CPEC پاکستان کی ترقی کا سنگ میل۔ کیا واقعی؟

CPEC کو کہا جا رہا ہے کہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی قسمت بدل دے گا۔ اس بات میں کتنا وزن ہے آئیے دیکھتے ہیں۔
ایک بات میں آپ کو باور کرواتا چلوں کہ اس انتہائی معاشی دوڑ والے اور مادی دور میں کسی مالی ادارے یا امیر ملک سے یہ توقع کرنا کہ وہ بغیر مفاد کی وابستگی کے دوسرے کی مدد کرے گا نا ممکن ہے۔ اس دنیا کی تمام کی تمام دوستیاں مفاد کی ہوتی ہیں۔
مفاد کی دوستی بھی کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ اس مادی دور میں اس کو بھی غنیمت سمجھنا جاہیے ۔
کیونکہ مفادات بھی دوستی اور تعلق کو محفوظ اور دیر پا بناتے ہیں بشرطیکہ اگر ان میں خلوص اور زہانت ہو۔ کاروباری رشتے مفادات ، خلوص ، ایمانداری اور زہانت پر چلتے ہیں۔
پاکستان اور چائنا کا دوستی کا رشتہ شروع سے ہی خوشگوار چلتا آرہا ہے بلکہ پاکستان اور چائنا دونوں ہی نظریاتی طور پر پرامن ملک ہیں۔ پاکستان کے جغرافیائی حالات ایسے ہیں کہ اس کو جنگ کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے وگرنا نظریاتی طور پر ہم انتہیائی پر امن ہیں۔
بات ہو رہی تھی جغرافیائی محل وقوع کی تو میں سمچھتا ہوں کہ CPEC میں پاکستان کی اہمیت بھی دراصل ہماری جغرافیائی اہمیت ہی ہے کہ جس نے حالات کو ہمارے لئے سازگار بنادیا ہے اور ہم اگر کسی کی آنکھ میں دکھتے ہیں تو ساتھ ساتھ خطے کی امیدوں کی وابستگی کا بھی ہم اہم حصہ ہیں۔
اب، ایسے حالات میں جب ہماری جغرافیائی حالات نے ہمارے لئے ترقی کا دامان پیدا کر دیا ہے تو ضرورت ہے غور فکر کی کہ کس طرح ہم ان حالات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بلکہ یہ ہماری زہانت کا امتحاں ہے کہ ان حالات کو ہم کس طرح اور کتنا اپنی ترقی کے موافق بنا کر اپنے روشن مستقل کا زینہ بناتے ہیں یامحض دوسروں کی ترقی کے زرائع کی ایک کالونی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زرائع مواصلات اور مختلف طرح کی بیرونی سرمایہ کاری ملکی ترقی کے لئے انتہائی فائدہ مند ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہم نہ صرف اس سے فائدہ اٹھائیں بلکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ کے لئے تھنک ٹینک بنائے جائیں جو یہ سوچیں اور ایک ایسی سٹریٹجک پلاننگ دیں کہ مواقعوں کو نہ صرف بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے بلکہ اس ترقی کے عمل کو سسٹین ایبل بھی بنایا جائے۔
ایک اور بات جو انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ دنیا میں ترقی کی دوڑ میں شامل گروہ بندیوں میں ایک انتہائی سخت مقابلہ ہے اور موجودہ عالمی جنگ و جدل کا ماحول بھی ایک طرح کا اسی عمل کا حصہ ہے اور پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نظریاتی ، تکنیکی اور جغرافیائی ٹکراؤ کی زد میں آتا ہے اور اس طرح یہ اگلے دس سے پندرہ سال ہمارے لئے انتہائی مشکل ترین ہیں۔ گو کہ ہم ٹھیک جارہے ہیں مگر ہمیں انتہائی احتیاط سے چلنا ہوگا خصوصاؑ اپنے ہمسایہ ملکوں کو جیسے بھی ممکن ہوان کے اندر یہ احساس زمہ داری جگانا ہوگا کہ ہماری بقاء امن ، دوستی ، اور باہمی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں حالات پر گہری نظررکھنی ہوگی تاکہ ہم بر وقت ان متوقع خطرات سے نمٹ سکیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے اداروں اور قوم کی سوچ کو بھی عالمی سطح پر لے کر جانا ہوگا
ہم علاقائی یاعالمی ترقی کا صحیح معنوں میں حصہ تب ہی بن سکتے ہیں جب ہم دانشمندانہ اس کا حصہ بنیں لہذا ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی کیپیسٹی کو بھی بڑھانا ہوگا تاکہ ہم نہ صرف اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں بلکہ اس کو سنبھالنے اور انتظام کے قابل بھی ہو سکیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پلاننگ کمیشن کو ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انتہائیاعلیٰ اور زیرک زہنوں پر مشتمل ایک جائنٹ تھنک ٹینک ہونا چاہئے جو حالات پر نظر رکھتے ہوئے اس طرقی کے عمل کی ترقی کے لئے کام کرے۔
اس موضوع پر بہت کچھ سوچنے اور لکھنے کی مزید ضرورت ہے لہذا اسے اوپن رکھا چاتا ہے اور آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنی قیمتی آراء کو نوازیں۔ شکریہ
اپنی انفرادی اور اجتماعی کیپیسٹی کو بھی بڑھانا ہوگا تاکہ ہم نہ صرف اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں بلکہ اس کو سنبھالنے اور انتظام کے قابل بھی ہو سکیں۔
 
Top