عرض ہے کہ جہاں لوگوں کو نقد نیند بھی میسر نہیں وہاں خاکسار ادھار میں خواب ڈھونڈنے نکلا ہے، چونکہ خواب نیند سے اگلا مرحلہ اور جب نیند میسر نہ ہو تو خواب کی خواہش فقط دیوانگی ہے، یہ تو ہے سیدھا سادہ مطلب، باقی گہرائی میں یا تشریح جاننے کے لیے آپ نے سوال پوچھا ہے تو وہ بھی عرض کر دونگا انشاءاللہ
ایک غزل احباب کی خدمت میں
تم نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کے بارے پاگل
ننگے پاوں ہیں اور تلوار کے دھارے، پاگل
اس قدر تیرگی میں کیسے ٹھکانہ ڈھونڈیں؟
کون دیتا ہے فقیروں کو سہارے پاگل
عمر بھر کون بھلا ساتھ تمہارا دیتا؟
تم تو بھولے ہو، دیوانے ہو، بیچارے پاگل
نقد ڈھونڈے سے جہاں نیند میسر نہ ہوں
واں...
عالم عشق ہے یہ سوز و زیاں سے لبریز
داستاں اسکی ہے بھنبھور و کنعاں سے لبریز
یا تو ہے موت یا دیوانگی انجام اس کا
کبھی منصور کی سولی، کبھی شوق تبریز
طالب اصلاح
ملک محمد اسد
تیرا کُن سنوں کر معجزہ
تیری ذات سے کیا بعید ہے
تُو جو چاہے پل میں سدھار دے
میرا جتنا بگڑا نصیب ہے
میری بگڑی پل میں بنا دے نہ
مجھے پھر سے مجھ سے ملا دے نہ
فقط ایک کُن کا سوال ہے
محض ایک بھیک عطاء کرو
میرے چارہ گر میرے چارہ ساز
مجھے درد سے رہا کرو
تُو جو ماں سے بڑھ کے ہے چاہتا
رہوں کیوں میں پھر...
ایک نظم پیش خدمت ہے، براہ کرم، تعمیری تنقید و اصلاح فرمائیں
ماں مجھے نیند کیوں نہیں آتی؟
ماں، مجھے چین کیوں نہیں ملتا؟
ماں، مجھے خواب کیوں نہیں آتے؟
باتیں کرتا ہوں رات بھر لیکن
در و دیوار چپ کیوں رہتے ہیں؟
یہ کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟
ماں
عجب حال ہے مرا کہ مجھے
دنیا بھر کی دوائیں کھا کر بھی...
ماں مجھے نیند کیوں نہیں آتی؟
ماں، مجھے چین کیوں نہیں ملتا؟
ماں، مجھے خواب کیوں نہیں آتے؟
باتیں کرتا ہوں رات بھر لیکن
در و دیوار چپ کیوں رہتے ہیں؟
یہ کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟
ماں
عجب حال ہے مرا کہ مجھے
دنیا بھر کی دوائیں کھا کر بھی
کروٹیں بس نصیب ہوتی ہیں
ماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے اب تو ایسا لگتا ہے...
اور ایک غزل احباب کی خدمت میں
تم نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کے بارے پاگل
ننگے پاوں ہیں اور تلوار کے دھارے، پاگل
اس قدر تیرگی میں کیسے ٹھکانہ ڈھونڈیں؟
کون دیتا ہے فقیروں کو سہارے پاگل
عمر بھر کون بھلا ساتھ تمہارا دیتا؟
تم تو بھولے ہو، دیوانے ہو، بیچارے پاگل
نقد ڈھونڈے سے جہاں نیند میسر نہ ہوں
واں...
عالم عشق ہے یہ سوز و زیاں سے لبریز
داستاں اسکی ہے بھنبھور و کنعاں سے لبریز
یا تو ہے موت یا دیوانگی انجام اس کا
کبھی منصور کی سولی، کبھی شوق تبریز
طالب اصلاح
ملک محمد اسد
تیرا کُن سنوں کر معجزہ
تیری ذات سے کیا بعید ہے
تُو جو چاہے پل میں سدھار دے
میرا جتنا بگڑا نصیب ہے
میری بگڑی پل میں بنا دے نہ
مجھے پھر سے مجھ سے ملا دے نہ
فقط ایک کُن کا سوال ہے
محض ایک بھیک عطاء کرو
میرے چارہ گر میرے چارہ ساز
مجھے درد سے رہا کرو
تُو جو ماں سے بڑھ کے ہے چاہتا
رہوں کیوں میں پھر...
میں جب بچہ تھا
تو اکثر
کھلونے ٹوٹ جاتے تھے
میرے رونے پہ
ماں آکر کھلونے جوڑ دیتی تھی
سنا ہے ماں سے بھی بڑھ کر
تجھے الفت ہے بندوں سے
تو
آ کے جوڑ دے یا رب
میں خود کو توڑ بیٹھا ہوں
از قلم : ملک محمد اسد