غزل کیا ہے ؟

مجیب

محفلین
آداب و تسلیمات !
جب کبھی کسی سے پوچھا جائے کہ غزل کیا ہے توجواب میں ہمیشہ غزل کے لغوی معانی اور اسکے اصولوں پر روشنی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں ۔

میرے سوال ان سب سے ہٹ کر ہیں
  1. غزل کا خیال کب ؟ کسے ؟ اور کیوں آیا ؟
  2. غزل کو عروج کب ملا ؟
  3. غزل میں ردیف قافیہ اور بحر ان سب کی پابندی شروع سے ہی تھی ؟ِ
  4. عموما سننے میں آتا ہے کہ اچھی غزل کہی ہے ۔ لکھی ہے یا پڑھی ہے کم ہی کہا جاتا ہے ۔ایسا کیوں ؟
  5. غزل کی تاریخ کیا ہے اگر مکمل رہنمائی فرما دی جائے تو عنایت ہو گی
مزید سوالات آپکے جوابات کے بعد ۔ انشا ءاللہ
الف عین الف علوی الف نظامی @ مزمل شیخ بسمل محمد اسامہ سَرسَری محمد یعقوب آسی محمدعلم اللہ اصلاحی محمد وارث التباس محمد بلال اعظم فرخ منظور
 
جب کبھی کسی سے پوچھا جائے کہ غزل کیا ہے توجواب میں ہمیشہ غزل کے لغوی معانی اور اسکے اصولوں پر روشنی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں ۔​
’’غزل کیا ہے‘‘۔ اتنا جامع سوال ہے کہ اس کا کلی اور قطعی جواب ایک پورے مقالے کا متقاضی ہے۔ اس میں لغوی معانی بھی شامل ہیں، مروجہ اصول و ضوابط بھی۔ اگر کوئی ان کو حتی القدور بیان کر دیتا ہے تو شکایت کیوں؟
 
میرے سوال ان سب سے ہٹ کر ہیں​
  1. غزل کا خیال کب ؟ کسے ؟ اور کیوں آیا ؟
  2. غزل کو عروج کب ملا ؟
  3. غزل میں ردیف قافیہ اور بحر ان سب کی پابندی شروع سے ہی تھی ؟ِ
  4. عموما سننے میں آتا ہے کہ اچھی غزل کہی ہے ۔ لکھی ہے یا پڑھی ہے کم ہی کہا جاتا ہے ۔ایسا کیوں ؟
  5. غزل کی تاریخ کیا ہے اگر مکمل رہنمائی فرما دی جائے تو عنایت ہو گی

اس قدر باریکی میں ہم تو کبھی گئے نہیں صاحب! اپنے پاس تو وہی سنی سنائی اور معروف باتیں ہیں کہ:

1۔ غزل کبھی قصیدے کا جزو ہوتی تھی، جس کو ’’تشبیب‘‘ کہتے ہیں۔ پھر وہ الگ سے ایک صنفِ شعر بن گئی۔ یہ سانحہ کس تاریخ کو پیش آیا؟ یہ موشگافی اپنے بس کی بات نہیں۔

2۔ غزل کی تاریخ دیکھ لیجئے؛ بہت سارے لوگوں نے بہت کچھ پڑھ کر لکھا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ دیکھ لیجئے شاید اس میں مذکور ہو۔

3۔ قصیدے کا جو فارمیٹ بھی رہا ہو گا، وہ غزل میں رواج پا گیا۔ عام سی بات تو یہی ہے کہ بحر اور قافیہ تو ’’بیت‘‘ کے لئے لازم سمجھا جاتا ہے، سو غزل میں بھی ہے۔ ردیف اختیاری چیز ہے تاہم جب اختیار کر لی تو پھر اسے نبھانا بھی ہو گا۔

4۔ یہ تو وہی بات ہے صاحب کہ ’’بارش ہوتی ہے‘‘، ’’مینہ برستا ہے‘‘؛ ایسا کیوں؟ پوچھا گیا: ’’پنجابی میں بھی کچھ لکھا؟‘‘ جواب ملا: ’’جی، کچھ غزلیں کہی ہیں‘‘۔ اس کے پیچھے مشاعرے کی یا دربار کی یا محفل کی روایت رہی ہو گئی۔ یہ بھی تو ہے کہ:
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا​
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا​

5۔ غزل کی تاریخ: سوال نمبر 1 اور سوال نمبر 2 اسی سوال نمبر 5 کے ذیلی یا ضمنی سوال ہی تو ہیں۔ شافی جواب (بلکہ جوابات) کے لئے آپ کو عمیق مطالعہ کرنا ہو گا۔
 
تقریبا 1000 سال سے بھی پہلے غزل کی پیدائش ایران میں ہوئی اور وہاں کی فارسی زبان میں ہی اسے لکھا یا کہا گیا۔ : بادشاہوں، امیر امراوو وغیرہ کی تعریف میں لکھے جانے والے قصیدے کی زبان اولا تو تو فارسی ہوئی، ایران کے شعرائے کرام میں اس کی تشبیب کو قصیدے سے الگ کر کے اس کا نام غزل رکھا غزل یعنی محبوب سے گفتگو ایران میں یہفن بہت پھولی پھلی اور مقبول ہوئی۔ درحقیقت ب رصغیر کو یہ فن ایران کی ہی دین ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قصیدے سے ہی نکلی۔ قصیدے بادشاہوں کی تعریف میں کہے جاتے تھے اور شاعر اپنی روزی روٹی چلانے کے لئے حکمرانوں کی جھوٹی تعریف کرتا تھا اورشاعر بادشاہوں کو وہی سناتا تھا جس سے وہ خوش ہوتے تھے۔ شراب،کباب اور شباب کے ساتھ بادشاہ قصیدے سنتے تھے اور راجہخواتین کے ذکر سے خوش ہوتے تھے تو شاعرعورت اور شراب کا ذکر ہی غزلوں میں کرنے لگے وہ چاہ کر بھی عوام کا دکھ درد بیان نہیں کر سکتے تھے۔ تو غزل کا مطلب ہی عورتوں کے بارے میں ذکر ہو گیا۔ یہیں پر اس کا بحر اور اوزان بنا جو فارسی میں تھا۔مغل بادشاہ جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ فارسی تہذیب بھی لائے اور جہاں، جہاں انہوں نے راج کیا وہاں کی عدالتی اور سرکاری زبان بدل کر فارسی کر دی اس سے پہلے یہاں پر شورسےنی اپبھرنش زبان کا استعمال ہوتا تھا جو عام بول چال کی زبان نہ ہوکتابی زبان تھی جو سنسکرت سے ہو کر نکلی تھی۔ جب عدالتی زبان اور سرکاری کام کاج کی زبان فارسی بنی تو لوگوں کو مجبورا فارسی سیکھنی پڑی۔ یہاں کے شاعروں نے بھی مجبورا اسے سیکھا اور غزل سے ہاتھ ملایا اور اس کابحر اور اوزان طئے کئے جسے عروض کہا جاتا تھا۔ اس کا وہی طور جو ایران میں تھا یہاں بھی ویسا ہی رہا۔ یہاں ایک بات کا ذکر اور کرنا چاہتا ہوں یہ سب حکمران مسلم تھے سوانھوں نے مسلم مذہب اور فارسی کا خوب پرچار کیااوریوں یہ سلسلہ صدیوں چلتا رہا۔ 12 ویں صدی کی، دہلی میں ابو الحسن یمین الدین خسرو دہلوی (1253-1325) نے لیک سے ہٹ کر ادب کو کھڑی بولی (یا عام بولی جو اس وقت دلی کے آس پاس بولی جاتی تھی) میں لکھا اور وہ فارسی کے عالم بھی تھے انہوں نے فارسی اور ہندی میں منفرد استعمال اس وقت بولی جانے والی زبان کو خسرونے ہندوی کہا۔

بقیہ استاد@محمدیعقوب آسی صاحب نے جواب دے ہی دیا ہے اور لوگوں کے جواب کا مجھے بھی انتظار ہے ۔میرے پاس کوئی کتاب نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں کچھ رہنمائی کر سکوں ۔میں اردو کا طالبعلم بھی نہیں رہا ۔بس اردو لکھنے پڑھنے کا شوق ہے ۔تاریخ کا طالبعلم رہا ہوں جو کچھ لکھا یادداشت کی روشنی میں ہے اسے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔
 
ٹائپنگ کی کچھ غلطیاں ہو گئیں: صنف کا ’’ضنف‘‘ بن گیا، حتی المقدور کا میم لکھنے میں رہ گیا ’’حتی القدور‘‘ ہوا۔
نظر انداز کر دیجئے گا یا درستی فرما لیجئے گا، بہت شکریہ۔
 

مجیب

محفلین
’’غزل کیا ہے‘‘۔ اتنا جامع سوال ہے کہ اس کا کلی اور قطعی جواب ایک پورے مقالے کا متقاضی ہے۔ اس میں لغوی معانی بھی شامل ہیں، مروجہ اصول و ضوابط بھی۔ اگر کوئی ان کو حتی القدور بیان کر دیتا ہے تو شکایت کیوں؟
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
سب سے پہلے تو یہ عرض کرنا چاہوں گا مجھے کوئی شکایت نہیں ہے :) البتہ میرے سوالات صرف اس غرض سے تھے کہ ان سے آگے بھی کچھ جانا جائے ۔ گو مجھے ابھی تو ان بنیادی باتوں کا بھی با خوبی علم نہیں ہے جنکا ذکر ہر کوئی کرتا ہے ۔ذہن میں آئے سوالات آپ سے پوچھ لیتا ہوں اس طرح علم میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
 
؎کیا بات ہے :)
بیٹھے بٹھائے آپ کو بہت ساری معلومات مل گئیں ابھی اور بھی ماہر اساتذہ آنے والے والے ہیں اور آپ نے جن لوگوں کو ٹیگ کیا وہ آ ہی رہے ہونگے خصوصا استاذ الف عین،استاذ فرخ منظوروغیرہم اگر آپ کے یہاں نزدیک میں لائبریری ہو تو وہاں بھی اردو ادب کی تاریخ سے متعلق کچھ چیزیں نوٹ کر لائیے ۔یہی بہانے ہمیں بھی کچھ جاننے کا موقع مل جائے گا ۔
 
بہت عمدہ بات کی آپ نے جناب مجیب صاحب۔
البتہ میرے سوالات صرف اس غرض سے تھے کہ ان سے آگے بھی کچھ جانا جائے ۔ گو مجھے ابھی تو ان بنیادی باتوں کا بھی با خوبی علم نہیں ہے جنکا ذکر ہر کوئی کرتا ہے ۔​
مجھے اس پر شکایت کا گمان ہوا تھا کہ
روشنی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں ۔​
بہر حال۔ آپ کی فراخ دلی پر ممنون ہوں۔
 
ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا ۔۔
معاشرتی علوم (ادب بھی اس میں شامل ہے) کے عام طور پر دو پہلو ہوا کرتے ہیں۔ ایک نصابی اور ایک اطلاقی۔
یہاں محفل میں شعر سے تعلق رکھنے والے احباب میں چار طرح کے لوگ ہیں: ایک وہ جو نصابی علم میں گیرائی رکھتے ہیں، دوسرے وہ جو اطلاقی پہلو سے مانوس تر ہیں، تیسرے وہ جو ان دونوں پہلوؤں کو احاطہ کرتے ہیں یا کرنے کے اہل ہیں، اور چوتھا گروہ وہ ہے جو حسبِ ضرورت کسی ایک نکتے پر اپنی تشفی چاہتا ہے اور اس پر قانع ہو جاتا ہے۔ میرا شمار شاید اس چوتھے گروہ میں ہوتا ہو۔

بزرگوں سے سنا کہ علم سوال سے پیدا ہوتا ہے۔ سوال کیا ہے؟ کچھ جاننے کی خواہش کا نام سوال ہے۔ اور اس خواہش کا زندہ اور متحرک رہنا یقیناً بڑی برکات کا حامل ہے۔ آپ کو جواب بھی شافی چاہئے ہو گا (بہت فطری سی بات ہے)۔ یہ شافی جواب آپ کو ایک تو یہاں موجود تیسرے گروہ سے ملے گا اور دوسرے آپ کو کتب بینی کرنی ہو گی، اس کے بغیر چارہ نہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر شان الحق حقی، بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بہت کام کیا ہے (کسی کی نفی کرنا مقصود نہیں)۔ اردو ادب اس حوالے سے بہت خوش قسمت ہے کہ اس میں بہت سارا نصابی، تحقیقی، تنقیحی، اطلاقی کام موجود ہے۔ اللہ کرے آپ کا شوق مہمیز رہے اور جیسا آپ نے کہا: اس کام کو آگے بھی بڑھنا چاہئے؛ اس بڑھوتی میں آپ کا حصہ بھی ایسا ہو کہ اہلِ ذوق اس سے مستفیض ہو سکیں۔

میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کے سوالات غزل تک محدود نہ رہیں بلکہ شعر اور نثر کی دیگر اصناف کو بھی زیرِ غور لائیے اور ایک بہت اہم صورتِ حال (میں نجی گفتگو میں اس کو ’’تکلیف دہ‘‘ کہا کرتا ہوں) یہ ہے کہ فی زمانہ فکری انحطاط کے نتیجے میں ادب میں ہیئتی اور صنفی انحطاط بھی دَر آیا ہے۔ میرا یہ سوال سب سے ہے کہ:
ع ۔۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں! ہے کہ نہیں​


بہت آداب۔
 

الف عین

لائبریرین
سب کچھ باتیں ہو چکی ہیں، اب میرے کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں!! اب رہا سوال یہ کہ یہ کب سے شروع ہوئی؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ کہنا اسی طرح مشکل ہے جیسے غالباً بقول یوسفی کس لمحے میں کلی پھول بنی، اور کس لمحے میں بڑھاپا در آیا وغیرہ وغیرہ (یا اسی قسم کا کچھ اور)۔
 
آج میں نے اردو ڈپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر کے پاس ایک کتاب دیکھی "اردو غزل کا تاریخی ارتقا"مصنف:غلام آسی رشیدی
مشمولات پر نظر ڈالنے سے ایسا محسوس ہوا کہ مجیب صاحب کے سارے سوالوں کے جوابات اس کتاب میں مل سکتے ہیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اردو غزل از کامل قریشی مطبوعہ دہلی اردو اکادمی، گھٹا مسجد روڈ، دہلی، اس کتاب میں اردو غزل اور غزل کی تنقید پر درجنوں مقالات ہیں بہت اچھی ،معیاری اور مستند معلومات اس کتاب سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
 
اردو غزل از کامل قریشی مطبوعہ دہلی اردو اکادمی، گھٹا مسجد روڈ، دہلی، اس کتاب میں اردو غزل اور غزل کی تنقید پر درجنوں مقالات ہیں بہت اچھی ،معیاری اور مستند معلومات اس کتاب سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ہم پاکستانی لوگ اس کتاب سے کیسے استفادہ کرسکتے ہیں۔:) اگر لنک مل جائے تو اچھا ہو۔
 
Top