ویلنٹائن ڈے

قمراحمد

محفلین
ویلنٹائن ڈے
مصنف:- قمراحمد

چودہ فروری یعنی ویلنٹائن ڈے کوہر سال محبت کرنے والے یومِ اظہارِ محبت کی حیثیت سے مناتے ہیں۔ بالخصوص مغربی ممالک میں یہ دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ لیکن اسلامی ممالک میں اِس کا کوئی رواج نہیں ہے۔سب ممالک میں یہ دن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے اور بعض ممالک بالخصوص ایشیائی اور مسلم ممالک میں اِس دن کو برا سمجھاجاتاہے۔
یہاں تک کہ ہندوستان میں جہاں ویلنٹائن ڈے نوجوانوں میں مشہور ہوتا جارہا ہے، ہر سال دائیں بازو کے سخت گیر ہندو کارکن محبت کے اِیسے جوڑوں کے خلاف دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔

چودہ فروری کو دنیا کے بیشتر ممالک میں ویلنٹائن ڈے منانے کارواج آج کل عام ہے اور اِس سلسلے میں بیشتر شہروں میں نوجوان اِسے تہوار کی طرح منانے لگے ہیں۔ویلنٹائن ڈے ایک اِیسا دن ہے جس روز آپ جسے پیار کرتے ہیں اُس کی جانب اپنے احساس کا اظہار کرتے ہیں۔ پیار کا اظہار آسان نہیں ہے اور کافی وقت لگتاہے اور ہوسکتا ہے کی کسی کو پوری عمر لگ جائے۔ تاہم بعض افراد کا کہنا ہے کہ ویلنٹائن ڈے صرف ایک شخص کیلئے نہیں ہے جس سے آپ پیار کرتے ہیں۔ یہ اُن تمام افراد کیلئے ہونا چاہئے جن سے آپ کو پیار ہے۔یہ افراد آپ کے والدین ، بھائی، بہنیں،دوست یا رشتہ دار ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ محبت صرف ایک شخص کیلئے نہیں ہوتی ہے۔ اگر ویلنٹائن ڈے پیارکے اظہار کا دن ہے تو اِس میں اِن تمام لوگوں کو کیوں نہ شامل کریں جن سے آپ محبت کرتے ہیں؟

اِس کے آغاز کے بارے میں بہت سی روایات مشہور ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب ”سینٹ ویلنٹائن“ نے روزہ رکھا تو اور لوگوں نے اُسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اُسی کے نام کردیا۔ کئی لوگ اُسے” کیوپڈ “(محبت کے دیوتا)اور ”وینس“(حسن کی دیوی)سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی۔ یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر اُنھیں گھائل کرتا تھا۔تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ 14 فروری کا دن وہاں رومن دیوی، دیوتاؤں کی ملکہ” جونو“ کے اعزاز میں یوم ِتعطیل کے طور پرمنایا جاتا تھا۔اہلِ روم ملکہ جونو کو صنفِ نازک اور شادی کی دیوی کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔جبکہ 15 فروری ”لیوپرکس“ دیوتا کا دن مشہور تھا اور اِس دن اہلِ روم جشنِ زرخیزی مناتے تھے۔

اِس موقع پر وہ پورے روم میں رنگارنگ میلوں کا اہتمام کرتے۔جشن کی سب سے مشہور چیز لڑکے اور لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی۔ہوتا یوں تھا کہ اِس رسم میں لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دئیے جاتے اور وہاں موجود نوجوان اِس میں سے باری باری پرچی نکالتے اور پھر پرچی پر لکھا نام جشن کے اختتام تک اُس نوجوان کاساتھی بن جاتا جو آخر کار مستقل بند ھن یعنی شادی پر ختم ہوتا۔
ایک دوسری روایت میں اِس تہوار کے تاریخی پس منظر کودیکھا جائے تو اِس تہوار کا تعلق ”سینٹ ویلنٹائن“ سے جوڑا جاتا ہے۔ سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دوقدیم قربان ہونے والے اشخاص کا نام ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ دوشخص تھے،اور ایک قول میں ہے بلکہ اِس نام کا ایک ہی شخص تھا جو شہنشاہ” کلاڈیس“ کی تعذیب کی تاب نہ لاتے ہوئے 296 عیسوی میں ہلاک ہوگیا، اور جس جگہ یہ ہلاک ہو ا اُسی جگہ350 عیسوی میں بطور یادگار ایک کنیسہ تیار کیا گیا۔

جب رومیوں نے عیسائیت قبول کی تووہ اپنے اِس سابقہ تہوار یوم ِمحبت مناتے رہے لیکن اُنہوں نے اِسے بت پرستی کے مفہوم سے نکال کر محبت ِالہٰی میں تبدیل کرلیا اور دوسرے مفہوم محبت کے شہدا میں بدل لیا اور اُنہوں نے اِسے اپنے گمان کے مطابق محبت وسلامتی کی دعوت دینے والے سینٹ ویلنٹائن کے نام کردیا جسے اِس راستے میں شہید گردانتے ہیں اور اِسے عاشقوں کی عید اور تہوار کا نام دیا جاتا ہے اور سینٹ ویلنٹائن کو عاشقوں کا سفارشی اور اُن کا نگران شمار کرتے ہیں۔ اُن کے باطل اعتقادات اور اِس دن کی مشہور رسم یہ تھی کہ نوجوان اور شادی کی عمر میں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر ایک برتن میں ڈالے جاتے اور اُسے ٹیبل پر رکھ دیا جاتا اور شادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکیوں کو دعوت دی جاتی کہ وہ اُس سے ایک ایک پرچی نکالیں لہٰذا جس کا نام اُس قرعہ میں نکل آتا وہ لڑکا اُس لڑکی کی ایک برس تک خدمت کرتا اور وہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے پھر بعد میں شادی کرلیتے یا پھر آئندہ برس اُسی تہوار یومِ محبت میں دوبارہ قرعہ نکالتے۔

دین نصرانی کے عالموں نے اِس رسم سے بہت برا اثر لیا اور اِسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیا لہٰذا اٹلی جہاں پر اِسے بہت شہرت حاصل تھی ، ناجائز قرار دے دیا گیا، پھر بعد میں اٹھار ویں اور انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیاگیا۔وہ اِس طرح کہ کچھ یورپی ممالک میں چند بک ڈپوؤں پرایک کتاب ( ویلنٹائن کی کتاب کے نام سے ) فروخت شروع ہوئی جس میں عشق ومحبت کے اشعار ہیں،جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کو خطوط میں لکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اِس میں عشق ومحبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چند تجاویز بھی درج ہیں۔

اِس تہوار کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب رومیوں نے نصرانیت قبول کی اور عیسائیت کے ظہور کے بعد اس میں داخل ہوئے تو تیسری صدی عیسوی میں شہنشاہ کلاڈیس دوم نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگا دی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے جنگوں میں نہیں جاتے تھے تو اُس نے یہ فیصلہ کیا۔لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا اور جب کلاڈیس کو اِس کا علم ہوا تو اُس نے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اُسے سزائے موت دے دی۔کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچھ خفیہ ہوا کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے ہاں شادی کرنا اور محبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں۔نصاری کے ہاں اِس کی سفارش کی گئی کہ نصرانیت پر قائم رہو۔شہنشاہ نے اُسے عیسائیت ترک کرکے رومی دین قبول کرنے کا کہا کہ اگر وہ عیسائیت ترک کردے تو اُسے معاف کردیا جائے گااور وہ اُسے اپنا داماد بنانے کے ساتھ اپنے مصاحبین میں شامل کرے گا لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کردیا اور عیسائیت کو ترجیح دی اور اِسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا تو 14 فروری 270 عیسوی کے دن اور 15 فروری کی رات اُسے پھانسی دے دی گئی۔ تواُس دن سے اُسے قدیس یعنی پاکباز بشپ کا خطاب دے دیا گیا۔ روایت کے مطابق اُس دن کی یاد میں محبت کرنے والوں کے درمیان پیار بھرے پیغامات کا تبادلہ ہوگیا۔

یہ ویلنٹائن کی وہ کہانی ہے جو مغرب میں بے انتہا مقبول ہے لیکن اِس روایت سے ہٹ کر ایک تاثر یہ ہے کہ عیسائی چرچ نے قدیم روم کے غیر عیسائی لپرکالیا فیسٹیول کے متبادل کے طور پر یوم ِویلنٹائن منانا شروع کیا۔ قدیم روم میں نیا سال15 فروری سے شروع ہوتا تھااور اِس کے آغاز پر لپرکالیا فیسٹیول منایا جاتا تھا جو نہ صرف زمین بلکہ عورتوں کی زرخیزی کا دن سمجھا جاتا تھا اور اِس سلسلے میں پادری بکرے کی قربانی دیتے تھے پھر اُس کے خون میں ڈبائی گئی پٹیاں عورتیں اُس عقیدے سے چھوتیں کہ اِس طرح نئے سال میں وہ زرخیز ہوجائیں گی۔
روایت کے مطابق اِسی دن روم کی نوجوان لڑکیا ں پرچیوں پر اپنے نام لکھ کر انہیں ایک بڑے مرتبان میں ڈالتی تھیں،یہ پرچیاں بعد میں نوجوان لڑکے نکالتے اور جس لڑکی کی پرچی اُن کے ہاتھ آتی اُسی سے اُن کی شادی ہو جاتی۔ چرچ کو یہ”لاٹری“سسٹم پسند نہیں تھا اِس لئے پوپ گیلاسیس نے498 عیسوی کے لگ بھگ ہر سال14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن ڈے منانے کا اعلان کیا۔1835 میں روم کے سینٹ ویلنٹائن کی مبینہ باقیات پوپ گریکوری نے ایک آئریش پادری جان سپراٹ کے حوالے کردیں۔جان سپراٹ نے دورہ روم کے دروان اپنے انداز تبلیغ سے پوپ کو متاثر کیا تھا۔ ویلنٹائن کی یہ مبینہ باقیات آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں اب بھی موجود ہیں۔

برطانیہ میں یومِ ویلنٹائن کو مقبولیت سترہو یں صدی عیسوی میں ملی۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک دوستوںاور محبت کرنے والوں کے درمیان اُس دن ہر پیغامات کا تبادلہ عام ہوگیا۔اِس صدی کے اختتام تک ویلنٹائن ڈے کے طباعت شدہ کارڈز سامنے آگئے جو جذبات کے اظہار کا آسان ذریعہ بنے۔یہ برطانیہ کا وہ دور تھا جب عورتوں مردوں کا گھلنا ملنا زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔امریکیوں میں بھی ویلنٹائن ڈے کے پیغامات کا تبادلہ اٹھارویںصدی میں شروع ہوا۔ ویلنٹائن ڈے پر مختلف طرز کے تحفے دینے کا رواج ہے۔ا ِن تحائف میں پہلی بار جو تحفہ سامنے آیاوہ نقش ونگار والی پیپرلیس تھی جس کو امریکہ میں تیار کیا گیا تھا۔اِس کے بعد بر طانیہ میں ویلنٹائن ڈے کارڈ کا رواج عام ہوا۔

امریکن گریٹنگ کارڈ ایسوسی ایشن نے اندازہ لگایا ہے کی دنیا بھر میں اِ س دن تقریباََ ایک ارب کارڈ بھیجے جاتے ہیں اور اِسی لحاظ سے یہ دوسرا بڑا دن ہے جس دن اتنے کارڈ بھیجے جاتے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ کارڈ کرسمس پر لوگ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ ایسوسی ایشن نے ایک اور اندازہ لگایا ہے کہ 85 فیصد عورتیں ویلنٹائن کی چیزیں خریدتی ہیں۔اُنیس ویں صدی میں ہاتھوں سے لکھے گئے خطوط اِس دن بھیجنے کا رواج تھا جس نے بعد میں گریٹنگ کارڈ کی شکل اختیار کرلی۔ یوم ِویلنٹائن اب ایک جشن ہی نہیں بلکہ بہت بڑے کاروبار کا دن بھی ہے۔رواں سال کینیا ، بھارت اور دیگر ممالک سے لاکھوں ڈالر کے سرخ گلاب برطانیہ پہنچے ہیں۔بیس ویں صدی میں امریکہ میں کارڈز کے ساتھ ساتھ مختلف تحائف بھی بھیجے جانے لگے جو کہ عموماََ مرد عورتوں کو بھیجتے تھے۔ اِن تحائف میں سرخ گلاب کے پھول اور چاکلیٹ جن کو دل کی شکل کے ڈبوں میں رکھ کر سرخ رنگ کے ربن کے ساتھ سجایا جاتا ہے شامل ہیں۔ ویلنٹائن ڈے والے دن ہیر ے کے جواہرا ت بھی تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے بعض ایلیمنڑی اسکو لوں میں طلبہ سے اپنی جماعتوں کو سجانے کیلئے اور اپنی جماعت میں موجود تمام ساتھیوں کو ویلنٹائن کارڈ یا تحفہ دینے کیلئے کہا جاتا ہے۔برطانیہ سے رواج پانے والے اِس دن کو بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منا یا جانے لگا۔ تاہم جرمنی میں دوسری جنگِ عظیم تک یہ دن منانے کی روایت نہیں تھی۔

برطانیوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ14 فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے اور خوبصورتی کیلئے اِن کے اُوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کیلئے اِس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم ”میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو“۔

کچھ لوگ اِس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کی ویلنٹائن ڈے کو اگر کوئی چڑیا کسی عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اُس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے اور اگر عورت کوئی چڑیا دیکھ لے تو اُس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے جبکہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے تو اُس کی شادی کسی اُمیر کبیر شخص سے ہوگی اور زندگی ناخوشگوار گزرے گی۔امریکہ میں روایت مشہور ہے کی 14فروری کو وہ لڑکے لڑکیاں کو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں۔ جونہی رقص ختم ہوگا اور جو آخری نام اُن کے لبوں پر ہوگا۔ اُس سے ہی اِس کی شادی قرار پائے گی۔

دوسرے ممالک میں یہ دن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کو علاقائی روایات مانا جاتا ہے۔نور فولک میں ”جیک“ نامی ایک کریکڑ گھروں کے پچھلے دروازوں پر دستک دتیا ہے اور بچوں کیلئے دورازے پر ٹا فیاں اور تحالف چھوڑ جاتا ہے۔ویلز میں بہت لوگ اِس دن کی جگہہ 25جنوری کو سینٹ ڈائینونز ڈے مناتے ہیں۔فرانس روایتی طور ہر ایک کیتھولک ملک ہے، یہاں ویلنٹائن ڈے کو” سینٹ ویلنٹین“ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہاں یہ دن مغربی ممالک کی طر ح ہی منا یا جاتا ہے اور سپین میں بھی یہ دن دوسرے مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ڈنمارک اور ناروے میں یہ دن بڑے پیمانے پر نہیں منایا جایتا مگرکئی لوگ اِس دن اپنے ساتھی کے ساتھ رومانوی ڈنر پرجا تے ہیں اور ایک دوسرے کو کارڈز اور تحائف دیتے ہیں۔ سویڈن میں اِس دن کو ” آل ہارٹس ڈے“ کہا جاتا ہے اوریہاں یہ دن پہلی بار1960 میں منایا گیا جس کی بنیاد فلاور انڈسٹر ی نے رکھی تھی۔فن لینڈ میںاِس دن کو”فرینڈ ڈے“کہا جاتا ہے اور اِس دن کو خاص دوستوں کیلئے اور اُن کی یاد میںمنایا جاتا ہے۔ سلوانیا اور رومانیا میں یہ دن عام مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ اور اِس دن روایتی طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ برازیل میں اکیس جون کو” بوائے فرینڈ ڈے“ منایا جاتاہے اور اِس دن جوڑے آپس میں چاکلیٹ ، تحائف، کارڈز اور پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جاپان ، چین، کوریا اور دوسرے ایشیائی ممالک میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے اور اِس دن تحائف، کارڈز اور خاص طور پر ایک دوسرے کو سر خ گلاب تحفے اور محبت کی نشانی کے طور پر دئیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی اِس دن کو بہت جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ کئی بھارتی تنظیمیں اِس دن کو منانے کے خلاف ہیں۔ مشرقی وسطیٰ کے
کئی ممالک میںاِس دن کو منانے پر پابندی ہے جن میں ایران، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک شامل ہیں۔ سعودی عرب میںویلنٹائن ڈے پر تحائف کے طور پر دئیے جانے والی چیزوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

پاکستان میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر اِس دن کی خصوصی نشریات دکھائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحائف دینا، تفر یحی مقامات پر جانا اور کھانے کی دعوت دینا اِس دن کی مناسبت سے عام ہے۔پہلے محبت قربانی کا جذبہ مانگتی تھی، اب خرچہ مانگتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اِسے بھر پور اندازا میں منانے والے اِس بات سے لاعلم ہیں کہ اِسے کیوں منایا جاتا ہے۔ اِس دن شہر کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پھولوں کی دکانوں سے پھول اچانک غائب ہوجاتے ہیں، بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کرتے اور پھول پھینکتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں جب کہ تما م پارکوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اِس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نے سرخ لباس زیبِ تن کئے ہوتے ہیں تاکہ اِس دن بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوا جاسکے۔ اِب یہ ایک فیشن بن گیا ہے اور پاکستان میں ہرکوئی اِس فیشن کو اپنانے کے لئے سرگرداں ہے۔ ویلنٹائن ڈے کیا ہے یہاں اِس کا ذکر انتہائی ضروری ہے خصوصا نئی نسل کے لئے جو ایسے فیشن اختیار کرتی ہے اور ایسے ایام خوشی سے مناتی ہے۔ جو ہمارے ہیں ہی نہیں۔ بلکہ اُس تہذیب سے بھیجے گئے ہیں جسے دیکھ کر ہم شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اِس تناظر میںاِس امر کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ مسلم ممالک خصوصاََ پاکستان پر تہذیب کی جنگ مسلط کردی گئی ہے چند سال پہلے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا ”گلوبل ویلیج“ ہے ۔ گلوبل ویلیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے پیروکاروں نے اِسے پھیلایا جس کا مقصد یہی ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جہاں ایک نظام ہو، ایک تہذیب ہو،اور اِسکے ہر رسم و رواج کو دوسری تہذیبیں قبول کریں۔ اِسے اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنالیں اور اِسی منصوبے کی تکمیل کیلئے وہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔

بہت سے لوگ اِسے ایک مغربی رسم قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں جبکہ بہت سوں کا خیال ہے کہ جب ہم جنگیں لڑنے کے دن منا سکتے ہیں تو سال میں ایک دن باہمی محبت کے نام کیو ں نہیں کرسکتے؟۔ ہمیں مغربی انداز پسند نہیں تو اِپنی مذہبی ومعاشرتی اقدار میں رہتے ہوئے بھی ہم ”یومِ محبت“ منا سکتے ہیں۔لیکن ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ہم جتنے پیسے اِس قسم کی سر گرمیوں پر خرچ کرتے ہیں اگر وہی رقم کسی ضرورت مند کو دے دیں تو کیا زیادہ مناسب نہیں ہوگا؟ ویلنٹائن ڈے کا مطلب ہے اپنے محبوب کو تحفہ دینا اور محبت نبھانے کا عہد کرنا ۔ ویلنٹائن ڈے پر تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے مگر وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اِب یہ جدید شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ جب سے کمیونیکیشن نے فاصلے کم کرنے شروع کیے ہیں ایک علاقے کے رسم و رواج دوسرے علاقوں میں تیزی سے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی، ڈش، کیبل اور انٹرنیٹ نے اِب گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں چھوڑا جو دوسرے خطوں کے رسم ورواج سے متاثر نہ ہواہو۔ انڈیا کی ثقا فت کی پاکستان پر یلغار سب کے سامنے ہے۔ ویلنٹائن ڈے بھی عاشقوں کیلئے ایک نعمت بن کر واردہوا ہے۔ اِب آپ جس سے محبت کرتے ہیں مگر اِب تک اظہار کرنے کی جرات نہیں کر پائے اُسے صرف پھول یا پھر ایک سستا سا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز اُس تک پہنچا سکتے ہیں۔آگے آپ کے محبوب کی مرضی ہے کہ وہ بہت ساری آفروں میں سے کس کی آفر قبول کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہم نے ویلنٹائن ، بسنت اور ہندوانہ طرز کی شادی کی رسومات کو تو بہت آسانی سے اپنا لیا مگر یورپ اور ہندوستان کے اچھے اُصولوں کو نہیں اپنایا۔
 
Top