ہرنی کے بچے تھے تین

جیہ

لائبریرین
ہرنی کے بچے تھے تین



(مرکزی خیال ایک پشتو لوک کہانی سے)
(از جویریہ مسعود)


ہرنی کے بچے تھے تین
تینوں چلے گئے تین نہروں پر

دو نہریں خشک تھیں، ایک میں نہ تھا پانی
جس نہر میں نہ تھا پانی، اس میں بیٹھے تھے تین کمہار

دو کی آنکھیں نہ تھیں، ایک کمہار تھا اندھا
اندھے کمہار نے بنائیڼں تین ہانڈیاں

دو ہانڈیوں میں تھے سوراخ ۔ تیسرے کا نہیں تھا پیندا۔
جس ہانڈی کا پیندا نہ تھا، اس میں پکائے تین دانے چاول کے۔

دو دانے جل گیے ، ایک دانہ چاول کا پک نہ سکا
جو دانہ چاول کا پک نہ سکا، اس کو ڈال دیا تین برتنوں میں

دو برتن رہ گئے خالی ، ایک برتن بھرا نہیں
جو برتن بھرا نہیں، اس پر بلائے تین فقیر

دو فقیر بھوکے رہ گئے، ایک فقیر کا پیٹ رہ گیا خالی
جس فقیر کا پیٹ رہ گیا خالی، اس کو مارے تین ڈنڈے

دو ڈنڈے فقیر کو لگے نہیں، ایک ڈنڈے کا وار گیا خالی
جس ڈنڈے کا وار گیا خالی، اس پر ڈالیں تین اشرفیاں

دو اشرفیوں میں تھا کھوٹ، ایک اشرفی تھی نقلی
جو اشرفی تھی نقلی، اسے لے گئے چیچوں کی دکان پر

چیچوں تھا رات کو اندھا، نظر نہ آتا تھا اسے دن میں
چیچوں کو دی اشرفی ، اس نے خوشی سے لی

چیچوں نے دیں ہم کو ٹافیاں۔
ہم نے کھائیں ٹافیاں اور خوشی خوشی گھر آئے۔

اور
بچوں پیسہ ہوا ہضم
کہانی ہوئی ختم
 

جیہ

لائبریرین
شکریہ شگفتہ . پسند آیا؟ بہت جلدی میں لکھا، شاید پروف کی غلطیاں ہوں، اور اصلاح کی بھی ضرورت ہو. میں کھلے دل سے اصلاح قبول کروں گی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جویریہ ، بالکل پسند آئی اور بہت خوشی بھی ہوئی کہ آپ نے اتنی جلدی کر بھی لیا... صرف چند گھنٹوں کے اندر ہی... رات آپ ہی کی بات سے یہ خیال آیا تھا اور اب آپ نے ہی عملی جامہ بھی پہنا دیا اس خیال کو.. ابھی تو مجھے اسی بات کی ہی اتنی خوشی ہو رہی ہے.

پروف ریڈنگ میں تو جویریہ آپ خود بھی مہارت رکھتی ہیں... اگر ہم سب میں سے کوئی بھی رکن یہاں کچھ اس حوالے سے کہنا چاہیں تو اچھی بات ہے.
 

فرضی

محفلین
اچھی نظم ہے۔ بچپن کی یاد تازہ ہوگئی۔ شیئر کرنے اور اسے اردو میں لکھنے کا شکریہ
 

سارہ خان

محفلین
میں نے ابھی ابھی ایک سبق آموز کہانی لکھی ہے جیہ ۔۔ اگر ٹائیم اور موقع ملا تو اور بھی لکھوں گی انشاءاللہ ۔۔:)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اصل نظم تو میں نے سینہ بہ سینہ ایسے سنی ہے -

باتوں کی بات خرافات کی رات
ببول کے کانٹوں پر تین تالاب

دو سوکھے موکھے ایک میں پانی نہیں
جس میں پانی نہیں اس میں‌بیٹھے تین کمہار

دو لولے لنگڑے ایک کے ہاتھ نہیں
جسکے ہاتھ نہیں اس نے بنائی تین ہنڈیاں
دو ٹوٹی پھوٹی، ایک کی پیندی نہیں
جسکی پیندی نہیں‌، اس میں پکائے تین چاول
دو کچّے پکّے ایک گلا نہیں
جو گلا نہیں اس پہ بلائے تین مہمان
دو روٹھے موٹھے ایک آیا نہیں
جو آیا نہیں اسے لگائے تین پاپوش
ایک اِدھر، ایک ادھر، ایک کی جگہ نہیں
 

جیہ

لائبریرین
واؤ بہت اچھی نظم ہے۔ مگر میں نے جس کہانی کا ترجمہ کیا ہے وہ نثر میں بچپن سے سنتے آئے ہیں
 

جیہ

لائبریرین
ہرنی کے بچے تھے تین



(مرکزی خیال ایک پشتو لوک کہانی سے)
(از جویریہ مسعود)


ہرنی کے بچے تھے تین
تینوں چلے گئے تین نہروں پر

دو نہریں خشک تھیں، ایک میں نہ تھا پانی
جس نہر میں نہ تھا پانی، اس میں بیٹھے تھے تین کمہار

دو کی آنکھیں نہ تھیں، ایک کمہار تھا اندھا
اندھے کمہار نے بنائیڼں تین ہانڈیاں

دو ہانڈیوں میں تھے سوراخ ۔ تیسرے کا نہیں تھا پیندا۔
جس ہانڈی کا پیندا نہ تھا، اس میں پکائے تین دانے چاول کے۔

دو دانے جل گیے ، ایک دانہ چاول کا پک نہ سکا
جو دانہ چاول کا پک نہ سکا، اس کو ڈال دیا تین برتنوں میں

دو برتن رہ گئے خالی ، ایک برتن بھرا نہیں
جو برتن بھرا نہیں، اس پر بلائے تین فقیر

دو فقیر بھوکے رہ گئے، ایک فقیر کا پیٹ رہ گیا خالی
جس فقیر کا پیٹ رہ گیا خالی، اس کو مارے تین ڈنڈے

دو ڈنڈے فقیر کو لگے نہیں، ایک ڈنڈے کا وار گیا خالی
جس ڈنڈے کا وار گیا خالی، اس پر ڈالیں تین اشرفیاں

دو اشرفیوں میں تھا کھوٹ، ایک اشرفی تھی نقلی
جو اشرفی تھی نقلی، اسے لے گئے چیچوں کی دکان پر

چیچوں تھا رات کو اندھا، نظر نہ آتا تھا اسے دن میں
چیچوں کو دی اشرفی ، اس نے خوشی سے لی

چیچوں نے دیں ہم کو ٹافیاں۔
ہم نے کھائیں ٹافیاں اور خوشی خوشی گھر آئے۔

اور
بچوں پیسہ ہوا ہضم
کہانی ہوئی ختم
 

قیصرانی

لائبریرین
ہرنی کے بچے تھے تین



(مرکزی خیال ایک پشتو لوک کہانی سے)
(از جویریہ مسعود)


ہرنی کے بچے تھے تین
تینوں چلے گئے تین نہروں پر

دو نہریں خشک تھیں، ایک میں نہ تھا پانی
جس نہر میں نہ تھا پانی، اس میں بیٹھے تھے تین کمہار

دو کی آنکھیں نہ تھیں، ایک کمہار تھا اندھا
اندھے کمہار نے بنائیڼں تین ہانڈیاں

دو ہانڈیوں میں تھے سوراخ ۔ تیسرے کا نہیں تھا پیندا۔
جس ہانڈی کا پیندا نہ تھا، اس میں پکائے تین دانے چاول کے۔

دو دانے جل گیے ، ایک دانہ چاول کا پک نہ سکا
جو دانہ چاول کا پک نہ سکا، اس کو ڈال دیا تین برتنوں میں

دو برتن رہ گئے خالی ، ایک برتن بھرا نہیں
جو برتن بھرا نہیں، اس پر بلائے تین فقیر

دو فقیر بھوکے رہ گئے، ایک فقیر کا پیٹ رہ گیا خالی
جس فقیر کا پیٹ رہ گیا خالی، اس کو مارے تین ڈنڈے

دو ڈنڈے فقیر کو لگے نہیں، ایک ڈنڈے کا وار گیا خالی
جس ڈنڈے کا وار گیا خالی، اس پر ڈالیں تین اشرفیاں

دو اشرفیوں میں تھا کھوٹ، ایک اشرفی تھی نقلی
جو اشرفی تھی نقلی، اسے لے گئے چیچوں کی دکان پر

چیچوں تھا رات کو اندھا، نظر نہ آتا تھا اسے دن میں
چیچوں کو دی اشرفی ، اس نے خوشی سے لی

چیچوں نے دیں ہم کو ٹافیاں۔
ہم نے کھائیں ٹافیاں اور خوشی خوشی گھر آئے۔

اور
بچوں پیسہ ہوا ہضم
کہانی ہوئی ختم
اچھا تو یہ ہوتا ہے چیچا۔ ویسے یہ ہوتا کیا ہے؟
 

نایاب

لائبریرین
بہت سی دعاؤں بھری داد محترم جیہ بہنا ۔
آج تو غزل بٹیا کو عجب کہانی سننے کو ملے گی ۔
بہت خوش ہوگی یہ منظوم کہانی سن کر ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ نایاب بھیا
مگر یہ منظوم ترجمہ تو نہیں :)
مجھے تو منظوم کہانی محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ چاہے منظوم ترجمہ کہیں اسے ۔۔۔۔۔۔ مگر میری بٹیا ان شاءاللہ بہت خوش ہوگی اسے سن کر
تین دن سے لارا لگا رہا تھا ۔ آج تو سلام کرتے ہی کہانی شروع ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top