بارہویں سالگرہ 12 ویں سالگرہ - ڈئر زندگی - ڈئر اردو محفل

عندلیب

محفلین
ڈئر زندگی! جینیئس وہ نہیں ہوتا جس کے پاس ہر سوال کا جواب ہو بلکہ جینیئس تو وہ ہوتا ہے جس کے پاس ہر جواب تک پہنچنے کا صبر ہو!

اپنا دسواں سال اردو محفل پر گزارتے ہوئے اس قول جیسے بہت سے اہم سبق سیکھے ہم نے۔ جیسے بیتے ماضی سے سبق حاصل کر کے حال کو سدھارنا اور اچھے مستقبل کی امید رکھنا ، مثلاً زندگی سے کچھ لو تو اسے کچھ دینا بھی فرض ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اردو محفل سے بہت کچھ لیا ہے۔ کچھ حاصل کرنے کے اعتماد نے ہی تو سائنس اسٹریم کی طالبہ کو اردو زبان سے ایم۔اے کرنے کا حوصلہ ہوا اور کامیابی بھی۔
مگر زیادہ یاد نہیں آتا کہ دینے کا کتنا حق ادا کیا ہو؟ ساتویں سالگرہ پر محفلین کی تفریح طبع کی خاطر حیدرآبادی زبان میں ایک گھریلو مکالمہ "اردو محفل کی جئے ہو" پیش کیا تھا۔ دکنی زبان کو سمجھنے میں مشکل و مشقت کے باوجود محفلین کی کثیر تعداد نے خاطرخواہ داد سے نوازا جس کے لیے ہم ان تمام کے ہمیشہ شکرگزار رہے۔:)
پھر نویں سالگرہ پر ہم نے پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور کا سفرنامہ نشر کیا تھا۔ سابقہ متحدہ آندھرا پردیش کی "تلنگانہ" و "آندھرا" میں تقسیم کے بعد 13 اضلاع پر مشتمل جو ریاست آندھرا پردیش عمل میں آئی، اس میں اردو خواندگی کی کثرت کے لحاظ سے ضلع کرنول اول اور ضلع گنٹور دوسرے مقام پر فائز ہے۔
اگلے سفر کے لیے بےچین ہمارے قدم سیاحتی حوالے سے مشہور جنوبی ہند کے تین شہر بنگلور، میسور اور اوٹی سے گزرے تھے جن کا تذکرہ بھی تصویری و تحریری سفرنامہ کی شکل میں "زندگی کا سفر - ہنستے گاتے جہاں سے گزر" کے عنوان سے اردو محفل کی 10 ویں سالگرہ پر پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔

اردو محفل کی 11 ویں سالگرہ بس یونہی خانگی مصروفیات میں گزر گئی کہ ہمارے میاں جی نے سعودی عرب کے طویل قیام کو خیرباد کہہ کے حیدرآباد میں مستقلاً قیام کے فیصلے پر عمل درآمد کیا تو وطن سے ہجرت کا ایک باب تمام ہوا۔ زندگی کے کچھ اہم سال سرزمین حجاز پر گزار کر گزشتہ سال سے مستقلاً میاں جی اور بچوں کے ساتھ اپنے ہی وطن میں گزارنا شروع کیا ہے تو یہ بھی انکشاف ہوا کہ اب سفر کی سہولیات کی مسدودی کے علاوہ لذت کام و دہن کے ذائقے بھی ختم ہوئے۔۔۔ اب کہاں شاورما، پیزا، برگر، بروسٹ، مندی، مظبی، مثلوثہ ، خبسہ، فول تمیس، فلافل، زاتر ، مطبق ، کنافہ ، بسبوسہ۔۔۔۔ گو کہ اب حیدرآباد میں بھی یہ سب کچھ ملتا ہے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی;);)!
پھر روزانہ کے لڑائی جھگڑے سے شاید میاں جی کو بھی اندازہ ہوا کہ گھر والی کو گھر کے کاموں کے دباؤ سے بھی کچھ آزادی چاہیے لہذا ایک دن اچانک بولے کہ : آج کچھ طوفانی ہو جائے :p:p:p:p، لانگ ڈرائیو اور کینڈل لائٹ ڈنر !;)
پھر تفصیل اس اجمال کی یوں ہوئی کہ رہائش گاہ سے کوئی پندرہ بیس کیلومیٹر دور کسی ملٹی پلکس سینما تھیٹر میں اپنے ہمراہ لے گئے اور فلم کے انٹرول کے درمیان سینڈوچ، فرنچ فرائز اور سیون اپ کی چھوٹی سی بوتل کے ساتھ حاضر ہو کر میاں جی نے آنکھ میچ کر مسکراتے ہوئے فرمایا: لیجیے تھیٹر کی معنی خیز مدھم نیلگوں رومانٹک روشنی میں ڈنر نوش فرمائیں۔۔۔۔:(:(:(:(:(:(
پھر تو "لانگ ڈرائیو" اور کینڈل لائٹ ڈنر کا یہ سلسلہ دراز ہوا اور توجیہ یہ پیش کی جانے لگی کہ کچھ آؤٹنگ اور کچھ ہفتہ/مہینہ بھر کی مصروفیات کے دباؤ سے آزادی ۔۔۔ مگر ہمیں معلوم ہے کہ اس کے تانے بانے میاں جی کی جیب سے جڑے ہیں، کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے ڈنر یا شہر/ریاست سے باہر کی سیر و تفریح کے ضمن میں ان کی جیب پر بقول خود ان کے جو خوفناک اثرات پڑتے ہیں اس کے سدباب کے لیے یہ بس ہزار بارہ سو روپے کی قربانی دی جا رہی ہے۔:sneaky::sneaky:
قصہ مختصر یہ کہ محفل کی 11 ویں سالگرہ سے 12 ویں سالگرہ کے دوران جو فلمیں لانگ ڈرائیو کے زیراثر ظہور پذیر ہوئیں وہ کوئی زائد از 12 تو ہیں مگر ہم یہاں بس انہی 12 فلموں سے متعلق اپنے تاثرات محفلین سے شئر کر رہے ہیں (مع ریٹنگ) جو ہمیں قابل ذکر لگیں یا جن سے کچھ تفریح حاصل ہوئی یا کچھ سبق سیکھا ، کچھ غور و فکر کیا ۔۔۔
2lnfkvc.jpg

نوٹ:
یہ تحریر یوں تو دو ہفتہ قبل لکھ رکھی تھی مگر طبیعت کی مسلسل ناسازی کے باعث پوسٹ کرنے میں تاخیر ہو گئی۔

1)
سلطان
درجہ : ساڑھے 4 ستارے
بجرنگی بھائی جان کے بعد اس فلم کا انتظار تھا کہ دیکھیں فلم کے تقاضے کے مطابق مڈل ایج آدمی کا کردار سلمان خان نے کس طرح ادا کیا ہے؟ فلم کے چند جذباتی مناظر میں سلمان خان ہریانہ پہلوان کے کردار کے ذریعے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں خصوصاً اس وقت جب اسے طعنہ ملتا ہے کہ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے جس پر وہ کہتا ہے: میں نے پہلوانی ضرور چھوڑی ہے پر لڑنا نہیں بھولا۔
چند یادگار مکالمے :
* عزت اور غرور میں دھاگے بھر کا فرق ہوئے ہے۔
* اصلی پہلوان کی پہچان اکھاڑے میں نہیں، زندگی میں ہوئے ہے ۔۔۔ تاکہ جب زندگی تمہیں پٹخے تو تم پھر کھڑے ہو اور ایسا داؤ مارو کہ زندگی چِت ہو جائے۔
* سپنے دیکھنا اچھی بات ہے، پر کئی بار ان کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اپنے پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔

2)
موہن جوداڑو
درجہ : 3 ستارے
تاریخ سے دلچسپی کے باعث موہن جوداڑو دیکھنے کی خواہش تھی مگر دیکھنے کے بعد پتا چلا کہ حسب روایت فلمی مسالہ بھرنے کی خاطر تاریخ کو ٹوئسٹ کر دیا گیا۔ تاریخی واقعات سے قطع نظر فلم میں رتیک روشن کی اداکاری قابل تعریف ہے خاص طور پر فلم کی شروعات میں مگرمچھ سے لڑائی کا سین۔
دو بہترین مکالمے :
* انیائے (ناانصافی) کا ورودھ (مخالفت) کرنا ہی نیائے (انصاف) کرنا ہوتا ہے۔
* کیا انتر (فرق) ہے تجھ میں اور مجھ میں؟ ۔۔۔ تجھے موہن جوداڑو پہ راج کرنا ہے اور مجھے سیوا!

3)
پنک
درجہ : 4 ستارے
سماجی مسائل بلکہ سماج میں عورت کے مقام اور اس کی آزادی کے مسائل پر اس سے بہتر محتصر فلم شاید حالیہ دور میں نہ بنی ہو۔ امیتابھ بچن نے بلاشبہ اپنے کردار میں جان ڈالی دی ہے۔ فلم میں قانونی لڑائی کے مختلف مناظر موثر طریقے سے فلمائے گئے ہیں۔ کچھ مکالمے ہارڈ ہٹنگ ہیں گوکہ ہمارے مذہبی پس منظر سے میل نہیں کھاتے۔ فلم میں تینوں نئی لڑکیوں نے اپنے کردار سے انصاف کیا ہے۔
کچھ پرفکر مکالمے:
* ہمارے یہاں گھڑی کی سوئی کردار کا فیصلہ طے کرتی ہے!
* کسی بھی لڑکی کو کسی بھی لڑکے کے ساتھ کہیں بھی اکیلے نہیں جانا چاہیے۔ کیونکہ ایسا کرنے پہ، وہاں کے لوگ یہ تصور کر لیتے ہیں کہ وہ لڑکی اپنی خواہش سے وہاں پہ آئی ہے اور اسے چھونے کا انہیں لائسنس ایشو کر دیا گیا ہے۔
* ان لڑکوں کو سمجھنا چاہیے کہ نہیں کا مطلب نہیں ہوتا ہے۔ اسے بولنے والی لڑکی کوئی واقفکار ہو، دوست ہو، گرل فرینڈ ہو، کوئی سیکس ورکر ہو یا آپ کی اپنی بیوی ہی کیوں نہ ہو، نہیں کا مطلب ہے "نہیں" اور اگر کوئی نہیں کہتا ہے تو آپ کو رک جانا چاہیے!

4)
ایم ایس دھونی
درجہ : ساڑھے 3 ستارے
ہمارے شہر حیدرآباد کے مشہور کرکٹ کھلاڑی اظہرالدین پر بنی بائیوپک "اظہر" تو مس ہو گئی تھی لیکن دھونی پر بنی یہ فلم ہم نے خاص طور سے دیکھی۔ بہت انسپائریشنل مووی ہے۔ نئے اداکار سشانت سنگھ راجپوت نے دھونی کا کردار خوبصورتی سے نبھایا ہے۔ کسی بائیوپک کو دیکھنے کے خواہشمند کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔
یادگار مکالمے:
* مجھے یقین ہے کہ صرف شہر چھوٹے ہوتے ہیں، وہاں کے لوگ اور ان کے خواب نہیں۔۔ مجھے یقین ہے آدمی کا قد اس کے ارادوں سے ناپا جاتا ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے نصیب کی بات صرف وہ کرتے ہیں جو کبھی بھی میدان میں اترے ہی نہیں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ تھکن اور پریشر صرف ایک بھرم ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے ہار اور جیت کے بیچ کا فاصلہ بڑا ہے پر ناممکن نہیں ۔۔۔ کرو یقین تو دنیا تمہاری ہے!!
* کھیل خود اپنی جگہ ہے۔۔۔ لیکن پڑھوگے لکھوگے تو کسی لائق بنو گے۔
* ایک باؤلر وکٹ لے گا، ایک اچھا بیٹسمین آپ کے لیے کسی میچ میں رن بنائے گا لیکن ایک اچھا فیلڈر ہر میچ میں رن بچائے گا۔

5)
اے دل ہے مشکل / شوائے
درجہ : ڈھائی ستارے (اے دل ۔۔۔)
درجہ : 3 ستارے (شوائے)
یاد نہیں کہ کسی چھٹی پر کیا اتفاق ہوا تھا کہ ایک ہی تھیٹر میں دوپہر کا شو اور پھر رات کا شو دیکھنے کا نادر موقع ملا تھا۔ پہلی فلم لندن کے ماحول میں تھی اور دوسری فلم کا بیشتر حصہ یوگوسلاویہ کے خوبصورت مناظر پر مشتمل تھا۔ دونوں فلمیں یکسر مختلف موضوعات پر تھیں۔ اور اتفاق سے دونوں موضوعات بوجہ پسند نہیں آئے۔ پہلی فلم شاعرانہ انداز میں فلمائی گئی ہے اور دوسری فلم کے ایکشن مناظر یقیناً ہالی ووڈ فلموں کی ٹکر کے ہیں۔
کچھ مکالمے :
اے دل ۔۔۔:
* ڈرے ہوئے لوگ اکثر الفاظوں کے پیچھے چھپتے ہیں۔
* رشتوں کی گیلی زمین پر لوگ اکثر پھسل جاتے ہیں۔
* کمبخت خیالوں نے ہی تو زندہ رکھا ہے۔۔ ورنہ سوالوں نے کب کا مار دیا ہوتا۔
* کچھ زخموں کے قرض لفظوں سے ادا نہیں ہوتے۔
شوائے:
* ودیشی منہ سے دیسی زبان سن کر ایسا لگتا ہے ۔۔۔ جیسے کانچ کے گلاس میں کنکر ڈال کر کھڑکا دیا ہو کسی نے۔
* ملاقاتوں کو دن اور ہفتوں سے کیوں گنا جاتا ہے، سانسوں سے کیوں نہیں؟ اگر سانسوں سے گنا جائے تو لگے گا بہت لمبی عمر ہے اس کم عمر رشتے کی۔

6)
ڈئر زندگی
درجہ : 4 ستارے
ایسی فلم ہے جس میں سنجیدہ اور سوبر اداکاری پر کنگ خان کی تعریف کی جانی چاہیے۔ ایک نفسیات داں ڈاکٹر جہانگیر (عرف ڈاکٹر جگ) کے رول میں جہاں شاہ رخ خان نے اپنی کردارنگاری سے متاثر کیا ہے وہیں نئی اداکارہ عالیہ بھٹ نے کائرہ کے کمپلکس قسم کے کردار کو بہترین طریقے سے ادا کیا ہے۔ کئی جذباتی مناظر میں عالیہ بھٹ نے اپنی اداکاری کا سکہ جمایا ہے۔
کچھ بہترین مکالمے:
* بچپن میں جب رونا آتا ہے تو بڑے کہتے ہیں آنسو پونچھو۔ جب غصہ آتا ہے تو بڑے کہتے ہیں تھوڑا مسکراؤ تاکہ گھر کا امن برقرار رہے۔ نفرت کرنا چاہتے ہیں تو اجازت نہیں تھی۔۔۔ تو جب ہم پیار کرنا چاہتے ہیں تو پتا چلتا ہے یہ سارا ایموشنل سسٹم ہی گڑبڑا گیا، کام نہیں کر رہا۔۔۔ رونا، غصہ، نفرت۔۔۔ کچھ بھی کھل کر اظہار نہ کرنے دیا تو اب پیار کا اظہار کیسے کریں؟
* البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا۔۔۔ پاگل وہ ہوتا ہے جو روز روز ایک ہی کام کرتا ہے ۔۔۔ مگر چاہتا ہے کہ نتیجہ ہر بار مختلف ہو۔
* اپنے ماضی کو موقع مت دو کہ وہ تمہارے حال کو بلیک میل کر سکے۔۔۔ ایک خوبصورت مستقبل کو برباد کرنے کے لیے۔

7)
دنگل
درجہ : 4 ستارے
اس فلم کی ریلیز سے قبل ہی بچے بھی اسے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔۔۔ انہیں شاید گمان تھا کہ "تارے زمین پہ" جیسی یادگار اور سبق آموز بچوں کے موضوع پر مختص فلم ہوگی مگر سخت گیر باپ کا رول انہیں اتنا پسند نہیں آیا۔ عامر خان بلاشبہ ورسٹائل اداکار ہے۔ تھری ایڈیٹ، تارے زمین پر اور دنگل میں جیسے مختلف و متضاد نظریوں کو انہوں نے جس خوبی سے پردہ سیمیں پر پیش کیا ہے وہ شاید ہی کوئی اور کر سکے۔ فلم، تفریح کا ایک میڈیم ہے اور مختلف نظریات واقعات کو پیش کرنا کسی فنکار کا تضاد نہیں بلکہ فن ہی کہلائے گا۔
کچھ یادگار مکالمے:
* اپنی مٹی کی ہمیشہ عزت کرنا۔۔۔ کیونکہ جتنی عزت تم مٹی کی کرو گی ، اتنی ہی عزت مٹی سے تمہیں ملے گی۔
* میڈلسٹ پیڑ پہ نہیں اگتے، انہیں بنانا پڑتا ہے، پیار سے، محنت سے، لگن سے۔
* طاقت تو گینڈا بھی لگاتا ہے۔۔ لیکن شیر لگاتا ہے طاقت اور تکنیک دونوں۔۔۔ شیر بننا ہے گینڈا نہیں۔

8
رئیس
درجہ : 4 ستارے
شاہ رخ خان کے شیدائی اس فلم کا بڑا انتظار کر رہے تھے مگر فلم میں کنگ خان پر نواز الدین صدیقی اپنی اداکاری اور ڈائیلاگ ڈیلیوری کے ذریعے بھاری پڑتے نظر آتے ہیں۔ ماہرہ خان کو ابھی بہت کچھ اداکاری سیکھنا ہے۔ اور اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ کنگ خان نے 80 کی دہائی کے گجراتی اسمگلر کا کردار ادا کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
فلم کے یادگار مکالمے:
* بنیے کا دماغ اور میاں بھائی کی ڈیرنگ !
* "جو دھندے کے لیے صحیح وہ صحیح، جو دھندے کے لیے غلط وہ غلط، اس سے زیادہ کبھی سوچا نہیں۔" ۔۔۔ "جس کو تو دھندا بولتا ہے ناں، کرائم ہے وہ۔ دھندا بند کر لے ورنہ سانس لینا بھی مشکل کر دوں گا" ۔۔۔ "گجرات کی ہوا میں بیوپار ہے صاحب، میری سانس تو روک لوگے لیکن اس ہوا کو کیسے روکو گے؟"
* پابندی ہی بغاوت کی شروعات ہے۔
* "آج کل دن اچھے چل رہے ہیں تیرے؟" ۔۔۔ دن اور رات لوگوں کے ہوتے ہوں گے، شیروں کا زمانہ ہوتا ہے!

9)
جولی ایل ایل بی -2
درجہ : 3 ستارے
کامیڈی فلم ہے مگر ہمارے ملک کے عدالتی نظام پر ایک گہرا طنز بھی۔ اکشے کمار نے جہاں مزاحیہ کردار نگاری میں کمال کیا ہے وہیں کورٹ روم میں انوکپور کے ساتھ مکالمہ بازی میں بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا ہے۔ فلم کا اختتامی کورٹ روم ڈرامہ قابل تعریف ہے۔
* اس دنیا کے سب سے بڑے جاہل نے کہا تھا کہ عشق اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے کیونکہ اگر ایسا ہے تو پھر بارڈر پر سپاہیوں کے سر کاٹنے والے بھی جائز ہیں اور جوان لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے والے عاشق بھی!
* بیس سال کی پریکٹس ہے وکیل صاحب، آپ کی طرح گھما کے کان نہیں پکڑوں گا، سیدھے پکڑوں گا اور کس کے پکڑوں گا۔

10)
باہوبلی-2
درجہ : ساڑھے 4 ستارے
گو کہ بچوں کو "جنگل بک" اور "کیپٹن امریکہ، سول وار" جیسی تھری-ڈی انگریزی فلمیں ہم دکھا چکے تھے۔ جن میں سے کلاسک جنگل بک کو بچوں نے کافی پسند بھی کیا۔ مگر باہوبلی-2 کے جنگی مناظر اور سینماٹوگرافی کو بڑے اسکرین پر دیکھنے کی زیادہ خواہش بھی بچوں کی تھی۔ اور اس عالمگیر سوال کا جواب جاننے کی بھی کہ: کٹاپا نے باہوبلی کو کیوں مارا؟

* سوچ اگر پکی ہو تو ایک تنکا بھی تلوار میں بدل سکتا ہے۔
* اپنے ہاتھوں کو ہتھیار بنا لو۔۔۔ اپنی سانسوں کو آندھیوں میں بدل دو ، ہمارا خون ہی ہماری مہان سینا (فوج) ہے۔
* ایک راجہ کا دھرم صرف شترو (دشمن) کو مارنا نہیں ہوتا، پرجا (عوام) کو بچانا بھی ہوتا ہے۔

11)
مام
درجہ : ساڑھے 3 ستارے
سنا تھا کہ بالی ووڈ کی نامور اداکارہ سری دیوی کی یہ 300 ویں فلم ہے اور اس فلم کے ساتھ فلم انڈسٹری میں ان کے کوئی پچاس سال بھی پورے ہو رہے ہیں۔ "انگلش ونگلش" جیسی یادگار فلم میں اپنے حیرت انگیز کردار سے چونکانے والی معمر اداکارہ کا جادو بہرحال اس فلم میں اتنا نہیں چل سکا۔ پاکستانی ایکٹر سجل علی نے سری دیوی کی بیٹی کا کردار کہانی کے لحاظ سے خوب نبھایا ہے۔ سری دیوی، سجل علی اور پرائیویٹ ڈیٹکٹیو کے انوکھے گیٹ اپ میں نظر آنے والے نوازالدین صدیقی کی خاطر یہ فلم ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔
فلم کے یادگار مکالمے:
* بدلتے وقت میں بھی نہیں بدلتا اس کا پیار ، بچے کے لیے پھول ہے وہ دشمن کے لیے تلوار۔ لکشمی بھی ہو، سرسوتی درگا اور کالی بھی، اسی سے گھر میں ہوتی ہے ہولی، عید، دیوالی بھی۔ ممتا کے دنیا میں ہیں کئی نام، ماں کہو، اماں کہو یا کہو مام !
* غلط اور بہت غلط میں سے چننا ہو تو آپ کیا چنیں گے؟

12)
منا مائیکل
درجہ : 3 ستارے
فلم نواز الدین صدیقی جیسے فطری اداکار کے لیے ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ ورنہ ہمارے خیال میں جیکی شراف کے فرزند ٹائگر شراف کو اداکاری سیکھنے کے لیے ابھی کچھ وقت لگے گا۔ جبکہ نئے اداکاروں میں رنبیر کپور نے جہاں "اے دل ہے مشکل" میں ایک پیچیدہ نفسیاتی کردار نبھا کر اپنی اداکاری کا لوہا منوایا تھا وہیں "منا مائیکل" کے ساتھ ریلیز ہونے والی "جگا جاسوس" میں اس کی اداکاری کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی جس میں اس نے ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا جسے بولنا نہیں آتا بلکہ وہ ردھم میں گا کر اپنی بات کا مفہوم ادا کرتا ہے۔
رئیس میں انسپکٹر کا کردار اور مام میں پرائیویٹ ڈیٹکٹیو کے کردار کے بعد نواز الدین صدیقی نے منا مائیکل میں ایسے گینگسٹر کا کردار نبھایا ہے جسے ڈانس میں بھی دلچسپی ہے۔ اور ٹائگر شراف سے ڈانس سیکھنے کے لیے وہ اس سے دوستی کرتا ہے۔ ڈانس کے معاملے میں البتہ ٹائگر شراف کو زیادہ نمبر دئے جا سکتے ہیں۔
فلم میں نواز الدین صدیقی کا ایک دلچسپ مکالمہ:
* 42 رننگ چل رہا ہے، ڈانس کے پیچھے پڑا ہوں۔ رننگ میں نیشنل چمپئین تھا۔۔ بول ٹھوک دوں؟
 

جاسمن

لائبریرین
عندلیب!!!
زبر''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''دست!
بہت خوب!!
خوبصوووووووورت ترین تحریر۔
یہ سب فلمیں نہیں دیکھیں۔۔۔۔لیکن آپ کے جاندار تبصروں کو تو کسی فلموں سے متعلق پروگرام/کالم وغیرہ میں ہونا چاہیے۔
 

الف عین

لائبریرین
’ڈئر زندگی‘ پرسوں ہی یہاں امریکہ میں نیٹ فلکس پر دیکھی ہے۔ عندلیب کے نام اور ’ڈئر زندگی‘ کے عنوان سے ہی یہاں چلا آیا۔ اور پہلی ہی سطر میں اسی فلم کا مکالمہ بھی۔
ہندوستان میں تو ہم لوگوں نےبرسوں سے کوئی فلم نہیں دیکھی۔ بیرونی فلائٹس یا امریکہ میں ہی کمپیوٹر یا ٹی وی پر فلمیں دیکھتے ہیں۔ عامر خان کی دنگل پندرہ دن پہلے دیکھی تھی۔ اور ڈئر زندگی سے پہلے ’رئیس‘ ۔ تینوں پسند آئیں۔باہوبلی کی ڈھشم ڈھشم کی وجہ سے دیکھنے کا پلان ہی نہیں بنایا۔
بہت دن بعد تمہاری کوئی پوسٹ نظر آئی۔ شکریہ @عندلیب۔
 

زیک

مسافر
اچھی پوسٹ ہے اگرچہ ان میں سے کسی ایک بھی فلم کا نام نہیں سنا لہذا ریٹنگز سے اتفاق یا اختلاف نہیں کر سکتا
 

یاز

محفلین
بہت عمدہ پوسٹ ہے جی۔ ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ آپ نے مذکورہ بالا فلموں کو حتی الامکان درست ستاروں سے درجہ بند کیا ہے۔
 

عندلیب

محفلین
میں نے ان میں سے کئی ایک فلمیں دیکھی ہیں لیکن آپ کے دیے گئے ستاروں سے مجھے 'اختلاف' ہے۔ :)
جیسے یاز بھائی نے کہا اختلاف "حسن "ہے ضرور اختلاف کیجیے قبلہ :p۔۔۔اس ریٹنگ سے میرے میاں جی کو بھی اختلاف ہے بقول "اُن" کے خواتین کی ریٹنگ کا گراف ان کے وقتی موڈ کے حساب سے گھٹتا اور بڑھتا ہے۔;)
 

عندلیب

محفلین
’ڈئر زندگی‘ پرسوں ہی یہاں امریکہ میں نیٹ فلکس پر دیکھی ہے۔ عندلیب کے نام اور ’ڈئر زندگی‘ کے عنوان سے ہی یہاں چلا آیا۔ اور پہلی ہی سطر میں اسی فلم کا مکالمہ بھی۔
ہندوستان میں تو ہم لوگوں نےبرسوں سے کوئی فلم نہیں دیکھی۔ بیرونی فلائٹس یا امریکہ میں ہی کمپیوٹر یا ٹی وی پر فلمیں دیکھتے ہیں۔ عامر خان کی دنگل پندرہ دن پہلے دیکھی تھی۔ اور ڈئر زندگی سے پہلے ’رئیس‘ ۔ تینوں پسند آئیں۔باہوبلی کی ڈھشم ڈھشم کی وجہ سے دیکھنے کا پلان ہی نہیں بنایا۔
بہت دن بعد تمہاری کوئی پوسٹ نظر آئی۔ شکریہ @عندلیب۔
انکل ، ڈھشم ڈھشم کے علاوہ "باہو بلی" میں کچھ قابل دید رومانی مناظر بھی ہیں۔ امریکہ سے واپسی سے قبل آنٹی کے ساتھ ضرور دیکھیے۔:p:D
 
Top