غرور کیسا، کہاں کی نخوت، بھلا امیری کی خو و بو کیا ۔ جوزف بینسلی فناؔ

حماد

محفلین
مَن بچھڑے تو نا ملے، تن بچھڑے مل جائے​
مَن کو مت بچھڑائیو، پھیر ملیں گے آئے​
ڈیڑھ سو سال ہونے کو آرہے ہیں جب یہی بات کہہ کر ایک نوجوان شاعر مرگیا تھا اور کچھ یوں لگتا ہے کہ من نہیں بچھڑے تھے چنانچہ آج پھر وہ اس بزم میں ہم سے آن ملا ہے۔​
اور شاعر بھی کیسا؟ رگوں میں خون انگلستانی۔ ہاتھ میں الور کی ریگستانی فوج کی کمان اور زبان پر اردو کے سخن۔​
یہ تذکرہ ہے اردو کے فرنگی شاعر "جوزف بینسلی فناؔ" کا جو اگر کچھ اور روز جیتا تو ادب میں اس کا نام ہمیشہ کیلئے رہ جاتا۔ تن بچھڑتے مگر من کبھی نہ بچھڑتے۔​
دیوانِ فناؔ سنہ 1876ء میں میرٹھ میں چھپا تھا اور اسے اردو کے ایک اور فرنگی شاعر جارج بیش شورؔ نے چھپوایا تھا۔ جارج بیش شورؔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بہن جوزف فناؔ سے بیاہی گئ تھیں۔​
غرور کیسا، کہاں کی نخوت، بھلا امیری کی خو و بو کیا​
فقیر ہیں ہم، حقیر ہیں ہم، عروجِ دنیا کی گفتگو کیا​
کہاں کا شکوہ، شکایتیں کیا، غرض کسے ہے کنایتوں سے​
ملے جو ہم سے تو ہے عنایت، ملے نہ ہم سے تو جستجو کیا​
برا کہو یا بھلا کہو تم ، برے ہی ہیں ہم تو سب سراپا​
بڑائ کیسی، چھٹائ کیسی، جہاں میں عاشق کی آبرو کیا​
یہ رند مشرب ہے وہ ہمارا بری ہے دنیا کی علتّوں سے​
گلی میں پھرتے ہیں اس صنم کی، طوافِ کعبہ کی آرزو کیا​
بنایا جیسا خدا نے تم کو ، بنے ہی بگڑے ہو اے فناؔ تم​
تمہاری کج بحثیاں ہیں ظاہر زباں درازی یہ دوبدو کیا​
(کتابیں اپنے آباء کی از رضا علی عابدی سے انتخاب)​
 

الشفاء

لائبریرین
غرور کیسا، کہاں کی نخوت، بھلا امیری کی خو و بو کیا​
فقیر ہیں ہم، حقیر ہیں ہم، عروجِ دنیا کی گفتگو کیا​
کہاں کا شکوہ، شکایتیں کیا، غرض کسے ہے کنایتوں سے​
ملے جو ہم سے تو ہے عنایت، ملے نہ ہم سے تو جستجو کیا​
برا کہو یا بھلا کہو تم ، برے ہی ہیں ہم تو سب سراپا​
بڑائ کیسی، چھٹائ کیسی، جہاں میں عاشق کی آبرو کیا​
یہ رند مشرب ہے وہ ہمارا بری ہے دنیا کی علتّوں سے​
گلی میں پھرتے ہیں اس صنم کی، طوافِ کعبہ کی آرزو کیا​
بنایا جیسا خدا نے تم کو ، بنے ہی بگڑے ہو اے فناؔ تم​
تمہاری کج بحثیاں ہیں ظاہر زباں درازی یہ دوبدو کیا​
(کتابیں اپنے آباء کی از رضا علی عابدی سے انتخاب)​

واہ۔ کیا بے نیازانہ کلام ہے۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
 
واہ کیا کہنے:love:
حماد بھائی شئیر کرنے کا اور معلومات دینے کا شکریہ:bighug:
ہر شعر لاجواب ہے​
غرور کیسا، کہاں کی نخوت، بھلا امیری کی خو و بو کیا​
فقیر ہیں ہم، حقیر ہیں ہم، عروجِ دنیا کی گفتگو کیا​
کہاں کا شکوہ، شکایتیں کیا، غرض کسے ہے کنایتوں سے​
ملے جو ہم سے تو ہے عنایت، ملے نہ ہم سے تو جستجو کیا​
برا کہو یا بھلا کہو تم ، برے ہی ہیں ہم تو سب سراپا​
بڑائ کیسی، چھٹائ کیسی، جہاں میں عاشق کی آبرو کیا​
یہ رند مشرب ہے وہ ہمارا بری ہے دنیا کی علتّوں سے​
گلی میں پھرتے ہیں اس صنم کی، طوافِ کعبہ کی آرزو کیا​
بنایا جیسا خدا نے تم کو ، بنے ہی بگڑے ہو اے فناؔ تم​
تمہاری کج بحثیاں ہیں ظاہر زباں درازی یہ دوبدو کیا​
 
Top