امام ابن تيمیہ (رح) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
بسم الله الرحمن الرحيم

امام ابن تيمیہ ( رحمه الله) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت
مولانا عطاء اللہ حنيف بھوجيانى( رحمه الله) كى تحقيق​



مولانا غلام رسول مہر، لکھتے ہیں : " مولانا ( محمد عطا ء اللہ حنيف بھوجيانى ) كى شان تحقيق كے ثبوت ميں صرف ايك مثال پیش كردينا كافي ہے ۔

ابن بطوطة کے سفرنامے ميں درج ہے کہ جب وہ دمشق ميں تھا تو جمعہ كے دن جامع مسجد گیا . ابن تيميه رحمه الله منبر پر وعظ كر رہے تھے . دورانِ وعظ فرمايا كہ اللہ تعالى رات كے آخرى حصے میں پہلے آسمان پر اترتا ہے، پھر منبر کے بالائى حصہ سے ايك پایہ نیچے اتر کر کہا : یوں اترتا ہے جيسے ميں اتررہا ہوں ۔

چوں کہ یہ الزام عینی شہادت كے دعوى پر مبنی تھا ، اس لیے اكثر لوگوں نے اسے درست سمجھ لیا ۔ چھ سات سو سال تك يہ الزام جس كى حيثيت ايك تہمت سے زيادہ نہ تھی ، امام ابن تيمية رحمہ اللہ کے مخالفوں کے ليے ايك دستاویز بنا رہا . اور عقيدت مند بھی اس كے خلاف كوئى واضح شہادت پیش نہیں کر سکتے تھے ۔

مولانا محمد عطاء اللہ حنيف نے تحقیق کے بعد يہ ثابت كر ديا ہے کہ ابن بطوطہ نو رمضان 736 ه۔ ( 9 اگست 1326ء) كو جمعرات كے دن دمشق پہنچا تھا اور امام ابن تيميہ اس سے بائیس روز قبل 16 شعبان ، 726 ه۔ ( 18 جولائى 1326ء) كو قلعهء دمشق ميں مجبوس ہو چکے تھے ۔ اور اسى قيد ميں ان كا انتقال ہوا ۔

گويا نه امام ابن تيميه رحمه الله ، ابن بطوطة كے دمشق پہنچنے کے وقت آزاد تھے، نه وه جامع مسجد ميں خطبه دے سكتے تھے ، نه ابن بطوطه كے ليے ايسى كوئى بات خود امام كى زبان سے سننے كا موقع آيا، جو بہ وثوق ان سے منسوب كر دى گئی ۔


علاوه بر ايں، خود ابن بطوطہ نے لكھا ہے جب وه دمشق پہنچا تو جامع مسجد كے خطيب و امام قاضي القضاة جلال الدين القزوينى تھے اور سركارى خطيب وامام كے ہوتے ہوئے امام ابن تيمية رحمه الله كے ليے كوئى خطبه دينا بحالت آزادى بھی خارج از بحث تھا كيونكہ وقت كا محكمہء قضا اور خود قزوينى ، امام ابن تيمية رحمہ اللہ كے مخالفين ميں سے تھے ۔


بہر حال ابن بطوطہ كا يہ بيان بالكل بے بنياد ہے ، ممكن ہے سفرنامہ لكھواتے وقت اس كى ياد داشتوں ميں بے ترتیبی پیدا ہو گئی ہو ۔ يہ بھى ممكن ہے كہ دمشق ميں اس كى ملاقاتيں امام ابن تيمية رحمہ اللہ كے مخالفوں سے ہوتی رہی ہوں اور انہوں نے بظاہر اسى قسم كى بے سروپا باتیں ابن بطوطہ کو سنائى ہوں جنہیں اس نے غير شاياں وثوق كى بنا پر ذاتى مشاہدے كا رخ دے ديا ہو ۔

غرض ابن بطوطہ كے دوسرے بيانات كتنے ہی مستند اور درخور قبول كيوں نہ ہوں، يہ بيان بداہتاً غلط ہے ۔كيونكه امام ابن تيمية رحمہ اللہ ، ابن بطوطه كے دمشق پہنچنے سے پيشتر قيد ہو چکے تھے ۔ ان كے تمام رفيق ونياز مند زير عتاب تھے اور اس امر كے وقوع كا امكان ہی نہ تھا جسے واقعيت كے لباس ميں پیش كيا گیا ۔ اس معاملے كى تفصيل آپ اصل كتاب ميں ملاحظہ فرمائيں گے "۔ انتھی ( بحوالہ: مولانا غلام رسول مہر: مقدمه حيات شيخ الاسلام ابن تيمية : ص 17_ 18 )

آگے بڑھنے سے قبل يہ عرض كردينا ضرورى ہے كہ حضرت مولانا غلام رسول مرحوم سے سہو ہوا ، امام ابن تيمیة رحمہ اللہ ، ابن بطوطه كے دمشق پہچنے سے بائيس روز قبل 16 شعبان كو قلعه ميں محبوس نہیں ہوئے تھے بلكھ اكتيس بتيس يوم پہلے 6 يا 7 شعبان كو قلعہ ميں بند كرديئے گئے تھے ۔

مولانا مہر مرحوم سے یہ غلطى يوں ہوئی كھ حضرت مولانا كے ضميمہ ميں 6 شعبان كى بجائے 16 شعبان كتابت كى غلطى سے چھپ گیا ۔مگر انہوں نے بعد كے الفاظ پر غور نہ فرمایاجس ميں حضرت مولانا مرحوم نےبصراحت لكھا ہے كہ: " يعنى ابن بطوطه كے پہنچنے سے 32 دن قبل قلعہ ء دمشق ميں محبوس ہو چکے تھے ۔ _( حيات شيخ الاسلام ص 150 ) اور يہ بتيس دن تبھى پورے ہوتے ہیں جب تاريخ 6 شعبان ہو ۔

يہاں یہ بات مزيد قابل وضاحت ہے كہ شيخ ابوزھرة نے لكھا ہے كہ شيخ الاسلام ابن تيميه كى گرفتارى كا شاہى حكم دمشق ميں 7 شعبان 626ه۔ كو پہنچا . فورا ہی تعميل حكم كى غرض سے امام صاحب كو مطلع كيا گیا اور ان كى خدمت ميں سوارى بھيج كر دمشق كے قلعہ ميں انہیں پہنچا كر محبوس كرديا گیا ( بحوالہ: حيات شيخ الاسلام ابن تيمية : ص 150) .

شيخ ابو زهرة چند صفحات كے بعد لكھتے ہیں : 20" ذو القعده كو امام صاحب اس دنيائے نا پائیدار سے رخصت ہو گئے . ابتلاء اور مصيبت كا يہ آخرى دور تقريبا 5 ماہ تك جارى رہا . " ( حيات شيخ الاسلام ص 157)

اصل عربى نسخہ تو پیش نگاه نہیں تا ہم دور ابتلاء كى يه مدت چارماه تيره دن ہے ، جسے تقريبا پانچ ماه سے تعبير كيا گیا ہے اور قيد كئے جانے كى تاريخ سات شعبان ہے ۔واللہ تعالى اعلم .

اندازه فرمائيے كہ كس قدر صاف اور واضح بات ہے کہ اكتيس بتيس يوم پہلے قيد كئے جانے والے كو ابن بطوطہ نے دمشق ميں خطبہ ديتے ہوئے کیسے دیکھ لیا ؟ سبحانك هذا بهتان عظيم .

تاريخ ورجال كا عالم اس بات سے بخوبي واقف ہے کہ راويوں كو جانچنے اور پرکھنے كا ايك طريقہ يہی علم التاريخ والوفيات ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انتہی ۔

( اقتباس ازمضمون : مولانا عطاء اللہ حنيف ( رحمہ اللہ ) كا ذوق تاريخ ورجال ،
مؤلف : مولانا ارشادالحق اثري ( حفظہ الله) ،
مطبوعہ ضمن : اشاعت خاص " الاعتصام " بياد مولانا عطاء اللہ حنيف بھوجيانى _ رحمه الله_ )​
 

محمد وارث

لائبریرین
کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ شیخ ابنِ تیمیہ مجسمہ تھے یعنی صفاتِ باری تعالیٰ میں تجسیم کے قائل تھے، جبکہ کچھ کا کہنا ہے آپ تجسیم کے نہیں بلکہ تفویض کے قائل تھے ﴿ بحوالہ تاریخِ اہلِ حدیث از مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی﴾۔ اگر شیخ تجسیم کے قائل تھے تو ایسی مثال پیش کرنا عقل سے کچھ بعید نہیں ہے کہ مجسمہ اس چیز کو مانتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 
جو لوگ ابن تيميہ رحمه اللہ پر تجسيم كا بہتان رکھتے ہيں ان كا انحصار ابن بطوطه کی اسى روايت پر ہے جس كا بطلان يہاں ثابت ہے۔ اس كے علاوہ امام ابن تيميہ رحمہ كى اپنی كتب ميں جا بجا مجسمہ كا رد اور ان کے عقيدے كا واضح اظہار ہے جو اس بہتان كو جھٹلانے كے ليے كافى ہے
مثلا: مجموع فتاوى ابن تيمية : (5/271) كا يه مقام :
[ARABIC]إنّ الله سبحانه مُنَزَّهٌ من أن يكون من جنسِ شيء من المخلوقات، لا أجسادَ الآدميين ولا أرواحَهم، ولا غيرَ ذلك من المخلوقات فإنَّه لو كان من جنس شيء من ذلك بحيث تكون حقيقتُه كحقيقتِه، لَلَزِم أن يجوز على كلٍّ منهما ما يجوز على الآخر، ويجب له ما يجبُ له، ويُمتنع عليه ما يُمتنع عليه، وهذا ممتنع لأنّه يستلزم أن يكون القديم الواجب الوجود بنفسه غير قديم واجب الوجود بنفسه، وأن يكون المخلوقُ الذي يُمتنع غناه يُمتنع افتقاره إلى الخالق، وأمثالُ ذلك من الأمور المتناقضة، والله تعالى نَزَّهَ نفسَه أن يكون له كفو أو مثل أو سمي أو ند۔[/ARABIC]
اور بيان تلبيس الجهمية كے یہ مقامات :
بشکریہ وثائق تثبت براءة ابن تيمية من التجسيم (سلسلة الدفاع عن شيخ الإسلام)
13121237663.jpg


13121231601.jpg

13121233601.jpg


اور اب ملاحظہ فرمائيے ان كا واضح قول كہ اللہ تعالى نور ہيں جيسا كہ سورة النور آيت نمبر 35 ميں ارشاد بارى تعالى ہے ۔
13121237661.jpg

13121237662.jpg
 

سویدا

محفلین
قطع نظر اس بحث کے آپ نے عنوان میں بہتان کا لفظ غلط لکھا ہے یہ تعبیر بڑوں کی شان میں مناسب نہیں ہے
خاص طور پر علمی اور تاریخی مباحث میں ایسی چیزیں بے شمار ہیں
بہتان کے لفظ سے تو آپ نے ابن بطوطہ کو گناہ گار کردیا اگر یہ لکھ دیا جاتا کہ امام ابن تیمیہ کے متعلق ایک غلط فہمی تو زیادہ مناسب ہوتا
ابن بطوطہ اور ابن تیمیہ کے زمانے میں نہ میں موجود تھا اور نہ ہی آپ میں سے کوئی موجود تھا ایک بڑے کی نسبت سے غلط فہمی کو دور کرنا تو بہت اچھی بات ہے لیکن اسی کے ساتھ دوسرے بڑے (ابن بطوطہ) پر قرآنی آیت چسپاں کرنا
کہ سبحانک ہذا بہتان عظیم یہ ہر گز بھی صحیح نہیں ہے۔
اگر میری یہ تجویز ناگوار گذری ہو تو معذرت لیکن ادب اور علم کا تقاضا یہی ہے ورنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہی عمل سے متعلق صحابہ کرام کی مختلف روایات موجود ہیں اس لیے اس کی مناسب تعبیر کی جائے گی نہ یہ کہ
ہم کسی بھی بڑے پر بہتان جیسے لفظ کہیں۔
اور پھر متقدمین یا متاخرین تمام طبقات میں علمی میدان میں اس قسم کی مختلف آراء وافکار عموما پائی جاتی ہیں
 
السلام عليكم ورحمت اللہ وبركاتہ
خير خواہی كے ليے مشكور ہوں۔
ذرا ايك نظر لفظ بہتان كے لغوى معنى پر ڈال ليتے ہيں۔
بہتان ہے بهت سے ۔
اصمعى كا قول ہے : بَهِتَ، : إِذا دُهِش ۔ جب كسى كو حيران كر ديا جائے تو كہا جاتا ہے بَهِتَ۔
سورة البقرة آيت نمبر 258 ميں الله سبحانه وتعالى فرماتے ہيں: [ARABIC]أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّ۔هُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّ۔هَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّ۔هُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[/ARABIC] --- کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وه ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے، وه کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وه کافر بھونچکا ره گیا، اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
زجاج كا قول ہے كہ يہاں معنى ہيں حيران ہونا بھونچكا رہ جانا ، حيرت سے خاموش رہ جانا ۔ اسى معنى کے ليے بُهِت اور بہت۔
[ARABIC]وَمِنْه بَهَتُّ الرجُلَ: إِذا قابلته بكَذِب يُحَيَّره وَقَول الله جلّ وعزّ: {أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً} (النِّساء: 20) .
قَالَ أَبُو إِسْحَاق: (الْبُهْتَان) : الْبَاطِل الَّذِي يُتَحَيَّر من بُطْلَانه.[/ARABIC]
اور اسى سے كہا جاتا ہے بَهَتُّ الرجُلَ ميں نے اس شخص كو مبہوت كر ديا ، جب آپ كسى شخص سے ايسا جھوٹ بوليں جو اس كو حيران كر دے۔ اسى معنى ميں سورة النساء آيت 20 ميں اللہ سبحانه وتعالى كا فرمان ہے : [ARABIC]أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً [/ARABIC]كیا تم اسے ناحق اور کھلا گناه ہوتے ہوئے بھی لے لو گے؟
اور ابو اسحاق كا كہنا ہے : بهتان وہ جھوٹی(ناحق/ باطل) بات ہے جو حيران كر دے۔( يعنى ايسا جھوٹ جس پر يقين كم آئے، جو ناممكن الوقوع لگے۔)
[ARABIC] قَالَ اللَّيْث: البَهْت: استقبالك الرَّجل بأَمْرٍ تقْذِفُه بِهِ، وَهُوَ مِنْهُ بَرِيء. وَالِاسْم البُهْتان. والبَهْت كالحَيْرة۔[/ARABIC]
الليث كا كہنا ہے ۔ بہت كا مطلب ہے تم كسى شخض كو ايسى بات كا مرتكب قرار دو جس سے وہ برى (پاك) ہو۔ اسى سے اسم ہے بہتان ۔اور بہت حيرت كى طرح ہے۔
لسان العرب ميں لا يغتب( غيبت نہ كرو) كا معنى بيان كرتے ہوئے مذكور ہے: [ARABIC]أي لا يتناول رجلا بظهر الغيب بما يسوءه مما هو فيه. وإذا تناوله بما ليس فيه، فهوبَهْتٌ وبُهْتانٌ۔[/ARABIC]
يعنى : كوئى كسى شحص كى غير موجودگی ميں اس ميں موجود عيب كا يوں تذكره نہ كرے کہ ( اگر وہ سن لے تو ) اسے برا لگے۔ اور اگر كوئى كسى كا ذكر ايسے عيب كے ساتھ كرے جو اس ميں موجود نہيں تو وہ بہت ہے اور بہتان ہے !

(لغوى ماہرين کے اقوال كى تفصيل : لسان العرب : فصل الباء الموحدة ، فصل التاء ، تهذيب اللغة : أبواب الهاء والتاء ، ابواب الهاء والباء وغيرها ، المنجد، مفردات القرآن ، ترجمہ قرآن از مولانا محمد جونا گڑھی )

اب زير بحث مسئلے كى جانب پلٹتے ہيں۔
امام ابن تيميہ رحمه اللہ پر اس واقعے ميں جو الزام لگايا گيا وہ يقينا باطل (جھوٹ) بھی ہے اور حيران كن بھی ۔

1-اس كا بطلان تو تاريخى حوالے سے ثابت كر ديا گيا كہ ابن بطوطہ كى ان سے ملاقات اور رويت ثابت ہی نہيں كيونكہ امام ابن تيميہ رحمه اللہ اس وقت قيد ميں تھے۔ اكتيس بتيس يوم پہلے قيد كئے جانے والے كو ابن بطوطہ نے دمشق ميں خطبہ ديتے ہوئے کیسے دیکھ لیا ؟
گويا نه امام ابن تيميه رحمه الله ، ابن بطوطة كے دمشق پہنچنے کے وقت آزاد تھے، نه وه جامع مسجد ميں خطبه دے سكتے تھے ، نه ابن بطوطه كے ليے ايسى كوئى بات خود امام كى زبان سے سننے كا موقع آيا، جو بہ وثوق ان سے منسوب كر دى گئی ۔

خود ابن بطوطہ كى كتاب كى داخلى شہادت تناقض (contradiction) کے سبب اس کے خلاف ہے۔
علاوه بر ايں، خود ابن بطوطہ نے لكھا ہے جب وه دمشق پہنچا تو جامع مسجد كے خطيب و امام قاضي القضاة جلال الدين القزوينى تھے اور سركارى خطيب وامام كے ہوتے ہوئے امام ابن تيمية رحمه الله كے ليے كوئى خطبه دينا بحالت آزادى بھی خارج از بحث تھا كيونكہ وقت كا محكمہء قضا اور خود قزوينى ، امام ابن تيمية رحمہ اللہ كے مخالفين ميں سے تھے ۔

2- حيران كن يہ اس ليے ہے کہ جن مجسمه اور مشبهة كے رد سے امام صاحب كى كتابيں بھری پڑی ہيں اور جا بجا وہ ان كو گمراه قرار ديتے ہيں يہ كيسے ممكن ہے کہ وہ اپنے خطبے ميں ان کی موافقت كريں؟
يہ روايت واقعتا اہل علم كے ليے حيران كن معمہ بنى رہی اور اس كے متعلق بہت سے علمى مناقشے آج بھی آپ كو مختلف كتب ميں مل جائیں گے۔

اب چونکہ يہاں لفظ بہتان استعمال كرنے كے تمام لغوى اسباب موجود ہيں اس ليے ميرے خيال ميں مولانا ارشاد الحق اثرى حفظہ اللہ ورعاه نے بجا طور پر اس كو بہتان قرار ديا ہے اور قرآنى آيت كا نہايت بر محل استعمال كيا ہے ۔[ARABIC]سُبْحَانَكَ هَ۔ٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ [/ARABIC]یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے!


...... اب سوال باقى رہ جاتا ہے کہ كيا اس لفظ كے استعمال سے ابن بطوطہ كو گنہ گار قرار ديا گيا ہے؟
اس تحرير ميں ابن بطوطہ كى كتاب ميں ذکر كردہ ايك روايت كا بطلان واضح كيا گيا ہے، ليكن اس کے ليے نامناسب القاب يا الفاظ استعمال نہيں کیے گئے۔ اس کے برعكس اگر اس تنقيد كو ديكها جائے جو خود اہل ادب اور تاريخ دانوں كى جانب سے ابن بطوطہ اور اس كے بيان كردہ مشاهدات پر کی گئی ہے تو وہ حيران كن ہے۔ اس كے بيان كردہ مشاهدات ميں يہ ايك اكيلا قصہ نہیں جس پر تنقيد ہوئی ہو۔
بالكل غير جانب دار آراء كے شائق قارئين ڈاکٹرنواف عبد العزيز ( اسسٹنٹ پروفیسر الهيئة العامة للتعليم التطبيقي کويت) كى يہ تحرير ملاحظه فرما سكتے ہيں جس ميں رحلات ابن بطوطہ کے خرافاتى پہلو پر خصوصى روشنى ڈالى گئی ہے اور واضح كيا گیا ہے کہ ابن بطوطہ تصديق سے زيادہ سنى سنائى انوكھی باتوں كو اپنی كتاب ميں درج كرنے سے دل چسپی رکھتا تھا۔
اس كے علاوہ ڈاکٹر عبدالنبی ذاکر (جامعة ابن زهر كلية الآداب والعلوم الإنسانية ۔ أغادير، المغرب) كے اس موضوع پر متنوع مقالات انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، ان ميں سے ايك ہے : دائرة الخيال في مصر ابن بطوطة اس ميں قاضى شہر کے عمامے کے مضحکہ خیز ذکر سے لے كر دوسری گپوں تک کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
يہی وجوہات ہيں کہ اس كى كتاب تاريخ كا كوئى معتبر و مستند مصدر سمجھی نہيں جاتى بلكہ اسے سفرنامے اور ادب كى قبيل ميں شمار كيا جاتا ہے۔
بعض لوگوں كى رائے ہے کہ ابن بطوطہ كى كتاب ميں ايسے واقعات اس كے درج كردہ نہيں بلكہ كسى اور شخص كى جانب سے اضافہ كردہ ہيں۔ اگر اس پہلو پر غور كيا جائے تو بداہتا يہ كہا جائے گا کہ يہ كتاب تحريف وتغيير سے بچ نہيں سكى ... ايسى صورت ميں بھی اس كا مستند تاريخى مصدر ہونا محل نظر ہے !
بہر حال يہ ايك الگ بحث ہے اور عربى ادب سے المام ركھنے والے ان حقائق سے بخوبى واقف ہيں۔
 

سویدا

محفلین
مجھے صرف آپ کے دیے گئے عنوان کے ایک لفظ اور اس کی تعبیر سے اختلاف ہے باقی مندرجات کی بحث وتحقیق اور حقیقت حال سے اللہ ہی واقف ہے اور نہ ہی اس کے متعلق میں نے کسی رائے کا اظہار کیا ہے
’’امام ابن تيمیہ (رح) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت‘‘
آپ نے بہتان کا لفظ اردو زبان کے درمیان استعمال کیا ہے نہ کہ عربی زبان لکھتے ہوئے اس لیے آپ کی تحریر کردہ تحقیق اس لحاظ سے تو قابل داد ہے کہ یہ عربی لغت کے لیے مفید ہے لیکن آپ کی پوسٹ اور اس کا عنوان اردو زبان میں ہے
اور اردو محاورے میں بہتان کا لفظ کس سیاق سباق میں استعمال ہوتا ہے اس پر بھی ذرا غور فرمالیجیے گا اردو لغت میں بہتان کے درج ذیل معانی لکھے ہیں 1. افترا، تہمت، جھوٹ۔ آپ کی پیش کردہ تحقیق اردو زبان کے اعتبار اور استعمال سے چنداں مفید نہیں
اس لیے کہ عربی کے بہت سے الفاظ اردو میں آکر ان کے معانی بدل جاتے ہیں
بہرحال اگر آپ بہتان کی تعبیر کو صحیح اور برحق سمجھتی ہیں تو کوءی بات نہیں مجھے پہلے ہی اندازہ تھا اس لیے پیشگی معذرت بھی کرلی تھی میری تجویز کی وجہ سے آپ کو عربی میں بہتان کے لفظ کے لیے تحقیق کرنی پڑی جو یہاں اتنی مفید نہیں لیکن یقینا عربی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے فائدہ مند ہوگی۔
اگر یہ تعبیر کرلی جاتی تو زیادہ اچھا ہوتا کہ ابن تیمیہ سے متعلق ابن بطوطہ کی غلط فہمی
مسئلہ تجسیم سے متعلق ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت وغیرہ وغیرہ
 
كسى بھی لفظ كا معنى متعين كرنے کے ليے اس كے مادے root word اور مكمل تاريخ Etymology كو ديكھنا پڑتا ہے۔ اور اس ميں يہ بھى شامل ہے کہ وہ درحقيقت كس زبان كا لفظ تھا ؟ كس معنى ميں مستعمل تھا اور رفتہ رفتہ دوسرى زبان ميں آ كر كيا شكل اختيار كى ، كيا معنى اختيار كيا ؟ اسى ليے جو الفاظ يونانى سے انگريوى ميں منتقل ہوئے ان كا معنى سمجھنے کے ليے يونانى مادے كو ديكھا جاتا ہے۔ جو سنسكرت، عربى یا فارسى سے اردو ميں آئے ان كا اصل زبان ميں معنى ديكھا جاتا ہے۔
اسى كى ايك مثال انگريزى لفظ worldviewہے۔ اگر آپ اس لفظ كا معنى جانتے وقت جرمن لفظ weltanschauung كا معنى نظر انداز كر ديں گے تو علمى لحاظ سے گھاٹے ميں رہيں گے۔

اردو محاورے میں بہتان کا لفظ کس سیاق سباق میں استعمال ہوتا ہے اس پر بھی ذرا غور فرمالیجیے گا اردو لغت میں بہتان کے درج ذیل معانی لکھے ہیں 1. افترا، تہمت، جھوٹ۔

عربى ميں بہتان كا مطلب حيران كن الزام / حيران كن جھوٹ ہے ، اور بقول آپ کے اردو ميں جھوٹ ! فرق زيادہ نہيں ہے ۔ كم از كم جھوٹ تو جھوٹ ہے !
افترا اور تہمت كا معنى بھی خود گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔ اب اگر كوئى بڑا جھوٹ بولے تو اس كو كيا كہيں ؟ يا كسى بڑے کی كتاب سے جھوٹ برآمد ہو جائے تو كيا كريں ؟ لفظ كے معنى بدل ديں گے؟
آپ نے اردو لغت كا حوالہ نہيں ديا تھا ۔
بہرحال :
فرہنگ آصفيہ کے مطابق : بہتان : ع اسم مذكر 1) - دوش ، تہمت ، افترا ، جھوٹا الزام ، (2)- كلنك ، عيب ، بدنامى دھبا
بہتان جوڑنا ، ركھنا ، دھرنا ، ركھنا، لگانا ، لينا : فعل متعدى عو . الزام لگانا ، عيب دھرنا ، كلنك لگانا ، طوفان اٹھانا ۔
بحواله : فرہنگ آصفيہ : جلد اول ، صفحہ : 324 .

گويا اردو اور عربى لغات متفق ہيں کہ بہتان كا مطلب ہے الزام لگانا، جھوٹا الزام لگانا ۔ اس كا مطلب ہے کہ يہاں لفظ بہتان كا استعمال كوئى قبيح استعمال نہيں بلكہ برمحل اور مناسب ہے ۔
 

سویدا

محفلین
ماشا اللہ آپ کی تحقیق قابل داد ہے
لیکن
خطائے بزرگاں گرفتن خطا است
اور
الدین کلہ ادب
اب آپ یہ مشکل بھی درج بالا تحقیق کی مانند دور فرمادیں کہ کیا صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور دیگر علما اور مشاہیر امت کے باہمی اختلاف رائے کو بھی کیا ہم ایک دوسرے پر ”بہتان لگانے“ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
کیونکہ آپ کی اس تحقیق کا نتیجہ تو یہی نکلتا ہے
 

سویدا

محفلین
ستم بالائے ستم یہ کہ بہتان کے لفظ کے استعمال کے بعد ابن بطوطہ پر قرآن کی یہ آیت منطبق کرنا کہ سبحانک ہذا بہتان عظیم
علمی آراء میں تاویل تشریح تعبیر کی بے شمار گنجائش موجود ہوتی ہے
 
غور طلب بات یہ ہے کہ آدھی رات کو سماء دنیا پر نزول والی حدیث کو اگر آجکل بھی عام سیدھے سادے لوگوں کے مجمع میں بیان کیا جائے تو کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ اس نزول کی کیفیت کیا ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ کس طرح آسمان دنیا پر اترتے ہیں۔۔۔کیا وجہ ہے کہ اس دور میں کسی نے ایسا سوال پوچھا؟۔۔۔بظاہر تو اسکی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ اور اس قسم کے دوسرے الٰہیات اور صفات کے مسائل اس دور کا موضوع تھے۔۔۔علماء میں اس قسم کی بحثیں چل رہی تھیں۔۔ہر دور میں کوئی نہ کوئی مسئلہ محلٰ نزاع ایسا ہوتا ہے جو علماء کے حلقوں میں زیادہ زیر بحث رہتا ہے۔۔۔اب یہ واقعہ درست ہے یا غلط، لیکن اتنا تو واضح ہے کہ ابن تیمیہ ایک متنازع شخصیت تھے اور باوجود علم و فضل کے، کچھ مسائل میں انہوں نے ایسی راہ اختیار کی جس کے باعث مسلمانوں میں اختلاف کا بازار گرم ہوا اور انکے وقت کے علماء کی اکثریت انکے خلاف ہوگئی اور حاکم دمشق کو انہیں اندیشہء نقص امن کے تحت تا دم مرگ محبوس کرنا پڑا۔۔۔
 
سويدا بھائى كيا يہ صرف اختلاف رائے كا معاملہ ہے يا كسى شخص كى بابت ايسے عقيدے كى نسبت كا معاملہ ہے جو وہ رکھتا ہی نہيں تھا؟ اگر كوئى آپ كى جانب ايسا عقيدہ منسوب كرے جو آپ كا نہيں تو آپ اس كو اختلاف رائے کہيں گے؟ معذرت كے ساتھ آپ کچھ بے جا طول دے رہے ہيں بات كو ۔
خطائے بزرگاں گرفتن خطا است
مجھے اس سے اتفاق نہيں۔ خطا خطا ہے خواه كسى كى ہو اور اس كو جتنا جلد درست كر ليا جائے اتنا بہتر ہے۔ اعدلوا هو أقرب للتفوى !
يہ كيا ہے؟ آيت ؟ حديث شريف؟ مقولہ؟
 

سویدا

محفلین
اردو زبان میں بے شمار عربی کے ایسے الفاظ ہیں جن کا عربی میں معنی کچھ اور ہیں اور اردو میں آکر اس کا معنی کچھ اور ہوگیا مثال کے طور پر ترجمہ کا لفظ عربی میں الگ معنی رکھتا ہے اردو میں الگ معنی رکھتا ہے اس تحقیق میں جائے بغیر
میرا سوال بہت آسان ہے صحابہ کرام کی مختلف مسائل کے بارے میں مختلف رائے رہیں تو کیا ہم ایک صحابی کی طرف سے دوسری صحابی کی بابت یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں صحابی پر لگائے گئے بہتان کی حقیقت
کیونکہ ابن تیمیہ اور ابن بطوطہ ہم عصر ہی ہیں
ابن بطوطہ نے جو لکھا مان لیا کہ غلط لکھا لیکن اس کی وجہ بہتان طرازی ہرگز نہیں ہوگی یقینا کوئی نہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی انہیں اور آپ نے جن اہل علم حضرات کے حوالے دیے ہیں وہ بھی تو اسی طرح کے لوگ ہیں جیسے کہ ابن بطوطہ
علامہ ابن تیمیہ کی رائے ہرگز یہ نہیں ہوگی ہم سب آج کے دور میں ان کے متعلق یہ کہہ رہے ہیں آپ بھی اور میں بھی ہم اس دور میں موجود نہ تھے اس لیے میں نے صرف اتنی درخواست کی تھی کہ عنوان میں موجود بہتان کا لفظ اور مضمون میں شامل آیت ابن بطوطہ پر چسپاں کرنا مناسب نہیں ہے ، اگر آج میں یا کوئی اور ابن تیمیہ سے متعلق یہ بات کرتا تب تو آپ بہتان لکھنے میں حق بجانب ہوسکتی تھیں شاید لیکن ایک ابن بطوطہ نے اپنے ہم عصر ہی کے متعلق لکھا ہے
آپ نے لکھا کہ میں بات کو بلا وجہ طول دے رہا ہوں اس پر واقعی معذرت چاہتا ہوں آپ کو میری وجہ سے عربی لغت دیکھنا پڑی لیکن میں نے تو اردو زبان میں اردو محاورے کے متعلق نہایت عام اور سادہ سی بات لکھی تھی لیکن عنوان کی تعبیر بدلنے سے متعلق میری یہ تجویز شاید آپ کے دل کو نہ بھائی
 
کچھ علماء کا یہ کہنا ہے کہ ابن تیمیہ ایک عرصے تک ان عقائد پر قائم رہے جنکی وجہ سے اس وقت کے علماء نے ان پر گرفت کی تھی۔ لیکن بعد میں انہوں نے اپنے ان اقوال سے رجوع کرلیا تھا اور باقاعدہ توبہ کرکے ان اقوال سے براءت کا اظہار کیا تھا۔۔۔واللہ اعلم
ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ جو ابن بطوطہ نے بیان کیا ہے، ابن تیمیہ کی توبہ اور رجوع سے پہلے کا واقعہ ہو۔۔۔
 

محمد مسلم

محفلین
سویدا بھائی آپ کو بار بار مشاجراتِ صحابہ کو درمیان میں نہیں لانا چاہئے، خیر القرون کے بزرگوں بالخصوص صحابہ کرام کو تو اﷲ تعالیٰ نے رضی اﷲ عنہم و رضوا عنہ کا سرٹیفیکیٹ دیا ہے جبکہ یہ معاملہ بہت بعد میں آنے والے علما کا ہے، وہ تنقید سے نہ مبرا ہیں اور نہ ہی غلطی سے مبرا ہیں۔ غلطی امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ سے بھی ہو سکتی ہے اور ابن بطوطہ رحمۃ اﷲ علیہ سے بھی۔ اور علمی اعتبار سے امام ابن تیمیہ کا مقام باوجود اپنے تفردات کے ابن بطوطہ سے بہت اعلٰی ہے۔ بلکہ اگر یوں کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ یہی نزول والی حکایت اگر امام ابنِ تیمیہ کی کتاب میں ہوتی تو اس کی حیثیت زیادہ مضبوط ہوتی اور زیادہ مباحث کا باعث بنتی۔ ابن بطوطہ رحمۃ اﷲ علیہ کو سیاحت میں یقیناً ان پر فوقیت حاصل ہے۔
 
حكمرانوں كى جانب سے قيد كا لازمى مطلب عقيدے کی خرابى نہيں ہوتا ، امام ابن تيميہ رحمہ الله كے حاسد قبرپرستوں نے زيارت مسجد نبوى كے متعلق ان كے ايك فتوے كو توڑ مروڑ كر ان كے خلاف نفرت پھيلانے كى كوشش كى تھی۔ وہ فتوى آج بھی موجود ہے اور افتراپردازوں کے افترا كا پردہ چاك ہو چكا ہے۔ اگر كسى كا تاريخ كا مطالعہ جانب دارانہ ہے تو مسئلہ اس كا ذاتى ہے۔ بعض اوقات قيد و بند فخر كا باعث ہوتی ہے اور راه حق ميں قيد خوش نصيبی ہے۔

ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرہء نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند

مشک اذفر چیز کیا ہے ؟ اک لہُو کی بوند ہے
مشک بن جاتی ہے ہو کر نافہ آہُو میں بند

ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت، مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند

شہپر ِزاغ و زغن در بند ِقید و صید نیست
ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند!!​
 

عین عین

لائبریرین
سویدا نے عنوان پر جو بحث چھیڑی وہ میری نظر میں بھی درست ہے۔ اس کا عنوان بہتان کے لفظ سے محروم ہو تو بہتر ہے۔ سویدا نے بے جا بحث نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بات بھی درست کہی ہے اور میں بھی اس پر اصرار کروں گا کہ صحابہ اور تابعین اور کئی بزرگان دین کے درمیان جو علمی مباحث ہوئے اور غلط فہمیوں کی وجہ سے کچھ معاملات پر تیزی آئی ان کے درمیان کوئی مسئلے پر اختلاف ہوا اور اگر تیسرے خلیفہ سے چوتھے کو شکایت ہوئی اور انہوں نے تیسرے خلیفہ کو کچھ کہا تو کیا وہ معاذ اللہ بہتان ہے؟ نہیں ناں۔ آپ اسے اجتہادی غلطی، فکر کا فرق، غلط فہمی، اختلاف کہہ کر بات بڑھا لے جاتے ہیں۔۔۔۔ اسی طرح یہاں بھی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں تو پھر چودہ سو سال قبل ہونے والے بزرگان دین کے درمیان جو دینی شرعی مسائل اور انتظامی امور میں بحث ہوئی اور اختلاف ہوا تو اس دوران ظاہر ہے کوئی ایک تو غلطی پر ہو گا اور ان سے جو بات اپنے فریق کے لیے نکلی جو بعد میں غلط ثابت بھی ہوئی تو کیا وہ بہتان شمار کی جائے؟
نیز اردو یا عربی کی لغات کھولنے کی ضرورت ہی نہین ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ہم وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو عام فہم ہوں۔ اور ان سے جو معروف معنی لیے جاتے ہیں انہیں کو برتا جاتا ہے۔
سویدا نے درست کہا کہ عربی کی نہیں یہاں اردو زبان کی بات ہو رہی ہے اور بہتان کا معروف معنی کچھ اچھا نہیں یا منفی تاثر دیتا ہے۔ اس کی جگہ واقعی غلط فہمی یا اس کے قریب کوئی لفظ استعمال ہونا چاہیے۔ ورنہ
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں،
وہ اس کا باپ ہے، یہ میرا باپ ہے،
میں نے اپنے باپ کو پانی پلایا،
میں مانتا ہوں کہ میرے باپ نے جھوٹ بکا،
لیکن ہم کہتے ہیں
وہ اس کے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں، میں نے اپنے والد کو پانی پلایا، میں مانتا ہوں کہ میرے والد نے غلط بیانی کی، یا جھوٹ بولا،
اسی طرح میرا باپ جاہل ہے کی جگہ ہم میرے والد ان پڑھ ہیں یا پڑھے لکھے نہیں یا تعلیم یافتہ نہیں ہیں ،بولتے ہیں۔ اس کا مقصد تمیز اور تہذیب سے مخاطبت ہے۔ اور بس۔ ورنہ تو باپ، چھوٹ بکا، جاہل ہے وغیرہ بھی درست ہیں۔ اس میں کیا برائی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ایک متنازع شخصیت ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والے بھی اپنے دور کی نامور علمی اور مذہبی شخصیات ہیٰں، اسی طرح ان کے حق میں بات کرنےو الے بھی علمی اعتبار سے درجہ رکھتے ہیں اور ان کی تحقیقات پر ہم کو یقین ہو یا نہ ہو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ کوئی تسلیم کرلے کوی نہ کرے اور اختلاف کرنےو الوں کے ساتھ ہی رہے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 

عین عین

لائبریرین
دوسرے یہ کہ اگر آپ مطمئن ہیں اس جواب سے یا جو تحقیق سامنے آئی ہے اس سے تو ضروری نہین کہ دوسرا بھی اسے تسلیم کر لے۔ جس طرح آپ کو اس تحقیق سے پہلے سامنے آنے والے امام ابن تيميہ کے مخالفین جنہیں آپ نے حاسدین کہہ دیا ہے سے کی باتوں سے اختلاف ہے اور آپ انہیں قبول نہیں کرتے تو یہ بھی آپ کا ذاتی فعل ہے۔ اسے دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کو امام ابن تيميہ کا یقین ہے تو آپ اسے صرف ایک تحقیق کے طور پر پیش کر دیں، اور بات ختم کر دیں۔ آپ نے بس اپنی طرف سے یقین کر لیا ہے اس تحقیق پر ایمان لائی ہیں اور اس تحقیق کو دوسروں کے مذہبی جذبات کو ایک بھدے لفظ یعنی بہتان کے ساتھ پیش کر کے بھڑکا رہی ہیں۔ جس طرح امام ابن تيميہ آپ کی نظر میں اہم اور معتبر ہیں اسی طرح ان لوگوں کو بھی سوچیے جنہیں آپ نے ’بہتان طراز‘ قرار دے دیا ہے۔ وہ بھی کئی لوگوں کے لیے معتبر اور بزرگ ہستیاں ہیں۔ صرف ابن بطوطہ ہی نہیں اور کئی نام ہیں جو اپنے وقت کی علمی و مذہبی مرتبی شخصیات ہیں جو امام ابن تيميہ سے اختلاف رکھتی ہیں اور ان کے بارے میں ان کی رائے مختلف کتابوں کے ذریعے سب تک پہنچی ہے۔ اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
ایک اور مثال دیتا جاوں اگر کبھی یہ خدانخواستہ یہ بتانا ہو کہ دادی جان ہر وقت بولتی ہیں اور بڑھاپے کی وجہ سے ایک بات کے پیچھے پڑ جاتی ہیں جیسا کہ ہوتا ہے بوڑھوں کا انداز۔۔ تو کیا ہم یوں نہیں کہہ سکتے
دادی جی ہر وقت بک بک کرتی رہتی ہیں
دادی کی بکواس ختم نہٰں ہوتی
بات تو میں سمجھتا ہوں زیادہ الگ نہیں ہے
لیکن ہم کہتے ہیں
دادی جی ہر وقت ٹوکتی رہتی ہیں
ہر وقت بولتی رہتی ہیں
یہ عام طور پر سنے جانے والے جملے ہیں۔
 
سویدا نے درست کہا کہ عربی کی نہیں یہاں اردو زبان کی بات ہو رہی ہے اور بہتان کا معروف معنی کچھ اچھا نہیں یا منفی تاثر دیتا ہے۔ اس کی جگہ واقعی غلط فہمی یا اس کے قریب کوئی لفظ استعمال ہونا چاہیے۔ ورنہ
معروف زبان اور معروف معنوں سے كيا مراد ہے؟وہ اخبارى صحافتى اردو جس ميں کھٹاکھٹ چار پانچ زبانوں کے الفاظ ايك ملغوبے كى صورت لڑھكا دیے جاتے ہيں اور صاف نظر آ جاتا ہے کہ محو گفتگو جغادرى كسى ايك زبان كو بھی ڈھنگ سے نہيں جانتا ؟

اب تك معترضين نے ايك بھی لغت كا حوالہ نہيں ديا جس كى رو سے لفظ بہتان كا يہاں استعمال قبيح ہو ، سب علم لدنى اور ميرے خيال اور ميرى رائے کا پرچار ہے ۔ جب كہ ميرى جانب سے عربى اور اردو دونوں زبانوں کے ليے لغت كے حوالے سميت مذكورہ لفظ كے معانى ذکر کیے جا چکے ہيں ۔ اب اگر بعض لوگ بحث پڑھے بغير اندھا دھند بيچ ميں کود پڑے ہيں تو ان سے گزارش ہی كى جا سكتى ہے کہ پہلے بغور مطالعہ كر ليں۔
اگر كسى كو عنوان سے اختلاف ہے تو اختلاف ظاہر كرنے كا حق بسروچشم ، محفل پر کتنے ہی عناوين سے مجھے بھی اختلاف ہو سكتا ہے ليكن اس كا يہ مطلب ہرگز نہيں کہ ميں ان كو تبديل كروا كر رہنے كى ٹھان لوں اور بے جا بحث كو طول دوں۔

السلام عليكم ورحمت اللہ وبركاتہ
خير خواہی كے ليے مشكور ہوں۔
ذرا ايك نظر لفظ بہتان كے لغوى معنى پر ڈال ليتے ہيں۔
بہتان ہے بهت سے ۔
اصمعى كا قول ہے : بَهِتَ، : إِذا دُهِش ۔ جب كسى كو حيران كر ديا جائے تو كہا جاتا ہے بَهِتَ۔
سورة البقرة آيت نمبر 258 ميں الله سبحانه وتعالى فرماتے ہيں: [ARABIC]أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّ۔هُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّ۔هَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّ۔هُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[/ARABIC] --- کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وه ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے، وه کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وه کافر بھونچکا ره گیا، اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
زجاج كا قول ہے كہ يہاں معنى ہيں حيران ہونا بھونچكا رہ جانا ، حيرت سے خاموش رہ جانا ۔ اسى معنى کے ليے بُهِت اور بہت۔
[ARABIC]وَمِنْه بَهَتُّ الرجُلَ: إِذا قابلته بكَذِب يُحَيَّره وَقَول الله جلّ وعزّ: {أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً} (النِّساء: 20) .
قَالَ أَبُو إِسْحَاق: (الْبُهْتَان) : الْبَاطِل الَّذِي يُتَحَيَّر من بُطْلَانه.[/ARABIC]
اور اسى سے كہا جاتا ہے بَهَتُّ الرجُلَ ميں نے اس شخص كو مبہوت كر ديا ، جب آپ كسى شخص سے ايسا جھوٹ بوليں جو اس كو حيران كر دے۔ اسى معنى ميں سورة النساء آيت 20 ميں اللہ سبحانه وتعالى كا فرمان ہے : [ARABIC]أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً [/ARABIC]كیا تم اسے ناحق اور کھلا گناه ہوتے ہوئے بھی لے لو گے؟
اور ابو اسحاق كا كہنا ہے : بهتان وہ جھوٹی(ناحق/ باطل) بات ہے جو حيران كر دے۔( يعنى ايسا جھوٹ جس پر يقين كم آئے، جو ناممكن الوقوع لگے۔)
[ARABIC] قَالَ اللَّيْث: البَهْت: استقبالك الرَّجل بأَمْرٍ تقْذِفُه بِهِ، وَهُوَ مِنْهُ بَرِيء. وَالِاسْم البُهْتان. والبَهْت كالحَيْرة۔[/ARABIC]
الليث كا كہنا ہے ۔ بہت كا مطلب ہے تم كسى شخض كو ايسى بات كا مرتكب قرار دو جس سے وہ برى (پاك) ہو۔ اسى سے اسم ہے بہتان ۔اور بہت حيرت كى طرح ہے۔
لسان العرب ميں لا يغتب( غيبت نہ كرو) كا معنى بيان كرتے ہوئے مذكور ہے: [ARABIC]أي لا يتناول رجلا بظهر الغيب بما يسوءه مما هو فيه. وإذا تناوله بما ليس فيه، فهوبَهْتٌ وبُهْتانٌ۔[/ARABIC]
يعنى : كوئى كسى شحص كى غير موجودگی ميں اس ميں موجود عيب كا يوں تذكره نہ كرے کہ ( اگر وہ سن لے تو ) اسے برا لگے۔ اور اگر كوئى كسى كا ذكر ايسے عيب كے ساتھ كرے جو اس ميں موجود نہيں تو وہ بہت ہے اور بہتان ہے !

(لغوى ماہرين کے اقوال كى تفصيل : لسان العرب : فصل الباء الموحدة ، فصل التاء ، تهذيب اللغة : أبواب الهاء والتاء ، ابواب الهاء والباء وغيرها ، المنجد، مفردات القرآن ، ترجمہ قرآن از مولانا محمد جونا گڑھی )

كسى بھی لفظ كا معنى متعين كرنے کے ليے اس كے مادے root word اور مكمل تاريخ Etymology كو ديكھنا پڑتا ہے۔ اور اس ميں يہ بھى شامل ہے کہ وہ درحقيقت كس زبان كا لفظ تھا ؟ كس معنى ميں مستعمل تھا اور رفتہ رفتہ دوسرى زبان ميں آ كر كيا شكل اختيار كى ، كيا معنى اختيار كيا ؟ اسى ليے جو الفاظ يونانى سے انگريوى ميں منتقل ہوئے ان كا معنى سمجھنے کے ليے يونانى مادے كو ديكھا جاتا ہے۔ جو سنسكرت، عربى یا فارسى سے اردو ميں آئے ان كا اصل زبان ميں معنى ديكھا جاتا ہے۔
اسى كى ايك مثال انگريزى لفظ worldviewہے۔ اگر آپ اس لفظ كا معنى جانتے وقت جرمن لفظ weltanschauung كا معنى نظر انداز كر ديں گے تو علمى لحاظ سے گھاٹے ميں رہيں گے۔



عربى ميں بہتان كا مطلب حيران كن الزام / حيران كن جھوٹ ہے ، اور بقول آپ کے اردو ميں جھوٹ ! فرق زيادہ نہيں ہے ۔ كم از كم جھوٹ تو جھوٹ ہے !
افترا اور تہمت كا معنى بھی خود گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔ اب اگر كوئى بڑا جھوٹ بولے تو اس كو كيا كہيں ؟ يا كسى بڑے کی كتاب سے جھوٹ برآمد ہو جائے تو كيا كريں ؟ لفظ كے معنى بدل ديں گے؟
آپ نے اردو لغت كا حوالہ نہيں ديا تھا ۔
بہرحال :
فرہنگ آصفيہ کے مطابق : بہتان : ع اسم مذكر 1) - دوش ، تہمت ، افترا ، جھوٹا الزام ، (2)- كلنك ، عيب ، بدنامى دھبا
بہتان جوڑنا ، ركھنا ، دھرنا ، ركھنا، لگانا ، لينا : فعل متعدى عو . الزام لگانا ، عيب دھرنا ، كلنك لگانا ، طوفان اٹھانا ۔
بحواله : فرہنگ آصفيہ : جلد اول ، صفحہ : 324 .

گويا اردو اور عربى لغات متفق ہيں کہ بہتان كا مطلب ہے الزام لگانا، جھوٹا الزام لگانا ۔ اس كا مطلب ہے کہ يہاں لفظ بہتان كا استعمال كوئى قبيح استعمال نہيں بلكہ برمحل اور مناسب ہے ۔
 

عین عین

لائبریرین
بحث : آپ کی نظر میں سب بحث کر رہیے ہیں۔ اور بے جا بحث ! آپ کو ایسا لگ رہا ہے اسی طرح مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ آپ انتہائی ’’ڈھیٹ ‘‘ ہیں۔ آپ نے بلاشبہہ لغت سے بہتان کی تشریح کر دی ہے، لیکن محترمہ بعض باتیں سیدھی سی ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے آپ نے وقت برباد کیا ہے لغت دیکھنے میں،
میں نے بھی یہی کہا کہ صرف اس لفظ کو تبدیل کر دینا بہتر ہے اور اس کی جگہ ’اختلاف کی حقیقت‘ کر دیا جائے تو موزوں ہو گا۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ افترا، اور اس جیسے دوسرے لفظ بہتان کی جگہ لکھ دینے سے بہتان کا تاثر چلا جائے گا۔ آپ بھی ذرا غور سے پڑھ لیجیے میری بات۔ آپ کا کہنا ہے کہ کسی نے لغت سے بہتان کو غلط یا بھدا لفظ ثابت نہیں کیا تو محترمہ جو بات سیدھی سی عقل میں آتی ہو اس کے لیے لغت اٹھا کر یہاں نقل کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ کو نہیں سمجھ آ رہا تو آپ کا مسئلہ ہے۔ بہتان کے لفظ کے جو معنی آپ نے دیے ہیں وہ بالکل درست ہیں اور میں ان میں سے کسی کا استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہون۔ میں نے تو ایک نیا لفظ دیا ہے۔ اختلاف‘
بالکل درست فرمایا آپ نے کہ بات تو وہی رہے گی۔ لیکن بہتان کی جگہ اختلاف کے لفظ سے بہت فرق پڑ جائے گا۔ تاہم آپ ’اڑیل‘ قسم کی ہیں اور اسی لیے بحث کر رہی ہیں۔
اہم بات: سویدا نے بھی دریافت کیا تھا اور میں نے تو نام لے کر پوچھا کہ حضرت عثمان اور حضرت علی اور حضرت عائشہ صدیقہ کے معاملات پر بات کی جائے گی تو آپ ایسے لکھیں گی کہ :
’’ علی نے عائشہ پر بہتان باندھا، لگایا، علی کے عثمان پر افترا اور الزام تراشی کا جواب“
اس کا جواب ضرور دیجیے، آپ پہلے بھی نظر انداز کر گئیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔

اس کے بعد میں نے دادی اماں، والد وغیرہ کے ساتھ گفتگو میں استعمال کیے جانے والے الفاظ پر رائے جاننا چاہی لیکن آپ نے اس پر خاطر گزاری نہیں دی۔ دادی اماں کھسکی ہوئی یا پاگل ہو گئی ہیں یا یوں کہا جائے تو اچھا ہو گا کہ دادی اماں کا ذہنی توازن درست نہٰں۔ اس جمعلے کو بھی شامل کر لیجیے۔
میری عرض ہے کہ پہلے آپ ان دو باتوں کی باقاعدہ جملہ لکھ کر عثمان و علی اور بی بی عائشہ کے ناموں کے ساتھ بات کریں۔ کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ ان میں بعض باتوں پر اختلاف تھا اور ایک دوسرے کے لیے ان کی طرف سے بعض باتیں بھی کی گئیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ آپ کا انداز زبردستی کا ہے۔ میں نے اپنی پوسٹ میں عرض کی تھی کہ اگر آپ سمجھتی ہین کہ یہ تحقیق درست ہے تو اسے ایک تحقیق کے طور پر پیش کریں نہ کہ مسلط کر دینے والا انداز اپنائیں۔ کیوں کہ سبھی کا کہنا ہے کہ امام صاحب ایک متنازع شخصیت ہیں اور ان کے بارے میں ایک جانب کچھ رائے ہے اور دوسری جانب کچھ اور۔ تو اگر آپ اس تحقیق پر ایمان لے آئی ہیں کسی وجہ سے تو ضروری نہیں ہے کہ اسے آپ سب کے دلوں میں راسخ کرنے کے لیے میدان میں نکل جائیں۔
اور آپ “جھگڑالو“ اور “فسادی طبیعت“ کی معلوم ہوتی ہیں۔ نامکمل بات کی اور “دفع“ ہو گئیں ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top