ڈاکٹرفرمان فتح پوری۔۔۔ ہستی ہماری ،اپنی فناپردلیل ہے۔۔۔۔ از خاور چودھری

خاورچودھری

محفلین
  • غالب نے کہاتھا:
  • سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیاخبر!
  • وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپاالم ہوئے
  • آج اپنی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔یوں جیسے محبوب ترین ہستی کھوگئی ہو۔ میں نہیں جانتامیراڈاکٹرفرمان فتح پوری صاحب سے کیاتعلق ہے اوراس میں کتنااستحکام ہے۔ لیکن یہ ضرورجانتا ہوں کہ اُن کی رحلت کی خبرنے میراکلیجہ پکڑ لیا ہے۔ میرااُن سے تعلق ۱۹۹۹ء کے آخر میں استوار ہواجب میں یہاں حضروسے ادبی رسالہ’سحرتاب‘ شروع کرناچاہتاتھا۔ان سے رابطہ ہوا پھر ان کاایک مضمون سحرتاب کے اولیں شمارے جنوری دوہزار کی زینت بنا۔مضمون چھپاتوانھوں نے جس محبت بھرے الفاظ سے خط لکھاوہ دل میں پیوست ہوکے رہا۔بعد میں جب ہم نے ہفت روزہ’تیسرارُخ‘ میں ادبی صفحہ شامل کیاتواس میں مشاہیراَدب کے انٹرویوزکاسلسلہ بھی تھا۔اس سلسلے کو مقبولیت نصیب ہوئی۔اخبارچوٹی کے بیش ترادیبوں کو ارسال کیاجاتاتھا۔اس لیے اس پررائے بھی آتی تھی۔میں نے دیکھا کہ ڈاکٹرفرمان فتح پوری صاحب پیرانہ سالی کی باوجوددوسروں سے بہت مختلف طرح پیش آتے۔ کسی نہ کسی شمارے پرلازمی تبصرہ فرمایا کرتے تھے۔ میراخیال تھا کہ میں کسی مناسب وقت میں ان کامکالمہ بھی اخبار میں شامل کروں گا مگرمیری مصروفیات کے انتشارسے وہ سلسلہ ہی موقوف ہوگیا۔ آج جب میں یہ سطریں لکھ رہاہوں، تومجھے اُس زمانے کے احساسات وتجربات یادآرہے ہیں۔ میرے مشاہدے میںآیا کہ کراچی میں مقیم مہاجر ادیب اس ضمن میں سب سے زیادہ فیاض ہیں۔ان لوگوں سے جب بھی اورجس ادبی مقصدکے لیے بھی رابطہ کیا۔انھوں نے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی۔میرے ذہن میں اب اچانک جنابِ محسن بھوپالی مرحوم کاسراپابھی گھوم گیا ہے۔ دوسرے درجے میں پنجاب یالاہور کے ادیب ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جوفوراًجواب دیتے ہیں۔ورنہ اکثریت نظرانداز کردیتی ہے۔ خیبرپختون خواسے ایبٹ آبادکواستثناحاصل ہے۔یہ لوگ بھی اہل کراچی کی طرح محبت کے خوگرہیں،جب کہ پشاورکے ادیب خاص مسلک یاخاص مقصد کے تحت ہی رابطہ کرتے ہوں تو ہوں،ورنہ نہیں۔کراچی کی عمومی فضا کے باوجودڈاکٹرفرمان فتح پوری صاحب بہت حوالوں سے ممتازہیں۔
  • آج جب وہ منوں مٹی اوڑھ کے سوچکے ہیں ،تومجھے احساس ہوتا ہے کہ حضروجیسے چھوٹے سے شہرکے چھوٹے سے اخبارکے لیے وہ کیوں کروقت نکال لیا کرتے تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں،مجلسی زندگی،تخلیقی وتحقیقی کام اوربے پناہ مصروفیت میں سے وقت نکالنایقینابہت بڑاکام ہے۔پھراس پرعمرکی تھکاوٹ بھی۔ جنوری دوہزارآٹھ میں میرا افسانوی مجموعہ’چیخوں میں دبی آواز‘ شائع ہواتوحسبِ معمول ایک نسخہ ان کی خدمت میں بھی پیش کیا۔جون دوہزارآٹھ میں اس مجموعے پران کامضمون’چیخوں میں دبی آواز اورخاورچودھری‘ کے عنوان سے ’اخباراُردو‘ اسلام آباد میں شائع ہواتومیری خوشی کی انتہانہیں تھی۔میرے لیے یہ بہت بڑااعزازہے کہ ایک ایساشخص جس نے تحقیق وتنقید کے میدانوں میں اپناسکہ جما رکھا ہے ۔جس کانام پاک وہند میں لوگ احترام سے لیتے ہیں، میری اولیں کاوش پرتعریف وتحسین کرے۔میں جوپہلے ہی ان کاگرویدہ تھااس بات سے مزیددلی طور پران کے قریب ہو گیا۔ مجھے مضمون پڑھ کرحیرت ہوئی کہ وہ ہمارے شہرسے متعلق بہت کچھ جانتے تھے ۔یہاں بولی جانے والی بولیوں سے بھی آگاہ تھے۔ابھی کچھ دن سے میرے ذہن میں یہ خیال بیٹھا ہوا ہے کہ ’تیسرارُخ‘ میں شامل وہ تمام مکالمات کتابی صورت میں شائع کردیے جائیں۔ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں ہے کہ کچھ اور لوگوں تک بھی رسائی حاصل کرکے پھرکتاب شائع کی جائے۔ڈاکٹرصاحب ان لوگوں میں سرفہرست تھے۔لیکن میں اسے اپنی کوتاہی کہوںیاکم بختی کہ میں اس اعزاز سے محروم رہ گیاہوں۔آج وہ ہم میں نہیں ہے ،تومجھے شدت سے اس بات کااحساس ہورہاہے۔
  • اُردوادب ایک درخشندہ ستارے سے محروم ہوگیا۔ حکومتِ پاکستان نے بھی مرحوم کو’ستارۂ امتیاز‘ سے نوازرکھاتھا۔اپنی زندگی کابڑاحصہ علم واَدب اورزبان کی آب یاری میں گزاردیا۔پاک وہندمیں شاید ہی کوئی ادب کاطالب علم ایسا ہوجواس سانحہ پررنج آشنانہ ہو۔میں نے صبح بعض دوستوں کو گشتی پیغام (موبائل میسج ) کے ذریعے اس سانحے سے متعلق آگاہ کیاتواکثر نے غم اوردُکھ کااظہار کیا۔معروف نقاد اورممتاز افسانہ نگارڈاکٹرمرزاحامدبیگ ،لاہورنے جواب میں کہا’جی 87جیے دلداربھائی۔‘ڈاکٹرصاحب کاخاندانی نام سیددلاور علی تھا۔وہ صدراُردو ڈکشنری بورڈ رہے۔جامعہ کراچی سے وابستہ رہے۔اس کے علاوہ بھی اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ لیکن زبان واَدب میں اپنی ذاتی جدوجہد سے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جو بغیرصلہ وستائش کے بس کام کیے جاتے ہیں۔انھوں نے درجنوں کتابیں اورسیکڑوں مقالات لکھے۔وہ ہمہ جہت انسان تھے۔غالب پرکام کیا تواُردوفکشن کوبھی نظرانداز نہیں کیا۔ قدیم مثنویوں کاکھوج لگایا تومجھ ایسے نوآموزلوگوں کوبھی نگاہ میں رکھا۔تذکرہ نویسی،نعت نگاری،تدریس کے مسائل،املااوررسم الخط کی اُلجھنوں سمیت تحقیق وتنقید کے متعددموضوعات پر قلم اٹھایا۔محض یادنگاری کے لیے ان کی کچھ کتابوں اور مقالات کاحوالہ دیتاہوں’اردورُباعی‘،تدریسِ اُردو،’اُردوفکشن کی مختصرتاریخ‘،’ شرح ومتن،غزلیاتِ غالب‘،’ہندی اُردوتنازع‘،اُردو افسانہ اور افسانہ نگاری‘،نیازفتح پوری،دیدہ وشنیدہ‘،’قمرزمانی بیگم‘،’زبان اوراُردوزبان‘،’اُردوکی منظوم داستانیں‘،تحقیق وتنقید‘،’فنِ تاریخ گوئی‘،’اُردوشعراکے تذکرے اورتذکرہ نگاری‘،’ ارمغانِ گوکل پرشاد‘،’عورت اورفنونِ لطیفہ‘،’غالب،شاعرِ امروزوفردا‘،’اُردوکی نعتیہ شاعری‘،’میرانیس حیات اورشاعری اور خودنوشت’بلاجواز‘ وغیرہم۔علامہ اقبال اورمرزاغالب کے حوالے سے توان کانام سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ان دونوں شاعروں کے حوالے سے ان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔
  • ابھی جویہ سطریں لکھ رہاہوں تودماغ گویاسن ہے۔بہت کچھ یادکرناچاہتاہوں اور بہت کچھ لکھناچاہتاہوں مگرحواس منتشر ہیں۔کچھ بے یقینی کی کیفیت ہے۔لفظ ساتھ نہیں دے رہے۔آنکھیں بھی نم ہیں۔میں جانتاہوں کہ میرااُن سے کبھی بھی اتناگہراتعلق نہیں رہاکہ دُنیاباخبررہتی۔ پھربھی میری حالت ایسی ہے جیسے میرے خاندان کاکوئی بزرگ ہمیں چھوڑ گیا ہو۔ذہن میں ان کی تصویرروشن ہورہی ہے۔اُن کے تبصرے اورمختصرخطوط یادآرہے ہیں۔اُن کالکھاہوا مضمون حیطۂ خیال میں جگمگارہاہے۔میں سوچ رہاہوں اُن لوگوں پر کیا گزر رہی ہو گی جواُن کے بہت قریب تھے ۔جواُن کے اپنے تھے۔ جنھوں نے اُن کے ساتھ سال ہاسال گزاردیے۔اہل کراچی اس سانحہ پربجاطورپرتعزیت کے حق دار ہیں مگراہلِ ملتان بھی تو اُن سے بہت قریب تھے۔ بہت سے لوگ ہیں کس کس کانام لیاجائے اور کس کس سے تعزیت کی جائے ؟وہ توعلاقائیت،رنگ ونسل کے امتیازات سے بلند ہوکراُردوزبان واَدب کے وابستگان سے شفقت کرتے تھے۔ان کی ادب نوازی اورادب دوستی کودیکھاجائے توہرادیب تعزیت کامستحق ہے۔ لیکن میں زمانے کے دستو ر کے مطابق ان کے پسماندگان کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ کریم انھیں صبرعطافرمائیں اورمرحوم کوبلنددرجات،آمین۔ غالب کے اس شعرکوترجمان کرکے اپنی بات ختم کرتاہوں:
  • ہستی ہماری ،اپنی فناپردلیل ہے
  • یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے
  • میراایمان ہے کہ ڈاکٹرفرمان فتح پوری مرحوم اپنی ادبی خدمات کے سبب اُردوزبان واَدب میں ہمیشہ یادرکھے جائیں گے اوراُردوزبان ان پرفخرکرتی رہے گی۔ ان شاء اللہ
 
بہت خوبصورت خراجِ عقیدت پیش کیا ہے آپ نے فرمان فتح پوری مرحوم کو۔ داد قبول فرمائیے۔ اور

بہت عرصے بعد محفل پر دوبارہ آمد پر خوش آمدید۔ امید ہے آپ سے مزید اور مسلسل استفادے کا موقع ملتا رہے گا۔
 

تلمیذ

لائبریرین
واقعی خاور چودھری صاحب، اس تحریرمیں مرحوم کے ساتھ آپ کا محبت و عقیدت بھرا تعلق صاف جھلک رہاہے۔
 
میں نے نام سنا تھا اور ڈاکٹر صاحب کی کچھ کتابیں پڑھی بھی تھیں آج آپ سے ان کے انتقال کی خبر سن کر دن ملول ہوا ،ایک عجیب سا دھچکا لگا ۔ہمارے ہی طرح دو ہاتھ دو پیر رکھنے والا انسان اتنا کام کر گیا ۔میں نے ڈاکٹر صاحب کی کتابیں جامعہ میں دیکھیں تو سوچنے لگا ایک اکیلی جان اتنا وقت کیسے نکال لیتا ہے ۔واقعی بڑے محنتی لوگ تھے ۔اب ہم کہاں سے لائیں گے ایسے لوگ ،کہاں ملیں گے ایسے علم دوست ،ہندوستان میں دارالمصنفین وغیرہ ہ اور اس کی تالیفات پر بھی ڈاکٹر صاحب نے کام کیا تھا ۔مجھے تو سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں بس اللہ ہمیں ان کا بہترنعم البدل عطا فرمائے ۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top