انجینئرفانی
محفلین
۱۔قلعۂ لاہور
قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (۱۶۰۵ء-۱۵۵۶ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
تاریخ
قلعہء لاہور کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم اورروایتی حکایات موجود ہیں۔ تاہم ۱۹۵۹ء کی کھدائی کے دوران جو کہ محکمہء آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے سامنے کی، جس میں محمود غزنوی ۱۰۲۵ء کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔جو کہ باغیچہ کی زمین سے تقریبا 62 .7 میٹر گہرائی میں ملا۔ جبکہ پانچ میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً ۱۰۲۱ء میں موجود تھی۔ مزید برآں یکہ اس قلعہء کی نشانیاں شہاب الدین غوری کے دور سے بھی ملتی ہیں جب اُس نے ۱۱۸۰ء تا ۱۱۸۶ء لاہور پر حملے کئے تھے۔یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہء لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں، شاید ہمیشہ کے لئے، تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ۱۰۲۵ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۲۴۱ء - منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
۱۲۶۷ء - سلطان غیاث الدین بلبن نے دوبارہ تعمیر کرایا۔
۱۳۹۸ء - امیر تیمور کی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
۱۴۲۱ء - سلطان مبارک شاہ سید نے مٹی سے دوبارہ تعمیرکروایا۔
۱۴۳۲ء - قلعے پر کابل کے شیخ علی کا قبضہ ہوگیا اور اُس نے قلعے کو شیخا کھوکھر کے تسلط کے دوران پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی۔
۱۵۶۶ء - مغل فرمانروا اکبر نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے، اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروائی اور شاید اسی وقت اس کو دریائے راوی کی سمت وسعت دی تقریباً
۱۸۴۹ء میں، جب راوی قلعہء لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔ اکبر نے “دولت کدہء خاص و عام“ بھی تعمیر کروایا جوکہ “جھروکہء درشن“ کے نام سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ مسجد دروازہ وغیرہ بھی بنوایا۔
۱۶۱۸ء - جہانگیر نے “دولت کدہء جہانگیر“ کا اضافہ کیا۔
۱۶۳۱ء - شاہجہاں نے شیش محل تعمیر کروایا۔
۱۶۳۳ء - شاہجہاں نے “خوابگاہ“، “حمام“، “خلوت خانہ“ اور “موتی مسجد“ تعمیر کروائی۔
۱۶۴۵ء - شاہجہاں نے “دیوان خاص“ تعمیر کروایا۔
۱۶۷۴ء - اورنگزیب نے انتہائی جسیم عالمگیری دروازہ لگوایا۔
۱۷۹۹ء یا ۱۸۳۹ء - اس دوران شمالی فصیل جوکہ کھائی کے ساتھ واقع ہے، سنگ مرمر کا “ہتھ ڈیرہ“، “حویلی مائی جنداں“، “بارہ دری راجہ دھیاں سنگھ“ کی تعمیر رنجیت سنگھ نے کرائی، ایک سکھ حکمراں جوکہ ۱۷۹۹ء تا ۱۸۳۹ء تک حاکم رہا۔
۱۸۴۶ء - برطانیہ کا قبضہ۔
۱۹۲۷ء - قلعے کی جنوبی فصیل کو منہدم کرکے، اس کی مضبوط قلعے کی حیثیت کو ختم کرکے اسے برطانیہ نے محکمہء آثارِ قدیمہ کو سونپ دیا۔
تعمیری ڈھانچہ
مغلیہ سلطنت میں کابل، ملتان اور کشمیر کے فرمائرواؤں کے حملے کے پیشِ نظر لاہور کی جغرافیائی اہمیت اس بات کی متقاضی تھی کہ قلعہء لاہور کو پکی اینٹوں کی کاریگری کرکے ایک مضبوط قلعہ بنایا جائے۔ اس کے تعمیری ڈھانچے میں فارسی رنگ چھلکتا ہے جوکہ مختلف شاہوں کی فتوحات کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔ یہ قلعہ واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے ۔پہلا حصہء منتظم، جو کہ تمام تر داخلی راستوں سے بخوبی جُڑا ہوا ہے اور اس کے اندر تمام باغیچے اور شاہی حاضرین کے لئے دیوان عام بھی شامل ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ نجی و خفیہ رہائشگاہوں پر مشتمل ہے جوکہ شمالی سمت میں صحن اور دالانوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن تک رسائی کے لئے “ہاتھی دروازہ“ استعمال ہوتا تھا۔ اسی میں شیش محل بھی شامل ہے، وسیع آرام دہ کمرے اور چھوٹے باغیچے بھی اس میں موجود ہیں۔ بیرونی حصے کی دیواریں نیلی فارسی کاشی کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا اصل داخلی راستہ “مریم زمانی مسجد“ کے سامنے ہے جبکہ بڑا عالمگیری دروازہ حضوری باغ کی طرف کھلتا ہے، جہاں عظیم الشان بادشاہی مسجد بھی واقع ہے۔
قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (۱۶۰۵ء-۱۵۵۶ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
تاریخ
قلعہء لاہور کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم اورروایتی حکایات موجود ہیں۔ تاہم ۱۹۵۹ء کی کھدائی کے دوران جو کہ محکمہء آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے سامنے کی، جس میں محمود غزنوی ۱۰۲۵ء کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔جو کہ باغیچہ کی زمین سے تقریبا 62 .7 میٹر گہرائی میں ملا۔ جبکہ پانچ میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً ۱۰۲۱ء میں موجود تھی۔ مزید برآں یکہ اس قلعہء کی نشانیاں شہاب الدین غوری کے دور سے بھی ملتی ہیں جب اُس نے ۱۱۸۰ء تا ۱۱۸۶ء لاہور پر حملے کئے تھے۔یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہء لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں، شاید ہمیشہ کے لئے، تاہم محکمہء آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشارات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ۱۰۲۵ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۲۴۱ء - منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
۱۲۶۷ء - سلطان غیاث الدین بلبن نے دوبارہ تعمیر کرایا۔
۱۳۹۸ء - امیر تیمور کی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
۱۴۲۱ء - سلطان مبارک شاہ سید نے مٹی سے دوبارہ تعمیرکروایا۔
۱۴۳۲ء - قلعے پر کابل کے شیخ علی کا قبضہ ہوگیا اور اُس نے قلعے کو شیخا کھوکھر کے تسلط کے دوران پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی۔
۱۵۶۶ء - مغل فرمانروا اکبر نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے، اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروائی اور شاید اسی وقت اس کو دریائے راوی کی سمت وسعت دی تقریباً
۱۸۴۹ء میں، جب راوی قلعہء لاہور کی شمالی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔ اکبر نے “دولت کدہء خاص و عام“ بھی تعمیر کروایا جوکہ “جھروکہء درشن“ کے نام سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ مسجد دروازہ وغیرہ بھی بنوایا۔
۱۶۱۸ء - جہانگیر نے “دولت کدہء جہانگیر“ کا اضافہ کیا۔
۱۶۳۱ء - شاہجہاں نے شیش محل تعمیر کروایا۔
۱۶۳۳ء - شاہجہاں نے “خوابگاہ“، “حمام“، “خلوت خانہ“ اور “موتی مسجد“ تعمیر کروائی۔
۱۶۴۵ء - شاہجہاں نے “دیوان خاص“ تعمیر کروایا۔
۱۶۷۴ء - اورنگزیب نے انتہائی جسیم عالمگیری دروازہ لگوایا۔
۱۷۹۹ء یا ۱۸۳۹ء - اس دوران شمالی فصیل جوکہ کھائی کے ساتھ واقع ہے، سنگ مرمر کا “ہتھ ڈیرہ“، “حویلی مائی جنداں“، “بارہ دری راجہ دھیاں سنگھ“ کی تعمیر رنجیت سنگھ نے کرائی، ایک سکھ حکمراں جوکہ ۱۷۹۹ء تا ۱۸۳۹ء تک حاکم رہا۔
۱۸۴۶ء - برطانیہ کا قبضہ۔
۱۹۲۷ء - قلعے کی جنوبی فصیل کو منہدم کرکے، اس کی مضبوط قلعے کی حیثیت کو ختم کرکے اسے برطانیہ نے محکمہء آثارِ قدیمہ کو سونپ دیا۔
تعمیری ڈھانچہ
مغلیہ سلطنت میں کابل، ملتان اور کشمیر کے فرمائرواؤں کے حملے کے پیشِ نظر لاہور کی جغرافیائی اہمیت اس بات کی متقاضی تھی کہ قلعہء لاہور کو پکی اینٹوں کی کاریگری کرکے ایک مضبوط قلعہ بنایا جائے۔ اس کے تعمیری ڈھانچے میں فارسی رنگ چھلکتا ہے جوکہ مختلف شاہوں کی فتوحات کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔ یہ قلعہ واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے ۔پہلا حصہء منتظم، جو کہ تمام تر داخلی راستوں سے بخوبی جُڑا ہوا ہے اور اس کے اندر تمام باغیچے اور شاہی حاضرین کے لئے دیوان عام بھی شامل ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ نجی و خفیہ رہائشگاہوں پر مشتمل ہے جوکہ شمالی سمت میں صحن اور دالانوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن تک رسائی کے لئے “ہاتھی دروازہ“ استعمال ہوتا تھا۔ اسی میں شیش محل بھی شامل ہے، وسیع آرام دہ کمرے اور چھوٹے باغیچے بھی اس میں موجود ہیں۔ بیرونی حصے کی دیواریں نیلی فارسی کاشی کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا اصل داخلی راستہ “مریم زمانی مسجد“ کے سامنے ہے جبکہ بڑا عالمگیری دروازہ حضوری باغ کی طرف کھلتا ہے، جہاں عظیم الشان بادشاہی مسجد بھی واقع ہے۔