پریوں کی دنیامیں شہزادوں کی آمد

عمیر شہزاد

محفلین
`دو دن کی مسلسل بارش کے بعد آج کی صبح بہت روشن اور چمکدار تھی۔ سورج ہر طرف اپنی سنہری کرنیں بچھا رہا تھا۔ پوری کائنات کو اک نئی نویلی دلھن کی طرح سجایا جا رہا تھا۔درختوں کے بتوں پر ہلکے ہلکے پانی کے قطرے سورج کی روشنی سے ہیروں کی مانند چمک رہے تھے اور ہوا کے ہر جھونکے سے درختوں میں خوشی کی ایک لہر ڈور جاتی تھی۔ منظر اتنا دلکش تھا کہ اس کے سحر نے مجھے اپنی آغوش میں مد ہوش کر رکھا تھا۔ میں تو جیسے ایک جگہ منجمد ھی ہو کر رہ گئی تھی۔ جیسے اس دنیا کے لوگوں سے ہر تعلق ٹوٹ چکا تھا۔ اور میں آزاد اپنے خیال میں گنگنا رہی تھی۔۔ آخر وہ کون ہو سکتا ہے ؟ کیوں میرے گمان میں ابھی تک اٹکا ہوا ہے؟ کیا میں کبھی پہلے اس سے مل چکی ہوں؟ آخر مجھے محبت ہو کیسے گئی؟ اور وہ بھی ایک اجنبی سے.... ایسے بہت سے سوالات میرے زہن میں اٹکے ہوے تھے۔
شاید یہ محبت نہیں تھی یا میرا پاگل پن تھا۔ان سنسان وادیوں میں جہاں رات کی دیوی خود آکر محبت بھرے گیت سناتی ہے۔ اور ہرن اپنے بچوں کے ساتھ اس کا لطف لینے آتی ہے اور پھر جب درختوں کی تیز ہوا میں موسیقی گم ہو جاتی ہے تو اک وحشت سی طاری ہو جاتی ہے اور جہاں دن کو چرواہے اپنے مویشی لانے سے کتراتے ہیں۔ پریوں کے اس جنگل میں میرا کیا کام تھا ؟ میں وہاں کیوں گئی تھی؟ اور کیسے گئی تھی ؟ پھر وہ کون فرشتا تھا، وہ کون سی مخلوق تھا جس کے دیکھتے ہی میں اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔ ان سنسان کھیتوں میں وہ کیوں آیا تھا ؟ کس نے بھیجا ہو گا ؟ وہ جیسے اپنے آسمانی گھوڑے سے اوپر کا سفر طے کر کے آیا ہو۔ اور مجھے وہاں دیکھتے ھی جیسے اس کا جہاں مکمل ہوتا نظر آیا ہو۔جیسے وہ اپنی شہزادی کو اپنے ساتھ گھوڑے پر بٹھا کر ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہو اور شہزادی تو پہلے سے ہی بے تابی سے اسی انتظار میں تھی۔ چاند کی مدھم روشنی میں قدرت کی ہر چیز نے جیسے سفید کرتا پہن رکھا تھا۔
اس کی نظریں میری نظروں سے ٹکرائیں تھی۔شاید اسی لیے میرے پورے بدن میں برق کی لہر سی دوڑ چکی تھی۔ وہ مسلسل مجھے گھورے جا رہا تھا۔ اور میں بے اختیار ہو چکی تھی۔ اسی اثنا میں ایک خوبصورت دھن فضا میں پھیل گئی جس کی سماعت میرے کانوں سے گزر کر میرے روح تک کو فرحت بخش رہی تھی مجھے ایسا لگا جیسے یہ میوزک بلکل میرے لیئے بنایا گیا ہو۔ جیسے اس نے اس دھن کو کمپوز کرتے ہوئے صدیاں بیتائی ہوں۔ اور اب اس میوزک کے سحر سے مجھے مدہوش کرنا چاہتا ہو۔ اور یہ دھن واقعی میرے اندر پھول میں خوشبو کی طرح سما گئی تھی۔ میں نے بہت ہمت اکھٹی کرنے کی کوشش کی تو آخر اتنا ہی کہہ پائی " کون ہو تم؟ "
اس نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا اور پھر کہنے لگا۔ میں اک خواب ہوں، اک نظر کا دھوکہ ہوں ........ اتنا کہہ کر وہ چاند کا شہزادہ اپنے سرمئی گھوڑے پر بیٹھا اور ہوا کے سفر کرنے لگا۔ اب وہ موسیقی جا چکی تھی، وہ منظر کھو چکا تھا میرا دھوکا زیادا دیر تک میرا ھمسفرر نہ بن پایا میرا خواب ٹوٹ چکا تھا۔۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب تحریر مگر تشنہ تشنہ
اگر کوشش کی جائے تو اک مکمل داستان چاند نگر کی وجود میں آ سکتی ہے ۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

عمیر شہزاد

محفلین
آپ کا بہت شکریہ اور آپ کی بات ٹوکتا ہوں ،،، ایک بار جو قلم سے نکل جا ے ا س میں ترمیم اچھی نہیں لگتی جناب ۔۔ :)
 

عمیر شہزاد

محفلین
بہت خوب تحریر مگر تشنہ تشنہ
اگر کوشش کی جائے تو اک مکمل داستان چاند نگر کی وجود میں آ سکتی ہے ۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
آپ کا بہت شکریہ اور آپ کی بات ٹوکتا ہوں ،،، ایک بار جو قلم سے نکل جا ے ا س میں ترمیم اچھی نہیں لگتی نا :)
 
واہ جانی بہت خوب لکھا۔۔۔ اللہ پاک اور ترقی سے نوازے آمین الفاظ سے جو بھی بیان کروں گا کم ہو گا۔۔۔۔ دل کی بات سن لے جا نی اچھی تحریر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :great:
 
Top