ہم ہار کیوں مانیں

ام اویس

محفلین
فرعون جیسے متکبر خدائی کے دعویدار کے سامنے حق پر کھڑے ہونے والے موسٰی علیہ السلام کے ساتھ کون تھا صرف ان کا بھائی ہارون ۔ لیکن وہ حق بات کہنے کے لیے اس کی طاقت ، قوت ، تکبر اور خدائی کے دعوٰی سے نہیں ڈرے ۔ حق کے دعوے کے ساتھ اس کے مقابل جم گئے ۔
اسلام اور کفر کا مقابلہ ازل سے ہے اور تا ابد رہے گا ۔ نیکی ہمیشہ بدی کے مقابل جمی رہے گی اور بدی ہمیشہ نیکی کو ہرانے کی کوشش میں سرگرم رہے گی ۔ جس طرح نیکی اور ھدایت کے لیے محنت کی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ گمراہی اور بے راہ روی کو پھیلانے پر محنت ہوتی ہے ۔
سچ کی جیت کیسے ہوگی ، مخالف کیسے بات سنے گا اور مانے گا ، مخالفت میں کیا کیا کرے گا ، اس کے مقابل کون کون ساتھ دے گا اس سب سے بے نیاز ہوکر حق کے دعوے داروں نے اپنی آواز بلند کی ۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ الله کی مدد ان کے ساتھ ہے ۔
ہمارے سامنے اس حقیقت کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ محترم و مکرم نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم الله کا پیغام لوگوں کے سامنے تن تنہا پیش کرنے پر ذرا سا بھی نہیں گھبرائے کہ ان کے ساتھ الله پر یقین کی بے پناہ طاقت تھی ۔ پھر آپ کے اصحاب علیھم السلام ہر جابر و ظالم کے سامنے کلمہ حق کی تبلیغ کرتے رہے ۔ اپنی جانوں پر ظلم سہتے رہے ، اپنی کھالیں کھنچوا لیں ۔ لیکن سچ کی راہ پر نہ ڈگمگائے ۔ علمائے حق نے تکالیف سے ڈر کر حق سچ کا مؤقف کبھی نہیں بدلا ۔ موت کی آہٹ بھی ایل ایمان کے ارادوں میں معمولی سی لغزش پیدا نہیں کرپائی ۔
یہ قانون الہی ہے کہ جب بھی جہاں بھی کفر و شرک اور گمراہی نے اپنا تسلط جمایا اس کے مقابل حق ایک کرن کی طرح نمودار ہوا اور باطل کی سیاہ تاریک رات کو چیر کر ہر طرف اجالا بن کر پھیل گیا اور اپنا آپ منوا کر چھوڑا ۔
دنیا ازل سے تماشہ دیکھ رہی ہے کہ کتنے طاقتور ، سرکش اور گمراہ آئے اور اپنی طاقت کا غرور لے کر ذلیل و خوار ہوئے ۔ کیسے کیسے شاہسوار تہہ تیغ ہوئے ۔ کیا کوئی شخص اس بات سے بے خبر ہے کہ ہر فرعون کے لیے موسٰی کا انتظام الله جل جلالہ نے اس کے گھر میں موسی کی پرورش کی صورت کیا ۔
فرعون کے بد ترین انجام کے بارے میں سب جانتے ہیں ۔ نمرود جیسے خدائی کے دعویدار کی بے بس موت سب پر آشکار ہے ۔ کون قارون کے خزانوں کے اسی کے ساتھ زمین میں دھنس جانے سے آگاہ نہیں ؟
غرور و تکبر کرنے والوں کو اسی دنیا میں الله جل جلالہ ایسا اوندھا کرتا ہے کہ خلقت ان کا تماشہ دیکھتی ہے ۔
اور جب الله کی مدد آتی ہے اس کی رحمت جوش میں آتی ہے تو ابراھیم کے لیے آتشِ نمرود گل وگلزار ہوجاتی ہے ۔ تین سو تیرہ بظاہر کمزور اور بے سروسامان جب باطل کے مقابل ڈٹ جاتے ہیں تو باطل تہہ تیغ ہوجاتا ہے ۔ اور الله سبحانہ و تعالی فرشتوں سے ان کی مدد فرماتا ہے ۔
یہ قصے کہانیاں نہیں ہیں یہ اس دنیا کی حقیقتیں ہیں ۔ ہر بات واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ باطل جس قدر بھی طاقت پکڑ لے اس کی حقیقت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں جس کے مٹنے کے لیے صرف چند لمحے درکار ہوتے ہیں ۔ اور باطل اس حقیقت سے خوب آگاہ ہے
اس سب کے باوجود باطل ہار نہیں مانتا ، اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا اور ہر بار نئی طاقت ، نئے حیلوں اور نئے مکروفریب کی صورتیں لے کر جلوہ گر ہوتا ہے ۔
تو پھر حق کیوں ہار مانے کیوں شکست تسلیم کرے اور کیوں باطل کے سامنے جھکے ؟
اگر ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ہم سچ پر ہیں تو ہمیں اس یقین کو مستحکم کرنا چاہیے ۔ بظاہر جھوٹ کی فتح ہی کیوں نظر نہ آرہی ہو اپنے موقف سے رائی برابر پیچھے نہ ہٹنا چاہیے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے سچ ہمیشہ سچ رہے گا ۔ اور ساری دنیا جھوٹ پر جم جائے اس کی حقیقت بدل نہیں جائے گی ۔
عدالتیں کسی چور کو بری کر دیں ۔ یا طاقتور اور بے ایمان ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جائیں ۔ مفاد پرست اپنے عہدوں اور دنیا کے لالچ میں بے ایمانوں کو سلام پیش کرتے رہیں ۔ اس سے برائی اچھائی میں نہیں بدل جائے گی ۔ نہ باطل حق کی صورت اختیار کرلے گا ۔ باطل کا فریب چاک ہوکر رہے گا ۔
دنیا کے مقدمے طاقت کے بل پر جیت لینے والے الله کی عدالت سے بری نہیں ہوسکتے ۔ ہر ایک کو الله کے سامنے کھڑا ہونا ہے ۔ وہاں جیت اسی کی ہوگی جو حق پر ہوگا ۔
ہمارا کام حق بات بتانا ہے ۔ کون اس کو سنے گا ، کون عمل کرے گا اور کون اس سے منہ موڑے گا ہمیں اس سے غرض نہیں ۔ ہمیشہ سے یہی انبیاء کرام کا طریقہ رہا اور یہی نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم راستہ ۔ اسی کا حکم الله سبحانہ وتعالی نے انبیاء کو دیا اور اسی کی تلقین و نصیحت امت محمدی کو کی ۔
ھدایت دینا ، حق کی سمجھ دینا اوراس پر عمل کی توفیق دینا الله کا کام ہے ۔ ہمیں الله سبحانہ وتعالی نے ایمان لانے اپنے اعمال کی اصلاح کرنے اور آپس میں حق بات کی نصیحت کرنے ، اس کی راہ میں پیش آنے والی تکالیف پر صبر اور استقامت کا حکم دیا ہے ۔ اور یہی دنیا و آخرت میں کامیابی کا معیار مقرر کیا ہے
انسان کا ایمان اس وقت کمزور ہوتا ہے جب الله جل جلالہ کی ذات پر اس کا یقین کمزور ہوتا ہے ۔ جب اسے یقین نہ ہوکہ حالات بدل سکتے ہیں ۔ وہ اعمال صالح سے جی چرانے لگتا ہے ۔ اور برائی کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے ساتھ سمجھوتا کر لیتا ہے ۔ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ۔
درحقیقت کسی معاملے میں خاموشی اختیار کرنا برائی کی تائید کرنا ہے ۔ اور برائی کو پھیلتے دیکھنا اس پر تکلیف محسوس نہ کرنا ، اس کے خلاف عملا یا تحریر و تقریر سے احتجاج نہ کرنا اس کی حمایت کرنے جیسا ہے ۔ پھر اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرنے اور برائی کے خلاف مزاحمت پر استقامت اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔ اور یہی انسان کا سب سے بڑا خسارہ ہے ۔
اس لیے جس قدر بھی جس شخص کا اختیار ہے اسے برائی کو برائی سمجھنا اور اس کی مخالفت پر ڈٹے رہنا چاہیے ۔ اپنے ایمان و عقیدے کی اصلا ح کے ساتھ اعمال صا لح لازم ہیں ۔ اور اعمال صالح کے ساتھ حق کی تلقین لازم ہے ۔ اگر عمل سے ممکن ہو تو عمل سے ورنہ تحریر و تلقین سے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم دل سے ضرور برا جانے ۔ حالانکہ یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔ اور اس راہ میں پیش آنے والی تکلیفوں خواہ وہ ذاتی ہوں یا اجتماعی پر صبر اور استقامت لازم ہے ۔
ہر شخص مرد ہو یا عورت جس حد تک اختیار رکھتا ہے اس قدر ہی وہ الله سبحانہ وتعالی کے ہاں جواب دہ ہے ۔ اور کوئی اس جوابدہی سے کسی بھی بہانے بچ نہ پائے گا ۔ جس کی بات جہاں جہاں سنی جاتی ہے وہاں اسے حق بات کی تلقین کرتے رہنا چاہیے ۔ اور یہ تلقین ان شاء الله اس کی خطاؤں کی معافی کا سبب بنے گی اور اسے صراط مستقیم کی ھدایت کی طرف گامزن کرے گی اور الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کے لیے خالص کرے گی ۔ وما علینا الا البلاغ
 
آخری تدوین:

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے آپ اس پوسٹ کو اسلامی تعلیمات کے زمرے میں منتقل کر دیا ہے، آئندہ پلیز درست زمرے کا خیال رکھیں۔
 
Top