10- غزل برائے اصلاح

ایک نئی غزل برائے اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے بے لاگ تنقید و تبصرے کی درخواست ہے۔

مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن

ذرا ہمیں بھی دیکھ کر بتا نصابِ عشق میں
ہمارا بھی کہیں پہ ذکر ہے کتابِ عشق میں

مجھے ڈرائے ہے کوئی مرے شبابِ عشق میں
یہ کون ہے کہاں سے آ گیا ہے خوابِ عشق میں

بگڑ گئی ہیں صورتیں کئی سرابِ عشق میں
کہاں اُتر پڑے ہیں آپ بھی خرابِ عشق میں

نکالے ہیں خرد نے عشق میں زیاں فقط زیاں
نہیں نہیں مجھے یقیں نہیں حسابِ عشق میں

تُو بھی دیارِ عشق میں سنبھل سنبھل کے رکھ قدم
یہاں بہت سے آ گئے زدِ عتابِ عشق میں

سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خرد والا مصرع مراسلے کے متن میں ترمیم کر دینے سے مکمل اصلاحات سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس سے پرہیز کریں تو بہتر ہے۔
ردیف بھی ایسی مشکل نکالی ہے کہ جس کا نباہ مشکل ہے۔ بہر حال اچھی کوشش ہے۔

ذرا ہمیں بھی دیکھ کر بتا نصابِ عشق میں
ہمارا بھی کہیں پہ ذکر ہے کتابِ عشق میں
÷÷ہمارا کا الف کا اسقاط اچھا نہیں۔
کہیں پہ ہے ہمارا ذکر بھی۔۔۔۔
بہتر ہو گا۔

مجھے ڈرائے ہے کوئی مرے شبابِ عشق میں
یہ کون ہے کہاں سے آ گیا ہے خوابِ عشق میں
۔۔ٹھیک
بگڑ گئی ہیں صورتیں کئی سرابِ عشق میں
کہاں اُتر پڑے ہیں آپ بھی خرابِ عشق میں
÷÷خرابہء عشق یا خرابِ عشق؟

نکالے ہیں خرد نے عشق میں زیاں فقط زیاں
نہیں نہیں مجھے یقیں نہیں حسابِ عشق میں
÷÷یہاں بھی ’نکال ہیں‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔
خرد نکالتا ہے عشق میں زیاں، فقط زیاں
بہتر ہو گا۔

تُو بھی دیارِ عشق میں سنبھل سنبھل کے رکھ قدم
یہاں بہت سے آ گئے زدِ عتابِ عشق میں
÷÷ٹو بھی کا ’تُبی‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔
دیار عشق میں سنبھل سنبھل کے تو بھی اپنے پاؤں رکھ
یا کچھ اور بہتر ہو گا۔
 
سر الف عین بہت بہت شکریہ۔ سر اب دیکھیں:

خرد والا مصرع مراسلے کے متن میں ترمیم کر دینے سے مکمل اصلاحات سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس سے پرہیز کریں تو بہتر ہے۔
ردیف بھی ایسی مشکل نکالی ہے کہ جس کا نباہ مشکل ہے۔ بہر حال اچھی کوشش ہے۔

سر آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ وہ مصرعہ یہ تھا:
نکالے جا رہی ہے خرد کیسے کیسے یہ زیاں

ذرا ہمیں بھی دیکھ کر بتا نصابِ عشق میں
ہمارا بھی کہیں پہ ذکر ہے کتابِ عشق میں
÷÷ہمارا کا الف کا اسقاط اچھا نہیں۔
کہیں پہ ہے ہمارا ذکر بھی۔۔۔۔
بہتر ہو گا۔

ذرا ہمیں بھی دیکھ کر بتا نصابِ عشق میں
کہیں پہ ہے ہمارا ذکر بھی کتابِ عشق میں

بگڑ گئی ہیں صورتیں کئی سرابِ عشق میں
کہاں اُتر پڑے ہیں آپ بھی خرابِ عشق میں
÷÷خرابہء عشق یا خرابِ عشق؟

سر خرابِ عشق ہے، کیا یہ ٹھیک نہیں؟

نکالے ہیں خرد نے عشق میں زیاں فقط زیاں
نہیں نہیں مجھے یقیں نہیں حسابِ عشق میں
÷÷یہاں بھی ’نکال ہیں‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔
خرد نکالتا ہے عشق میں زیاں، فقط زیاں
بہتر ہو گا۔

خرَد نکالتی ہے عشق میں زیاں، فقط زیاں
نہیں نہیں مجھے یقیں نہیں حسابِ عشق میں

تُو بھی دیارِ عشق میں سنبھل سنبھل کے رکھ قدم
یہاں بہت سے آ گئے زدِ عتابِ عشق میں
÷÷ٹو بھی کا ’تُبی‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔
دیار عشق میں سنبھل سنبھل کے تو بھی اپنے پاؤں رکھ
یا کچھ اور بہتر ہو گا۔

دیارِ عشق میں سنبھل سنبھل تو بھی رکھ قدم
یہاں بہت سے آ گئے زدِ عتابِ عشق میں
 

الف عین

لائبریرین
محل تو خرابہء عشق کا ہے۔ خراب عشق سے مطلب فوت ہو جاتا ہے۔
دیارِ عشق میں سنبھل سنبھل کے تو بھی رکھ قدم
ہونا چاہیے۔ باقی درست ہو گئی ہے غزل
 
بہت شکریہ سر۔ خرابہء عشق تو نہیں آ سکے گا اس قافیہ کے ساتھ؟ نکال دوں پھر یہ شعر؟

"کے" غلطی سے رہ گیا تھا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top