جگر ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں - غزل جگرمُرادآبادی

طارق شاہ

محفلین
غزل
جگرمُرادآبادی
ہم کو مِٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
یا رب! ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں
زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانہ میں، مگر
کیا کم یہ ہے، کہ شکوہٴ دیروحرم نہیں
مرگِ جگر پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
جگرمُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
نہم جماعت میں یہ غزل پڑھی تھی۔
کیا خوب غزل ہے۔
شکریہ سر اتنی خوبصورت غزل پھر سے یاد دلانے کے لئے۔
مکرمی بلال صاحب
داد اور اظہار خیال کے لئے شکریہ
جگر صاحب پرانے اسکول ہی کے تھے، بعدازاں کچھ جدّتیں بھی نظر آئیں جو مشاعرہ کو مدنظر رکھ کر کی گئیں شا ید
اللہ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے بہت ہی خوب شاعر تھے ، جو شاعری سے زندہ رہے
تشکّر
 

کاشفی

محفلین
لاجواب غزل شیئر کرنے کے لیئے بیحد شکریہ جناب طارق صاحب!۔
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
 

طارق شاہ

محفلین
لاجواب غزل شیئر کرنے کے لیئے بیحد شکریہ جناب طارق صاحب!۔
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
مکرمی جناب کاشف صاحب!
باعثِ صد افتخار ہوا شیئر کرنا، جو انتخاب آپ اور دیگر احباب کو پسند آیا
بہت ممنون ہوں آپ کے اس اظہارِ خیال اور انتخاب پر داد کا !
تشکّر
ہمیشہ شاداں رہیں
 
جگر کی مشہورزمانہ غزل ہے .اس کا ایک شعر اس غزل میں نہیں ہے شائد۔۔۔۔۔۔
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتا
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں۔
یہی شعر ہماری اس غزل سے وابستگی کی وجہ ہے
عمدہ انتخاب شاہ صاحب .بہت سی داد
 

طارق شاہ

محفلین
غزل
جگرمُرادآبادی
ہم کو مِٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
یا رب! ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاََ
تیرا سِتم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں، کوئی نقشِ قدم نہیں
زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانہ میں، مگر
کیا کم یہ ہے، کہ شکوہٴ دیروحرم نہیں
مرگِ جگر پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
جگرمُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
جگر کی مشہورزمانہ غزل ہے .اس کا ایک شعر اس غزل میں نہیں ہے شائد۔۔۔ ۔۔۔
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتا
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں۔
یہی شعر ہماری اس غزل سے وابستگی کی وجہ ہے
عمدہ انتخاب شاہ صاحب .بہت سی داد

گیلانی صاحبہ!
بہت ممنون ہوں اظہارِ خیال اور توجہ دلانے کے لئے
غزل! پوری پوسٹ کردی ہے ، اُس وقت جتنا یاد تھا لکھ دیا تھا، اب کلّیات کی مدد سے لکھ دی ہے
تشکّر
بہت خوش رہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم کو مِٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں

بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں

یا رب! ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاََ
تیرا سِتم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقشِ قدم نہیں

ملتا ہے کیوں مزا ستمِ روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریکِ ستم نہیں

زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانے میں، مگر
کیا کم یہ ہے، کہ فتنۂ دیروحرم نہیں

مرگِ جگرؔ پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز!
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں!

(جگرؔ مراد آبادی)​
 
Top