دل کا چاکلیٹ !

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
دنیا کو گلوبل ولیج ثابت کرنے کے لئے اگر صرف ایک مثال دینی ہو تو وہ ہے چودہ فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے۔ دو سو سے زائد ممالک میں اس دن محبت کے ایک ارب سے زائد تجدید نامے کارڈوں کی صورت ایک دوسرے کو دئیے جاتے ہیں۔ سرخ گلاب، دل کے شکل کے ڈبے میں چاکلیٹ اور جیولری اسکے علاوہ ہے۔گویا تحائف کی مد میں یومِ محبت اس وقت پانچ ارب ڈالر سے زائد کی انڈسٹری ہے۔اس میں فون کالز، ملاقات اور تقریبات کا خرچہ شامل نہیں ہے ۔

اکثردل دینے یا لینے کے لئے یہ دن مناتے ہیں۔کچھ دل کا دل سے تعلق اور مضبوط بنانے کے لئے مناتے ہیں۔ میرے جیسے لوگ دل رکھنے کے لئے مناتے ہیں۔ اور جو یہ سب نہیں کرسکتے وہ شیو سینائی و طالبانی نعرے لگاتے ہوئے پھول فروشوں پر پل کر یا خریداروں کے نکاح نامے چیک کرکے کلیجہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔گویامناتے سب ہی ہیں۔مگر اپنے اپنے انداز میں !

مگر کرسمس، عید یا دیوالی کے برعکس ویلنٹائن ڈے کی عالمی بسنت کے موقع پر دل کی پتنگ اڑانے والوں، یا ڈنڈوں کی مدد سے دل کا مانجھا لوٹنے والوں میں سے کوئی بھی یہ جاننے کے لئے بے تاب نہیں ہوتا کہ یہ دن آخر چودہ فروری کو ہی کیوں آتا ہے اور اسے ویلنٹائن ڈے ہی کیوں کہا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ کہانی اٹھارہ سو برس پہلے بھی اتنی ہی رومانٹک تھی جتنی کہ آج ہے۔اس وقت روم میں کلاڈییس کی بادشاہت تھی۔جسے یہ خبط ہوگیا کہ جو شادی شدہ ہوجائے وہ فوج کے قابل نہیں رہتا لہذا جواں عمری کی شادی پر ہی پابندی لگا دی جائے۔مگر روم کے ایک عیسائی مبلغ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے بادشاہ کی حکم عدولی میں شادی کے خواہشمند لڑکوں، لڑکیوں کو خفیہ طور پر ازدواجی بندھن میں جکڑنے کا کام جاری رکھا۔

بادشاہ کو اسکی بھنک پڑ گئی۔اس نے اس دور کے رواج کے مطابق اس مبلغ کو قید میں ڈلوادیا اور سزائے موت سنا دی۔ دورانِ قید یہ مبلغ جیلر کی لڑکی پر فریفتہ ہوگیا۔اور اس نے اپنی موت سے پہلے کی آخری شام یعنی چودہ فروری کوجیلر کی لڑکی کے نام اپنا مختصر سا محبت نامہ چھوڑا۔جس میں آخری الفاظ تھے فرام یور ویلنٹائن۔

شہیدِ محبت سینٹ ویلنٹائن کے تبرکات آج بھی روم کے چرچ آف سینٹ پریکسڈ اور ڈبلن کے کارملائٹ چرچ میں محفوظ ہیں۔

مگر یہ کوئی ایسی غیر معمولی کہانی تو نہیں کہ جس کی بنیاد پر کوئی عالمی دن منایا جاسکے۔اس سے کہیں زیادہ پراثر کہانیاں تو رومیو جولیٹ، لیلی مجنوں، شیریں فرھاد ، سسی پنوں ، ہیر رانجھا اور رادھا کرشنا ہیں۔

بات یہ ہے کہ سینٹ ویلنٹائن کی کہانی کو بھی انیسویں صدی سے پہلے عام لوگ نہیں جانتے تھے۔ بھلا ہو انگلینڈ کے اس کارڈ بیچنے والے کا کہ جس نے اٹھارہ سو چالیس کے لگ بھگ سینٹ ویلنٹائن کے سرخ دل کو ایک کارڈ پر بنا کر چودھویں صدی کے شاعر چوسر کی ان لائنوں کے ساتھ چھاپ دیا۔

”یہ سینٹ ویلنٹائن ڈے ہے۔جب ہر پرندہ جوڑا بناتا ہے”

یوں انیسویں صدی کا برطانیہ کہ جس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس سورج میں سینٹ ویلنٹائن کی کرنیں بھی شامل ہوگئیں ۔پھر باقی کام اس یومِ محبت کو مارکیٹنگ والوں نے اچک کر پورا کر لیا۔ دل تو پہلے بھی کسی نہ کسی طور چلا ہی جاتا تھا۔اب یہ ہے کہ بنا چاکلیٹ نہیں جاتا۔
اصل ربط دیکھنے کے لئے
 

الف نظامی

لائبریرین
گلوبل ویلیج؟ یہ اصطلاح ہی بودی ہے۔
یہ دنیا طبقات اور خانوں میں بٹا ہوا وہ مردہ ہے جس کی ہڈیاں "تختِ سامراج کی تخلیق و بقا" اور خون اس کی پیاس بجھانے میں استعمال ہو رہا ہے۔

یہ فلانڑا ڈے ، میرے نزدیک ثقافتی لنڈا ہے۔
ہم نبی مکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا اور علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم و حسنینِ کریمین و ازواج و اصحابِ رسول کی سیرت پر چلنے کے بجائے اس لنڈے کو کیوں خریدیں!
 

طالوت

محفلین
اکثریت کہنا بھی زیادتی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔
یوں بھی کسی چیز کو اچھالنا ہو تو اس کی مخالفت زوروشور سے کرو اور دوسری جانب اس کی تشہیر بھی اسی انداز سے ، وہ خود بخود پھیلتی جائے گی۔۔ اور اس بےوقوفانہ "ڈے" کو پھیلانے میں ہمارے میڈیا کا کمال ہے ورنہ آٹھ دس برس پہلے اسے کون مناتا تھا بلکہ جانتا ہی کون تھا ؟ البتہ ایک کام اور کیا انھوں نے کہ اس میں ماں باپ بہن بھائی دوست احباب کی محبت کو بھی شامل کر کے منانے کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔ ورنہ جس قسم کی محبت کا یہ پیغام دیتا ہے (کیونکہ اس کے بارے میں یہی ایک کہانی نہیں جو وسعت اللہ نے بیان کی ہے) اسے ہم اپنی خواتین کے لیے تو قبول نہ کریں مگر اپنے لیے ہمیں اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ۔۔۔

اردو محفل سے پہلے میں ایک دوسری محفل کا ممبر تھا ، وہاں کے ایک منتظم صاحب نے ایک عجیب منطق پیش کی تھی جو اس بات کو سمجھنے میں شاید مدد گار ہو ۔۔ موصوف ایک خاتون رکن سے بحث فرما رہے تھے کہ انٹر نیٹ اچھی چیز ہے یا بری، آخری بات جو انھوں نے کہی وہ یہ تھی کہ "انٹرنیٹ ایک بری چیز ہے اسے ہم اپنی بہنوں کو استعمال کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتے ہیں ۔۔
یہ ہے ہماری فکر اور تدبر ;)
وسلام
 

محسن حجازی

محفلین
ہر کوئی تو نہیں کہہ سکتے، البتہ اکثریت مناتی ہے۔

اصل میں کل جنگ میں ایک تصویر دیکھی جس میں کسی دینی جماعت کی خواتین ہاتھ میں پلے کارڈ پکڑے ویلنٹائن ڈے کے خلاف مظاہرہ کر رہی تھیں۔ تاہم جو پلے کارڈ انہوں نے اٹھا رکھا تھا اسی دیکھ کر میں بے ساختہ مسکرا دیا۔ پلے کارڈ پر ایک بڑا سا دل اور اس میں ایک تیر ترازو نظر آ رہا تھا۔ :grin:
امی سے بات ہو رہی تھی تو کہنے لگیں کہ انہوں (تصویرمیں موجود خواتین) نے سوچا کہ یہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں ویلنٹائن ڈے منانے میں :grin:
سو بات وہی کہ ہر کوئی مناتا ہے اپنے انداز میں دل کا کیا ہے دل تو پہلے بھی جاتا تھا آج بھی لوگ دے بیٹھتے ہیں :grin:
 
Top