شرعی ڈی این اے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مقدس

لائبریرین
محترم مولانا منور حسن صاحب کا مکمل انٹرویو اس حقیقت کو سامنے لے آئے گا کہ ایسی عورت کے لیئے کوئی انصاف نہیں بلکہ الٹا اسے سزا کا حقدار ٹھہرایا جائے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ الا یہ کہ وہ عورت چار عادل مسلمان گواہ پیش کرے جو کہ اس جرم کو دیکھتے رہے ہوں ۔ عورت کو بچانے کی کوشش نہ کی ہو یا مجبور ہوں ۔ اور بعد میں اس کی گواہی دیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
نایاب بھائی
ایسے مجبور مسلمانوں کی عظمت کو سلام
اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کے ساتھ ہوتے دیکھتے تو بھی مجبوری ظاہر کرتے کیا
 
یہ وڈیو محفل پر پہلے ڈسکس ہو چکی ہے

یہ رہا وہ موضوع
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/حدود-قوانین-پر-امیر-جماعت-اسلامی-کا-مضحکہ-خیز-موقف.34071/
یا اسلام میں ایسی عورت کے لیے انصاف نہیں ؟؟؟
رہا آپ کا یہ سوال تو میں آپ کو ضرور اس کا جواب دوں گی ۔ یہاں موضوع یہ ہے کہ ڈی این اے انفالیبل ایویڈنس ہے یا نہیں ؟ اسی کو جاری رہنے دیں ۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی
ایسے مجبور مسلمانوں کی عظمت کو سلام
اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کے ساتھ ہوتے دیکھتے تو بھی مجبوری ظاہر کرتے کیا

علامہ اقبال نے ایسے ہی مسلمانوں کے لیئے کہا تھا کہ
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
 

قیصرانی

لائبریرین
علامہ اقبال نے ایسے ہی مسلمانوں کے لیئے کہا تھا کہ
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اور یہی شاید اسلامی نظریاتی کونسل تھی جس کے مشورے سے ضیاء الحق نے اسلامی قوانین بنا کر لاگو کئے تھے
 
یہ لیجیے مقدس اس مسئلے کے بارے میں زیک کی ایک تحریر :
http://www.zackvision.com/weblog/2005/06/zina-hudood-dna/

شیپر کے ذریعے مجھے ایک مقدمے کا پتہ چلا جس میں پنجاب ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ زنا کی حد کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج بطور ثبوت پیش نہیں کئے جا سکتے۔
قصہ ایک شخص کا ہے جو بیرون ملک مقیم تھا۔ اس کی بیوی پاکستان میں تھی۔ جب ان کے ہاں بیٹی ہوئی تو شوہر کو شک تھا کہ بیٹی اس کی نہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ سے اس کا شک درست ثابت ہوا۔ مگر عدالت نے فیصلہ دیا کہ زنا کی حد نافذ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے لئے چار عینی شاہد درکار ہوتے ہیں۔
ڈی این اے ٹیسٹ کو نہ ماننے کا یہ ججز کا فیصلہ ہے علماء کا نہیں ۔ وجہ ؟

عدالت نے ملزم اظہر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نکتہ پر تو اتفاق رائے موجود ہے کہ اسلام تحقیق اور سائنس کا مخالف نہیں ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ عدالت کے جج نے یہ بھی کہا کہ ڈی این اے ٹسٹ کسی بچے کے حقیقی والد کی تصدیق کے لیے شہادت تو بن سکتا ہے لیکن اسلامی قانون کے تحت حدود میں اسے بطور حتمی شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے کہا کہ اس مقصد کے لیے اسلام میں شہادتوں کا ایک الگ سے معیار مقرر ہے۔
عدالت نے کہا کہ اسلام کے تحت حدود آرڈیننس کے جرم کے تعین کے لیے ان چار افراد کاسامنے آکر گواہی دینا ضروری ہے جنہوں نے یہ جرم(زنا) ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور وہ گواہ بننے کے معیار پر پورا اترتے ہوں۔ عدالت نے کہا کہ اس شہادت کی موجودگی میں ریاست حدود آرڈیننس کے مجرم کو سزا دینے کے لیے آگے آتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ مدعی کو موقع کے چار گواہ پیش کرنا ہونگے۔اگر وہ مطلوبہ گواہ پیش نہ کر سکا تو اسے قرآن میں مقرر کی گئی سزا بھگتنا ہوگی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/05/050521_dna_lhc.shtml
سوچیں ۔ اور غور کریں یہاں یہ وہی بات ہے جو علماء نے نظریاتی کونسل میں کہی ہے اور یہاں یہ عورت کے حق میں گیا ہے حالاں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کا رزلٹ اس عورت کے خلاف تھا ۔ میری بہنا زندگی ناول یا فلم نہیں ہے جس میں عورت ہی مظلوم ہو ۔
اگر یہاں سنجیدہ بحث کی توقع ہوتی تو میں آپ کے دوسرے سوال کا بھی یہیں پر جواب دیتی لیکن وہ موضوع ہی الگ ہے ۔ آپ اگر جانتی ہوں تو لعان کے حکم کے نزول کے بارے میں غور کریں کہ شوہر کے کیا جذبات تھے، وہ سوچتا تھا کہ اپنی بیوی اپنی عزت پر چار گواہ کہاں سے لائے ؟ اگر یہاں مسلمان مردواویلا مچائیں کہ اسلام میں اس بے چارے مظلوم شوہر کے کوئی حقوق نہیں ؟ میں سمجھتی ہوں کہ اسلام نے انتہائی نازک انسانی جذبات کا بھی خیال رکھا ہے کیوں کہ یہ خالق کا عطا کردہ دین ہے ۔
 
ویسے علما پر جتنے لیبل اس دھاگے میں چسپاں کیے گئے ہیں، اپنی جارحیت، بدزبانی، اور کم علمی کے سبب اس دھاگے کے متعدد شرفا ان ہی لیبل کے حقدار قرار دئیے جاسکتے ہیں۔
ایک تو محمد حنیف جس کا باطنی نام کالو پرشاد ہو گا، سیکولر اور خالی ملا کے خلاف نہیں بلکہ آپ کے اور میرے دین کیے خلاف بھی انتہائی بدزبان اور گستاخ سیکولر ہے، ہر بات جس میں کوئی پہلو اسلام کی بھد اڑانے کا اس کو نظر آجائے بس ایسی بات مرچ کی چٹنی میں تبدیل کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خیر اس کو چھوڑئیے۔ مجھے اسلامی نظریاتی کونسل کے علما کے بارے میں کچھ زیادہ پتہ نہیں تاہم یہ حقیقیت ہے کہ پہلے تو اس خبر کی تفصیل سامنے آنی چاہیے تھی ناکہ محمد حنیف کی اپنی آرا پر مبنی ایک بکواس۔ ان تفاصیل کو پڑھ کر ہی کوئی رائے دی جا سکتی تھی پھر عمومی طور پر علما ڈی این اے کو کئی معاملات میں بطور ضمنی و موید حیثیت میں قبول کرتے ہیں، جیسا کہ بنوری ٹاون نے ایک مسئلے کے بیچ یہ فتویٰ دیا تھا
بسمہ تعالیٰ واضح رہے کہ ڈی، این، اے (D.N.A)ٹیسٹ اس موروثی مادے کی جانچ پڑتال کا نام ہے جو انسان کے جسم میں موجود خلیوں کے اندر پایا جاتا ہے، جس کے ذریعہ ایک نوع کے مختلف حیوانات کو ایک دوسرے سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ چونکہ ڈی، این، اے ٹیسٹ کے نتائج کا دار ومدار انسانی عمل اور مشین کی کارگردگی پر منحصر ہے اور دونوں خطا کے امکان سے خالی نہیں، اس لئے ڈی، این، اے ٹیسٹ یہ ایک ظنی چیز ہے، جس کی بنیاد پر احکام شرعیہ مثلاً :ثبوتِ نسب وغیرہ کا اثبات نہیں ہوسکتا۔ تاہم کسی ایسے معاملہ میں جہاں کسی شرعی حکم کا اثبات اس پر موقوف نہ ہو اور مزید کوئی یقینی ذریعہ تصدیق یا تردید کا نہ ہو تو اس ظنی ذریعہ کا سہارا لے سکتے ہیں۔
الدکتور وہبة الزحیلی لکھتے ہیں:

”وتقدم علی البصمة الوراثیة الطرق المقررة فی شریعتنا لاثبات النسب کالبینة والاستلحاق والفراش ای علاقة الزوجیة، لان ہذہ الطرق اقوی فی تقدیر الشرع فلایلجأ الی غیرہا من الطرق کالبصمة الوراثیة والقیافة الا عند التنازع فی الاثبات وعدم الدلیل الاقوی“ ۔(بحوالہ ڈی، این، اے ٹیسٹ کے شرعی مسائل کا حل مولانا بدر الحسن قاسمی ص:۱۵۱)
لہذا اگر چند افراد کے بارے میں موت کایقین ہو کہ مرنے والے یہی ہیں لیکن انفرادی طور پر شناخت کا کوئی یقینی ذریعہ نہ ہو اور وارثوں میں جھگڑا ہو تو محض ”تحویل“ کے لئے D.N.A ٹیسٹ کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

ظاہر ہے شریعت میں اولیت تو ان ہی معیارارت کو ہے جن کو شریعت نے خود مقر ر کردیا ہے۔ پھر ڈی این اے خود کوئی ایسا حتمی ثبوت نہیں جس کو واحد معیار کے طور پر قبول کیا جاسکے۔ یعنی کرائم سین سے ڈی این کی کلیکشن ، افراد سے کلیشن سے لے کر ڈی این کی سمل پیکنگ تک دس باتیں ایسی ہوسکتی ہیں جس کی بنا پر ڈی این اے contaminated ہو سکتا ہے پھر ٹیسٹ کی اپنی کچھ لمیٹیشن ہیں، تو بھائی پاکستان جیسے ملک میں ویسے ہی اس کو واحد ثبوت نہیں مانا جاسکتا۔
ویسے یہ رویہ اس فورم پر بڑا عجیب ہے کچھ لوگ ایسے مسائل کو محض اپنے سیکولرازم کی غلاظت اگلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں بقیہ لوگ ہر معاملے کو مولوی منیب الرحمٰن بمقابلہ مولوی فضل الرحمٰن کیس بنا لیتے ہیں۔ کسی کی اتنی بھی توجہ اس طرف نہیں ہوتی کہ اسلام سب کا ہے اور اسلام کو سمجھنے کا راستہ ہمیشہ قرآن و سنت کے باغ سے ہوکر ہی گزرے گا، شراب کی چسکیاں ، جعلی تصوف کی ٹھمکیاں اور مغربیت کی علمی قلابازیاں وقعتی مزے کی چیزیں تو سکتی ہیں لیکن زندگی گزارنے کے دائمی طریقے نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ لیجیے مقدس اس مسئلے کے بارے میں زیک کی ایک تحریر :
http://www.zackvision.com/weblog/2005/06/zina-hudood-dna/


ڈی این اے ٹیسٹ کو نہ ماننے کا یہ ججز کا فیصلہ ہے علماء کا نہیں ۔ وجہ ؟ سوچیں ۔ اور غور کریں یہاں یہ وہی بات ہے جو علماء نے نظریاتی کونسل میں کہی ہے اور یہاں یہ عورت کے حق میں گیا ہے ۔ میری بہنا زندگی ناول یا فلم نہیں ہے جس میں عورت ہی مظلوم ہو ۔
اگر یہاں سنجیدہ بحث کی توقع ہوتی تو میں آپ کے دوسرے سوال کا بھی یہیں پر جواب دیتی لیکن وہ موضوع ہی الگ ہے ۔ آپ اگر جانتی ہوں تو لعان کے حکم کے نزول کے بارے میں غور کریں کہ شوہر کے کیا جذبات تھے، وہ سوچتا تھا کہ اپنی بیوی اپنی عزت پر چار گواہ کہاں سے لائے ؟ اگر یہاں مسلمان مردواویلا مچائیں کہ اسلام میں اس بے چارے مظلوم شوہر کے کوئی حقوق نہیں ؟ میں سمجھتی ہوں کہ اسلام نے انتہائی نازک انسانی جذبات کا بھی خیال رکھا ہے کیوں کہ یہ خالق کا عطا کردہ دین ہے ۔

آپ زنا اور زنا بالجبر کو مکس کر رہی ہیں۔ یہ خبر ریپ نہیں بلکہ ایڈلٹری سے متعلق ہے۔ اسے ایک بار پڑھ لیجیئے
 
بے شک یہاں معاملے کی نوعیت مختلف ہے لیکن ڈی این اے ٹیسٹ کو ثبوت نہ ماننے کا جواز جو دیا گیا ہے وہ وہی ہے جو علماء نے دیا ہے :
عدالت نے ملزم اظہر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نکتہ پر تو اتفاق رائے موجود ہے کہ اسلام تحقیق اور سائنس کا مخالف نہیں ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ عدالت کے جج نے یہ بھی کہا کہ ڈی این اے ٹسٹ کسی بچے کے حقیقی والد کی تصدیق کے لیے شہادت تو بن سکتا ہے لیکن اسلامی قانون کے تحت حدود میں اسے بطور حتمی شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے کہا کہ اس مقصد کے لیے اسلام میں شہادتوں کا ایک الگ سے معیار مقرر ہے۔
 

نیلم

محفلین
کاش کہ مسلمانوں کی دعائیں اتنی جلد شرف قبولیت پا لیا کرتیں ۔۔۔ ۔۔
سن 91 سے لیکر آج تک ہر جمعہ مبارک کی نماز میں اور حج کے دوران 25 لاکھ تک کے مجمع کو " یہود و نصاری " کی بربادی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کشمیر و فلسطین کی آزادی ۔ کے لیئے " عظیم و مشہورومعروف مولاناؤں " کو زاروقطار روتے دعائیں مانگتے دیکھا ہے ، آمین کہہ کہہ کر مقتدی تھک گئے ۔ لیکن قبولیت نہیں دیکھی ۔۔۔ ہاں یہود و نصاری کو مسلمانوں پر مزید حاوی ہوتے ضرور دیکھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ عجب ہے مصلحت اللہ کی ۔۔ یا پھر ۔۔۔ ۔ہم ہی نہیں ہیں وہ مسلمان جو اللہ کے نزدیک مومن ہوتے اس زمین پر اس کے نائب ہوتے ۔ یہود و نصاری کائنات کو مسخر کر رہے ہیں ۔ انسانوں کے لیئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں ۔ ہم ان کی ایجاد کردہ آسانیوں سے مستفید ہوتے انہی کی بربادی کے لیئے دعاگو رہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اور نایاب بھائی ایک اور بات ہمارا عقیدہ اتنا کمزور نہیں ہونا چایئے ۔ہم اللہ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتے جو وہ جانتا ہے ہم نہیں جانتے ہماری سوچ اور عقل بہت محدود ہے ۔ہم انسان کی پہنچ صرف ظاہر تک ہے باطن میں کیا ہے ہم نہیں جانتے ۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔
 

محمد امین

لائبریرین
العلماء ورثۃ الانبیاء۔۔۔ یہ کسی "ملا" کی کہاوت نہیں ہے۔۔۔ بلکہ ہمارے آقا و مولیٰ (مولیٰنا؟؟) کا قولِ اقدس ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔

دین اور سائنس کی بحث نئی بحث نہیں ہے۔ یہ شاید صدیوں پرانی ہے، اچھی بات ہے کہ ہمارے یہاں یہ بحث ہو رہی ہے۔ کم از کم کھرے اور کھوٹے تو الگ ہوجائیں گے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ (کھرے اور کھوٹے کی جگہ گدھے اور گھوڑے لکھنا چاہ رہا تھا)۔

میرا خیال ہے اس موضوع میں مراسلت کرنے والے دونوں گروہ انتہاؤں پر ہیں، دونوں کو معتدل ہونے کی ضرورت ہے۔ اعتدال کی صرف یہیں نہیں، ہمیں من حیث القوم ضرورت ہے۔ نہ دین برا ہے اور نہ ہی سائنس۔

دین ہم تک پہنچانے والے علماء کو گالیاں دے کر کیا ملے گا بے دینی کے سوا؟ لفظ ملا ماضی میں بہت پڑھے لکھے شخص کے لیے استعمال ہوا کرتا تھا، علامہ کے مترادف کے طور پر۔ اگر اقبال کی ہرزہ سرائی (دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد) کو درست سمجھا جائے تو خود اقبال بھی ملا ثابت ہوتا ہے اگر ملا کا لفظ عمومی (generic) لیا جائے تو، کہ اسے آج دنیا "علامہ" کہتے نہیں تھکتی۔

ہاں یہ الگ بات ہے کہ ڈیزل سے چلنے والی مخلوق اور طاہر اشرفی جیسوں کو علماء اور ملاؤں کی فہرست میں شامل کرنے میں مجھے عار ہے۔

مزید یہ کہ جو لوگ مفتی منیب الرحمٰن پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے پر مصر ہیں تو انہیں چاہیے کہ اس الزام سے توبہ کریں اور جھوٹ نہ بکیں۔ مفتی منیب الرحمٰن نہ صرف ٹیکنولوجی کا استعمال کرتے ہیں، بلکہ رویتِ ہلال کمیٹی ملک کی مین اسٹریم سائنس اور فزکس کی تحقیقاتی لیبز (جامعہ کراچی، محکمۂ موسمیات، سپارکو) کو ساتھ لے کر بلکہ ان کے شانوں پر کھڑی ہو کر چاند دیکھتی ہے۔ مسجد قاسم کے مٹھی بھر لوگوں کے برسوں پرانے واویلے پر اپنے علماء پر کیچڑ اچھالنے والوں کی قیامت کے روز سخت پکڑ ہوگی ان شاء اللہ۔ ایک سنت کو زندہ رکھنے کے لیے کام کرنے والوں کو برا کہنے والو تم کس کو برا کہہ رہے ہو؟ کیا یہ کیچڑ تم بلاواسطہ اللہ کے نبی پر تو نہیں اچھال رہے؟

اور اب آتے ہیں اس شرعی ڈی این اے پر۔ مجھے نہ سائنس دان ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ملا۔ میں صرف وہ سوال نیک نیتی سے پیش کرنا چاہ رہا ہوں جس سے موضوع صحیح سمت میں اعتدال کے ساتھ آگے بڑھے۔

1- جو لوگ اس موضوع پر مذہب اور علماء کے ساتھ ہیں ان سے گذارش ہے کہ حدیث سے ایسے واقعات سے ہمیں آگاہ کریں کہ جس میں زنا بالجبر اور اس کے عدل و سزا کا ذکر ہو۔
2-حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کا اس جرم کے بارے میں کیا ردِ عمل تھا؟ کیسے وہ اسے ڈیل کرتے تھے؟
3- کیا گواہان کے بغیر زنا بالجبر کی شکار عورت انصاف حاصل نہ کر سکتی تھی اس دور میں؟ اور کیا حدیث میں روایت کردہ کسی واقعے میں زنا بالجبر کے گواہان موجود بھی تھے؟
 

ساجد

محفلین
میرا خیال ہے اس دھاگے میں کوسنا بازی کافی ہو چکی ، گزارش کی جاتی ہے کہ اب سنجیدگی سے بات کی جائے ورنہ چپ بھلی۔
 

سید ذیشان

محفلین
اس پورے معاملے کو بڑے ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی طور پر بھی اگر حدود نافذ نا ہو سکیں تو تعزیرات کا طریقہ کار موجود ہے۔ تازیرات وہ سزائیں ہیں جو کہ حکمران (چونکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے تو یہاں پر پارلیمنٹ) کی صوابدید پر ہوتی ہیں اور وہ سزائیں حدود سے کم شدت رکھتی ہیں۔ یہ تو بات ہو گئی قانون کی۔
جہاں تک فورنزیکس اور ڈی این اے کی بات ہے، تو کچھ محفلین نے اعتراض اٹھایا کی ڈی این اے پورا کا پورا نہیں جانچا جاتا تو اس میں کچھ اغلاط کا شائبہ پیدا ہو سکتا ہے۔ تو اس کا حل بھی آسان ہے کہ آج کل پورے کا پورا جینوم 100 ڈالر میں اور ایک ہفتے کے عرصے میں معلوم ہو جاتا ہے۔ تو اگر وکیل صفائی کو عام ڈی این اے ٹیسٹ پر شبہہ ہو تو جج جینوم ٹیسٹ کروا سکتی ہے۔ لیکن یہ ٹیسٹ صرف اور صرف شناخت کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
باقی الزام کو ثابت کرنے کے لئے forensics اور circumstantial evidence کی ضرورت پڑتی ہے جن میں گواہان کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ ان گواہوں نے ریپ ہوتے دیکھا ہو، اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات ہو سکتے ہیں جس سے ریپ کا ثبوت ملے۔
لیکن ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عدالتی نظام مکمل طور پر عادلانہ نظام نہیں ہے، اس کا دارومدار گواہوں کے بیانات، ڈاکٹروں کی رپورٹوں، وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی کی حاظر دماغی، بعض اوقات رشوتیں، اور سب سے اہم: جج کی رائے پر ہے۔ ان میں ایک یا کئی جگہوں پر غلطی کا امکان موجود ہے۔
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بیگناہ کو سزا ہو جائے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے گنہگار باعزت بری ہو جائے۔
امریکہ اور برطانیہ کے عدالتی نظام میں بھی ایسے ہی سقم موجود ہیں۔ چند ایک ایسے لوگ جو بالکل بیگناہ تھے انہوں نے 30 سال جیلیں کاٹین۔ ایک مثال Rubin Carter کی ہے۔ عافیہ صدیقی کی مثال بھی ہے کہ جس میں جیوری نے شہادتوں کو دیکھے بغیر ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا۔
پاکستان میں تو سب سے روشن مثال بھٹو کی پھانسی کی ہے جس میں اب جج بھی مان چکے ہیں کہ ان پر دباو تھا۔ دوسری طرف ملک اسحاق کی مثال ہے جو کہ عدالت میں اقرار جرم کرنے کے باوجود باعزت بری ہو گیا۔

اصل عدالت تو صرف اللہ کے دربار میں ہی ممکن ہے۔


ے۔ ان معاملہ یہ ہے کہ ڈی این اے صرف ارتکاب کو ظاہر کرے گا جس سے بلیک میلنگ اور نا انصافی کا ایک نیا راستہ کھلنے کا بھی امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ سید ذیشان نے جو کہا کہ وکٹم کے جسم پر زخموں کے نشانات جبر یا رضا کی نشاندہی کر سکتے ہیں تو یہاں بھی مسئلہ وہی ہے کہ بھلے یہ برائی رضامندی سے ہی کی گئی ہو لیکن حالات کے بدلاؤ یا دیگر عوامل کے تحت کسی پر مدعا ڈالنے کے لئے یہ نشان تو بعد میں بھی لگائے جا سکتے ہیں۔


اصل میں اگر زخم ملزم کی زور آزمائی کی وجہ سے لگے ہیں تو یہاں پر بھی ملزم کا ڈی این اے ان زخموں میں موجود ہوتا ہے-
 

سید زبیر

محفلین
ڈی این اے ٹیسٹ کو مان لینا چا ہئیے ۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ہر مسجد میں اوقات نماز کا ایک چارٹ بنا ہوا ہوتا ہے جس میں سال کے بارہ مہینوں کے اوقات لکھے ہوتے ہیں اور یہ ہر ضلع کا مختلف ہوتا ہے اس پر ملا یقین کر لیتا ھے ۔ مولوی صاحبان جیب میں جنتری لیے پھرتے ہیں نکاح یا کسی شدھ تاریخ کو نکلانے کے لیے فورا تین ماہ کے بعد کی چاند کی تاریخ بتا دیتے ہیں ۔ مگر جب سائنس سے رمضان اور عید کے چاند کی پیدائش انہیں بتائی جاتی ہے تو وہ مستند اور با شرع صادق اور امین گواہ ڈھونڈتے ہیں ۔اور نہایت احسن انداز سے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ملک میں دودو تین تین عیدیں کراتے ہیں
فقیہہ شہر ہے قاروں لغت ہائے جحازی کا
قلندر بجز دو حرف لا الٰہ کچھ نہیں جانتا
اب اسی طرح اس مکروہ فعل کے لیے بھی دہ باشرع ،سچے لوگوں کی گواہی ڈھونڈتے ہیں ۔جو کہ اس منافقانہ ،اور جبر کے دور میں نا ممکن ہے ۔ایسے میں عدل کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ بہت ضروری ہے اس سے کتنے ظالم کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

میں اس معاملے میں الجھا ہوں ، ڈی این ٹیسٹ کو بطور ثبوت اگر استعمال کیا جائے تو میرے خیال میں وہ عینی شاہدین سے بھی زیادہ قابل قبول صورت ہو گی ، مگر رضا اور جبر کا فیصلہ کیسے ہو گا ؟؟ اس پر ذرا محفلین کچھ ارشاد فرمائیں۔

اس کا فٰصلہ بھی طبی معائنہ سے ہو سکتا ہے ، تشدد کے نشانات ،تشنج کی کیفیت سب اس کا بھی فیصلہ کردیتے ہیں اگر کرنا چاہیں تو ورنہ یہاں تو ایک میڈیکل بورڈ ایک لڑکے کو نا با لغ قرار دیتا ہے تو دوسرا اسے بالغ قرار دے دیتا ۔ دونوںمیں ماہر ڈاکٹر ہوتے ہیں
 
سیدھی سی بات ہے کہ Consensual sex یعنی زنا بالرضا کیلئے جو حدود کا قرآنی قانون ہے اس کو زنا بالجبر Rape پر منطبق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دونوں جرائم کی نوعیت بالکل الگ ہے۔
1-consensual sex زنا بالرضا کیلئے 4 عینی شاہد گواہوں (اور وہ بھی صادق و عادل) کی گواہی ضروری ہے۔ اس پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کسی نے زنا بالرضا کا ارتکاب بھی کرنا ہو تو اس کو ثابت کرنا اسقدر مشکل کیوں بنادیا گیا ہے، وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ شریعت کو اس بات سے غرض نہیں کہ لوگ چوری چھپے اپنے بیڈرومز میں کیا کرتے ہیں، شریعت تو اس بات پر سخت سزا دے گی اگر آپ بے حیائی کی تمام حدود کو کراس کرتے ہوئے گناہ چھپ کر اور پوشیدہ طور پر کرنے کی بجائے اعلانیہ اور سب کے سامنے کھلم کھلا کرنے پر آجائیں۔ (بعض مادر پدر آزاد الٹرا لبرل لوگ اس حد تک پہنچ بھی چکے ہیں) چنانچہ اس مائنڈ سیٹ کا سدباب کرنے کیلئے 4 گواہوں کی شرط رکھی گئی ہے اور یہ 4 گواہ اسی صورت میں میسر ہونگے جب کوئی دیدہ دلیری اور بے حیائی کے اس لیول پر چلا جائے کہ اسے خالق تو کیا، مخلوق کی لعنت ملامت کا بھی ڈر نہ رہے، اور یہ کام کھلم کھلا کرنے لگے۔۔قرآن نے اسی extreme بگاڑ کو روکنے کیلئے یہ قوانین عطا کئے ہیں۔
اور یہ بھی حکمت ہے کہ کوئی مذہبی متشدد گروہ جو اپنے اندازِ فکر میں معتدل نہیں ہے اور حد سے بڑھنے والی نفسیات رکھتا ہے، وہ لوگوں پر غالب آکر اس قدر جبر پر مبنی معاشرہ نہ قائم کردے کہ جس میں لوگوں کی پرائیویسی کا کوئی احترام نہ ہو اور انکو انکے بیڈرومز سے سڑکوں پر گھسیٹنا شروع کردیا جائے اور لوگ خدا سے زیادہ ان مذہبی لوگوں سے ڈرنے لگیں۔۔۔
2- زنا بالجبر یعنی rapeکا معاملہ اس سے مختلف ہے اور یہ فساد فی الارض، اور ارہاب کی ذیل میں آتا ہے چنانچہ احادیث میں اس بات کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ ایک عورت کے ساتھ کسی نے rape کردیا تو اس عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں آکر فریاد کی۔ چنانچہ ملزمان کو حاضر کیا گیا اور جب اس عورت نے ایک شخص کے بارے میں گواہی دی کہ یہی ہے وہ شخص تو اس آدمی پر رجم کی حد جاری کی گئی اور اس عورت سے فرمایا گیا کہ " جا۔ تیرے رب نے تجھے معاف کردیا ) یعنی تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔۔۔
 
یا اللہ اپنے دین کے عالموں پر لعنت کرنے والے جاہلوں پر لعنت فرما ۔ یا اللہ ہمیں دکھا اپنی قدرت دکھا ۔خذھم اخذ عزیز مقتدر۔
ہم میں علم کا اور عالموں کا قحط پڑ چکا ہے غضب کا قحط، قرآن و احادیث جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہیں انہیں صرف رٹا جا رہا ہے اور حقیقی معنوں سے شدید اجتناب، اللہ نے کس طرح فرقانِ عظیم میں تحقیق کی تکرار رکھی انسان کے لیے اور جب تک ہم نے اس تکرار کو کھوجا ہم امتوں میں اور انسانیت میں اعلیٰ معراج پر تھے، لیکن جس طرح کلیسا کا دور عیسائیت کی لیے نظریاتی تنزلی لے کر آیا اسی طرح ملا کا دور ہمارے لیے بربادی لے کر آیا۔
ہم میں کوئی عالم نہیں یہ ہماری جہالت کا اور ہمارے اندھے پن کا گند ہے اور ناسور ہےصرف، علم اور عالم کی معراج کو رسوا نہ کریں موجودہ علماءِ وقت کو عالم کہہ کر۔
اب نہ تو کوہِ طور پہ تجلی اور کوئی آواز آنی ہے اور نہ غارِ حرا میں کوئی نصیحت تو پھر آپ کو کون بتائے کہ اللہ اپنی قدرت دِکھا تو رہا ہے، علم کے اِن ناسوروں کا اور ان کے پیچھے چلنے والوں کا جو حال ہو چکا ہے اس سے بڑی بربادی اور تنزلی اور کیا ہو گی۔
ہمیں کسی بھی طرح اس قحط سے نکلنا ہو گیا، اسلام ایک مکمل ضابطہءِ حیات ہے صرف غاروں میں رہنے والے جاہلوں کا دین نہیں بلکہ واحد دین ہے جس میں سائنس اور تحقیق کو زندگی میں اس طرح اہمیت دی گئی ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس مکمل کوڈ آف لائف کی اساس یعنی اجتہاد سے رجوع کریں بجائے جہالت کے فتوؤں کے۔ ہم اپنی زندگیوں، کاروبار، اور روزمرہ کےمعمولات کا محور مساجد کو بنائیں اور اسے وہی مقام دیں جو اس کا اصل مقام ہے ہر مسلمان کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا۔ اسے اس نئے مقام یعنی انتہائی پاک اور ایسی مقدس جگہ جہاں نماز اور دین کے علاوہ کوئی اور بات کرنا ممنوع ہے اور اس کام کے علاوہ جانا حرام ہے سے ہٹا کر اسے وہی کردار دوبارہ دینا ہو گا جس میں مسجد پر ہر مسلمان کا حق تھا اور یہ ان کی زندگی بلکہ سلطنت کی زندگی کے اہم فیصلوں، تقریبات، محفلوں اور معائدوں کا مرکز تھا اور صرف ملا کی اجارہ داری اور پراپرٹی نہیں تھی۔
 

نایاب

لائبریرین
سیدھی سی بات ہے کہ Consensual sex یعنی زنا بالرضا کیلئے جو حدود کا قرآنی قانون ہے اس کو زنا بالجبر Rape پر منطبق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دونوں جرائم کی نوعیت بالکل الگ ہے۔
1-consensual sex زنا بالرضا کیلئے 4 عینی شاہد گواہوں (اور وہ بھی صادق و عادل) کی گواہی ضروری ہے۔ اس پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کسی نے زنا بالرضا کا ارتکاب بھی کرنا ہو تو اس کو ثابت کرنا اسقدر مشکل کیوں بنادیا گیا ہے، وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ شریعت کو اس بات سے غرض نہیں کہ لوگ چوری چھپے اپنے بیڈرومز میں کیا کرتے ہیں، شریعت تو اس بات پر سخت سزا دے گی اگر آپ بے حیائی کی تمام حدود کو کراس کرتے ہوئے گناہ چھپ کر اور پوشیدہ طور پر کرنے کی بجائے اعلانیہ اور سب کے سامنے کھلم کھلا کرنے پر آجائیں۔ (بعض مادر پدر آزاد الٹرا لبرل لوگ اس حد تک پہنچ بھی چکے ہیں) چنانچہ اس مائنڈ سیٹ کا سدباب کرنے کیلئے 4 گواہوں کی شرط رکھی گئی ہے اور یہ 4 گواہ اسی صورت میں میسر ہونگے جب کوئی دیدہ دلیری اور بے حیائی کے اس لیول پر چلا جائے کہ اسے خالق تو کیا، مخلوق کی لعنت ملامت کا بھی ڈر نہ رہے، اور یہ کام کھلم کھلا کرنے لگے۔۔قرآن نے اسی extreme بگاڑ کو روکنے کیلئے یہ قوانین عطا کئے ہیں۔
اور یہ بھی حکمت ہے کہ کوئی مذہبی متشدد گروہ جو اپنے اندازِ فکر میں معتدل نہیں ہے اور حد سے بڑھنے والی نفسیات رکھتا ہے، وہ لوگوں پر غالب آکر اس قدر جبر پر مبنی معاشرہ نہ قائم کردے کہ جس میں لوگوں کی پرائیویسی کا کوئی احترام نہ ہو اور انکو انکے بیڈرومز سے سڑکوں پر گھسیٹنا شروع کردیا جائے اور لوگ خدا سے زیادہ ان مذہبی لوگوں سے ڈرنے لگیں۔۔۔
2- زنا بالجبر یعنی rapeکا معاملہ اس سے مختلف ہے اور یہ فساد فی الارض، اور ارہاب کی ذیل میں آتا ہے چنانچہ احادیث میں اس بات کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ ایک عورت کے ساتھ کسی نے rape کردیا تو اس عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں آکر فریاد کی۔ چنانچہ ملزمان کو حاضر کیا گیا اور جب اس عورت نے ایک شخص کے بارے میں گواہی دی کہ یہی ہے وہ شخص تو اس آدمی پر رجم کی حد جاری کی گئی اور اس عورت سے فرمایا گیا کہ " جا۔ تیرے رب نے تجھے معاف کردیا ) یعنی تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔۔۔

زنا بالرضا کسی مرد و عورت کے درمیان نفس پرستی کا وہ عمل اور رشتہ جو کہ ہر دو دنیا کی نگاہ سے چھپ کر قائم کرتے ہیں ۔ اور اس عمل و رشتے کو گناہ مانتے اور قانون کی نظر میں جرم ہونے کا پورا یقین رکھتے خواہش نفسانی کے سبب بہک جاتے ہیں تو یہ ان کے پوشیدہ گناہوں میں شامل ہوتے ستار العیوب کی نگاہ میں ہوتا ہے ۔ اور اگر وہ اس برائی کو علی الاعلان انجام دیتے ہیں یا پھر کوئی ان کے اس عمل کا شاہد ہوتے قاضی وقت سے شکایت کرتا ہے ۔ تو انصاف کی آخری حد قائم کرنے کے لیئے چار گواہان کی شہادت کو لازم قرار دیا گیا تاکہ کوئی بے گناہ سزا کا شکار نہ ہو ۔ زنا بالرضا میں کوئی عورت یا مرد قاضی وقت کے سامنے انصاف کی دہائی نہیں دیتا کیونکہ دونوں اس گناہ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور برابر ہی سزا کے مستحق ۔۔۔۔۔۔۔۔
زنا بالجبر تو اک ظلم عظیم اور اس عمل زنا بالرضا سے مختلف الگ اک عمل ہے جو کہ کسی عورت کی زبردستی آبروریزی ہونا ہے ۔ اور اس عمل میں " زانی " اپنے اس عمل کو اکثر زمانے سے ڈر کر چھپ کر ایسی جگہ عورت کے ساتھ زیادتی کرتا ہے ۔ جہاں عورت کے پاس اپنے پر ہوئے اس ظلم کا شاہد اک گواہ بھی نہیں ہوتا ۔ یا پھر اس واقعے کے چشم دید گواہ اس کے مددگار اور اس کے اس فعل میں شامل ہوتے ہیں ۔ اب کوئی مظلوم عورت کسی قاضی کے پاس استغاثہ کرتے انصاف کیسے پائے ۔؟
زنابالجبر کی سزا بارے جو تاریخ اسلام میں ذکر ملتا ہے وہ بہت محدود ہے ۔ دو تین واقعات ملتے ہیں ۔ اور ان واقعات میں صرف عورت کا" زانی " کی شناخت کر لینا ہی " گواہ " مانا گیا اور زانی کو سزا دی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترمذی اور موطا میں زنا بالجبر کی حد
غیر شادی شدہ کے لئے 100 کوڑے یا شادی شدہ کے لئے رجم ہے۔اور مجبور عورت بے گناہ سمجھی جاتی ہے (ترمذی ‘ ابواب المحدود)
100 کوڑےاور جلاوطنی اور زانی کا اسی عورت سے نکاح(موطا امام مالک)
 
نایاب بھائی
ایسے مجبور مسلمانوں کی عظمت کو سلام
اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کے ساتھ ہوتے دیکھتے تو بھی مجبوری ظاہر کرتے کیا
ایسی مجبوری ممکن ہے اور میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں حد درجہ بے بسی اور مجبوری۔
یہ کچھ سال پہلے کا 14 اگست کا واقعہ ہے اور مقام یہی تھا یعنی مزارِ قائد کراچی۔ ہم بھی کچھ دوست گاڑی لے کر نکل پڑے کے چلیں آج ذرا منچلوں کی حب الوطنی کا مظاہرہ ہی کر لیتے ہیں اور ہم گھومتے گھماتے مزارِ قائد پہنچے، دعا پڑھی اور پھر تھوڑی دیر بیٹھ گئے۔ ایسے میں ایک ہجوم دیکھا شور مچاتا اور بدتمیزی میں مست، جب معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ ایک پٹھان فیملی تھی جس میں شاید ایک ان کا والد تھے والدہ تھیں، ایک دو لڑکے اور ایک دو لڑکیاں تھیں اور وہ بھی گھومنے آئے تھے لیکن اب بدمعاشوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ بچیاں رو رہی تھیں، عورت گالیاں دے رہی تھی اور مرد واسطے دے رہا تھا لیکن وہ تیس چالیس لڑکوں کا غول کیا بدتمیزی تھی ہاتھوں سے اور زبان سے جو وہ نہیں کر رہا تھا۔ اور وہ عورت اس قدر بے بس ہوئی کہ جوتی اٹھا کر شوہر کو پیٹنا شروع کر دیا کہ تم کیسے مرد ہو بے غیرت تم ہمیں بچا نہیں سکتے، ان کو باز نہیں رکھ سکتے اس طرح بے عزتی کرنے سے، اور وہ بیچارہ آخر ایک ادھیڑ عمر آدمی کیا کرے وہ باہر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن غول ان کو دھکم پیل میں واپس دھکیل دیتا۔ بہت بے حرمتی کی گئی سبھی مجھ سمیت سبھی خاموش تماشائی تھے۔ اور جانتے تھے کہ ہماری دخل اندازی کس قدر کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور اس کا انجام کیا ہونا ہے، دل ان کی بے بسی سے زیادہ اپنی بے بسی پہ رویا اور میں اپنے ضمیر، دل اور احساس پہ ایک بوجھ اور ملامت لے کر وہاں سے نکل آیا بغیر یہ دیکھے کہ ان کا کیا ہوا۔
 

مقدس

لائبریرین
بھائی میرے خیال میں وہاں ہزاروں لوگ ہوتے ہوں گے۔۔۔ مل کر بھی چالیس لڑکوں کو اس سے نہ روک سکے۔۔ کسی نے پولیس تک کال بھی نہ کیا ہو شاید۔۔۔ آپ نے بھی نہیں کیا۔۔۔
آئی ایم سرپرائزاڈ۔۔۔ اے لاٹ
 
بھائی میرے خیال میں وہاں ہزاروں لوگ ہوتے ہوں گے۔۔۔ مل کر بھی چالیس لڑکوں کو اس سے نہ روک سکے۔۔ کسی نے پولیس تک کال بھی نہ کیا ہو شاید۔۔۔ آپ نے بھی نہیں کیا۔۔۔
آئی ایم سرپرائزاڈ۔۔۔ اے لاٹ
یہ ان گھرانوں کے بچے تھے کہ اگر پولیس ان پر ہاتھ ڈالے تو ان پولیس والوں کی اپنی بیٹیوں کی عزت لٹ جائے۔
قانون صرف غریب کے لیے ہوتا ہے۔۔:)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top