ۔
رائے دینے کے لیے شکریہ۔ واقعی ہمیں اول و آخر اپنی شریعت کو ہی اپنانا ہے۔
 

زیک

مسافر
میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ مذہب سے لاتعلق ہو کر اُمورِ سلطنت کیسے چل سکتے ہیں۔ بہر حال آپ اپنی رائے یہاں دے سکتے ہیں۔

رائے دینے کی اجازت کا شکریہ مگر ساتھ ہی آپ یہ بھی کہتے ہیں:
نیز یہ کہ اگر اس سزا کا کلیتا خاتمہ کردیا جائے تو کیا اللہ کے خلاف کُھلی بغاوت نہیں ہوگی؟
اس کے بعد بحث کی کیا گنجائش ہے؟ بہرحال ۔۔۔

اگر اس سزا کا غلط استعمال ہوا ہے تو اس میں اس سزا کو ساقط کرنے کا جواز پیدا نہیں ہو جاتا۔
اگر systematically سزائے موت کا غلط استعمال ہوا ہو تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اسے ختم یا معطل کر دیا جائے؟ قیدی کو آپ آزاد کر سکتے ہیں جبکہ زندگی چھیننے کے بعد واپس نہیں دے سکتے۔

آج کل سزائے موت کو ختم کرنے کی جو عالمی مہم جاری ہے، کیا ہمیں قرآنی تعلیمات کو نظر انداز کرکے اس کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں، اس حوالے سے بحث کی جائے تو مناسب ہوگا۔
کیا یہاں social science اور criminology کے مطالعہ سے بات ہو سکتی ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ غلط سزا اور بےگناہ کو سزا کا تناسب کیا ہے؟ کیا ہمیں علم ہے کہ سزائے موت ایک شخص جو قتل کرنے چلا ہے اسے کتنا ڈراتی ہے اور قتل کرنے سے روکتی ہے؟
 
رائے دینے کی اجازت کا شکریہ مگر ساتھ ہی آپ یہ بھی کہتے ہیں:

اس کے بعد بحث کی کیا گنجائش ہے؟ بہرحال ۔۔۔


اگر systematically سزائے موت کا غلط استعمال ہوا ہو تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اسے ختم یا معطل کر دیا جائے؟ قیدی کو آپ آزاد کر سکتے ہیں جبکہ زندگی چھیننے کے بعد واپس نہیں دے سکتے۔


کیا یہاں social science اور criminology کے مطالعہ سے بات ہو سکتی ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ غلط سزا اور بےگناہ کو سزا کا تناسب کیا ہے؟ کیا ہمیں علم ہے کہ سزائے موت ایک شخص جو قتل کرنے چلا ہے اسے کتنا ڈراتی ہے اور قتل کرنے سے روکتی ہے؟
آپ کے خیالات پر میں بوجوہ بحث نہیں کرتا ۔
البتہ کیا یہ تضاد نہیں کہ اگر ایک شخص کسی کو قتل کرے تو قاتل کو سزائے موت دینا اُس سے زندگی چھیننے کے مترادف قرار دیا جائے لیکن "دنیا کو محفوظ" بنانے کا نعرہ لگانے والے جدید جمہوری ممالک کو (جو سب سزائے موت ختم کرنے کے وکیل بنے ہوئے ہیں) یہ اجازت ہے کہ جس ملک کے عوام کو چاہیں تھوک کے بھاو زندگی کی نعمت سے محروم کردیں۔
اب براہِ کرم یہ بودی دلیل نہ دے جائے کہ دونوں معاملات میں بہت فرق ہے، بات انسانی جان لینے کی ہے۔ اگر دنیا کے درجنوں ممالک کو
"دہشتگردی کے خلاف جنگ" میں یہ اجازت ہے کہ وہ ماورائے قانون ہلاکتوں کے لیے کسی کو جواب دہ نہ ہوں، تو مذہب تو پھر بھی آپ کو اپنے معاشرے کو قتل جیسے فتنے سے محفوظ رکھنے کے لیے پوری تفتیش و تحقیق کے بعد پھانسی دینے کی اجازت دیتا ہے۔
بہرحال رائے دینے کا دوبارہ شکریہ۔
 

x boy

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

انڈیا کے ایک ہندو مذہبی پیشوا سیاست دان نے ایک دن کہا ، ریپ کرنے والوں کو گولی ماردینی چاہیے پھر دیکھتا ہوں کون ریپ کرتا ہے۔
اور لوجی مسلمان کے نام والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہے ہیں۔
مغربی جادو سر چڑ کر بول رہا ہے۔
 
Top