غالِبؔ کی اِیک غزل جو کہ دیوانِ غالِبؔ میں نہیں ہے - "ہر جُستجُو عَبث جو تِری جُستجُو نہ ہو"

عؔلی خان

محفلین
گویا آپ کی نظر میں غالب کے کلام کی جانچ کے لیے میراثیوں بھانڈوں کے اقوال سند قرار پاتے ہیں۔ واہ چہ خوب۔

حضور! ہم جیسے طفلِ مکتب لوگوں کی کوئی "نظر" ہے ہی نہیں۔ ویسے سنا ہے کہ غالب نے بھی اپنی شاعری کی کسی دربار میں طوائف گیری کی تھی۔ کیا غالب کا یہ کام "میراثیوں بھانڈوں" سے کم تھا؟ مہدی حسن اور جگجیت سنگھ جیسے "میراثیوں بھانڈوں" نے اردو شاعری کو ایک بار پھر ہم جیسے طفلِ مکتب لوگوں کے درمیان متعارف کروایا۔ ہم تو جی ان کی شراکت کو مانتے ہیں۔ چاہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔

" جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے"

آپ کے ساتھ "علمی گفتگو"نہیں ہو سکتی کیونکہ آپ بغیر تحقیق کیے محض اپنے "تنقیدی جائزہ" کی بنیا د پرفتویٰ لگا دیتے ہیں۔ اور وہ بھی انتہائی جارحانہ انداز میں۔ بہر حال۔۔۔ شکریہ۔ :)
 

عؔلی خان

محفلین
گویا ہم اس لڑی کے عنوان کو یوں کردیں
’’غالب کی ایک غزل جو نہ غالب کی ہے اور نہ دیوانِ غالب میں ہے، بلکہ مہدی حسن نے گائی ہے‘‘

یہ آپ کا فورم ہے جو مرضی کریں۔ لیکن صرف اور صرف فاتح صاحب کے "تنقیدی جائزہ" اور فتویٰ کی بنیاد پراور بغیر مزید تحقیق کے اور دوسروں کی شراکت کے (خصوصاً اساتذہ اور دیگر غالبیت میں پی ایچ ڈی رکھنے والے اس فورم کے محفلین) اس لڑی کا عنوان بدل دینا (میری عاجزانہ رائے کے مطابق) قبل از وقت ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ آپ کا فورم ہے جو مرضی کریں۔ شکریہ۔ :)
 
آخری تدوین:

عؔلی خان

محفلین
اب ذرا منطقی طور پر ان اشعار کو دیکھتے ہیں۔۔۔

اس شعر میں نہ صرف تمام الفاظ چن کر دیوانِ غالب کے ہی استعمال کیے گئے ہیں بلکہ دل کو سنگ و خشت سے تشبیہ دینے کا محاورہ تک غالب کے شعر میں سے چرایا گیا ہے:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
لیکن غالب نے اسم واحد دل کو براہ راست اسم جمع قرار نہیں دیا تھا کہ دل سنگ اور خشت ہے۔

اس شعر میں صرف ایک لفظ "رائگاں" ایسا ہے جو غالب کے اشعار سے نہیں لیا گیا باقی نہ صرف تمام الفاظ بلکہ کسی شے پر خاک کا محاورہ اور لہو رونے کا محاورہ بھی غالب کے اشعار سے نکال کر شامل کیا گیا ہے:
خاک ایسی زندگی پہ
ایسا آساں نہیں لہو رونا

اس شعر میں بھی اوپر کے دو شعروں کی طرح تمام کے تمام الفاظ دیوانِ غالب سے چربہ ہیں لیکن غالب نے "فضول" کے لفظ کو بمعنی بکواس، فالتو یا ناکارہ کبھی نہیں برتا بلکہ محض زیادہ یا وافر کے معنوں میں استعمال کیا ہے:
شوقِ فضول و جراتِ رندانہ چاہیے

یوں تو اس شعر میں بھی تمام الفاظ غالب کے دیوان سے چرائے گئے ہیں لیکن۔۔۔ اس شعر میں کافی شواہد ایسے موجود ہیں جن سے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ لغو بکواس غالب کی نہیں ہو سکتی۔
اول۔ نمازِ عشق کی اصطلاح غالب کے ہاں نہیں پائی جاتی بلکہ شاید اس دور کے کسی بھی شاعر کے ہاں نہیں ہے یہ اصطلاح کیونکہ اس اصطلاح کا پہلا ماخذ شاید بلھے شاہ کے ہاں ملتا ہے اور یوں یہ بلھے شاہ ہی کی ایجاد ہے۔
دوم۔ مقبولیّت کی ی کو بلا تشدید باندھنے کا مکروہ کام غالب سے متوقع نہیں۔
سوم۔ مقبولیت کو قبولیت کے معنوں میں غالب نے استعمال نہیں کیا۔ بجائے اس کے ہاں قبول ہونے کا محاورہ رائج ہے۔
چہارم۔ مصرع ثانی میں "اپنے" خونِ جگر جیسی کمزور ترکیب جو محض وزن پورا کرنے کی کوشش محسوس ہوتی ہو، غالب نہیں برتتا۔

مجموعی طور پر بات کی جائے تو چاروں اشعار میں محض علت ہی علت ہے یعنی یوں نہ ہو تو یوں اور یوں نہ ہو تو یوں۔۔۔ کم از غالب سے ایسے گھٹیا پن کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ چار اشعار لکھے اور چاروں صرف یوں نہیں تو تُوں نہیں کا مضمون ہی بیان کر رہے ہوں۔ نیز، چاروں اشعار میں صرف 2 الفاظ (رائیگاں اور مقبولیت) ایسے ہیں جو غالب کے دیوان سے نہیں چرائے گئے اور ان دو الفاظ میں سے بھی ایک (مقبولیت) کو ہر دو تلفظ اور معنی کے اعتبار سے غلط یا کم از کم غالب کے انداز سے ہٹ کر باندھا گیا ہے۔

گویا آپ کے "تنقیدی جائزہ" کے مطابق ایک نا معلوم شاعر نے چُن چُن کر دیوانِ غالب سے نہ صرف الفاظ چرائے بلکہ ایک پوری غزل لکھ ماری جو کہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہے۔ اور پھر مہدی حسن جیسے "میراثی اور بھانڈ "نے اس غزل کو پاکستان ٹیلویژن کی ایک محفل میں سب کے سامنے دیدہ دلیری کے ساتھ گا بھی دیا۔ مجھے تو آج تک ایسا شاعر نہیں ملا جو کہ یہ چاہے گا کہ مہدی حسن جیسا "میراثی اور بھانڈ " (وہ بین الاقومی ایوارڈ یافتہ "میراثی اور بھانڈ " جس کے پاس احمد فراز جیسے شاعر اپنی غزل خود لے کر جاتے تھے-) اس کی غزل کو (چاہے وہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہی کیوں نہ ہو۔) اس کے نام کی بجائے غالب کیا کسی اور کے نام پر گا دے -یا حیرت! "تنقیدی جائزہ" میں آبجیکٹویٹی بھلا کس بلا کا نام ہے۔ شکریہ۔ :)
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
گویا آپ کے "تنقیدی جائزہ" کے مطابق ایک نا معلوم شاعر نے چُن چُن کر دیوانِ غالب سے نہ صرف الفاظ چرائے بلکہ ایک پوری غزل لکھ ماری جو کہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہے۔ اور پھر مہدی حسن جیسے "میراثی اور بھانڈ "نے اس غزل کو پاکستان ٹیلویژن کی ایک محفل میں سب کے سامنے دیدہ دلیری کے ساتھ گا بھی دیا۔ مجھے تو آج تک ایسا شاعر نہیں ملا جو کہ یہ چاہے گا کہ مہدی حسن جیسا "میراثی اور بھانڈ " (وہ بین الاقومی ایوارڈ یافتہ "میراثی اور بھانڈ " جس کے پاس احمد فراز جیسے شاعر اپنی غزل خود لے کر جاتے تھے-) اس کی غزل کو (چاہے وہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہی کیوں نہ ہو۔) اس کے نام کی بجائے غالب کیا کسی اور کے نام پر گا دے -یا حیرت! "تنقیدی جائزہ" میں آبجیکٹویٹی بھلا کس بلا کا نام ہے۔ شکریہ۔ :)

علی خان ورورا لگ یخ شہ (اولمبہ چے یخ شے) :p:p

حوالے کے لئے کالی داس گپتا رضا کا لنک میں دے چکا ہوں جس میں تمام غیر مطبوعہ کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس میں مجھے یہ غزل نہیں ملی۔

جہاں تک مہدی حسن کے مراسی ہونے کا تعلق ہے تو اس جملے پر مجھے بھی اعتراض ہے کیونکہ مہدی حسن بھی فنِ موسیقی کے استادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ مراسی لفظ گانے والے کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے لیکن عرف عام میں یہ تذلیل کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ تحسین کے لئے۔
 

جیہ

لائبریرین
مڑہ علی خان ورور د وڑے نہ لویہ جوڑہ کڑہ۔ زہ پخیمانہ یم چے ما ولے دا لڑئ تازہ کولہ:(
 

قیصرانی

لائبریرین
فاتح بھائی کی بات درست ہے کہ جب برادرم خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ غالب کی غزل ہے تو اس کا ثبوت دینا چاہیئے۔ محض یہ کہہ دینا کہ میں نے سنا ہے، کافی دلیل نہیں۔ فاتح بھائی نے اگرچہ سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن ان کی بات بجا ہے۔ یا تو آپ کوئی ثبوت لائیے کہ غالب نے کس دوست کو کب یہ خط لکھا اور وہ خط کس کتاب موجود ہے، تو آپ کی بات بجا ہے۔ ورنہ لہجے کی تلخی کا بہانہ کر کے دلائل کو مسترد نہ کیجیئے :)
 
آخری تدوین:

عؔلی خان

محفلین
فاتح بھائی کی بات درست ہے کہ جب @عؔلی خان کا دعویٰ ہے کہ یہ غالب کی غزل ہے تو اس کا ثبوت دینا چاہیئے۔ محض یہ کہہ دینا کہ میں نے سنا ہے، کافی دلیل نہیں۔ فاتح بھائی نے اگرچہ سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن ان کی بات بجا ہے۔ یا تو آپ کوئی ثبوت لائیے کہ غالب نے کس دوست کو کب یہ خط لکھا اور وہ خط کس کتاب موجود ہے، تو آپ کی بات بجا ہے۔ ورنہ لہجے کی تلخی کا بہانہ کر کے دلائل کو مسترد نہ کیجیئے :)

جناب قیصرانی صاحب ! یہاں کوئی "بہانہ" نہیں بنا یا جا رہا۔ بلکہ اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ مزید تحقیق ہونی چاہیے (ماورائے فاتح صا حب کے "تنقیدی جائزہ"، "فتویٰ" اور "دلائل " کے) کہ آیا یہ غزل غالب کی ہے یا نہیں۔ شکریہ- :)
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب قیصرانی صاحب ! یہاں کوئی "بہانہ" نہیں بنا یا جا رہا۔ بلکہ اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ مزید تحقیق ہونی چاہیے کہ آیا یہ غزل غالب کی ہے یا نہیں۔ شکریہ- :)
جی وہی بات سید ذیشان صاحب نے کالی داس کا حوالہ دے کر واضح کی ہے کہ یہ غالب کے مطبوعہ یا غیر مطبوعہ مستند کلام میں شامل نہیں اور فاتح بھائی نے تکنیکی اعتبار سے بھی واضح کر دیا کہ یہ غالب کا کلام نہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ بات ایک طرح سے ثابت ہی سمجھیں :) تاہم یہ میری برادرانہ رائے ہے۔ آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کے علاوہ ہماری محفل میں جیہ غالب کی سب سے بڑی پرستار ہیں اور انہیں غالب کے زیادہ تر اشعار زبانی بھی یاد ہیں، اگر انہیں بھی یہ غزل غالب سے متعلق محسوس ہوتی تو وہ بھی اس بارے رائے ضرور دیتیں
 

سید ذیشان

محفلین
ویسے میرے پاس کچھ دھماکہ خیز مواد اب بھی موجود ہے۔ ذرا معاملہ ٹھنڈا ہو اور علی خان افطاری کر لیں، پھر پیش کروں گا۔ :LOL:
 

قیصرانی

لائبریرین
ویسے میرے پاس کچھ دھماکہ خیز مواد اب بھی موجود ہے۔ ذرا معاملہ ٹھنڈا ہو اور علی خان افطاری کر لیں، پھر پیش کروں گا۔ :LOL:
ضروری اعلان: فیس بک کا مواد اوپر موجود موٹے موٹے حروف والے مقصد کے لئے ہرگز نہیں استعمال ہو سکتا
 

عؔلی خان

محفلین
جی وہی بات سید ذیشان صاحب نے کالی داس کا حوالہ دے کر واضح کی ہے کہ یہ غالب کے مطبوعہ یا غیر مطبوعہ مستند کلام میں شامل نہیں اور فاتح بھائی نے تکنیکی اعتبار سے بھی واضح کر دیا کہ یہ غالب کا کلام نہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ بات ایک طرح سے ثابت ہی سمجھیں :) تاہم یہ میری برادرانہ رائے ہے۔ آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں

جناب ٖقیصرانی صاحب! آپ یقین رکھئے کہ میری یہاں کسی کا ساتھ کسی قسم کی کوئی ضد یا عداوت نہیں ہے۔ غالب کے پرستاروں کی غالب کے ساتھ وارفتگی، محبت اور عقیدت اپنی جگہ لیکن کیا غالب شناسی کے ماہرین (یہ اور بات ہے کہ شایداس فورم پر یا آن لائن غالب شناسی کے ماہرین اپنا وقت صرف نہ کرتے ہوں۔ اگر ایسی بات ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔) اور اساتذہ کی نگرانی میں مزید تحقیق میں کوئی مضائقہ ہے کہ آیا یہ غزل غالب کی ہے یا نہیں؟ اگر کالی داس کی کتاب آن لائن مہیا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ غالب کے متعلق بہت ساری اہم اور مفید کتابیں ابھی تک آن لائن مہیا نہیں ہیں۔ مثلآ پختونوں کی تاریخ سے متعلق بہت ساری کتابیں آن لائن مہیا نہیں ہیں۔ اگر آپ غیرجانبداری سے،آبجیکٹیویٹی سے اور سنجیدگی کے ساتھ میری اس غزل کی تحقیق کی بابت غور کریں گے تو امید ہے کہ آپ کو میرا مافی الضمیر سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ بہرحال۔۔۔ شکریہ۔ :)
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
جناب ٖقیصرانی صاحب! آپ یقین رکھئے کہ میری یہاں کسی کا ساتھ کسی قسم کی کوئی زد یا عداوت نہیں ہے۔ غالب کے پرستاروں کی غالب کے ساتھ وارفتگی، محبت اور عقیدت اپنی جگہ لیکن کیا غالب شناسی کے ماہرین (یہ اور بات ہے کہ شایداس فورم پر یا آن لائن غالب شناسی کے ماہرین اپنا وقت صرف نہ کرتے ہوں۔ اگر ایسی بات ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔) اور اساتذہ کی نگرانی میں مزید تحقیق میں کوئی مضائقہ ہے کہ آیا یہ غزل غالب کی ہے یا نہیں؟ اگر کالی داس کی کتاب آن لائن مہیا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ غالب کے متعلق بہت ساری اہم اور مفید کتابیں ابھی تک آن لائن مہیا نہیں ہیں۔ مثلآ پختونوں کی تاریخ سے متعلق بہت ساری کتابیں آن لائن مہیا نہیں ہیں۔ اگر آپ غیرجانبداری سے،آبجیکٹییویٹی سے اور سنجیدگی کے ساتھ میری اس غزل کی تحقیق کی بابت غور کریں گے تو امید ہے کہ آپ کو میرا مافی الضمیر سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ بہرحال۔۔۔ شکریہ۔ :)
میں آپ کی کیفیت سمجھ رہا ہوں۔ غالب کا پورا دیوان ہماری محفل میں ہی برقیایا گیا ہے۔ اس پر جتنی تحقیق محفل پر ہو چکی ہے، شاید پوری آن لائن دنیا میں اس سے زیادہ عرق ریزی سے کام نہیں ہوا۔ اس بارے آپ کی رہنمائی کرنے کے لئے جیہ کو تکلیف دے رہا ہوں
 

جیہ

لائبریرین
علی خان ورورہ! آپ ناراض نہ ہو۔ میں پہلے ہی دن سے صد فی صد متفق تھی کہ یہ غزل ہرگز ہرگز غالب کی نہیں ہو سکتی۔ اسی وجہ سے میں نے اس پوری بحث میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ میں صرف واضح کرنا چاہوں گی کہ ہم نے پورے دو سال اس نسخے پر محنت کی ہے اور میں نے کسی آن لائن چیز سے استفادہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی بابا جانی نے۔ ہم نے مشہور و مستند دونوں قسم کے تقریبا 10 نسخوں کو مد نظر رکھا تھا۔ ہم دونوں نے ایک ایک شعر، ایک ایک لفظ، ایک ایک زیر اضافت ایک ہمزہ پر بحث در بحث کی تب جاکے وہ ہمارے نسخے کا حصہ بنا تھا۔
جس کا سارا رکارڈ میرے پاس موجود ہے۔

اس تفصیل سے مقصود یہ ہے کہ یہ غزل ہم سے نہیں چھوٹ سکتی تھی اگر غالب کی ہوتی۔
ایک اعتراف میں ضرور کر لوں کہ کالی داس گپتا کے دیوان سے اس نسخے میں کوئی حصہ نہیں لیا گیا کیون کہ اس وقت میرے پاس یہ نسخہ موجود نہیں تھا


و ما علینا اللبلاغ۔ :)
 
Top