ہوس !

سرسید چوک راولپنڈی کے گنجان آباد اور پررونق علاقوں میں سے ایک ہے جو دن رات گہما گہمی کا مرکز رہتا ہے چوک کے گرد نواح میں لاتعداد رہائشی محلے ہیں جن میں پنڈی کے پرانے شہری بہت بڑی تعداد میں رہائش پزیر ہیں راشد بھی سرسید چوک کے قریب ایک محلے کا رہائشی تھا اور اکثر کالج طلبا کی طرح گھر سے چھپ کر سگریٹ پیتا تھا روزانہ شام کے کھانے کیبعد گھر سے نکل کر چوک میں آ جاتا اور کیفے سٹوڈنٹ پہ بیٹھ کر چائے اور ساتھ والی دکان سے سگریٹ خرید کر پینا اسکا روز کا معمول تھا ایک شام اسی معمول کے تحت جب وہ گھر سے نکلا تو سڑک کے کنارے ایک نیا کھوکھا نظر آیا جس میں ہلکی داڑھی والا ایک دبلا پتلا شخص پان اور سگریٹ فروخت کر رہا تھا راشد نے اسی کھوکھے سے سگریٹ خرید لی اور گہرے کش لگاتا گھر واپس چلا گیا اب چونکہ کھوکھا راستے میں اور قریب پڑھتا تھا اسلیئے راشد نے روزانہ شام کو اسی جگہ سے سگریٹ خریدنی شروع کر دی اسکی کھوکے کے مالک سے اچھی علیک سلیک بن گئی ایک شام جب راشد کھوکھے سے سگریٹ خرید ریا تھا کہ دکاندار نے رازدارنہ لہجے میں اسے بتایا کہ اسکے پاس ہزار روپے کا ایک جعلی نوٹ ہے جسے اسنے بڑی محنت سے خود تیار کیا یے راشد نے تجسس سے نوٹ کا دیکھنا چاہا اور نوٹ دیکھ کر تعریف کیئے بنا نہ رہ سکا کہ نوٹ بالکل اصلی جیسا بنا یے دکاندار کا کہنا تھا کہ نوٹ مارکیٹ میں فروخت کرتے ہوئے اسے خوف محسوس ہوتا ہے اگر راشد اس نوٹ کو مارکیٹ میں چلا سکتا ہے تو اس میں سے نصف یعنی پانچ سو روپے راشد کے اور باقی پانچ سو روپے دکاندار کا حصہ ہوگا راشد نے مہم جوئی اور لالچ کے ملے جلے اثرات کے تحت ہزار روپے کا وہ نوٹ رکھ لیا اوراگلے روز گھر سے کالج جاتے ہوئے راشد نے اپنے بائیک میں سو روپے کا پٹرول ڈلوایا اور اپنی جیب سے ہزار روپے کو بطور ادائیگی پٹرول پمپ والے لڑکے کو تھما دیا لڑکے نے نوٹ کو اچھی طرح چیک کیا اور مطمئن ہو کر راشد کو باقی نو سو روپیہ واپس کر دیا راشد کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا کہ اسنے وہ جعلی نوٹ کتنی آسانی سے چلا لیا خوشی کی وجہ سے کالج میں بھی اسکا دل نہ لگا اور وہ جلدی ہی کالج سے چھٹی کر کے کھوکے والے کے پاس آ پہنچا اور اسے پانچ سو روپیہ اسکا حصہ واپس کرتے ہوئے بڑے فخر سی اپنا کارنامہ سنایا دکاندار بھی ساری آببیتی سن کو خوش ہو گیا اور راشد سے جلد مزید پیسے تیار کرنے کا وعدہ کر لیا چند روز بعد دکاندار نے راشد کو ہزار روپے کہ پانچ نوٹ دیے راشد نے پانچ ہزار روپیہ رکھ لیا اور اسے مختلف جگہوں پہ خرچ کیا حیرت انگیز طور پہ وہ پیسے سب جگہ چل گئے یہاں تک کہ بینک میں بجلی کا بل جمع کراتے ہوئے بھی کھوکھے والے تیار کردہ جعلی نوٹ بنا کسی شک کے اصلی نوٹوں کی تجوری تک پہنچ گیا راشد اب کھوکے والے کی کاریگری کا قائل ہو چکا تھا اسنے پانچ ہزار کا نصف پچیس سو روپے کھوکھے والے کو لوٹا دیئے اور اسے مزید نوٹ تیار کرنے کا کہا اور بولا کہ اب یہ چند ہزار کا فائدہ نہیں کوئی بڑی رقم تیار کرو جس سے ہم زیادہ پیسے کما سکیں دکاندار نے بھی حامی بھر لی راشد روزانہ شام کو کھوکے پہ آکر بے چینی سے نوٹوں کی تیاری کا پوچھتا تو دکاندار اسے بتاتا کہ اس بار ہزار ہزار کے سو نوٹ ایک ساتھ بنا رہا ہوں اسلئے وقت لگ رہا ہے راشد لاکھ روپے کا سن کر چپ ہو گیا چند دن بعد جب راشد کھوکے پہ گیا تو کھوکے والا بہت پریشانی میں اسکے انتظار میں بیٹھا تھا راشد کو دیکھتے ہی غمگین لہجے میں بولا کہ اب ہمارا کام مزید نہیں چل سکتا کیونکہ ایک ساتھ اتنی بڑی رقم بنانے کے چکر میں مشین خراب ہو گئی ہے اور اسے ٹھیک کرنے پہ بہت خرچہ ہے جو اس غریب دکاندار کے بس کی بات نہیں راشد نےجب یہ بری خبر سنی تو پریشان ہو گیا اور دکاندار سے اس مسئلے کا کوئی حل نکالنے کا کہا تو دکاندار نے بتایا کہ مشین کو ٹھیک کرنے میں کم سے کم چالیس ہزار روپے کا خرچہ یے جبکہ اسکے پاس دس ہزار سے زیادہ نہیں مزید تیس ہزار روپے کے بغیر انکا یہ دھندہ چلنا ناممکن ہے اسلئے اب اس کاروبار کو بھول جاؤ یا تیس ہزار روپے کا کوئی بندوبست کردے راشد جو جعلی نوٹوں کے معیار کا قائل ہو چکا تھا اور شدید لالچ میں مبتلا تھا نے پیسوں کا بندوبست کرنے کی ہامی بھر لی راشد کو اگلے روز گھر سے بیس ہزار روپے کالج فیس کے ملنے تھے اسنے سوچا کہ ان پیسوں کو مشین کی مرمت پہ خرچ کر دے اورجعلی نوٹ آنے پہ وہ فیس ادا کر دیگا اگلے روز راشد نے اپنے چند دوستوں سے دس ہزار روپے ادھار پکڑا اور بیس ہزار روپے فیس کے اس میں جمع کر کے کل تیس ہزار روپے لا کر دکاندار کو تھما دیے اور اسے جلد از جلد مشین ٹھک کروانے کا کہا دکاندار پیسے دیکھ کر خوش ہو گیا اور راشد سے چوبیس گھنٹوں میں مشین ٹھیک کروانے کا وعدہ کر لیا۔ اگلی صبح جب راشد کالج جانے لگا تودیکھا کھوکھا بند تھا راشد کو تسلی ہوئی کہ دکاندار مشین ٹھیک کروانے گیا ہوگا راشد چھٹی کے بعد سیدھا چوک کیطرف روانہ ہوا کہ مشین کا حال معلوم کرے مگر وہاں جا کر کیا دیکھتا ہے نہ کوئی کھوکھا ہے اور نہ کوئی کھوکے والا۔۔۔۔ کافی دیر پڑوسیوں سے پوچھنے اور تلاش کرنے کیبعد راشد کا شک یقین میں بدل گیا کہ کھوکھے والا اسکو چونا لگا کےنکل گیا ہے شدید مایوسی میں گھر لوٹتے ہوئے گزشتہ واقعات اور ساری کہانی اسکی سمجھ میں آنےلگی کہ جو نوٹ خرچ کرنے کیلئے دیے تھے وہ جعلی نہیں بالکہ بالکل اصلی نوٹ تھے اسی لیئے وہ بینک اور دیگر جگہوں پر چل گئے کھوکھے والے نے انتہائی چالاکی سے پہلے لالچ کے ذریعے اسکی عقل کو اندھا کیا پھر تیس ہزار کا دھوکہ دیکر نکل گیا ہے -
اسلیئے تو کہتے ہیں لالچ بری بلا ہے --
 
Top