ہماری داستاں ، لکھتے ہوئے گزر جائے --------- ایک غزل نقد و نظر کیلیے

مغزل

محفلین
غزل

ہماری داستاں ، لکھتے ہوئے گزر جائے
زمیں پہ آسماں لکھتے ہوئے گزر جائے

عجیب بھید ہے کھلتا نہیں‌کسی صورت
کبھی تو رازداں ، لکھتے ہوئے گزر جائے

اس ایک لفظ کی مدّ ت سے ہے تلاش مجھے
جو مجھ کو رائیگاں ، لکھتے ہوئے گزر جائے

تلاش ہو کسی عنوان کی مگر کوئی
میانِ داستاں ، لکھتے ہوئے گزر جائے

بھنور قریب ہو اور اس پہ کشتیوں کا ملال
ہوا پہ بادباں ، لکھتے ہوئے گزر جائے

میں سنگِ راہ سے اٹھتا نہیں کہ تیرا وصال
اسی کو آستاں ، لکھتے ہوئے گزر جائے

حصار کھینچ کر بیٹھا ہوں ایک مدّت سے
رموزِ کہکشاں لکھتے ہوئے گزر جائے

وہ ایک حرف جو اب تک نہیں لکھا محمود
کہ لوحِ ’’ بوستاں ‘‘ لکھتے ہوئے گزر جائے


وارث بھائی ، فاتح صاحب، الف عین صاحب اور دیگر احباب کا شکریہ کہ اصلاحِ سخن کی لڑی میں کرم فرمایا۔
میں اب یہاں آپ سب احباب کو زحمت دینے لگا ہوں کہ غزل کے مفاہیم پر یا مجموعی تاثر بھی بیان کیجیے ۔
والسلام​
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھا کہا ہے آپ نے مغل صاحب، غزل یا کلام اس وجہ سے نہیں لکھا کہ مطلع اور ہر شعر کا دوسرا مصرع بے بحر و بے وزن ہے سو شاعری نہیں :)
 

مغزل

محفلین
اچھا کہا ہے آپ نے مغل صاحب، غزل یا کلام اس وجہ سے نہیں لکھا کہ مطلع اور ہر شعر کا دوسرا مصرع بے بحر و بے وزن ہے سو شاعری نہیں :)

بہت شکریہ وارث صاحب ، جہاں تک مجھے علم ہے کہ ’’ نثری ‘‘ نظم میں بھی شاعری ہوتی ہے ۔ لہذا اس کا اطلاق یوں نہیں کیا جاسکتا۔بے بحر اور بے وز ن ہونے والی بات میں وزن ہے ۔ مگر میری رائے محفوظ ہے ۔ ضروری نہیں کہ میں اختلاف نہ رکھوں۔ تجربے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں ۔ میں نے بھی ایک تجربہ کیا ہے ۔ جس کا آئندہ کلام ( کہا گیا) سے پیشتر اس لڑٰ ی میں اظہار کروں گا۔میں آپ سے التماس گزار ہوں کہ ’’ شاعری‘‘ کی تعریف مجھے بھی بتائیے ۔ مجھے جو مقدور بھرعلم ہے اس میں وزن و بحر پر شاعری کا ہونا یا نہ ہونا معمول نہیں۔ میں نے شاعری کی کتابی تعریف بھی پڑھی ہے اور مجلسی تعریف بھی ۔ پھر یہ کہ جو تجربہ میں نے کیا ہے اس پر مجھے بیشتر دوستوں کی موافق رائے حاصل ہے ۔ امید ہے آپ کرم فرمائیں گے ، غزل پر آپ کی رائے مجھے موصول ہوگئی ہے ہاں شاعری کی تعریف جاننا چاہوں گا ۔ کوشش کروں گا کہ میرے ذہن میں جو تعریف خوابیدہ ہے اسے جھنجوڑ کر جگا ؤں اور یہاں پیش کرنے کی جراءت کروں۔
آپ کے تفصیلی مراسلے کا منتظر
م۔م۔مغل
 

محمد وارث

لائبریرین
مغل صاحب ایک بات طے ہے کہ بے بحر و بے وزن کلام شاعری میں شمار نہیں ہوتا، اس کو رنگ کوئی بھی پہنایا جائے۔ اور نہ ہی نثری نظم کو شاعری مانا جاتا ہے!

شاعری کی تعریفیں آپ پڑھ چکے تو ان کو دہرانا لا یعنی اور بے حاصل ہے۔

تجربہ اور چیز ہے اور مبادیات اور اصولوں کو صریحاً بدل دینا چیزے دیگری ہے، آسماں، بوستاں وغیرہ، انکے الف گرانے کا کوئی ایک شعر، شاعری کی چودہ سو سالہ تاریخ میں سے، ہاں لیکن شعر 'شاعر' کا ہو!
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب ایک بات طے ہے کہ بے بحر و بے وزن کلام شاعری میں شمار نہیں ہوتا، اس کو رنگ کوئی بھی پہنایا جائے۔ اور نہ ہی نثری نظم کو شاعری مانا جاتا ہے!
محترم وارث صاحب ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
ہمارے اسلاف (قدماء و متوسطین ) کے تحت ا سے شاعری نہ مانا جا تا ہو تو کیا ہوسکتا ہے، لیکن ( متاخرین میں )جدیدیوں نے اسے باقائدہ ایک صنف منوا رکھا ہے۔ ہمارے نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس صنف پر بڑی دلجمعی سے کام ہورہا ہے۔۔ خیر یہ میرا موضوع نہیں ہے ۔۔ آپ خیال مت کیجے گا کہ پہلی بار تو بات ہونے جارہی ہے ۔ وگرنہ محض ’’ واہ ‘‘ ، بہت خوب، لاجواب سے ہم کبھی آگے نکلےہی نہیں ہیں۔ اب چونکہ بات چل نکلی ہے تو اس کے لیے میری کوئی بھی بات ناگوار گزری ہو اور گزرے تو بھی میں دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں ، میری تکرار بھی یقیناً اچھی نہ ہوگی ، امید ہے دیگر احباب بھی رائے دیں اور بحث میں شامل ہوں۔ کہ وہاں تو دو ایک احباب کی رائے کے بعد ہو کا عالم ہے ۔
 

مغزل

محفلین
شاعری کی تعریفیں آپ پڑھ چکے تو ان کو دہرانا لا یعنی اور بے حاصل ہے۔

میرے خیال میں دہر ا دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ممکن ہے بہت سے احباب بشمول میرے ، ذہنوں میں دھندلا بھی سکتا ہے ، دیگر یہ کہ اچھی بات ( علمی بات) کا دوبارہ اعادہ کسی صورت عیب نہیں۔ فقط واللہ و اعلم بالصواب
 

مغزل

محفلین
تجربہ اور چیز ہے اور مبادیات اور اصولوں کو صریحاً بدل دینا چیزے دیگری ہے، آسماں، بوستاں وغیرہ، انکے الف گرانے کا کوئی ایک شعر، شاعری کی چودہ سو سالہ تاریخ میں سے، ہاں لیکن شعر 'شاعر' کا ہو!

یقنیناً ایسا ہی ہے ۔ تو کیا میں مروجہ بحور سے تجاوز کرتے ہوئے نئی بحر کی طرف نہیں جاسکتا ، بحور اور اوزان کا معاملہ بھی انسانی دریافت ہی ہے ۔ اور کوئی قدغن نہیں کہ کوئی تجربہ نہ کرسکے ، رہی بات الف کے گرانے کی تو میں نے عرض کیا تھا کہ اس لڑی کے اختتام پر میں تفصیلی عرض کروں گا کہ میں نے الف گرائی ہے یا نہیں۔ امید ہے آپ اسی طرح شفقت فرماتے رہیں گے جیسے گزشتہ سال بھر میں ۔۔ مجھے آپ کا تعاون حاصل رہا ۔
والسلام
 

محمد نعمان

محفلین
محمود بھائی یہ سلسلہ تو مجھے بہت بھایا مگر اس میں زیادہ رائے کیا پیش کریں گے کہ ہم جیسے کم علم صرف اس
بحث کو ہی اتنی مشکل سے سمجھ پاتے ہیں تو رائے کیا دیں گے۔۔۔۔
لیکن جہاں تک میری ذاتی رائے ہے کاوش اچھی ہے مگر اس کے لیے صاحبان فن کی رائے ، مشورہ اور سب سے بڑھ کر ان کا ساتھ بہت ضروری ہے۔
 

مغزل

محفلین
محمود بھائی یہ سلسلہ تو مجھے بہت بھایا مگر اس میں زیادہ رائے کیا پیش کریں گے کہ ہم جیسے کم علم صرف اس
بحث کو ہی اتنی مشکل سے سمجھ پاتے ہیں تو رائے کیا دیں گے۔۔۔۔
لیکن جہاں تک میری ذاتی رائے ہے کاوش اچھی ہے مگر اس کے لیے صاحبان فن کی رائے ، مشورہ اور سب سے بڑھ کر ان کا ساتھ بہت ضروری ہے۔


پیارے بھیا
بالکل آسان سا حل ہے کہ آپ سوال کیجیے ۔
صاحبانِ فن درجہ بہ درجہ معاملات بیان کرتے رہیں‌گے ۔
والسلام
 

محمد نعمان

محفلین
لیکن محمود بھیا مجھے تو بحروں کے بارے میں زیادہ علم ہی نہیں
پہلے تک بندی کیا کرتا تھا
اب اس سے بھی گیا کہ اب نچری شاعری ہمیں تسکین نہیں بخشتی
چہ جائیکہ اسقدر علمی بحث میں کوئی سوال داغوں
مقدور بھر کوشش ہے
آپکا یہ سلسلہ بہت ہی اچھا لگا
آپ کے ساتھ ہیں کہ ہمیں یہاں بہت کچھ مل رہا ہے
 

مغزل

محفلین
آپ کی محبت ہے جو ایسا سوچتے ہیں ، میں تو وہ دریوزہ گر ہوں ، جو عرصے سے اس تلاش میں تھا کہ کسی دروازے پر بھیڑ دیکھوں تو کاسہ بڑھاؤں۔
ایک سال بعد کہیں جاکے یہ نوبت بجی ہے ۔۔ مگر وارث صاحب کے علاوہ باقی سخی داتا دروازے سے لوٹانے پر مصر ہیں۔خیر تیل دیکھیے تیل کی دھار دیکھیے ۔
شاید ہمارے ہنڈولے کے علاوہ کسی اور کا برتن فیض پا جائے ۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
اب اس سے بھی گیا کہ اب نچری شاعری ہمیں تسکین نہیں بخشتی

آپ بھی کوشش کیجیے اور نیا مصرع لکھنے کی کوشش کیجیے ۔ تجربات چلتے رہتے ہیں کامیاب ہونا یا ناکام ہونا عزم میں کمی
لانے سے رہا ۔۔۔ دل جمعی سے کام کیجیے ۔ قدما ء کے علاوہ جدید شعرا کو پڑھیے ۔ مثلا ، آنس معین ، ثروت حسین، شکیب جلالی،
قمر جمیل ( جنہوں نے نثری نظم پر خوب کام کیا، ضروری نہیں کہ راہ بھی اختیار کریں) ۔۔ سلیم احمد، شاہین عباس کے علاوہ
ن م راشد ( نظر محمد ) کو بھی پڑھیے ۔۔ اپنا راستہ الگ کھوجنے کی کوشش کیجیے ۔ راہ میں موافق ، ناموافق حالات آتے ہی رہتے ہیں۔

والسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
مغل صاحب آپ کی یہ غزل میری ناقص عقل میں نہیں سما سکی۔ اس لیے پسند نا پسند کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ کچھ سمجھا سکیں تو ممنون ہوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ کیا ہوا۔۔۔ اس گزل کے بارے میں تو میں بھی اس امر کا اظہار کر چکا ہوں کہ قافیے غلط ہیں۔ ابھی ایک اور غلطی نظر آئی۔ حصار کھینچ کر بیٹھا ہوں ایک مدّت سے
رموزِ کہکشاں لکھتے ہوئے گزر جائے
اس میں قافیہ کی غلطی کے علاوہ ’دیکھ کر‘ کی ’ر‘ بھی گر رہی ہی۔ اسے ’دیکھ کے‘ کر دیں۔
 

فاتح

لائبریرین
محمود صاحب، آپ کے کلام پر کسی حد تک بحث تو آپ سے روبرو ہو چکی لیکن شاعری کے حوالے سے میں بھی اسی گروہ میں شامل ہوں‌جو نثری نظم کو شاعری نہیں‌مانتے۔
میں بھی جاننا چاہوں گا شاعری کی وہ تعریف جو نثر اور شعر میں‌فرق بھی واضح کر سکے۔
نیز یہ بھی جاننا چاہوں‌گا کہ کیا امر مانع ہے کہ میں‌اپنے اس مراسلے کو نثری نظم نہ کہہ سکوں؟
اگر آپ کوئی نئی بحر ایجاد بھی کرنا چاہیں‌تو یقینآ اردو ادب کی گراں‌مایہ خدمت ہو گی لیکن کم از کم اس غزل کے حوالے سے اگر آپ یہ کہنا چاہیں‌کہ مطلع اور ہر شعر کا مصرع ثانی اس نئی ایجاد کردہ بحر میں‌ہے تو تمام پہلے مصرعوں میں‌ایک ایک رکن بر وزن "فع"کا اضافہ کر لیجیے۔
اور جہاں تلک مفاہیم کے اعتبار سے ذکر ہے تو میں‌نے اس رات آپ سے ملاقات کے دوران بھی ذکر کیا تھا کہ اس غزل کے معانی و مفاہیم مجھ پر واضح نہیں ہو پائے جو یقینآ میرے مطالعہ اور فہم و ادراک کی کمی پر دلیل ہے۔
یہاں ایک اعتراف کرنا چاہوں گا کہ میں داستاں، کہکشاں، آسماں وغیرہ کے الف گرنے پر میں نے آپ سے ملاقات کے دوران اپنی رائے کا اظہار کیا تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ جب نہیں، یہاں، وہاں وغیرہ میں حرف علت اور نون غنہ ایک ساتھ گرائے جانے کی ہزاروں‌امثال قدما کے اشعار میں‌بھی پائی جاتی ہیں‌تو آپ نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں‌یہ کلیہ کیوں عاید نہ کیا جائے لہٰذا یہ درست ہے لیکن خوش قسمتی سے اسی دوران وارث صاحب سے فون پر بار ہو گئی اور انہوں‌نے میرے خیال کی نفی کر کے عروض کے حوالے سے میری اصلاح کرتے ہوئے یہ نکتہ بتایا کہ ہندی الفاظ کا حرف علت گرایا جا سکتا ہے مگر فارسی اور عربی ماخذ کے الفاظ کا نہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
گفتگو تو بہت اچھی چل رہی ہے اور ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو مل بھی رہا ہے لیکن م م مغل صاحب آپ سے ایک سوال ہے
کیا آپ نثر کو شاعری کہتےہیں اگر نثر کو شاعری کہتےہیں میرا مطلب نثری نظم کو شاعری کہتے ہیں اگر ہاں تو کیا پھر آپ شاعری کو نثر بھی کہتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
نثری نظم کے حوالے سے مجھے اختر عثمان صاحب اور منشا یاد صاحب کی گفتگو یاد آ گی
ہم حلقہِ اربابِ ذوق اسلام آباد میں بیٹھے تھے تنقیدی نشیست ختم ہونے کے بعد میں اختر عثمان صاحب سے ملنے کے لیے گیا تو وہ منشا صاحب کے ساتھ نثری نظم پر گفتگو کر رہے تھے منشا صاحب فرما رہے تھے یار اختر میں نے بھی ایک نثری نظم لکھی ہے اس پر اختر صاحب حیران ہو کر منشا صاحب آپ نے تو کہنے لگے ہاں ابی سناتا ہوں پھر ہو کھانسنے لگے
اکھو ، اکھو
اکھو ، کھو ، کھو
اکھو، اکھو ،اکھووو
اکھ تھو۔

پھر بولے یہ ہے نثری نظم
 

مغزل

محفلین
خرم بھیا ،
اول تو میرا موضوع یہ نہیں بہر حال آپ نے سوال کیا ہے تو میں ظفر اقبال کا ایک مراسلہ ارسال کیے دیتا ہوں۔ ویسے مطالعہ بڑھائیے ۔ اور سب کچھ پڑھ ڈالیے ۔ علم العروض کی میں ابجد سے بھی واقف نہیں اور نہ رموزِ‌شاعری سے نہ مجھے نثری نظم لکھنی ہے اور نہ ہی کسی کو اس طرف راغب کرنا ہے ۔ علمی بحث کو اگر لطائف سے ہی تعبیر کرنا ہے تو میں آپ کو منع نہیں‌کروں گا۔ منشا یاد کا لطیفہ یہاں پیش تو کیا ہے آپ نے ، کیا آپ جانتے ہیں کہ منشا یاد ہی نے نثری نظمیں بھی لکھی ہیں ۔ اگر نہیں‌معلوم تو معلوم کیجیے ، اگر معلوم ہے تو بروئے کا ر لائیں۔ بہر حال یہ مراسلہ پڑھیے ۔

نثری نظم ۔۔۔مستقبل کی شاعری
ظفر اقبال

ایسا لگتا ہے کہ شاعری اور نثر ایک دوسرے کے زیادہ قریب آتے جا رہے ہیں- بلکہ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا باہمی امتیاز کچھ مصنوعی بھی ہے کیونکہ ہر عمدہ نثر میں شاعری موجود ہوتی ہے، اور اسی طرح ہر اعلیٰ شاعری میں نثر کا وجود ثابت کیا جاسکتا ہے- شاعری میں یہ قلب ماہیت نثر کی نسبت زیادہ ہے اوراس کا رویہ ان مغربی خواتین جیسا ہے جن کے لباس کو مردانہ لباس سے کچھ زیادہ الگ نہیں کیا جاسکتا- اکثر اوقات بالوں کی تراش خراش بھی اصناف کے لیے فاصلے مٹاتی نظر آتی ہے-

اول درجے کی شاعری ملاوٹ کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی- آپ نے کسی چیز میں کیا ملانا ہے،یہ آپ کی اپنی صوابدید اور توفیق پر منحصر ہے مثلاً شاعری میں نثر اور نثر میں شاعری کی آمیزش سے ایک نئی چیز خلق کی جا سکتی ہے اور مختلف جگہوں پر مختلف لوگوں کے ہاں یہ کام بھی ہو رہا ہے - یک رنگی کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنا شاعری اور قاری دونوں ہی کا مسئلہ ہے، چنانچہ دونوں کے ہاں یہ اتھل پتھل جاری رہتی ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ایک کا دوسرے کے بغیر تصورہی نہیں کیا جا سکتا-

کئی ثقہ حضرات شاعر ہونے کے باوجود نثری نظم کو تسلیم نہیں کرتے شاید اس لیے کہ وہ خود نثری نظم نہیں لکھتے حالانکہ وہ مصور نہ ہونے کے باوجود مصوری کو بہت اچھی طرح تسلیم کرتے ہیں- ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ نفسیاتی ہو، مثلاً یہ کہ نثری نظم ان بزرگوں کے مسلک کے مطابق نہ ہو، اور جدید ترین طرز سخن ہونے کی بنیاد پر نثری نظم ان کی اپنی شاعری کو بجائے خود ایک چیلنج پیش کرتی ہو اور یہ کہ آزاد یا پابند نظم کے مقابلے میں ہر لحاظ سے پسماندہ نظر آتی ہو، حالانکہ آج اگر آزاد نظم کو تسلیم کیا جا چکا ہے تو اس کے آغاز پر خود پابند نظم اس کے مقابلے میں پسماندہ قرار نہ بھی پائی ہو، پسماندہ لگتی ضرور تھی- چنانچہ اگر ارتقاءکا اصول مسلم ہے تو اس مجسم ارتقاءیعنی نثری نظم کی طرف سے فی الحال اگر آنکھیں بند بھی کر لیں جائیں تواس کی صحت پر کیا اکثر پڑسکتا ہے-

ایک موقع پر میں نے نثری نظم کو مستقبل کی شاعری کہا ہے- اگرچہ یہ بات اپنے طور پر خاصی حد تک عجیب وغریب اور ناقبل فہم ہے کہ میرے جیسے (ایک خالص) غزل گوسے نثری نظموں کے مجموعے کا دیباچہ تحریر کرنے کی فرمائش کی جائے- یہ میرے یا غزل کے خلاف سازش بھی ہو سکتی ہے جس کے بارے میں مجھے واقعتا فکر مند ہونے کی ضرورت ہے- تاہم، مستقبل کی شاعری کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ اسے مستقبل ہی کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ شاعری تو اپنے عہد کے لیے کی جاتی ہے، البتہ نئے شاعر کو دیکھنا آگے کی طرف چاہیے جبکہ ماضی کا اسیر کوئی بھی شاعر ، اور ماضی چاہے کتنا بھی شاندار کیوں نہ ہو، آگے کی طرف دیکھنے کی زیادہ استطاعت نہیں رکھتا- میں جب یہ عرض کرتا ہو ں کہ شاعری کو اپ ٹو ڈیٹ ہوناچاہیے تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ شاعری انتہائی تیز رفتاری سے تبدیل ہوتے ہوئے اپنے عصر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مستقبل میں داخل ہوتی نظر آئے- مجھے یہ کہنے دیجیے کہ نثری نظم کے علاوہ تمام تر شاعری کم وبیش اپنے جملہ امکانات کو بروئے کار لا چکی ہے، ورنہ نثری نظم اس طرح درّانہ شاعری کی محفل میں آ داخل نہ ہوتی- غزل اور نظم ہر دو اصناف سخن میں تجربات ہوتے رہتے ہیں جن سے اگر ان اصناف سخن کی شکل تبدیل نہیں بھی ہوتی، تو ان کا ماحول ضرور بدل جاتا ہے اور پہلے جیسا نہیں رہتا- پابند شاعری، نظم یا غزل، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، اپنے ساتھ کئی پابندیاں بھی لاتی ہے- ان پابندیوں کی اپنی خوبصورتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور شاعر انہیں چیلنج کے طور پر تبدیل بھی کرتا ہے، جبکہ قاری کے لیے، جس کی اکثریت روایت کے ایک خاص اورپر لطف ذائقے کی عادی ہو چکی ہے اس کی موسیقی، نغمگی اور قافیہ ردیف (اگر غز ل کامعاملہ ہو) کی خوش آہنگی تسکین ذوق کا پورا پورا سامان فراہم رکھتی ہے، اور بظاہر کسی تجربے یا انحراف کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی-

مستقبل کا شاعر اپنے قارئین (وہ کم ہوں یا زیادہ) کو ساتھ لے کر چلتا ہے، گویا اس کی ذمہ داری دہری ہے، نئی شاعری کی تخلیق سے عہدہ برآں ہونا اور ساتھ ساتھ قاری کو اس کے ذائقے سے نہ صرف آشنا کرانابلکہ اس کا اسیر کرنا بھی، کیونکہ اس سطح کا شاعر اور قاری، دونوں کی فکری اور وجدانی سطح ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی،بلکہ ایک اہل قاری ایسی شاعری کو پڑھتے ہوئے کئی سطحوں پر اسے (دوبارہ) تخلیق بھی کرتا چلا جاتا ہے- چناچہ جہاں شاعری کبھی بھی دو جمع دو ، چار نہیں رہی، اسی طرح نئی شاعری بھی حسابی معیارات پر پورا نہیں اترتی- یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہو جاتی ہے کہ فنون لطیفہ اپنے مزاج میں وسعت پذیری اور کھلے پن کا تلازمہ رکھتے ہیں اور، جہاں کھلا پن پیش نظرہو وہاں پابندیاں اور لاحقے کم سے کم ہوتے اور پھیلاﺅ کے ساتھ ساتھ ہمہ گیری اپنی گنجائش خود ہی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں جسے روکنا کسی کے بھی اختیار میں نہیں ہوتا- چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ جوں جوں شاعری کا معیار بلند ہوتا ہے، اس کے قارئین کی تعداد بھی اسی نسبت سے کم ہوتی جاتی ہے، اس لیے زیادہ تر شعراءکرام کوئی بھی خطرہ مول لینے اور اس سانچے سے باہر نکلنے کی کوشش بلکہ جرات ہی نہیں کر سکتے جو انہو ں نے اپنے لیے روز اول سے طے کر رکھا ہے، اور نہ ہی وہ اپنے طے شدہ قاری کو پریشان یا حیران کرنا چاہتے ہیں کیونکہ شاعر اور قاری دونوں کی صورت حال کم وبیش ایک ہی جیسی ہو چکی ہوتی ہے اور دونوں کے نزدیک شاعری کا مقصد اور مصرف ایک طرح کی یکسانی کا بھی حامل ہوتا ہے، چنانچہ وہ انحرافی یا اختلافی شاعری کو اختیار کرنا تو دور کی بات ہے اسے تسلیم کرنے کا بھی تردد روا نہیں رکھتے کہ اس سے ان کا اپنا شعری موقوف کمزور ہوتا ہے-

نقاد مظفر علی سید نے پچھلے دنوں ایک انٹرویو کے دوران شاعری میں تہہ داری کی کمی کی شکایت کی تو میں نے عرض کیا تھا کہ پہلی بات تویہ ہے کہ اب شاعری میں تہہ داری کا تصور اگلا سا نہیں رہا اور، خاصی حد تک تبدیلی ہو چکا ہے، معاشرے کی شعری ضروریات میں قدرتی طور پر ایک تبدیلی آئی ہے اور اب شاعر سے اس قسم کی تہہ داری کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جو ایک مخصوص ادبی معاشرے سے خاص تھا اور ضائع و بدائع کے حوالے سے تہہ داری کے تقاضے پورے کیے جاتے تھے- اب رمز و کنایہ کے آداب سہیلی بوجھ پہیلی اور ایک ادبی چیستان کی قسم کے نہیں رہے، بلکہ شعر گوئی کے اسلوب میں ایک ایسی تبدیلی آئی ہے کہ سادگی اور گہرائی ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں اور شاعری نے بہت سے ملبوسات فیشن باہر ہونے کی وجہ سے اتار پھینکے ہیں ،یا تبدیل کر لیے ہیں، اس کے باوجود کوئی بھی شاعری، وہ قدیم ہو یا جدید، بے تہہ اور سپاٹ نہیں ہو سکتی، ورنہ وہ شاعری نہیں ہے- البتہ جدید شاعری کی تہہ داری ذرا مختلف قسم کی ہے اور اپنے عہد کے تقاضوں اور اپنے قارئین کی تربیت اور ضروریات کے عین مطابق ہے-

طاہر اسلم گورا نثر سے شاعری کی طرف آئے ہیں، بلکہ میرا ایک شبہ یہ بھی ہے کہ وہ سب سے پہلے شاعری سے نثر کی طرف گئے تھے، اور اب دوبارہ شاعری کی طرف رجوع کیا ہے، اس سے بھی میرے اس خیال کو تائید ملتی ہے کہ شاعری اور نثر کے ڈانڈے آپس میں کہیں نہ کہیں ملتے ضرور ہیں جس سے شاعری میں نثر اور نثرمیں شاعری کا معجزہ بھی رونما ہوتا ہے- تاہم پہلے میرا خیال تھا کہ نثری نظم میں زور بیان کے بغیر دال نہیں گل سکتی،یعنی وہ زور بیان جونسرین انجم بھٹی (پنجابی)، کشور ناہید اور اصغر ندیم سید کی نظموں میں بھی دستیاب ہے، لیکن اب یہ نظمیں دیکھ کر یہ خوش گوار حیرت ارزانی ہوتی ہے کہ نثری نظم اس قدر سہولت کے ساتھ بھی تخلیق کی جاسکتی ہے جبکہ غزل کے مقابلے میں نظم میں سہل ممتنع سے تعبیر کیا جا سکتا ہے-

چنانچہ یہ بات بجائے خود حیرت انگیز ہے کہ نثری نظم میں آپ جذبے کی شدت اور وفور کے بغیر بھی سارمان رسانی کر سکتے ہیں- اس کی وجہ جہاں تک میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کچھ جذبے کے خلوص اور مشاہدے کی صداقت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جبکہ بعض شعراءکرام کا جذبہ اور تجربہ تک اصلی نہیں ہوتا او رکم وبیش اکتسابی مواد پر ہی وہ روایتی شاعری کی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں- تاہم روایتی اور اچھی شاعری کے پرسکون تالاب میں کنکریاں پھینکنے والے بھی ہر عہد میں موجود ہوتے ہیں، اور ایسی ہی بے چین روحوں میں سے ایک طاہر اسلم گورا بھی ہے جس نے شاعری کا آغاز ہی نثری نظم سے کیا ہے حالانکہ اکثر دوسرے شعراءنے اسے کہیں بعد میں جاکر اپنایا، جب غیر نثری شاعری نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا-

طاہر اسلم گورا کے مستقبل کا شاعر ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ شاعری اس نے وہاں سے شروع کی ہے، جس مقام پر ہمعصر جدید شاعری پہنچ چکی تھی- شاعر اپنے وقت سے آگے تو نکل ہی جاتا ہے ، جس کی اسے سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شاعر اپنے قاری کو بھی بہت پیچھے چھوڑ جاتا ہے، اگرچہ اس تیز رفتاری کی پاداش بھی اسے اٹھانی ہوتی ہے، چنانچہ اس کے دل میں اپنے عصر سے آگے رہتے ہوئے خود اپنے آپ سے بھی آگے نکل جانے کی دھن سمائی رہتی ہے-

محبی افتخار عارف نے مجھے ایک دفعہ کہا تھا کہ ظفر بھائی، اکثر ایسا ہوتاہے کہ با ت کوئی بھی نہیں ہوتی اور آپ ا س کو شعر بنا دیتے ہیں- یہ بات غزل کی حد تک تو درست بھی تسلیم کر لی جائے تو یہی بات نظم کے حوالے سے طاہر اسلم گورا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے- اس کی شاعری پڑھنے سے پہلے کم از کم مجھے بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ ایسے موضوعات سے بھی شاعری کو سجایا جا سکتا ہے جو ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے تو ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں یا تو اہمیت نہیں دیتے یا انہیں اس زاویے سے نہیں دیکھتے جس سے انہیں گورا نے دیکھا ہے، اور سچ پوچھیے تو یہ زاویوں کی شاعری بھی کہلا سکتی ہے، حالانکہ اس میں محض غیر معمولی اور مختلف زاویے ہی نہیں ہیں اپنے فکری وجذباتی مسائل کا زبردست اظہار بھی ہے-

تاہم محض سادگی سے شعری زبان میں کوئی مطلب بیان کر دینے ہی کو شاعری نہیں کہتے کیونکہ غزل کی طرح ہر قسم کی شاعری میں بھی و ہ چیز بہرحال شامل کرنی پڑتی ہے جو اسے صحیح معنوں میں شاعری بناتی ہے اور جس کی کوئی حتمی تعریف تاحال دستیاب نہیں ہے- بلکہ آخری حصے میں نظم کو کوئی ڈرامائی یا دیگر خوبصورت موڑ دینے سے بھی یہ مقصد عام طور پر سے حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک نظم میں ماحول نہ پیدا کر دیا جائے جو شروع سے لے کر آخر تک قاری کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور جوشاعر کی مثالی توفیق اور بساط ہی کا مرہون منت ہوتا ہے اور اسے اس کی مکمل شکل میں ایک حیرت انگیز خوبصورتی کا پیکر عطا کرتا ہے، اور، جس کی استطاعت ہرکسی کو ارزانی نہیں کی گئی ہوتی-

پھر بھی شاعری اپنے خالق کے لیے شاعر ہونے کا حکم نہیں رکھتی- اکثر افرا دکا مشہور ومقبول ہونے کے باوجود شاعر ہونا عام طور پر مشکوک رہتا ہے- ان حالات میں آغاز ہی سے ایک اصیل شاعر کے طور پر طلوع ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے- شاعری کے بارے میں عمومی طور پر گورا کا صائب الرائے ہونا پہلے تو میرے خیال میں اس وجہ سے تھا کہ چونکہ یہ ایک معروف ناشر ہے اور اچھے اچھوں کے مجموعہ ہائے کلام اشاعت کے مرحلے کے دوران اس کی نظر سے گزرتے رہتے ہیں، اس لیے اس کا ٹھوس شعری ذوق باعث حیریت نہیں ہونا چاہیے، لیکن مجھے اس کی دوسری اور اصل وجہ معلوم نہیں تھی کہ وہ خود اس کے اندر بھی ایک انتہائی جدید شاعر مستور ہے جو کسی بھی وقت بے لباس ہو سکتا ہے جو کہ ہو رہاہے، اور اسی طرح اس کی شاعری بھی ہر طرح کے تکلف و تردد کے ملبوسات کے بغیر یعنی اپنی اصل ، کچی اور تازہ حالت میں پیش بھی کی جا رہی ہے-

گورا نے دانشور، اہل رائے اور صاحب اسلوب ہوتے ہوئے بھی اپنی شاعری میں ایسا نظر آنے کی کہیں کوشش نہیں کی،بلکہ وہ ان نظموں میں ہر جگہ شاعر ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس کا اسلوب مکمل طورپر اور خالص ترین شکل میں شاعرانہ ہے- اس میں اسے کوئی خاص محنت بروئے کار نہیں لانا پڑی ہوگی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنے آس پاس بکھری ہوئی شاعری کو سمیٹ لیا ہے اور کاغذ پر جا بجا اس کو گملوں کی طرح چن دیا ہے، حتیٰ کہ یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ شاعری اس نے اپنے اند رسے نکالی ہے کیونکہ یہ باہر ہی کے معاملات ہیں، صرف ترتیب او ر الفاظ کا استعمال اس کااپنا اور ذاتی ہے کہ شاعری سے زیادہ کوئی بھی اور چیز شاعر کی ذاتی نہیں ہوتی-

شاید اسی لیے یہ مجھے شاعر کے مضافات کی شاعری لگتی ہے کیونکہ اکثر معروف شاعروں کی طرح اس کی نظموں میں اس کی شخصیت کی جادوگری شامل نہیں ہے جس پر اکثر ان حضرات کی شعری گزر اوقات کاانحصار چلا آ رہا ہے- چنانچہ یہ شاعری براہ راست دل میں داخل ہونے کی بجائے جب اسے چھو کر گزرتی ہے تو دل کے سارے موسموں پر اثر انداز ہوتی جاتی ہے، بجائے اس کے دل گدازی کی ایک ایسی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بنے جس کے اجارے سے ہماری شاعری کونکلنے کی ضرورت ہے- ویسے بھی کلاسیکی شاعری کے ایسی تمام تر ضروریات پوری کرنے کے لیے موجود ہونے کے علاوہ اچھی اور معیاری روایتی شاعری رہی سہی کسر نکالنے کے لیے کافی ہے بلکہ ضرورت سے بھی زیادہ -

چنانچہ افسانے اور ناول میں قابل ذکر پیش رفت کے بعد طاہر اسلم گورا کا اصل چہرہ آپ کے سامنے ہے جو کہ زیادہ پرکشش اور پسندیدہ ہے کیونکہ شاعری فضیلت اور برتری کے لحاظ سے فکشن سے کہیں آگے ہے- میں نے اس کی نظمیں نہ تو اس تحریر میں نقل کی ہیں نہ ہی ان کا کوئی حوالہ دیاہے- زیادہ اچھی یا بہتر نظموں کا انتخاب میرے لیے اس وجہ سے بھی ممکن نہ تھا کہ سبھی نظمیں نہ صرف چنیدہ اور منتخب ہیں بلکہ جدید ترین شاعری کا ایک نیا معیار قائم کرتی ہیں، اور یہ ایسی شاعری ہے جس میں کسی بھی طرح کی ذہنی مشق ملوث نہیں ہے- اس شاعری تک آپ کی رسائی براہ راست ہے، کسی بھی وسیلے کے بغیر، کہ شاعری کا اصل کام قاری کو سب سے پہلے اعتماد میں لینا اور اس تجربے میں اسے تخلیقی سطح پر شامل کرنا ہوتا ہے جبکہ اس عہد میں لکھی جانے والی زیادہ تر شاعری یہ کام کرنے کی توفیق نہیں رکھتی- یہ صرف قاری کی سطح پر اتر کر اسے بیوقوف بناتی ہے اور مطمئن ہو کر وہیں معلق رہتی ہے جہاں وہ ایک عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہوتی ہے-

ایسی شاعری کا لازمانی صورت حال سے توباخبر ہونا دور کی با ت ہے، یہ خود اپنے عصر سے بھی بے خبر رہتی اور چین کی بنسری بجاتی ہے-

ایک بات مجھے اوربھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ ان نظموں سے نثری کا لاحقہ اب الگ کر دینا چاہیے کیونکہ اب جب کہ یہ اپنا وجود قائم کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو چکی ہے، تو یہ نظمیں ہیں اور بس، جبکہ اس کے وجود کو ثابت کرنے یا تسلیم کرانے کے لیے دلیل کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ خود اس کی موجودگی ہی اس کے حق میں سب سے بڑی دلیل ہے اور اگر وقت واقعی پیش قدمی کر رہا ہے اور دنیا ہر لحاظ سے آگے بڑھ رہی ہے تو یہ شاعری کی جدید اور تازہ ترین صورت ہے جو فی الحال دستیاب ہے جبکہ مستقبل اپنا راستہ خود بناتاہے، اپنی اطلاع آپ دیتا ہے، ماضی کی کوکھ اور حال کے بیج سے پھوٹتا ہوا- شعری منظر نامے کو یکسر تبدیل کرتی ہوئی یہ نظمیں جب اپنی جگہ لیں گی تو ظاہر ہے کہ غیر ضروری شاعری کی ٹکسال باہر کر کے ہی ایسا ممکن ہے- شاعری کی نئی یوطیقا انہی بنیادوں پر استوار ہوگی-

اس معرکے میں جدید غزل یا تو یکسر معدوم ہو جائے گی، یا اپنا عرصہ عمر بڑھانے کے لیے خو داپنے آپ کو اس حد تک تبدیل کر نے پر مجبو ر کر دے گی کہ نئے عصر اور مستقبل کے تقاضے پورے کر سکے-

نظموں کی جس سیر گاہ میں آپ نکلے ہیں، یہ آپ کی اپنی بھی ہو سکتی ہے بشرطیکہ آپ معاملات کو اسی طرح پیش کرنا چاہتے ہوں جس طرح سے انہیں یہاں روبرہ کیاگیا ہے کیونکہ یہ نظمیں سب سے پہلے قاری کو احساس ملکیت دلاتی ہیں، ایک مشترکہ میراث کا ذائقہ ،یعنی یہ نظمیں شاعراور قاری کے درمیان محض ایک رشتہ قائم نہیں کرتیں، ایک اشتراک بھی مہیا کرتی ہیں، اور ان نظموں کی یہ صفت قاری کے تقاضوں اور توقعات سے کہیں بڑھ کر ہے- یہ شجر زار اپنا دروازہ بھی آپ ہے، آپ نے صرف اس میں داخل ہونا ہے، باقی کام یہ نظمیں خود سرانجام دے لیں گی- چنانچہ طاہر اسلم گورا نے اگر اپنے آپ کو دوبارہ دریافت کیاہے تومحض اپنے لیے نہیں، اس میں آپ کی شمولیت ہی ان نظموں کی تکمیل کا قرینہ رکھتی ہے-
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت شکریہ مغل بھائی پہلے اگر میری کوئی بات اچھی نالگے یا نافرمانی کے زمرے میں آئے تو کان پکڑ کر ڈانٹ دیجئیے گا ۔ بحث کچھ سیکھنے کے لے کر رہا ہوں

میں نے ایک دفعہ رالپنڈی پرس کلب میں ایک پرفیسر صاحب کی بات سنی تھی مجھے ان کا نام یاد نہیں انھوں نے کہا تھا کوئی بھی زبان اس وقت زبان مانی جاتی ہے جب اس زبان میں ادب تخلق ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کے مستقبل میں نثری نظم کو ہی شاعری مانا جائے گا ۔ کیوں کے مجودہ دور میں دیکھا جائے تو اردو زبان کی اہمیت کم ہو رہی ہے آئی ٹی کے بہت سے ایسے طالبِ علم ہیں جو اردو میں اکثر فیل ہو جاتے ہیں میری سوچ کے مطابق جتنے بھی نئے قاری ہیں ان کو اردو کی اتنی سمجھ ہی نہیں ہے اس لے ان کو پابند شاعری پسند ہی نہیں آتی اور سب جانتے ہیں پسند یا نا پسند کا فیصلہ اس وقت کیا جاتا ہے جب بات سمجھ آئے جو بات سمجھ ہی نہیں آئے گی اس کو کیسے پسند کیا جا سکتاہے
میں نے خود نوٹ کیا ہے پابند شاعری صرف وہی لوگ پسند کرتے ہیں جو اردو ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں اور جب کو اردو کے بارے میں اتنا نہیں پتہ وہ نثری نظم کو بھی پسند کرتے ہیں اب دیکھ

یہ بات تو
ٹھیک ہے کہ مستقبل
کی شاعری نثری ہی ہو گی
کیوں کہ
عام لوگ اس کو پسند کرتے ہیں
اور
پڑھنا چاہتے ہیں

اب دیکھے یہ بھی نثری نظم ہو گی
خیر اصلاح چاہتا ہوں
 
Top