سپنے اچھے لگتے ہیں اور پھر ماضی کے سپنے تو کچھ زیادہ ہی سہانے لگتے ہیں۔
اسی لئے انسان مستقبل سے زیادہ ماضی کے سپنوں میں کھو جانا پسند کرتا ہے۔
انسان کا ماضی کتنا ہی بُرا کیوں نہ گزرا ہو پھر بھی ماضی کی یادیں ایک خوشگوار سپنا ہوتا ہے جو اچھا لگتا ہے۔

اسی لئے وہ کہتا رہتا ہے
کہ
’’ ہمارا زمانہ بہت اچھا تھا ‘ ہمارے وقت میں سب اچھا تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔​
ہمارے دادا دادی نے ہمارے والدین سے یہی کہا تھا۔
ہمارے والدین بھی ہم سے یہی کہتے کہتے گزر گئے ۔
آج ہم بھی اپنے بچوں سے اسی کی تکرار کر رہے ہیں ۔
کل ہمارے بچے بھی یہی کہیں گے
کہ

’’ ہمارا زمانہ بہت اچھا تھا ‘ ہمارے وقت میں سب اچھا تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔​

حالانکہ ہر انسان اپنے زمانے میں اُسی زمانے کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے جو کہ جہالت وبیوقوفی کی باتیں ہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانہ کو گالی دیتا ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہی ہوں میرے ہی قبضہ قدرت میں تمام امور ہیں میں رات اور دن کو گردش دیتا ہوں ‘‘۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے :

’’ تم میں سے کوئی زمانہ کو گالی نہ دے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے ‘‘

لہذا ہر بندۂ مومن کو ’ زمانے کو گالی ‘ دینے والی قبیح عمل سے بچنا چاہئے۔
زمانے کو بُرا بھلا کہنے والے بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُسی زمانے کو اچھا کہتے ہیں۔
یہی انسان کی فطرت ہے ۔ جو زمانہ گزر گیا وہ اچھا لگتا ہے جو گزر رہا ہے وہ بُرا ہے جو کہ شُکر کے منافی ہے۔
لیکن اللہ کے شُکر گزار بندوں کیلئے ہر زمانہ ہی اچھا ہوتا ہے۔
ان کی سوچ ہوتی ہے
کہ
جو گزر گیا ‘ اُس پر شُکر ہے کہ وہ اچھا گزر گیا۔
اور جو گزر رہا ہے‘ اُس پر بھی شُکر ہے اور اُسے اور اچھا گزارنا ہے تاکہ ہم مستقبل کو اور اچھا بنائیں۔

اور بحثیت مسلمان ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ’’ ہمارا مستقبل آخرت ہے‘‘ جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے۔

لہذا ضروری ہے ہم اپنی آخرت کی تیاری کریں۔
دین اسلام کی جن باتوں کو ہم جانتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے ان پر عمل کریں۔
اور جو باتیں ہم نہیں جانتے انہیں سیکھیں‘ سمجھیں اور ان پر عمل کرنے کی سعی کریں۔
رسول اللہ ﷺ کی سچی اطاعت کرکے ‘ اللہ اوراور اللہ کے حبیب ﷺ سے سچی محبت کا ثبوت دیں ۔

علم کے بغیر معرفتِ الٰہی ممکن نہیں‘ نہ ہی اطاعتِ رسول اللہ ﷺ ممکن ہے اور نہ ہی امر و نہی پر عمل ہی ہو سکتا ہے۔

افسوس کہ اقرا سے شروع ہونے والی امت محمدیہ ﷺ آج علم کے میدان میں دنیا کی ساری اقوام سے پیچھے ہے۔

اور بے علمی بد عملی کو جنم دیتی ہے۔
اس لئے آج اُمت میں شرک و بدعات اور تمام تر اعتقادیاخلاقی وعملی برائیاں عام ہے جسے صرف علم کی روشنی سے معدوم کیا جاسکتا ہے۔

لہذ اُمت کے ہر فرد پر ضروری ہے کہ
علم حاصل کرنے والا بنے
اور
علم پھیلانے والا بنے۔​
 
Top