عنایت علی خان ہو گیا نا! ۔ عنایت علی خان کی مزاحیہ غزل

پاکستانی

محفلین
وہ آخر اپنے گھر کا ہو گیا نا!
کلیجہ سب کا ٹھنڈا ہو گیا نا!
کہا تھا دوستی اتنوں سے مت کر!
بوقت عقد پھڈا ہو گیا نا!
سیاسی کم نگاہی رنگ لائی
ہمیں پھر مارشل لا ہو گیا نا!
پہن کر ہار وہ پھولا تھا کیسا
وہی پھانسی کا پھندا ہو گیا نا!
ہمارا حال پتلا ہے تو کیا غم ہے
ترا الو تو سیدھا ہو گیا نا!
یہ میرا دیدہ تر روتے روتے
منسپلٹی کا نلکا ہو گیا نا!
اگرچہ شہر کا قاضی کو غم ہے
مگر پہلے تے تکڑا ہو گیا نا!
بہت سوں کو کیا ڈنڈے نے ٹھنڈا
مگر ڈنڈا بھی تو ٹھنڈا ہو گیا نا!
کنکھیوں سے بہت تکتا تھا اس کو
وہ آخر کار بھینگا ہو گیا نا!
ہمارے ساتھ بھی فرہاد چاچا!
وہی گڑ بڑ گھٹالا ہو گیا نا!
تھا اس کا باپ تو شادی پہ راضی
مگر دھندے میں ٹوٹا ہو گیا نا!
وہ بیوی کا ہی جھگڑا کم نہیں تھا
کہ بچے کا بھی ٹنٹا ہو گیا نا!
بلا میک اپ اسے دیکھا ہی کیوں تھا؟
تمناؤں کا کونڈا ہو گیا نا!
مری ساری خوشی پر پڑی گئی اوس!
پڑوسن کے بھی بیٹا ہو گیا نا!
کلیساء میں مدر روزی سے مل کر
مرا دل بھی ‘ کلی سا ‘ ہو گیا نا!
مسلماں خاکساری کرتے کرتے
مصلی سے مصلٰی ہو گیا نا!
بدلتے جنس لگتی ہے کوئی دیر
فضیحت سے فضیتا ہو گیا نا!
لفافہ بھی ملا ہے دادا کے ساتھ
چلو کچھ دال دلیا ہو گیا نا!
خدارا منہ پھلانا چھوڑ دو تم
کہ چہرہ تھوبڑا سا ہو گیا نا!
غزل پڑھ کر یہاں بزم سخن میں
عنایت پیٹ ہلکا ہو گیا نا!

عنایت علی خان
 
یہ فیشن کے نئے رنگ ہیں

عنایت صاحب کا کلام مجھے بہت پسند ہے۔ آپ نے اچھی غزل شامل کی۔ ایک نظم میری جانب سے بھی:

مرے مرشد کے اک فرزندِ دل بند
کھڑے فٹ پاتھ پر کھاتے تھے چھولے

کھڑی تھیں ساتھ بیگم ساڑھی باندھے
اِدھر سے پَیٹ اُدھر سے پِیٹھ کھولے

وہ مصنوعی بھنویں آنکھوں پہ جیسے
کمانیں ہوں کڑی تیروں کو تولے

لبوں پہ تہہ بہ تہہ سرخی جمائے
برہنہ بازوؤں پر بال کھولے

وہ پولے پولے چھولے کھارہی تھیں
کہ جیسے پوپلا پستے پپولے

مجھے دیکھا تو وہ حضرت کے فرزند
یکایک رہ گئے یوں منہ کو کھولے

شکاری پر نطر پڑتے ہی جیسے
تَکیں پرواز سے پہلے ممولے

نظر پھر اپنی بیگم سے بچا کر
مِرے نزدیک آئے ہولے ہولے

مری نظروں میں استفسار پڑھ کر
وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر یہ بولے

کہ صاحب کیا کریں! فیشن یہی ہے

(معروف شاعر عنایت علی خان کی 'عنایات')​
 

یوسف سلطان

محفلین
وہ آخر اپنے گھر کا ہو گیا نا
کلیجہ سب کا ٹھنڈا ہو گیا نا

کہا تھا دوستی اتنوں سے مت کر
بوقتِ عقد پھڈّا ہو گیا نا

سیاسی کم نگاہی رنگ لائی
ہمیں پھر مارشل لا ہو گیا نا

پہن کر ہار وہ پھولا تھا کیسا
وہی پھانسی کا پھندّا ہو گیا نا

ہمارا حال پتلا ہے تو کیا غم ہے
ترا اُلو تو سیدھا ہو گیا نا

یہ میرا دیدہ تر روتے روتے
منسپلٹی کا نلکا ہو گیا نا

بہت سوں کو کیا ڈنڈے نے ٹھنڈا
مگر ڈنڈا بھی تو ٹھنڈا ہو گیا نا

کنکھیوں سے بہت تکتا تھا اس کو
وہ آخر کار بھینگا ہو گیا نا

ہمارے ساتھ بھی فرہاد چاچا
وہی گڑ بڑ گھٹالا ہو گیا نا

بلا میک اپ اسے دیکھا ہی کیوں تھا
تمناؤں کا کونڈا ہو گیا نا

کلیساء میں مدر روزی سے مل کر
مرا دل بھی 'کلی سا ‘ ہو گیا نا

لفافہ بھی ملا ہے داد کے ساتھ
چلو کچھ دال دلیا ہو گیا نا

خدارا منہ پھلانا چھوڑ دو تم
کہ چہرہ تھوبڑا سا ہو گیا نا

غزل پڑھ کر یہاں بزم سخن میں
عنایت پیٹ ہلکا ہو گیا نا​
 
Top