"سونا نہیں ہے؟"
گھڑی پر رات کے تین بجے دیکھ کر سارہ نے مجیب سے پوچھا۔
مجیب نے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر جواب دیا:
"ہاں، سو جاتا ہوں۔ بس پانی پینے کے لیے اٹھا تھا۔"
سارہ مطمئن ہو کر سو گئی اور مجیب آرام کرسی پر بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں کھو گیا۔
پچھلے ایک ماہ سے مجیب کی اکثر راتیں ایسے ہی گزر رہی تھیں۔ سارہ بھی کچھ ایسے ہی احساسات کا شکار تھی۔ لیکن وہ مجیب پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے مصنوعی نیند سو کر مجیب کو مطمئن رکھتی کہ وہ پریشان نہیں ہے۔
مجیب ایک سرکاری ملازم تھا اور سارہ ایک چھوٹے سے پرائیویٹ سکول میں ٹیچر تھی۔ انکی شادی کو بیس سال گزر چکے تھے۔ 5 مرلے کا ایک چھوٹا سا مکان، دو بیٹیاں عندلیب اور ماہم، ایک بیٹا بلال۔ عندلیب کی عمر قریباََ 19 سال وہگی، ماہم 16 سال اور بلال 12 سال کا۔
دونوں میں بیوی معقول حد تک تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار بھی تھے، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے قائل تھے۔ اپنی آمدن میں رہتے ہوئے انہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا تھا۔
عندلیب جب 15 سال کی ہوئی تب ہی سے اسکے جہیز کا بندو بست کرنا شروع کر دیا گیا۔ سوچا یہ تھا کہ باقی سامان پورا کر لیا جائے گا۔ اور شادی قریب آئی تو زیور کےلیے کسی عزیز سے ادھار لے کر یا کمیٹی ڈال کر انتظام کر لیا جائے گا۔ لیکن جوں جوں شادی قریب آئی تو پتہ چلا کہ بدلتے ملکی و عالمی حالات، افراطِ زراور نہ معلوم کن کن بلاؤں کے زیرِ اثر سونے کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور پہنچ چکی ہیں۔ دو چار جاننے والوں کی منت سماجت کر کے بھی دیکھ لیا ، کوئی بھی مدد کو تیار نہ تھا۔ ایسے وقت میں کسی کو کون پوچھتا ہے؟ اور غریب آدمی کو تو بالکل بھی نہیں۔
"سونا نہیں ہے؟"
بظاہر ایک سادہ اور عام سا سوال ہے، مگر اس وقت یہ سوال مجیب کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسا تھا۔ اسکا ذہن درمیان کا سارا وقت پھلانگتے ہوئے دو ماہ بعد ہونے والی عندلیب کی شادی کے دن کو جا پہنچا، جب جہیز کی نمائش میں محلے کی عورتیں جہیز کا سامان دیکھتے دیکھتے سوال کریں گی کہ:
سارہ بہن! "سونا نہیں ہے؟"
صبح شام اٹھتے بیٹھتے دونوں میاں بیوی کو یہی فکر ستا رہا تھا۔ انکی بیٹی کی شادی کا دن انکو روزِ محشر جیسا محسوس ہو رہا تھا۔ سب کچھ تو جمع کر دیا تھا جہیز میں، پر سونا۔۔۔۔۔۔ سونا نہیں ہے۔
لوگوں کے منہ کون پکڑے گا، پوچھنے والے پوچھیں گے، اور جو براہِ راست نہ پوچھ پائے وہ آپس میں چہ مگوئیاں ضرور کریں گے۔
ہا۔۔ ہائے۔۔ بیچارے۔ "سونا نہیں ہے"
بات صرف محلے والوں کی ہوتی تو شاید ہضم کی بھی جا سکتی لیکن انہیں لگتا تھا جیسے یہ سوال عندلیب کے سسرال میں بھی اچھالا جائے گا۔ اسکی نندیں، دیورانیاں اور ساس جو اب تک یہ ظاہر کرتی آئی ہیں کہ انہیں مال و دولت سے نہیں اچھی لڑکی سے غرض ہے، جو کہ بلاشبہ عندلیب ہے، پڑھی لکھی، سمجھدار اور سلیقہ شعار۔ آخر کمی ہی کیا ہے سوائے اس میں، سوائے اس کے کہ:
"سونا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
 
معاشرے کے دماغ کی غلاظت انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔
حل سوائے اس کے نہیں ہے کہ انسان بے حس ہو جائے۔
لمبی زندگی جینے کا بہترین فارمولا ہے۔
 
کیسا سڑا ہوا معاشرہ ہے
اس سے اچھا تو امریکہ میں ہوتا ہے
شادی ہورہ ی ہے یا کاروبار
میری شادی میں نہ کوئی جہیز تھا نہ کچھ اور ششکا۔ مسجد میں شادی ہوئی اور ہنی مون پر روانہ
 

S. H. Naqvi

محفلین
کسی افسانے کا آغاز سا لگ رہا ہے مگر ہے خوب، اچھی تحریر ہے اسکو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں۔۔۔۔۔!:)
 

عسکری

معطل
یہ کیا ؟ یہاں تو لڑکے والے سونا دیتے ہین مجھے بھی اپنا بنک بیلنس ڈھیلا کرنا پڑا لاکھوں روپے کا :grin:
 

نعیم ملک

محفلین
عدنان احمد بہت عمدہ تحریر۔ واقعی یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ان سطور کو آئندہ خامہ فرسائیوں کی تمہید تصور کرتا ہو۔۔ خوش رہیں۔۔۔
 
حوصلہ افزائی کے لیے تمام احباب کا ممنون ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ
لیکن ساتھ ہی اس کہانی میں پوشیدہ اپنے مدعا کی طرف آپکی توجہ دلانا لازمی سمجھوں گا کہ ہم سب کو اس جہیز جیسی لعنت کے خاتمے کے لیے مل کر کوشش کرنی چاہیئے اور ہر شخص کو اپنی حیثیت کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے
 
Top