گڑبڑ گھُٹالہ - سید مظہر عباس رضوی

الف عین

لائبریرین
خالص کہاں اب کوئی نوالہ
اینٹوں کو پیسا مرچوں میں ڈالا
دنیائے زر میں اِک شور شر ہی
ہر سو ہے مظہر گڑبڑ گھٹالہ
 

الف عین

لائبریرین
انتساب




والدِ مرحوم سید اظہار عباس رضوی
والدہ محترمہ، اور شریک حیات کے نام

بہ فیضِ قدرتِ باری ہوا ہوں میں سرشار
ملی ہے مجھ کو جو مظہر یہ قوتِ اظہار
 

الف عین

لائبریرین
مُرغی نامہ

پچھلے دنوں دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں، مرغیوں میں برڈ فلو کی بیماری پھیلنے کے سبب لاکھوں مرغیاں تلف کرنی پڑیں ، اور اس کی وجہ سے مرغیوں کی قیمتوں میں بھی اچانک اتنی کمی واقع ہوگئی کہ غریب عوام بھی بہ آسانی اس سے کچھ عرصے کے لئے لطف اندوز ہوسکے۔یہ اشعار اسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔

گرانی کر نہ سکی تھی جو رام مرغی کو
ترس گئے تھے ہمارے عوام مرغی کو
لگا سکا تھا ، نہ کوئی لگام مرغی کو
کیا ہے ”برڈ فلو“ نے اب عام مرغی کو
اِسی کے دم سے ہیں مطبخ کی رونقیں ساری
مِلا ہے ارفع و اعلیٰ مقام مرغی کو
ہیں ایک ہم کہ جو انڈے بھی چھو نہیں سکتے
ہیں ایک وہ کہ تلیں صبح و شام مرغی کو
پروں نے ،کلغی نے اور مل ملا کے پنجوں نے
کلو بنا دیا چھ سو گرام مرغی کو
چکن پلاؤ ، چکن سوُپ اور چکن برگر
پکائیں جس طرح اب چاہیں خام مرغی کو
چِکن کے کپڑے پہن کر وہ خوب اترائیں
ملا نہ ایسا کبھی احتشام مرغی کو
یونہی تو کہتے نہیں ہم کو مِلّتِ بیضا
اُڑا کے انڈے ، کریں ہم سلام مرغی کو
لڑے جو خوان پہ آپس میں آج دو مُلّا
سنا ہے کر گئے ہیں وہ حرام مرغی کو
ٹھہر کے آج ذرا تو مزاجِ ”شیور“ دیکھ
لگا نہ ہاتھ یوں نازک خرام مرغی کو
سناؤں گا یہ غزل آج جا کے ڈربے میں
پسند آئے گا میرا کلام مرغی کو
شِکم زدوں کے ہے لب پر یہی دُعا مظہر
سدا رہے یونہی نزلہ زکام مرغی کو
 

الف عین

لائبریرین
غزل کا اغواء

(اپنی غزل پہ تضمین دیکھ کر اوریجنل شاعر کی فریاد(

یہ شور کرتا تھا شاعر غزل کے ایواں میں
چھپی ہے کیسے غزل میری اُن کے دیواں میں
وہ چاہے کرتے کسی بھی حسین پر قبضہ
انہوں نے کیوں کیا میری زمین پر قبضہ
ستم تو یہ ہے قوافی بھی سارے چھین لئے
سپیرا رہ گیا ہے صرف اپنی بین لئے
زمین میری ہے، اِس پر ردیف میرا ہے
کہ جو غزل کا ہے محور ، ردیف میرا ہے
نہیں ہے کوئی بھی شعرِ نحیف قابلِ ذکر
غزل میں صرف ہے میرا ردیف قابلِ ذکر
اگرچہ لکھتے ہیں اِس میں وہ اپنا افسانہ
مگر چرایا ہے میرا ہی سارا پیمانہ
گرہ لگائی ہے کچھ ایسے میرے مصرعے پر
مرے خیال کو اُلٹا کے رکھ دیا یکسر
کہیں تو نام پہ تضمین کے یہ کام کیا
کہ پورا مصرعے کا مصرعہ نگل لیا میرا
اُجاڑا اس طرح اشعار کا چمن میرا
کہ مجھ سے چھین لیا موضوعِ سخن میرا
”کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے “
کہ کیوں انہیں مرے مصرعے پہ حال آتا ہے
غزل کہی تھی فقط میں نے جانِ جاں کے لئے
لکھی نہ تھی کوئی یارانِ نکتہ داں کے لئے
جو شعر سرقہ ہوئے کو بہ کو تلاش کروں
”میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں “
سناؤں کس کو میں دُکھڑا ، کروں میں کیا فریاد
وہ میرے حصے کی بھی کھا گئے ہیں ساری داد
رپٹ یہ درج کراؤں گا جا کے تھانے میں
کہ ڈالو چوٹٹے شاعر کو جا کے تھانے میں
 

الف عین

لائبریرین
پارسا کے ہاتھ

نامہ ہمارا لگ گیا اِک پارسا کے ہاتھ
گویا فسانہ آگیا خلقِ خدا کے ہاتھ
ہم سے منگائی مہندی ، بیاہ اُس سے کرلیا
اُس شوخ نے دکھائے ہیں شادی رچا کے ہاتھ
پامسٹری کی مسٹری تو جوں کی توں رہی
وہ فیس لے کے چل دیئے ہم کو دکھا کے ہاتھ
دولھا سنا ہے گھر میں ہے بے ہوش اب تلک
دلھن نے کل دکھائے تھے ناخن لگا کے ہاتھ
ڈاکا جو ڈالا حُسن نے عاشق کی جیب پر
وہ دیکھتا ہی رہ گیا اُس دلربا کے ہاتھ
پھر ناچتے ہیں تارے نگاہوں کے سامنے
چِلّا کے بیوی بولتی ہے جب نچا کے ہاتھ
دفتر کا کوئی کام نہ ہوگا عزےیِ من
جب تک نہ مٹھی گرم کرو گے دبا کے ہاتھ
اِک ابتلا میں ڈالا ہے مہنگائی نے ہمیں
ایسے بھی سخت ہوں گے بھلا کیا قضا کے ہاتھ
جوڈو کراٹے سیکھ لئے نازنین نے
لگ جائے گا پتہ جو لگے دل رُبا کے ہاتھ
کھوٹے کھرے ملے ہیں کچھ آپس میں اِس طرح
پہچانے جاتے ہی نہیں خواجہ سرا کے ہاتھ
آیا یقین گھومتی ہے کائنات بھی
مارا جو اس نے زور سے ہم کو گھما کے ہاتھ
خارش تھی گرچہ ہاتھ میں دولت نہ مل سکی
صد حیف ہم تو رہ گئے مظہر کھجا کے ہاتھ
 

الف عین

لائبریرین
ادبی محبوبہ

سوچئے تصویرِ محبوبِ حسیں
سانپ ہوں برعکسِ زلفِ عنبریں
ہے تصور ایسے انساں کا محال
چشمِ انساں کی جگہ چشمِ غزال
جھیل کی گہرائی ہو رُخ پر کہیں
آنکھ کہلائے گی وہ ہرگز نہیں
پلکیں بڑھ جائیں کہیں حد سے اگر
بھاگیں عاشق ڈر کے اُن کو دیکھ کر
گر کھلیں ہوں سُرخ ہونٹوں پر گلاب
بوسہ دیں تو کانٹیں چبھ جائیں جناب
گال کی جا پر اگر ہوں سیب دو
ایسے انساں کو شجر ہی پھر کہو
لڑیاں موتی کی ہوں دانتوں کے بجائے
کیسے پھر کچھ آپ کا محبوب کھائے
مرمریں ہو جسم تو کیسا لگے
سِل ہو پتھر کی تو کوئی کیا کرے
ہو صراحی پتلی گردن کی جگہ
کیا کریں گے آپ اُس محبوب کا
پیاس بجھ جائے گی ایسے دید کی
یاد آئی تو صراحی دیکھ لی
ہو اگر معشوق کی پتلی کمر
پیٹ کا تربوز ہی آئے نظر
جسم دو حصوں میں یوں تقسیم ہو
ریڑھ کی ہڈی کی جس میں ”بیم “ ہو
سوچئے گر حسن شعلہ بار ہو
ہر طرف حدت کی بس یلغار ہو
حسُن چھپ جائے بھیانک آگ میں
اور عاشق اُس جہنم میں جلیں
پڑھ کے تشبیہات یہ صورت بنے
نقش ابھریں ذہن میں اِک بھوت کے
 
Top