خوشی اور غم

ظفر احمد

محفلین
جس دن سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اس دن سے اب تک خوشی اور غم انسان کے ساتھ ساتھ چلے آرہے ہے یہ دونوں ایک ایسا عمل ہے جسے ہم صرف اور صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ خوشی اور غم کی تعریف میں کچھ اس طرح کر سکتا ہوں جیسے تم میری زندگی میں آئیں! خوشی۔ مجھ سے بچھڑ گئیں! غم۔

میر ے اور تمھارے درمیان تعلق کو خوشی اور ترک تعلق کو غم کہتے ہیں۔ ہم اپنے ذہنوں میں ذرا سوچیں تو ہم کسی کی خوشی اور غم کوکچھ اسطرح محسوس کر سکتے ہیں۔ خوشی ایسی ہے جیسے مدت سے بہار کی امید میں سوکھا ہوا درخت اچانک ہرا بھرا ہو جائے۔ جیسے تپتے صحرا میں پانی مل جائے۔ جیسے روتے بسورتے معصوم بچے کو ماں کی گود مل جائے۔ جیسے جون کی جھلسا دینے والی دھوپ میں اک گھنا درخت مل جائے۔ جیسے دسمبر کی یخ بستہ ہوائوں میں ٹھٹرتے نگ دھڑنگ یتیم بچے کو کمبل مل جائے۔ جیسے دکھی اور کرب میں مبتل لوگوں کو قرار آجائے۔ جیسے راہ سے بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل مل جائے۔ جیسے ہیر کو رانجھا، شیریں کو فرہاد، لیلی کو مجنوں، سسی کو پنو، جولیٹ کو رومیو، اور مجھ کو تم مل جائو۔ اور ان سب سے بچھڑنے کا نام ہی تو غم ہے جو خوشی سے زیادہ محسوس کیا جاتا ہے خوشی کو ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں لیکن غم کو نہیں۔ غم آہستہ آہستہ انسان کی زندگی کو کھا جاتا ہے۔ اسطرح خوشی اور غم کا کھیل انسان کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
الحمدللہ۔ میں‌بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟

محمد منصور نام ہے، عمر 28 سال، پاکستان میں‌ ڈیرہ غازی خان سے تعلق ہے۔ کمپیوٹر سائنسز اور کامرس میں گریجوائیشن کی ہے۔ آج کل (یعنی کوئی دو سال سے) فن لینڈ میں‌ ہوتا ہوں۔ مزید جو پوچھنا چاہیں‌ :)
 

شمشاد

لائبریرین
ظفر بھائی بہت اچھی تحریر ہے۔ مزہ آیا پڑھ کے۔

امید ہے اور بھی لکھتے رہیں گے۔
 
Top