اقتباسات سید سرفراز شاہ صاحب کی کتاب "فقیر رنگ" سے اقتباس

محترم روحانی بابا جی بہت دعائیں آپ کے نام ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
یہ " سلاسل " اہم نہیں ہوتے ۔ بلکہ ان سلسلوں سے بندھے " انسان " اپنے اعمال و افعال سے اہم ہوتے ہیں ۔
الکاسب الحبیب اللہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کی روشن دلیل ہوتے ہیں ۔
کسی بھی " درجے " پر پہنچنے والے اللہ کے دوست " درویش فقیر " علم کو بیچا نہیں کرتے ۔ بلکہ اس " عطائے علیم " کو عطا کی صورت ہی انسانوں میں تقسیم کر دیتے ہیں ۔ اور ان انسانوں میں ہی سے کچھ انسان اپنے اعمال و افعال " کی بجائے اپنے " اقوال " سے مشہور عام ہوجاتے ہیں ۔
محترم بابا تاج صاحب ۔ محترم بابا رحمت وارثی ۔ محترم ریاض احمد گوہر شاہی ۔ محترم سید یعقوب شاہ صاحب ۔اور محترم سید سرفراز شاہ صاحب کی تعلیمات اور حالات آپ سے مخفی نہ ہوں گے ۔
اسم اعظم کے حامل " خاک " میں پہنچ ہی دنیا پر ظاہر ہوتے ہیں میرے محترم روحانی بابا جی
مجھے کوئی بدگمانی نہیں ۔ مجھے جو محسوس ہوا ۔ اس کا اظہار کر دیا ۔
شاہ جی آپ کی کم علمی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ آپ سلاسل اور اعمال و افعال کو یکجا کرکے یکساں نظر سے دیکھ رہے ہیں آپ تو بڑے ہی کوتاہ نظرنکلے۔
اب آپ سے اسم اعظم کے بارے میں کیا بات کروں کہ اسم اعظم کیا چیز ہوتی ہے جب آپ کو مبادیات کا علم ہی نہیں ہے
 

تلمیذ

لائبریرین
ان کے پیر و مرشد جناب سید یعقوب شاہ صاحب کی برسی پر بھی وہاں حاضری کا اتفاق ہوا ہے 2 مرتبہ ، میانی صاحب میں ان کا مرقد ہے اور شاہ صاحب دعا بہت سادی اور پُر اثر کرواتے ہیں

جی ہاں، اپنے چندلیکچروں میں شاہ ساحب نے ان کے بارے میں بڑی ہوشربا اور ناقابل یقین قسم کی باتیں کی ہین۔ لیکن اللہ کے ان پراسرار بندوں کے اوصاف و تصرفات کےادراک سے ہم جیسے گنہگاروں کی عقل معذور ہے۔
 

باباجی

محفلین
جی ہاں، اپنے چندلیکچروں میں شاہ ساحب نے ان کے بارے میں بڑی ہوشربا اور ناقابل یقین قسم کی باتیں کی ہین۔ لیکن اللہ کے ان پراسرار بندوں کے اوصاف و تصرفات کےادراک سے ہم جیسے گنہگاروں کی عقل معذور ہے۔

سر جی بات یہ ہے کہ
بات یقین یا بے یقینی کی ہے
جس نے یقین کیا اس کے لیئے یہ باتیں سچ ہیں
جسے یقین نہیں وہ انہیں مضحکہ خیز اور جھوٹ جانے گا
 

نایاب

لائبریرین
شاہ جی آپ کی کم علمی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ آپ سلاسل اور اعمال و افعال کو یکجا کرکے یکساں نظر سے دیکھ رہے ہیں آپ تو بڑے ہی کوتاہ نظرنکلے۔
اب آپ سے اسم اعظم کے بارے میں کیا بات کروں کہ اسم اعظم کیا چیز ہوتی ہے جب آپ کو مبادیات کا علم ہی نہیں ہے

بلا شک میں کم علم ہی نہیں بلکہ درجہ جہل میں ہوں محترم روحانی بابا جی
اگر کچھ وضاحت فرما دیں کہ سلاسل اور اعمال و افعال کو الگ الگ کون سی نگاہ سے دیکھا جائے ۔ ؟
ساتھ میں میں مجھ کم علم کو علم سے نوازتے یہ بھی آگہی دے دیں کہ
یہ " سلاسل " کہاں سے پھوٹے ہیں ؟ ان کی بنیاد " قیل و قال " پر ہے یاکہ اعمال و افعال پر ۔؟
اور کس مرکزی کھونٹے سے یہ " سلاسل " بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔؟
اقرا کو سمجھ جاؤں ا ل م کو پا جاؤں تو اسم اعظم کی راہ پاؤں میرے محترم روحانی بابا جی
" ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا " والا حال ہے اپنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عطا ہو کچھ جناب سے ۔۔۔
 
سید سرفراز حسین شاہ صاحب کے بارے میں ٹھیک اندازہ ان کی کتب پڑھ کر ہی ہوا۔ واقعی بہت سادہ آسان لیکن جادہ شریعت پر گامزن تصوف کی تعلیمات ان کی کتب سے چھلکتی ہیں۔ وہ صوفی ہوتے ہوئے بھی اندازا عالمانہ رکھتے ہیں۔
ایک بات جاننا چاہوں گا وہ ہے ممتاز مفتی صاحب کے بارے میں۔ یہ تو سب کو ہی علم ہے کہ ممتاز مفتی صاحب بنیادی طور پر قدرت اللہ شہاب صاحب مرحوم کے حلقہ اثر سے تعلق رکھتے تھے۔بعد میں وہ سید سرفارز شاہ صاحب سے قریب ہو گئے تھے۔ سرفراز شاہ صاحب سے میرا تعارف ممتاز مفتی صاحب کی کتاب الکھ نگر ی پڑھ کر ہوا۔ اس کتاب میں ممتاز صاحب نے ان کی بڑی تعریفیں کی تھیں تاہم بعد ازاں جاوید چوہدری صاحب کی کتاب گے دنوں کے سورج کا مطالعہ کیا تو اس کتاب میں ممتاز مفتی نے سرفراز شاہ صاحب کے بارے میں بڑے منفی ریکارکس دئیے ہوئے تھے کوئی اس بارے میں مزید معلومات رکھتا ہے؟ کہ کیا ہوا کہ ممتاز مفتی سرفراز شاہ صاحب سے بد ظن ہو گئے اور نیز یہ بھی کہ سنا ہے وہ آخری ایام میں پروفیسر احمد رفیق کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے تھے۔
 

باباجی

محفلین
سید سرفراز حسین شاہ صاحب کے بارے میں ٹھیک اندازہ ان کی کتب پڑھ کر ہی ہوا۔ واقعی بہت سادہ آسان لیکن جادہ شریعت پر گامزن تصوف کی تعلیمات ان کی کتب سے چھلکتی ہیں۔ وہ صوفی ہوتے ہوئے بھی اندازا عالمانہ رکھتے ہیں۔
ایک بات جاننا چاہوں گا وہ ہے ممتاز مفتی صاحب کے بارے میں۔ یہ تو سب کو ہی علم ہے کہ ممتاز مفتی صاحب بنیادی طور پر قدرت اللہ شہاب صاحب مرحوم کے حلقہ اثر سے تعلق رکھتے تھے۔بعد میں وہ سید سرفارز شاہ صاحب سے قریب ہو گئے تھے۔ سرفراز شاہ صاحب سے میرا تعارف ممتاز مفتی صاحب کی کتاب الکھ نگر ی پڑھ کر ہوا۔ اس کتاب میں ممتاز صاحب نے ان کی بڑی تعریفیں کی تھیں تاہم بعد ازاں جاوید چوہدری صاحب کی کتاب گے دنوں کے سورج کا مطالعہ کیا تو اس کتاب میں ممتاز مفتی نے سرفراز شاہ صاحب کے بارے میں بڑے منفی ریکارکس دئیے ہوئے تھے کوئی اس بارے میں مزید معلومات رکھتا ہے؟ کہ کیا ہوا کہ ممتاز مفتی سرفراز شاہ صاحب سے بد ظن ہو گئے اور نیز یہ بھی کہ سنا ہے وہ آخری ایام میں پروفیسر احمد رفیق کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے تھے۔

آپ نے اگر ممتاز مفتی صاحب کو پڑھا ہے تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ان کی شخصیت کنفیوژن کا شکار تھی ایک طرف تو وہ عقل کی کسوٹی پر سب کچھ پرکھتے تھے تو دوسری طرف اپنی شکل و صورت و گھریلو حالات کی وجہ احساس کمتری کا شکار بھی تھے ۔ ان حالات میں ان کا کسی سے بھی بدظن ہونا یا کسی کے زیر اثر آجانا کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو چھپاکر سہی لیکن لکھتے سچ تھے وہ بھی اپنے آپ کے بارے میں انسانی نفسیات کے بارے میں حالات کے زیر اثر پیش آنے والے واقعات کے بارے میں، اور یہ لازمی نہیں ہے کہ ایک ہی حلقہ میں بیٹھنے والے لوگ ایک دوسرے سے متفق ہوں۔ بہرحال ممتاز مفتی صاحب بطور لکھاری تو بہت بڑی شخصیت تھے اور ان کے حلقہ میں شامل لوگ بھی ، بطور انسان انہوں نے اپنی خامیوں کو لوگوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا سیلف کتھارسس کے ذریعے ، اور یہ بات ماننے ہوگی کہ یہ آسان کام نہیں ہے اور ایک عام سوچ رکھنے والا انسان ایسا کر ہی نہیں سکتا ، یہ تو خود رفتگی، عرفان ذات و کچھ کچھ مجذوبیت کا سا مزاج رکھنے والے لوگوں کا کام ہے
 
آپ نے اگر ممتاز مفتی صاحب کو پڑھا ہے تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ان کی شخصیت کنفیوژن کا شکار تھی ایک طرف تو وہ عقل کی کسوٹی پر سب کچھ پرکھتے تھے تو دوسری طرف اپنی شکل و صورت و گھریلو حالات کی وجہ احساس کمتری کا شکار بھی تھے ۔ ان حالات میں ان کا کسی سے بھی بدظن ہونا یا کسی کے زیر اثر آجانا کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو چھپاکر سہی لیکن لکھتے سچ تھے وہ بھی اپنے آپ کے بارے میں انسانی نفسیات کے بارے میں حالات کے زیر اثر پیش آنے والے واقعات کے بارے میں، اور یہ لازمی نہیں ہے کہ ایک ہی حلقہ میں بیٹھنے والے لوگ ایک دوسرے سے متفق ہوں۔ بہرحال ممتاز مفتی صاحب بطور لکھاری تو بہت بڑی شخصیت تھے اور ان کے حلقہ میں شامل لوگ بھی ، بطور انسان انہوں نے اپنی خامیوں کو لوگوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا سیلف کتھارسس کے ذریعے ، اور یہ بات ماننے ہوگی کہ یہ آسان کام نہیں ہے اور ایک عام سوچ رکھنے والا انسان ایسا کر ہی نہیں سکتا ، یہ تو خود رفتگی، عرفان ذات و کچھ کچھ مجذوبیت کا سا مزاج رکھنے والے لوگوں کا کام ہے
بابا جی اگر تو ممتاز مفتی رفیق اختر صاحب کے ساتھ اٹیچ ہوگئے تھے تو یہ تو گئے کام سے کیونکہ رفیق اختر ایسے ہی ہے اس کو کچھ نہیں آتا ہے رفیق اختر ایک اچھا لکھاری ہے اقوام کے عروج و زوال پر اس کی گہری نظر ہے بلکہ زبانی یاد ہے دنیاوی طور پر ہر لحاظ سےعالم فاضل اور مکمل شخصیت ہے لیکن معرفت کی ہوا بھی نہیں لگی اس کو ۔۔۔۔۔ گو سرفراز شاہ صاحب بھی اتنے بڑے آدمی نہیں ہیں لیکن چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ان پر فضل اور کرم ہوگیا ہے سو میں چاہتے ہوئے بھی ان کا انکار نہیں کرسکتا ہوں گو میرادماغ اب بھی ان کے کمالات کا انکار کرتا ہے لیکن قلب تسلیم کرتا ہے
 

باباجی

محفلین
بابا جی اگر تو ممتاز مفتی رفیق اختر صاحب کے ساتھ اٹیچ ہوگئے تھے تو یہ تو گئے کام سے کیونکہ رفیق اختر ایسے ہی ہے اس کو کچھ نہیں آتا ہے رفیق اختر ایک اچھا لکھاری ہے اقوام کے عروج و زوال پر اس کی گہری نظر ہے بلکہ زبانی یاد ہے دنیاوی طور پر ہر لحاظ سےعالم فاضل اور مکمل شخصیت ہے لیکن معرفت کی ہوا بھی نہیں لگی اس کو ۔۔۔ ۔۔ گو سرفراز شاہ صاحب بھی اتنے بڑے آدمی نہیں ہیں لیکن چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ان پر فضل اور کرم ہوگیا ہے سو میں چاہتے ہوئے بھی ان کا انکار نہیں کرسکتا ہوں گو میرادماغ اب بھی ان کے کمالات کا انکار کرتا ہے لیکن قلب تسلیم کرتا ہے

بالکل ٹھیک کہا آپ نے روحانی بابا
سرفراز شاہ صاحب کی نالج کوعقل قبول کرتی ہے لیکن دل تھوڑا تردد کے بعد آمادہ ہوتا ہے
لیکن آمادہ ہو جاتا ہے :)
 
بلا شک میں کم علم ہی نہیں بلکہ درجہ جہل میں ہوں محترم روحانی بابا جی
اگر کچھ وضاحت فرما دیں کہ سلاسل اور اعمال و افعال کو الگ الگ کون سی نگاہ سے دیکھا جائے ۔ ؟
ساتھ میں میں مجھ کم علم کو علم سے نوازتے یہ بھی آگہی دے دیں کہ
یہ " سلاسل " کہاں سے پھوٹے ہیں ؟ ان کی بنیاد " قیل و قال " پر ہے یاکہ اعمال و افعال پر ۔؟
اور کس مرکزی کھونٹے سے یہ " سلاسل " بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔ ۔۔؟
اقرا کو سمجھ جاؤں ا ل م کو پا جاؤں تو اسم اعظم کی راہ پاؤں میرے محترم روحانی بابا جی
" ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا " والا حال ہے اپنا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ عطا ہو کچھ جناب سے ۔۔۔
اعمال و افعال تو سب جانتے ہیں جسے عرف عام میں کہا جاتا ہے فلاں بندہ عالم با عمل ہے وغیرہ وغیر
جہاں تک سلاسل کا تعلق ہے تو سلاسل چار ہیں جن ے متعلق آپ اپنے قریب وجوار اخبارات یا فیس بک پر سنتے ہیں جیسے نایاب حسن چشتی، عمران احمد قادری، کریم روف سہروردی، جواد اسلم نقشبندی وغیرہ وغیرہ مندرجہ بالا چاروں سلاسل سے تمسک و عقیدت رکھتے ہیں گرچہ عمل نہیں کرتے ہونگے۔
وحدت کثرت میں مضمر ہے اور انسان کثافت کا آخری درجہ ہے یہ جب دنیا میں آتا ہے تو انتہائی لطیف ہوتا ہے یعنی بقول شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کے اس وقت اس کا نسمہ انتہائی مفرد ہوتا ہے اور جوں جوں یہ نشو نما پاتا جاتا ہے توں توں یہ مرکب ہوتا جاتا ہے۔
چونکہ کثافت یا نسمہ کا مرکب ہونا ایک فطری بات ہے اللہ تبارک تعالیٰ انسان سے محبت کرتے ہیں اس وجہ سے اس ظلمت سے چھٹکارا دلانے کے لیئے انبیاء اور اولیاء اللہ کو پیدا فرمایا جو کہ ہادی و رہنما ہیں اور اس گروہ کے سردار اور میر کارواں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
 

نایاب

لائبریرین
اعمال و افعال تو سب جانتے ہیں جسے عرف عام میں کہا جاتا ہے فلاں بندہ عالم با عمل ہے وغیرہ وغیر
جہاں تک سلاسل کا تعلق ہے تو سلاسل چار ہیں جن ے متعلق آپ اپنے قریب وجوار اخبارات یا فیس بک پر سنتے ہیں جیسے نایاب حسن چشتی، عمران احمد قادری، کریم روف سہروردی، جواد اسلم نقشبندی وغیرہ وغیرہ مندرجہ بالا چاروں سلاسل سے تمسک و عقیدت رکھتے ہیں گرچہ عمل نہیں کرتے ہونگے۔
وحدت کثرت میں مضمر ہے اور انسان کثافت کا آخری درجہ ہے یہ جب دنیا میں آتا ہے تو انتہائی لطیف ہوتا ہے یعنی بقول شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کے اس وقت اس کا نسمہ انتہائی مفرد ہوتا ہے اور جوں جوں یہ نشو نما پاتا جاتا ہے توں توں یہ مرکب ہوتا جاتا ہے۔
چونکہ کثافت یا نسمہ کا مرکب ہونا ایک فطری بات ہے اللہ تبارک تعالیٰ انسان سے محبت کرتے ہیں اس وجہ سے اس ظلمت سے چھٹکارا دلانے کے لیئے انبیاء اور اولیاء اللہ کو پیدا فرمایا جو کہ ہادی و رہنما ہیں اور اس گروہ کے سردار اور میر کارواں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

محترم روحانی بابا جی
سنی سنائی سنا رہے ہیں کیا آپ ۔۔؟
گلاب نام رکھنے یا گلاب پسند کرنے سے کیا نسبت " گلابی " ہو جاتی ہے ۔۔۔۔؟
کیا انسان کی تخلیق کہ ابتدا اک کثیف ترین قطرے سے نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔ ؟
کیا " سلاسل " صرف " چار " ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آپ نے یہ وضاحت بھی نہ کی کہ یہ " سلاسل اربعہ " کن ستونوں پر قائم ہیں ۔
یہ سلاسل اربعہ اور " وحدت و کثرت " کے فلسفے میں کیا قدر مشترک ہے ۔۔۔۔؟
 
ہر انسان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے یعنی اس کے اندر کا ایک موسم ہوتا ہے جس کو اللہ تبارک تعالیٰ نے دنیا میں ظاہر کیا ہے جیسے سردی یعنی ٹھنڈا مزاج یعنی رطوبت، حرارت یعنی گرمی ، خزان یعنی خشکی اور تری یعنی بہار۔
جیسا مزاج ہوتا ہے ویسا ہی سلسلہ ہوتا ہے جیسے سرد مزاج والے کا نقشبندیہ سلسلہ ہوتا ہے، گرم مزاج والے کا سہروردیہ ، خشک مزاج والے کا چشتیہ اور تر مزاج والے کا قادریہ
ان کے برخلاف چلے گا تو اپنے آپ کو ضائع کربیٹھے گا جیسے کہ سرد مزاج والا بندہ نقشبندیہ کی بجائے گرم مزاج والے سلسلہ سہروریہ میں داخل ہوجاے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا الٹا نقصان اور اپنے آپ کو ضائع کربیٹھے گا۔
چونکہ اس زمانے میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ مزاج کا پتہ چلالیا جاتا لہٰذا سلاسل کا نام رکھ دیا تھا جیسے ہی کوئی شخص کسی ولی کامل کے پاس بیعت کے ارادے سے آتا تو آپ اس کی شکل دیکھ کر ہی سمجھ جاتے کہ یہ کس مزاج کا بندہ ہے اگر مخالف مزاج کا ہوتا تو اس کی درست رہنمائی کردیتے کہ جاؤ فلاں بندے سے بیعت کرلو تمہارا حصہ اس کے پاس ہے۔
شاہ جی اتنا کافی ہے یا کہ مزید کچھ لکھوں؟؟؟؟
 

باباجی

محفلین
ہر انسان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے یعنی اس کے اندر کا ایک موسم ہوتا ہے جس کو اللہ تبارک تعالیٰ نے دنیا میں ظاہر کیا ہے جیسے سردی یعنی ٹھنڈا مزاج یعنی رطوبت، حرارت یعنی گرمی ، خزان یعنی خشکی اور تری یعنی بہار۔
جیسا مزاج ہوتا ہے ویسا ہی سلسلہ ہوتا ہے جیسے سرد مزاج والے کا نقشبندیہ سلسلہ ہوتا ہے، گرم مزاج والے کا سہروردیہ ، خشک مزاج والے کا چشتیہ اور تر مزاج والے کا قادریہ
ان کے برخلاف چلے گا تو اپنے آپ کو ضائع کربیٹھے گا جیسے کہ سرد مزاج والا بندہ نقشبندیہ کی بجائے گرم مزاج والے سلسلہ سہروریہ میں داخل ہوجاے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا الٹا نقصان اور اپنے آپ کو ضائع کربیٹھے گا۔
چونکہ اس زمانے میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ مزاج کا پتہ چلالیا جاتا لہٰذا سلاسل کا نام رکھ دیا تھا جیسے ہی کوئی شخص کسی ولی کامل کے پاس بیعت کے ارادے سے آتا تو آپ اس کی شکل دیکھ کر ہی سمجھ جاتے کہ یہ کس مزاج کا بندہ ہے اگر مخالف مزاج کا ہوتا تو اس کی درست رہنمائی کردیتے کہ جاؤ فلاں بندے سے بیعت کرلو تمہارا حصہ اس کے پاس ہے۔
شاہ جی اتنا کافی ہے یا کہ مزید کچھ لکھوں؟؟؟؟
بہت شکریہ
بہت ہی سادہ الفاظ میں بہت ہی اہم معلومات دیں آپ نے روحانی بابا
ایسا کرتے رہا کیجیئے کبھی کبھی
ہم ایسے دائمی طلبا کا فائدہ ہوتا ہے
 
بہت شکریہ
بہت ہی سادہ الفاظ میں بہت ہی اہم معلومات دیں آپ نے روحانی بابا
ایسا کرتے رہا کیجیئے کبھی کبھی
ہم ایسے دائمی طلبا کا فائدہ ہوتا ہے
اوہ یار یہ نایاب شاہ جی مجھے چھیڑ دیتے ہیں ورنہ میں خود سے کچھ نہیں لکھتا ہوں اب بھی اگر ان کی تسلی نہ ہوگی تو حقیقت کو مزید کھول کر بیان کرونگا
 

نایاب

لائبریرین
ہر انسان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے یعنی اس کے اندر کا ایک موسم ہوتا ہے جس کو اللہ تبارک تعالیٰ نے دنیا میں ظاہر کیا ہے جیسے سردی یعنی ٹھنڈا مزاج یعنی رطوبت، حرارت یعنی گرمی ، خزان یعنی خشکی اور تری یعنی بہار۔
جیسا مزاج ہوتا ہے ویسا ہی سلسلہ ہوتا ہے جیسے سرد مزاج والے کا نقشبندیہ سلسلہ ہوتا ہے، گرم مزاج والے کا سہروردیہ ، خشک مزاج والے کا چشتیہ اور تر مزاج والے کا قادریہ
ان کے برخلاف چلے گا تو اپنے آپ کو ضائع کربیٹھے گا جیسے کہ سرد مزاج والا بندہ نقشبندیہ کی بجائے گرم مزاج والے سلسلہ سہروریہ میں داخل ہوجاے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا الٹا نقصان اور اپنے آپ کو ضائع کربیٹھے گا۔
چونکہ اس زمانے میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ مزاج کا پتہ چلالیا جاتا لہٰذا سلاسل کا نام رکھ دیا تھا جیسے ہی کوئی شخص کسی ولی کامل کے پاس بیعت کے ارادے سے آتا تو آپ اس کی شکل دیکھ کر ہی سمجھ جاتے کہ یہ کس مزاج کا بندہ ہے اگر مخالف مزاج کا ہوتا تو اس کی درست رہنمائی کردیتے کہ جاؤ فلاں بندے سے بیعت کرلو تمہارا حصہ اس کے پاس ہے۔
شاہ جی اتنا کافی ہے یا کہ مزید کچھ لکھوں؟؟؟؟

اوہ یار یہ نایاب شاہ جی مجھے چھیڑ دیتے ہیں ورنہ میں خود سے کچھ نہیں لکھتا ہوں اب بھی اگر ان کی تسلی نہ ہوگی تو حقیقت کو مزید کھول کر بیان کرونگا

محترم روحانی بابا جی ۔۔۔۔۔
چھیڑ خوباں سے چلی جائے ۔۔۔۔۔۔ تو کیا فرق ،،،، ؟
وصل نہ سہی حسرت ہی سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ کہے بنا چارہ نہیں کہ آپ کی جانب سے کی گئی " توضیح و تشریح سلاسل " تشنہ ہے بہت ۔۔۔۔
اگر مزاج آمادہ ہے کرم فرمانے کو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سوالات پر توجہ کرتے براہ راست جواب تحریر فرمایئے ۔ مجھ سمیت بہتوں کا بھلا ہوگا ۔۔۔ بصورت دیگر " چچا غالب " اک زمانہ پہلے کہہ گئے کہ " دل بہلانے کو خیال اچھا ہے "
 

باباجی

محفلین
اوہ یار یہ نایاب شاہ جی مجھے چھیڑ دیتے ہیں ورنہ میں خود سے کچھ نہیں لکھتا ہوں اب بھی اگر ان کی تسلی نہ ہوگی تو حقیقت کو مزید کھول کر بیان کرونگا
میں اپنی طرف سے تو یہ کہوں گا کہ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں
ہماری علی تشنگی کو کم کرنے کا باعث ہوگا یہ سب سر جی
باقی آپ بہتر سمجھتے ہیں کیا بتانا اور کیسے بتانا ہے
 
محترم روحانی بابا جی ۔۔۔ ۔۔
چھیڑ خوباں سے چلی جائے ۔۔۔ ۔۔۔ تو کیا فرق ،،،، ؟
وصل نہ سہی حسرت ہی سہی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
سچ کہے بنا چارہ نہیں کہ آپ کی جانب سے کی گئی " توضیح و تشریح سلاسل " تشنہ ہے بہت ۔۔۔ ۔
اگر مزاج آمادہ ہے کرم فرمانے کو تو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ میرے سوالات پر توجہ کرتے براہ راست جواب تحریر فرمایئے ۔ مجھ سمیت بہتوں کا بھلا ہوگا ۔۔۔ بصورت دیگر " چچا غالب " اک زمانہ پہلے کہہ گئے کہ " دل بہلانے کو خیال اچھا ہے "

تمام علوم کی کنجی اسماءکا علم ہے علم الاسماءبیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ صاحب رسید و یافت ہوجائے اور وہ اسی صورت ہوگا جب وہ صاحب علم ہوگا یا صاحبِ علم لوگوں کی صحبت میں ہوگا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔۔۔کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں ؟؟؟تو سب سے پہلے اس بات پر غور و فکر کرنا ہوگا کہ جاننا کیا ہے ؟؟؟علم کیا ہے؟؟؟ علوم کی کنجی کیا ہے؟؟؟بلاشک و شبہ یہ بات ہمیں قرآن مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتی ہے کہ تمام علوم کی کلید اسماءکا علم ہے کیونکہ جب فرشتوں نے کہا کہ اے ہمارے پرودگار
أَتَجۡعَلُ فِيہَا مَن يُفۡسِدُ فِيہَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ‌ۖ
(بقرة۔۰۳) (کیاتو اس قوم کو زمین پر پیدا کرے گا جو طرح طرح کے فساد پیدا کرے گی اور اس سے خون ریزیاں ہونگی اور ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ،حمد کرتے ہیں اور تقدیس کرتے ہیں۔فرشتوں کا جواب سن کر اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا إِنِّىٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ(بقرة۔۰۳) اس معاملے میں،میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے )پس اللہ تبارک تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کل اسماءاور بعض معانی تعلیم کیئے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم منتقل کیا جاتا ہے جسے علم لدنی کہتے ہیں ورنہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سامنے بٹھا کر جس طرح کہ استاد شاگرد کو سکول یا مدرسہ میں تعلیم دیتا ہے اس طرح تو نہ کیا ہوگا ۔
تب اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایاأَنۢبِ۔ُٔونِى بِأَسۡمَآءِ هَ۔ٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَ۔ٰدِقِينَ بقرة:31 مجھ کو ان چیزوں کے نام بتاو اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ ہم آدم علیہ السلام سے افضل ہیں ؟؟؟؟؟
خالق کائنات کا یہ جواب سن کر فرشتوں نے عاجزانہ لہجہ میں کہاسُبۡحَ۔ٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآ‌ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (بقرة۔۲۳)(پرودگار! تیری ذات پاک ہے جو کچھ تو نے ہمیں علم دیا ہے اس سے زائد ہم کچھ نہیں جانتے تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔)
علم الاسماءکی رُو سے اللہ نے انسانوں پر چار بنیادی جہات سے تجلی کی ہے

علم اسماء الٰہیہ​
تجلی تنزل کر کے اور کثافت کا لباس پہن کر نور بنی اور نور کثافت کے پردوں میں ظاہر ہوکر روشنی بنا روشنی کا اظہار ایتھر یا ایثر کی لہروں میں توانائی کی صورت میں اس عالم کو تخلیق کررہا ہے ہر شئے اسی ایتھر کی مخصوص لہروں سے ترتیب پارہی ہے خواہ زحل ہے شمس ہے قمر ہے زمین ہے خلا ہے یااس زمین کی ادنیٰ سے ادنیٰ یا اعلیٰ سے اعلیٰ کوئی چیز ۔جو کچھ بھی ہے اسی ایتھر میں مخصوص وائبریشن کا نتیجہ ہے ۔ہر انسان ایک خاص قسم کی وائبریشن سے بنا ہے یہی تحریک رنگ روشنی اعضاءقوت سکون تحلیل اور تحریک سے مزاجِ انسانیہ بنا رہی ہے اسی سے انسان الگ الگ Antigenکا حامل ہے۔

اور اپنا مخصوص بلڈ گروپ رکھتا ہے دراصل یہ انوارِ اسمائِ الٰہیہ ہی ہیں جو تجلی سے نزول کرکرکے اس عالم پر موثر ہیں اور اثر و تاثیر کا یہ سلسلہ ذرہ سے تجلی تک جاری ہے ۔ہر انسان مخصوص اسماءالٰہیہ سے متعلق ہے اور ہراسم ،اسماءالٰہی ایک خاص وائبریشن رکھتا ہے اسی تحریک سے انسانوں کا وجود بن رہا ہے اور تحلیل ہورہا ہے اور سرخ سبز نیلا پیلا سفید رنگ ہر شئے میں ایک خاص تحریک رکھتا ہے اور کسی نہ کسی اسم کی تاثیر کی وجہ سے ہے ہر چیز کی شکل و صورت اور ذائقہ بھی اسماءکا اظہار ہے۔
Oبلڈ گروپ اپنی خاصیت کے حساب سے ہر بلڈ گروپ میں جاری و ساری ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیئے یہ اسمائے ذاتیہ سے متعلق ہے ۔
Aبلڈ گروپ اعصاب اور رطوبات و آب سے متعلق ہے ٹھنڈک اور سکون سے تعلق ہے اس لیئے یہ اسمائے جمالیہ سے متعلق ہے ۔
Bبلڈ گروپ گرم خشک اور خشک گرم مزاج بناتا ہے اس لیئے یہ اسمائے جلالیہ سے تعلق رکھتا ہے ۔
ABبلڈ گروپ میں جلال و جمال دونوں جمع ہیں اس لیئے یہ اسمائے مشترکہ کمالیہ سے متعلق ہے۔
اسماء کو ہم نیچے بیان کررہے ہیں ہم نے اسمائے الٰہیہ کو الگ الگ درج کردیا ہے ۔اور یہ تقسیم ہم نے سید عبدالکریم بن ابراہیم جیلانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف لطیف الانسان الکامل سے نقل کی ہے واضح ہو کہ ان کی ایک اور کتاب الکھف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ترجمہ محمود احمد غزنوی صاحب کرنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں اور محفل پر پیش بھی کرچکے ہیں۔
Oبلڈ گروپ کے حامل افراد کو اسمائے ذات کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
اللّہ۔الاحد۔الواحدالصمد۔الفرد۔الوتر۔النور ۔الحق۔الحی۔القدوس۔
Aبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے جمالیہ(افعالیہ) کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
العلیم۔الرحیم۔السلام۔المومن باری۔المصور۔ غفار۔الوھاب۔ الرزاق۔الفتاح۔ باسط ۔ الرافع۔ لطیف۔الخبیر۔معز۔الحفیظ۔المقیت۔الحسیب ۔ الجمیل۔الحلیم ۔ الکریم۔ الوکیل ۔ الحمید۔المبدی۔ المحی ۔ المصور۔الواجد۔ الدائم۔باقی۔الباری۔
Bبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے جلالیہ(صفاتیہ) کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
۔الٍکبیر۔المتعال۔عزیز۔العظیم۔الجلیل۔القھار۔القادر۔المقتدر۔الماجد۔الولی۔الجبار۔المتکبر۔القابض۔لخافض۔المذل۔الرقیب۔الواسع۔الشہید۔القوی۔المتین۔الممیت۔المعید۔المنتقم ۔
ABبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے مشترک و کمالیہ کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
۔ الرحمٰن۔العلیم۔الملک ۔الرب۔المھیمن۔الخالق السمیع۔البصیر۔الحکم ۔العدل۔الحکیم۔الولی
القیوم۔المقدم۔الموخر الاول۔الآخر۔الظاہر۔ الباطن ۔الوالی ۔المتعال ۔المالک المک ۔ المقسط
الجامع ۔الغنی۔الذی لیس کمثلہ شئی’‘ المحیط ۔ السلطان ۔المؤید۔المتکلم۔
اسماءکو خون کے گروپوں میں اس لیئے تقسیم کیا گیا ہے کہ جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہر بندے کی ایک طبیعت یا مزاج ہوتا ہے جو کہ دوسرے بندے سے الگ ہوتا ہے تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کل چار مزاج ہوتے ہیں یعنی سرد،گرم،تر اور خشک۔
علمِ اسماءکی رو سے ہر انسان کسی نہ کسی اسم کا مظہر ہوتا ہے اسی لیئے اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے انسان میں تیری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں یااللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (وَ ھُوَ معکم اینما کنتم) وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہوتے ہو دراصل انسان پر ہروقت اور ہر لمحے اسماءکی روشنیاں پڑتی رہتی ہیں اب ہر اسم کا ایک الگ کیفیت و مزاج ہے جس کا عکس انسان (یعنی اس کے نفس)پر منطبق ہورہا ہے۔
گرم مزاج یعنی B Blood Group کو تقویت یا حرارت اسمائے جلالیہ سے کائنات میں صفات کے زیرِ اثر جو بھی دائرہ کار ہے کو جلا بخش رہے ہیں ۔
تر مزاج O Blood Group کو اسمائے ذات سے تری ملتی ہے کیونکہ ذات میں کشادگی اور بسط ہے(اور باقی سب اعتبارات ہیں)
سرد مزاج A Blood Group والوں کو اسمائے جمالیہ (افعالیہ)سے مدد ملتی ہے جو کہ کائنات میں اپنا فعل ادا کرتے ہیں اور اس کا اپنا ایک Net workہے ۔
خشک مزاج AB Blood Group والوں کو اسمائے مشترک (کمالیہ) سے کمک ملتی ہے۔
درحقیقت انسان جو اللہ کا مظہر ہے اس پر چاربنیادی تجلیات خون کے گروپ کے مطابق ہوتی ہیں ۔اسی لیئے اپنے خون کے گروپ کے مطابق ہی اللہ تبارک تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی چاہیئے ہے پس اس رمز کو سمجھیں ۔
مثلاً دیکھیں سورج چمکتا ہے اس کی روشنی یا نور سب پر یکساں پڑتا ہے ۔
لیکن اس کے اثرات اشیاءپر مختلف نتائج کے حامل ہوتے ہیں مثلاً
یہ کیچڑ کو خشک کردیتا ہے
پانی کو بھاپ بنا کر اڑا دیتا ہے
موم کو نرم کردیتا ہے
اسی طرح اگر کوئی اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اُس سلاسل یا حلقہ میں جانا چاہیئے ہےجو کہ اس کے خون کے گروپ سے تعلق رکھتے ہوں ۔مثلاً
O Blood Groupوالے کو ہمیشہ قادریہ سلسلہ کے اشغال ہی کرنے چاہیئے ہیں
B Blood Groupوالوں کو سہروردیہ سلسلہ کے وظائف ہی کرنے چاہیئے ہیں
AB Blood Groupوالوں چشتیہ سلسلہ کے اشغال ہی کرنے چاہیئے ہیں
A Blood Groupوالوں کونقشبندیہ سلسلہ کے وظائف ہی کرنے چاہیئے ہیں
اگر اس کے بر خلاف کرے گا تو اپنے آپ کو ضائع کردے گا۔
کیونکہ بہترین توحید وہ ہے جو اللہ سے ہماری طرف ہو اور پھر اس کے بعد جو ہمارے آثار سے اللہ کی طرف ہو۔ تو اللہ سے تو ہردم اور ہروقت ہم پر اس کی تجلیات اور انورات کا ظہور جاری ہے ۔لیکن مزا تو جب ہے جب ہمارے آثار سے بھی کچھ ہو۔
عام ہیں اُس کے تو الطاف شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
دراصل یہ سلاسل کا نام تو اللہ کے دوستوں نے اپنی آسانی یا ظاہری بات ہے کہ کوئی نام تو رکھنا تھا تو
اس طرح نام رکھ دیا تھا کیونکہ اس زمانے میں بلڈ گروپس کا کوئی تصور نہ تھا۔
 

باباجی

محفلین
تمام علوم کی کنجی اسماءکا علم ہے علم الاسماءبیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ صاحب رسید و یافت ہوجائے اور وہ اسی صورت ہوگا جب وہ صاحب علم ہوگا یا صاحبِ علم لوگوں کی صحبت میں ہوگا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔۔ ۔کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں ؟؟؟تو سب سے پہلے اس بات پر غور و فکر کرنا ہوگا کہ جاننا کیا ہے ؟؟؟علم کیا ہے؟؟؟ علوم کی کنجی کیا ہے؟؟؟بلاشک و شبہ یہ بات ہمیں قرآن مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتی ہے کہ تمام علوم کی کلید اسماءکا علم ہے کیونکہ جب فرشتوں نے کہا کہ اے ہمارے پرودگار
أَتَجۡعَلُ فِيہَا مَن يُفۡسِدُ فِيہَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ‌ۖ
(بقرة۔۰۳) (کیاتو اس قوم کو زمین پر پیدا کرے گا جو طرح طرح کے فساد پیدا کرے گی اور اس سے خون ریزیاں ہونگی اور ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ،حمد کرتے ہیں اور تقدیس کرتے ہیں۔فرشتوں کا جواب سن کر اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایاإِنِّىٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ(بقرة۔۰۳) اس معاملے میں،میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے )پس اللہ تبارک تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کل اسماءاور بعض معانی تعلیم کیئے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم منتقل کیا جاتا ہے جسے علم لدنی کہتے ہیں ورنہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سامنے بٹھا کر جس طرح کہ استاد شاگرد کو سکول یا مدرسہ میں تعلیم دیتا ہے اس طرح تو نہ کیا ہوگا ۔
تب اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایاأَنۢبِ۔ُٔونِى بِأَسۡمَآءِ هَ۔ٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَ۔ٰدِقِينَ بقرة:31 مجھ کو ان چیزوں کے نام بتاو اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ ہم آدم علیہ السلام سے افضل ہیں ؟؟؟؟؟
خالق کائنات کا یہ جواب سن کر فرشتوں نے عاجزانہ لہجہ میں کہاسُبۡحَ۔ٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآ‌ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُ (بقرة۔۲۳)(پرودگار! تیری ذات پاک ہے جو کچھ تو نے ہمیں علم دیا ہے اس سے زائد ہم کچھ نہیں جانتے تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔)
علم الاسماءکی رُو سے اللہ نے انسانوں پر چار بنیادی جہات سے تجلی کی ہے

علم اسماء الٰہیہ​
تجلی تنزل کر کے اور کثافت کا لباس پہن کر نور بنی اور نور کثافت کے پردوں میں ظاہر ہوکر روشنی بنا روشنی کا اظہار ایتھر یا ایثر کی لہروں میں توانائی کی صورت میں اس عالم کو تخلیق کررہا ہے ہر شئے اسی ایتھر کی مخصوص لہروں سے ترتیب پارہی ہے خواہ زحل ہے شمس ہے قمر ہے زمین ہے خلا ہے یااس زمین کی ادنیٰ سے ادنیٰ یا اعلیٰ سے اعلیٰ کوئی چیز ۔جو کچھ بھی ہے اسی ایتھر میں مخصوص وائبریشن کا نتیجہ ہے ۔ہر انسان ایک خاص قسم کی وائبریشن سے بنا ہے یہی تحریک رنگ روشنی اعضاءقوت سکون تحلیل اور تحریک سے مزاجِ انسانیہ بنا رہی ہے اسی سے انسان الگ الگ Antigenکا حامل ہے۔

اور اپنا مخصوص بلڈ گروپ رکھتا ہے دراصل یہ انوارِ اسمائِ الٰہیہ ہی ہیں جو تجلی سے نزول کرکرکے اس عالم پر موثر ہیں اور اثر و تاثیر کا یہ سلسلہ ذرہ سے تجلی تک جاری ہے ۔ہر انسان مخصوص اسماءالٰہیہ سے متعلق ہے اور ہراسم ،اسماءالٰہی ایک خاص وائبریشن رکھتا ہے اسی تحریک سے انسانوں کا وجود بن رہا ہے اور تحلیل ہورہا ہے اور سرخ سبز نیلا پیلا سفید رنگ ہر شئے میں ایک خاص تحریک رکھتا ہے اور کسی نہ کسی اسم کی تاثیر کی وجہ سے ہے ہر چیز کی شکل و صورت اور ذائقہ بھی اسماءکا اظہار ہے۔
Oبلڈ گروپ اپنی خاصیت کے حساب سے ہر بلڈ گروپ میں جاری و ساری ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیئے یہ اسمائے ذاتیہ سے متعلق ہے ۔
Aبلڈ گروپ اعصاب اور رطوبات و آب سے متعلق ہے ٹھنڈک اور سکون سے تعلق ہے اس لیئے یہ اسمائے جمالیہ سے متعلق ہے ۔
Bبلڈ گروپ گرم خشک اور خشک گرم مزاج بناتا ہے اس لیئے یہ اسمائے جلالیہ سے تعلق رکھتا ہے ۔
ABبلڈ گروپ میں جلال و جمال دونوں جمع ہیں اس لیئے یہ اسمائے مشترکہ کمالیہ سے متعلق ہے۔
اسماء کو ہم نیچے بیان کررہے ہیں ہم نے اسمائے الٰہیہ کو الگ الگ درج کردیا ہے ۔اور یہ تقسیم ہم نے سید عبدالکریم بن ابراہیم جیلانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف لطیف الانسان الکامل سے نقل کی ہے واضح ہو کہ ان کی ایک اور کتاب الکھف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ترجمہ محمود احمد غزنوی صاحب کرنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں اور محفل پر پیش بھی کرچکے ہیں۔
Oبلڈ گروپ کے حامل افراد کو اسمائے ذات کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
اللّہ۔الاحد۔الواحدالصمد۔الفرد۔الوتر۔النور ۔الحق۔الحی۔القدوس۔
Aبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے جمالیہ(افعالیہ) کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
العلیم۔الرحیم۔السلام۔المومن باری۔المصور۔ غفار۔الوھاب۔ الرزاق۔الفتاح۔ باسط ۔ الرافع۔ لطیف۔الخبیر۔معز۔الحفیظ۔المقیت۔الحسیب ۔ الجمیل۔الحلیم ۔ الکریم۔ الوکیل ۔ الحمید۔المبدی۔ المحی ۔ المصور۔الواجد۔ الدائم۔باقی۔الباری۔
Bبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے جلالیہ(صفاتیہ) کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
۔الٍکبیر۔المتعال۔عزیز۔العظیم۔الجلیل۔القھار۔القادر۔المقتدر۔الماجد۔الولی۔الجبار۔المتکبر۔القابض۔لخافض۔المذل۔الرقیب۔الواسع۔الشہید۔القوی۔المتین۔الممیت۔المعید۔المنتقم ۔
ABبلڈ گروپ کے حامل افراد کو کو اسمائے مشترک و کمالیہ کا ورد کرنا چاہیئے ہے جوکہ درج ذیل ہیں
۔ الرحمٰن۔العلیم۔الملک ۔الرب۔المھیمن۔الخالق السمیع۔البصیر۔الحکم ۔العدل۔الحکیم۔الولی
القیوم۔المقدم۔الموخر الاول۔الآخر۔الظاہر۔ الباطن ۔الوالی ۔المتعال ۔المالک المک ۔ المقسط
الجامع ۔الغنی۔الذی لیس کمثلہ شئی’‘ المحیط ۔ السلطان ۔المؤید۔المتکلم۔
اسماءکو خون کے گروپوں میں اس لیئے تقسیم کیا گیا ہے کہ جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہر بندے کی ایک طبیعت یا مزاج ہوتا ہے جو کہ دوسرے بندے سے الگ ہوتا ہے تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کل چار مزاج ہوتے ہیں یعنی سرد،گرم،تر اور خشک۔
علمِ اسماءکی رو سے ہر انسان کسی نہ کسی اسم کا مظہر ہوتا ہے اسی لیئے اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے انسان میں تیری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں یااللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (وَ ھُوَ معکم اینما کنتم) وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہوتے ہو دراصل انسان پر ہروقت اور ہر لمحے اسماءکی روشنیاں پڑتی رہتی ہیں اب ہر اسم کا ایک الگ کیفیت و مزاج ہے جس کا عکس انسان (یعنی اس کے نفس)پر منطبق ہورہا ہے۔
گرم مزاج یعنی B Blood Group کو تقویت یا حرارت اسمائے جلالیہ سے کائنات میں صفات کے زیرِ اثر جو بھی دائرہ کار ہے کو جلا بخش رہے ہیں ۔
تر مزاج O Blood Group کو اسمائے ذات سے تری ملتی ہے کیونکہ ذات میں کشادگی اور بسط ہے(اور باقی سب اعتبارات ہیں)
سرد مزاج A Blood Group والوں کو اسمائے جمالیہ (افعالیہ)سے مدد ملتی ہے جو کہ کائنات میں اپنا فعل ادا کرتے ہیں اور اس کا اپنا ایک Net workہے ۔
خشک مزاج AB Blood Group والوں کو اسمائے مشترک (کمالیہ) سے کمک ملتی ہے۔
درحقیقت انسان جو اللہ کا مظہر ہے اس پر چاربنیادی تجلیات خون کے گروپ کے مطابق ہوتی ہیں ۔اسی لیئے اپنے خون کے گروپ کے مطابق ہی اللہ تبارک تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی چاہیئے ہے پس اس رمز کو سمجھیں ۔
مثلاً دیکھیں سورج چمکتا ہے اس کی روشنی یا نور سب پر یکساں پڑتا ہے ۔
لیکن اس کے اثرات اشیاءپر مختلف نتائج کے حامل ہوتے ہیں مثلاً
یہ کیچڑ کو خشک کردیتا ہے
پانی کو بھاپ بنا کر اڑا دیتا ہے
موم کو نرم کردیتا ہے
اسی طرح اگر کوئی اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اُس سلاسل یا حلقہ میں جانا چاہیئے ہےجو کہ اس کے خون کے گروپ سے تعلق رکھتے ہوں ۔مثلاً
O Blood Groupوالے کو ہمیشہ قادریہ سلسلہ کے اشغال ہی کرنے چاہیئے ہیں
B Blood Groupوالوں کو سہروردیہ سلسلہ کے وظائف ہی کرنے چاہیئے ہیں
AB Blood Groupوالوں چشتیہ سلسلہ کے اشغال ہی کرنے چاہیئے ہیں
A Blood Groupوالوں کونقشبندیہ سلسلہ کے وظائف ہی کرنے چاہیئے ہیں
اگر اس کے بر خلاف کرے گا تو اپنے آپ کو ضائع کردے گا۔
کیونکہ بہترین توحید وہ ہے جو اللہ سے ہماری طرف ہو اور پھر اس کے بعد جو ہمارے آثار سے اللہ کی طرف ہو۔ تو اللہ سے تو ہردم اور ہروقت ہم پر اس کی تجلیات اور انورات کا ظہور جاری ہے ۔لیکن مزا تو جب ہے جب ہمارے آثار سے بھی کچھ ہو۔
عام ہیں اُس کے تو الطاف شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
دراصل یہ سلاسل کا نام تو اللہ کے دوستوں نے اپنی آسانی یا ظاہری بات ہے کہ کوئی نام تو رکھنا تھا تو
اس طرح نام رکھ دیا تھا کیونکہ اس زمانے میں بلڈ گروپس کا کوئی تصور نہ تھا۔
بہت بہت شکریہ روحانی بابا
وہ کیا کہتےہیں کہ جسے اسکا حصہ ملنا ہوتا ہے کہیں سے بھی مل جاتا ہے
آپ کی محبت کا بہت شکریہ
 

باباجی

محفلین
سوال: اللہ کی نعمتوں کا شکر کس انداز میں کیا جا سکتا ہے ؟

جواب: کچھ لوگ اُٹھتے بیٹھتے با آواز بلند کہتے ہیں "شُکر الحمدللہ"۔۔۔لیکن میرے نزدیک اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بہتر طریقہ یہ کہ ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو خود بھی Enjoy کریں اور دوسروں میں بھی تقسیم کریں بالخصوص اپنے مخالفین کو ان نعمتوں میں حصہ دار بنالیں۔ اس سے ہمارا سرکش نفس بھی کنٹرول میں رہتا ہے اور ہماری Training بھی ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ہر لمحہ خود کو سمجھاتے رہیں گے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے یہ میرا نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی عطا ہے اور جب میرا کچھ ہے ہی نہیں تو میں اس سے دوسروں کو کیسے محروم کرسکتا ہوں۔لہٰذا جتنا اس پر میرا حق ہے اتنا ہی میرے دشمنوں کا حق بھی ہے۔ ہمارے اس رویے سے نفس کی سرکشی بہت حد تک ختم ہوجائے گی۔ جب ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو کھلے ہاتھوں تقسیم کریں گے تو نعمتیں بڑھادی جائیں گی۔ اللہ کو بندے کا یہ عمل بہت پسند ہے کہ اُس کی نعمتیں اُن بندوں تک پہنچادی جائیں جو ان نعمتوں کے حوالے سے زیادہ خوش قسمت نہیں ہیں۔

سید سرفراز شاہ صاحب
کتاب "فقیر نگری" صفحہ40
 
Top