اقتباسات 30 اسلامی مملکتوں کے زوال کا مطالعہ

ربیع م

محفلین
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عبدالحلیم عویس کی کتاب" 30 اسلامی مملکتوں کے زوال کا مطالعہ" پڑھی ویسے تو پوری کتاب ہی مجھے اچھی لگی ، لیکن اس کا مقدمہ مجھے خاص طور پر پسند آیا، اس کا ترجمہ شریک محفل کرتا ہوں ۔
ان صفحات کے بارے میں

اسلامی اور تاریخی مکتبۃ ہماری تاریخ کے روشن صفحات کے گرد گھومنے والے واقعات اور اسباق سے بھرا ہوا ہے ،آپ کے پاس اسلامی تہذیب کے معماروں کے بارے میں لکھنے والوں کی کتابیں موجود ہوں گی ، آپ کے پاس ہمارے ابطال کے متعلق بات کرنے میں مبالغہ کرنے والے بھی موجود ہوں گے ، یورپ اور غیر یورپی دنیا پر ہماری برتری کے بارے میں . . .
ہماری تاریخ پر توجہ مرکوز کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ کوئی افسانوی اور دیومالائی تاریخ ہواور گویا اس زمانے میں جینے والے اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے فرشتے ہوں نا کہ انسان. . . ‏!‏‏!‏
یقینا یہ منہج اپنے اندر بہت سے خطرناک پہلو سموئے ہوئے ہے:
اولا: کیونکہ اس منہج نے ہماری تاریخ کے تجزئیے کا کام- انسانی تاریخ کی حیثیت سے جس کی خصوصیات بھی ہوں اور لغزشیں بھی،- اس تاریخ کے دشمنوں کیلئے چھوڑ دیا ہے ، چنانچہ انھوں نے اس تاریخ کے منفی پہلووں کی جانب توجہ مرکوز کرنی شروع کر دی اور ان کی ساتھی کچھ ایسی عقول بن گئیں جو ماضی پر اس غیر حقیقی انداز میں توجہ مرکوز کرنے سے اکتا گئے تھے ، اور جس کے نتیجے میں. . . یہ عقول مستشرقین کی جماعت کے پیچھے چل پڑیں جو ہماری تاریخ کا مطالعہ ایک طے شدہ نقطہ آغاز سے کرتے ہیں اور وہ ہے اس تاریخ اور اصحاب تاریخ کو مسخ کرنا‏!‏‏!‏
ثانیا: عقلی مغلوبیت کے استشراقی مناھج کی بھیڑ میں . . . ردعمل کے نتیجے میں اس تاریخ سےمتعلقہ موضوعی حقائق ضائع ہو گئے ، اور لوگ اس تاریخ کے بارے میں دو اقسام میں منقسم ہو گئے : ایک قسم اس کی بالکل ہی انکاری ہو گئی ، اور اسے آگے بڑھنے اور مستقبل کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگی، ا ور وسری قسم اسے ہی سب کچھ تصور کرنے لگی اور عالمی اور مثبت حوالے سے اسے وہ نمونہ سمجھنے لگی جس کا اعادہ اور جس طرز کا تکرار ضروری ہے۔
ان دو متضاد کناروں کے درمیان . . . ممکن ہے حقیقت پائی جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حقیقت اوجھل ہو جائے.‏‏!‏‏!‏
ثالثا: ہم نے اپنی تاریخ سے حقیقی استفادے کے منہج کی بجائے محض مدح و تعریف کا منہج اختیار کیا ، اور شاید کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس صدی میں ہمیں جن تہذیبی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے اس کی مثال ہماری گذشتہ تاریخ میں نہیں ملتی . . . اور وہ اس وجہ سے شدید مایوسی کا شکار ہیں ، اور شاید یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگرچہ زبان سے بیان نہ بھی کیں کہ ہم اپنے اس قائدانہ کردار کی جانب واپس نہیں پلٹ سکتے ، ہم مسلمان ہمارے ہاتھ میں اب کچھ بھی ایسا نہیں بچا جسے ہم ایٹمی قوت اور خلائی دور میں انسانیت کیلئے دے سکیں جب کہ ہم گھڑیوں گاڑیوں اور سادہ سے آلات تک درآمد کروانے پر مجبور ہیں‏!‏‏!‏ ‏.‏
یہ کتاب . . . ہماری تہذیب کے مرجھائے ہوئے اوراق پر مشتمل ہے ، جس کے ذریعے اسلامی ممالک کے سقوط پر توجہ مرکوز کی گئی ، ان میں کچھ ابدی اسباق ہیں جہاں انتہائی خبیث اور مہلک امراض پائے جاتے تھے اور جب ہم جا کر اپنے دشمن سے دوا طلب کرتے ہیں . . . چنانچہ یہ اسے ہمیں مہلک زہر فراہم کرنے کا موقع ہوتا. . .اور شاید یہ سبق اتنی صفائی سے واضح نہ ہو سوائے اندلس اور بحر ابیض متوسط کے جزائر جیسا کہ صقلیہ . . .
اور شاید یہ بھی تاریخ میں قابل ملاحظہ ہے کہ جس صدی نے سقوط غرناطہ اندلس میں ہماری آخری جنگ گاہ کا مشاہدہ کیا 1492 میلادی ۔اسی صدی نے قسطنطنیہ کی یادگار اسلامی فتح کا مشاہدہ بھی کیا، یہ وہ فتح تھی جس کے نتائج میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اس نے تاریخ کے نازک ترین مرحلے میں 5 صدیوں سے زیادہ مسلمانوں کی حفاظت کی…
سقوط اندلس … ایک ایسے عضو کا سقوط تھا جس میں سقوط کے تمام عناصر جمع ہو چکے تھے ، اور جس کا کٹنا لازم ہو چکا تھا…چنانچہ اس پر اللہ رب العزت کا کلمہ سچ ثابت ہوا!‏‏!
اور پھر ایشیاء کے وسط سے ایسی نوجوان جنگجو قوت نمودار ہوئی جس نے نئے سرے سے اسلام کی بنیاد رکھی …اس قوت نے کم از کم 3 صدیوں تک یورپ کےصلیبی کینہ پروروں کو دہشت زدہ رکھا۔
اندلس کا سبق ہمارے ذہن سے کسی طور بھی محو نہ ہونا چاہئے ، اس میں سقوط کے کئی عناصر شکل پا چکے تھے جن میں سے نمایاں:
· نسلی اور قومی جھگڑے
· پرچم اسلام جو کہ نفوس وعقول میں جاگزیں ہوتا ہے اس سے دور متعدد پرچموں کابلند ہونا۔
· مسلمانان اندلس کا ایک دوسرے کے خلاف دشمنوں سے مدد طلب کرنا ۔
اور دوسرے تمام عوامل . . . انہیں نقاط کے گرد گھومتے تھے !! مسلمانان اندلس نے اپنی غلطیوں کی قیمت چکائی، حکام نے اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا ،جب اللہ رب العزت نے ان پر ذلت مسلط کی اور ان کی مملکت کو ان سے چھینا، کیا ہم ابن عباد کے "اغمات" مغرب اقصیٰ میں کہے گئے غمگین اشعار بھول سکتے ہیں جب اللہ رب العزت نے اسے مرابطین کے ہاتھوں ذلیل کیا۔اور کیا ہم ابن صمادح "المریۃ "کے حاکم کا مشہور مقولہ جو اس نے مرتے وقت کہا فراموش کر سکتے ہیں:" ہم سے ہر چیز نے کنارہ کشی کر لی ہے یہاں تلک کہ موت نے بھی"؟
اور کیا غرناطہ کے آخری بادشاہ ابو عبداللہ کے آنسو بھلائے جا سکتے ہیں… جب ذلت کی کشتی میں سوار ہو کر یورپ میں اسلامی مملکت کے آخری وجود کو الوداع کرتے وقت . . . سرکش موجوں کے نغموں کے ساتھ ہی یہ آنسو رخصت ہو گئے … اور اس کی مسکین ماں کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے رہے ہوں گے :تو عورتوں کی طرح اس مملکت کے خاتمے پر روتا ہے جس کی مردوں کی طرح حفاظت نہ کر سکا۔!‏‏!‏
ان جیسے بادشاہوں کے ہتھیار ڈالنے کی قیمت امت مسلمہ کو چکانی پڑی ، ان کے ہاتھ کچھ نہ بچا ان کا کردار ختم ہو کر رہ گیا، ان کے اموال لوٹ لئے گئے ، انھیں اپنا دین بلکہ اپنا نام تلک بدل ڈالنے پر مجبور کیا گیا اور اس گناہگار صلیب نے انھیں بنیادی ترین انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا !‏‏!‏
چونکہ ہماری تہذیب کے مرجھائے ہوئے کچھ اوراق محض ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے حکومت کی ہیئت میں تبدیلی تھے یا قوم پرستی کے دعویٰ یا مذہبی نعروں کے دفاع کیلئے یا ایک بڑی وسیع مملکت کی ایک ہاتھ میں تسلط وانتظام کی ناکامی کانتیجہ تھے مثلا عباسی اور اموی . . . جس نے لالچیوں کو ظاہر ہونے اور عصبیت کا نعرہ لگانے والوں کو حکومت کرنے کاموقع فراہم کیا۔
چنانچہ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تمام اوراق اچھے تھے یا برے، شاید ان میں سے کچھ بڑے ممالک کیلئے ایک مضبوط اور فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتے تھے تاکہ یہ صحیح اسلامی راہ پر گامزن رہ سکیں. . .اسی طرح ہمارا جھکاؤ اس بات کی جانب بھی نہیں کہ ان صفحات جنہوں نے ایک ملک کو دوسرے ملک یاحکومت کو دوسری حکومت میں بدل ڈالا امت کو تباہی کے گڑھے کی جانب لے کر جا رہے تھے. . .بلاشبہ وہاں بہت سی ایسی امتیازی بھی خصوصیات ہیں جو اس راستے پر بکھری ہوئی ہیں ۔
میرا اس جانب میلان نہیں جیساکہ بہت سے دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ تاریخ عمودی راستے پر سفر کرتی ہے …چاہے یہ اوپر کی جانب ہو یا نیچے کی جانب …ہماری تاریخ اسلامی کے تجربہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تاریخ کی حرکت بڑی تہذیبوں کے دائرہ میں ہوتی ہے جو کہ جمع کرنے والی ہے (جیسا کہ اسلامی تہذیب) (پیچ دار حرکت) اگر یہ تعبیر صحیح ہو تو کچھ موڑ ایک پہلو سے نیچے کی جانب ہوں گے اور اس کے مقابلے میں کئی دسرے پہلوؤں سے کچھ موڑ اوپر کی جانب ، پس یہ ایک گول حرکت ہے جسے اتار چڑھاؤ کے مراحل منظم کرتے ہیں …اتار باہمی جھگڑوں اور داخلی فساد کے باعث اور چڑھاؤ بیرونی مضبوط چیلنجز کے ردعمل میں ۔اور اگر اس امت کے تاریخی تجربات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ اتار کے مراحل داخلی حالات کے ساتھ منسلک تھے ، اس امت پر باہر سے اس قدر چوٹ نہیں لگائی گئی جس قدر اسے اندرونی جانب سے چوٹ لگائی گئی ، بلکہ اس کے خارجی دشمن صرف اس بیماری کے ذریعے ہی نفوذ کر سکے جس نے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا …اوران دشمنوں نے اپنی دخل اندازی سے ہمیں بے حد فائدہ پہنچایا ، اور اکثران کی دخل اندازی نے اسلامی ضمیر کو بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیا ، یا عمومی جہاد کا اعلان ہوا یا کوئی صلاح الدین یا سیف الدین نمودار ہوا ۔ جس نے مسلمانوں کو ایک پرچم تلے جمع کیا۔

امت مسلمہ اپنے اندر چھپے قوت کے عناصر کی بدولت اس بات پر قادر تھی کہ عمدہ ترین انداز میں بیرونی چیلنجز کا جواب دے سکے ، اور اگر اس امت کو (اپنی تاریخ کے اکثر مراحل میں ) ایسے حکام کی مدد سے کمزور نہ کیا جاتا جنہوں نے اس کی حرکت کو شل کر رکھا، اور اس کے دشمنوں کے سامنے ذلت اختیار کرتے رہے ، اپنی طاقتوں کو اپنی جانوں کی حفاظت کیلئے منتشر کرتے رہے …اگر اس طرز کی صورتحال نہ ہوتی ، اور اس امت کو اس کی فطرت ، وراثت ، اقدار اور تہذیب پر چھوڑا جاتا جسے اسلام نے گاڑا تھا اور جس کا اسلام نے خیال رکھا تھا …اگر یہ سب کچھ مکمل ہوتا تو عین ممکن ہے کہ اس امت کی تاریخ میں بہت سے موڑ آتے ۔جو اس کے حق میں اس کی ترقی اور بڑھوتری میں بہت بہتر ہوتے ۔
میں نے ان مرجھائے اوراق میں کوشش کی ہے کہ –ہماری اسلامی تاریخ کے- 3 آفاق کی جانب توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کی ہے جو کہ اندلس (یورپ ) مشرقی عرب(اپنی دونوں بڑی خلافتوں میں ( عباسی اور فاطمی ) اور ان کے ماتحت ممالک ، پھر مغربی عرب…اور یہ تینوں وہ مشہور بازو ہیں جنہوں نے عالم اسلام ی سربراہی کی اور مسلمانان عالم کیلئے فکری و سیاسی قیادت کی مثلث بھی ۔
اور جن اوراق کا میں نے انتخاب کیا یہ محض ان بازوؤں سے ایک نمونہ ہیں ۔اور شاید وہاں کچھ دوسرے ممالک بھی ہوں جو ہماری موضوع بحث سے متعلق اور سقوط کے راستے کی جانب لے جانے والے اسباب کی وضاحت کیلئےمفید ہوں …لیکن تحقیق ، اس کی مشکلات سے قطع نظر ، ان صفحات کا مقصد نہیں ۔
یہ بحث…ہماری تاریخ کے دسترخوان سے ایک ہلکی سی غذا ہے ۔لیکن ایک خاص نوعیت کی غذا…مختلف اقسام کی چکنائیوں اور مصالحہ دار چیزوں سے لبریز نہیں ، کیونکہ تہذیب کا جسم بھی افراد کے اجسام کی مانند ہی ہوتا ہے ، اور دائمی چربی سے کبھی بھی صحت مند حالت میں نہیں رہ سکتا!!
یہ بحث ہماری تاریخ کی نئے سرے تشریح کی جانب دعوت ہے …پوری جرات کے ساتھ ، اگر ہم (پورے انصاف کے ساتھ )اس کی تشریح کریں یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ اسے علمی منہج کے دعویداروں کیلئے چھوڑ دیں کہ وہ پورے کینہ ، ناپسندیدگی اور ظلم کے ساتھ اس کا تجزیہ کریں …!!
اسی طرح یہ بحث ان لوگوں کیلئے ہے جو تاریخ کامطالعہ اس لئے کرتے ہیں …تاکہ سیکھ سکیں ، باہمی مباحثہ کریں یا مستقبل کے آثار جان سکیں ۔
اور آخر میں یہ بات باقی رہے گی:
یہ امت باقی رہے گی ، اپنا کردار ادا کرتی رہے گی ،یہ ٹھوکر کھا کر پھر اٹھے گی …ہمارے عظیم معلم نے ہمیں یہی بتایا ہے…ہماری تاریخ 1400 سالوں پر مشتمل ہے…اللہ رب العزت اس کی عمردراز کرے!!
انھوں نے ہمیں کئی بار گرایا…ہم پھر اٹھ کھڑے ہوئے
ایک وہ بھی دن تھاہم پوری دنیا کے خلاف صف آراء تھے …ہم کامیاب ٹھہرے …غالب آگئے…فقط ایک شرط ہے کہ ہم جان لیں کہاں سے ابتداء کریں اور اور کس مقصد کی جانب ہمیں جانا چاہئے!! اور ہمیشہ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی رہی ہے کہ اس امت کے آخر کی کامیابی فقط اسی میں پوشیدہ ہے جس سے اس امت کا اولیں حصہ کامیاب ٹھہرا۔
 
Top