ٹائپنگ مکمل ہجرت

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس دُختر بیمار کو روتے ہوئے چھوڑا
اشکوں سے رُخ زرد کو دھوتے ہوئے چھوڑا
شبنم سے گُل رُخ کو بھگوتے ہوئے چھوڑا
سلکِ گُہر آنکھوں سے پروتے ہوئے چھوڑا
لبّیک بہ لب تھے جو تقاضے پہ اجل کے
مکّے کو چلے حدِّ مدینہ سے نکل کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُس امن کے گھر میں بھی نہ تھے امن کے آثار
احرام میں ملبوس وہاں بھی تھے کچھ اشرار
تقدیسِ حرم سے تھے جو واقف شہ ابرار
حج چھوڑ کے عمرے پہ قناعت کری ناچار
دیکھا نہ رُخِ زیست کو مکے سے نکل کے
درّانہ چلے خود ہی تعاقب میں اجل کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کعبے سے سر دشتِ بلا آ گئے شبیر
عباس لئے حیدر کرّار کی شمشیر
اکبر سا جواں سرورِ کونین کی تصویر
قاسم سا حسین سطوتِ سادات کی توقیر
یاد آئے جسے دیکھ کے شبّر کی جوانی
آنکھوں میں پھرے حیدر صفدر کی جوانی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شبیر کے تھے ساتھ جو انصار وفا خو
دُنیا کے معائب سے بچائے ہوئے پہلو
ہمت میں کسی کی بھی نہ تھا فرق سرِ مُو
ہر پُھول جُدا، سب میں مگر ایک سی خوشبو
اس شان کے گُل دہر نے دیکھے نہ سُنے تھے
شبیر نے خود باغِ محبت سے چنے تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چارآئینہ و خود و زرہ کچھ بھی نہ تھا پاس
آلام کا غم تھا نہ ذرا موت کے وسواس
تکبیر کی مانند نکلتے ہوئے انفاس
چھایا ہوا بس اُلفتِ شبیر کا احساس
جاں نذر کو لائے تھے امامِ ازلی پر
نکلے تھے فدا ہونے حسین ابنِ علی پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر چند کہ سب لوگ کئی دن سے تھے پیاسے
اظہار نہ کرتے تھے امامِ دوسَرا سے
خیموں میں حَرم دیتے تھے اک اک کو دلاسے
ہر ایک نے لَو اپنی لگائی تھی خُدا سے
بدلی ہوئی دنیا کی ہوا دیکھ رہے تھے
سب عزمِ امامت کی ادا دیکھ رہے تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چھائے تھے ہر اک سمت جو افواج کے بادل
صبحِ شبِ عاشور بھی تاریک تھا جنگل
تھے گشت پر مامور جو دشمن کے ہراول
اڑتی ہوئی مٹی سے ہوائیں بھی تھیں بوجھل
ساحل پہ سپیدی کا کہاں نام و نشاں تھا
پانی نہ تھا دریا میں سیہ ناگ رواں تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تھا چاروں طرف ظُلمت و باطل کا اندھیرا
تابندہ تھا سُورج نہ چراغوں میں اُجالا
تاریک جو دل تھے تو نظر آتا بھلا کیا
وہ ارضِ بلا عرصہ ظلمات تھی گویا
بس اتنی زمیں جس پہ خیام شہِ دیں تھے
انوار کے آثار اگر تھے تو وہیں تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خیموں میں تھے سب اہلِ حَرم محوِ تلاوت
بس دیکھ لیا کرتے تھے شبیر کی صورت
غم بے وطنی کا نہ کوئی شکوہ غربت
تھا شکرِ خدا لب پہ جو سہتے تھے اذیت
اِس صبر کو اربابِ فلک دیکھ رہے تھے
حیران اجنّہ تھے ملک دیکھ رہے تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اشرار کے لشکر میں کچھ اس طرح کٹی رات
جانچے گئے، پرکھے گئے سب جنگ کے آلات
تیغ و تبر و تیر و سناں دیکھ کے بدذات
کہتے تھے کہ اس جنگ کی ہے فتح کوئی بات
دس بیس جواں لشکرِ شاہی سے نکل کے
رکھ دیں گے نبی زادوں کو دَم بھر میں کُچل کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
برچھی کی انی پر بنِ کامل نے رکھی دھار
پیکانِ ستم حُرملہ کرتا رہا تیار
خود شمر بدلتا رہا تلوار پہ تلوار
فہرست بنی کس پہ کرے کون کہاں وار
مشقِ ستم و جور میں دوڑائے گئے تھے
گھوڑوں کے نئے نعل بدلوائے گئے تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس سمت یہ ہنگامہ یہ آشوب یہ ہلچل
بڑھتی ہوئی افواج کی تعداد مسلسل
خونریزی و غارت کے تھے سامان مکمل
اس سمت بنا قبلہ حق کی سر مقتل
ہر شخص ادھر کوشش دنیا طلبی میں
اس سمت سکوں قافلہ آل نبی میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نادم جو بہت دل میں تھا اپنے حُرّ جانباز
خود خدمت شبیر میں آ کے ہوا ممتاز
قسمت سے شہادت کا ملا اس کو جو اعزاز
فردوس میں انجام تھا دوزخ میں تھا آغاز
یہ جرات ایماں بخدا یاد رہے گی
اس پاک ضمیری کی ادا یاد رہے گی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھر لشکر اعدا سے جو برسائے گئے تیر
سینے ہوئے انصارِ وفا کیش کے نخچیر
دنیا کو گئے چھوڑ کے ، لی خلد کی جاگیر
مرتے ہوئے کہتے تھے سلامت رہیں شبیر
اسلام جو ہے ایک جسد جان یہی ہیں
ایماں کی قسم حاصل ایمان یہی ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انصار و اعزا سے جو خیمے ہوئے خالی
برچھی جگر اکبر مہرز نے بھی کھا لی
عباس نے بھی نہر پہ زینب کی دعا لی
ششماہے نے کی جان فدائے شہ عالی
تاراجِ خزاں ہو گئے جب باغ بہتّر (72)
اب سینہ شبیر تھا اور داغ بہتّر (72)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آراستہ تھا صبح سے شبیر کا رہوار
حاضر درخیمہ پہ تھا وہ اسپ وفادار
عابد کو دُعا دے کے جو نکلے شہ ابرار
اب سخت پریشان ہوئے دل میں جفاکار
ہے وقت مصیبت کا ، قیامت کا، بلا کا
کیا سامنا ہو گا پسرِ شیر خدا کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کس شان سے میدان میں آتی ہے سواری
جاروب کش راہ ہے خود بادِ بہاری
ہیبت سی ہر اک دل پہ ہوئی جاتی ہے طاری
مشکل ہے سلامت رہے اب جان ہماری
حملہ جو ڈپٹ کر یہ کسی سمت کریں گے
جو تیغ سے بچ جائیں گے بے موت مریں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہے کون جو اس شیر کے ہو مدِّ مقابل
آسان نہیں سامنا یہ سخت ہے مشکل
دَم بھر میں سجی جاتی ہے اب موت کی محفل
گوشے سے نکل حُرملہ، چل اے بنِ کاہل
چلّے پہ ذرا پھر سے چڑھا تیرِ جفا کو
نیزے کے دکھا بند امامِ دوسَرا کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لشکر کے قریب آ گئے جب شاہِ خوش انجام
فرمایا کہ درپے ہو مرے کیوں سپہِ شام
سب جانتے ہیں پھیلا ہے گھر سے مرے اسلام
ہے سنت و قرآں کے مطابق مرا ہر کام
فرزند علی کا ہوں جگر بندِ علی ہوں
جو دُودھ سے زہرا کے پلا ہے میں وہی ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھ سے مرے نانا نے کہا لحمک لحمی
اس قول میں ہیں دمک دمی کے بھی معنی
کچھ پاس نہیں قولِ محمد کا ذَرا بھی
حرمت نہیں کیا قلب میں کچھ خونِ نبی کی
لینا ہے جو اب آج مجھے تم سے اسی کا
کیا خون بہانا ہے تمہیں اپنے نبی کا
 
Top