گنا پودوں کی سلطنت کا ایک اہم رکن

گنا پودوں کی سلطنت کا ایک اہم رکن ہے جس کا استعمال بدن میں سکروز کی صورت میں شوگر فراہم کرتا ہے۔ نشوونما پانے کے دوران اس میں گلوکوز اور فرکٹوز موجود ہوتے ہیں۔ گنے کی فصل انتہائی سستی توانائی بخش غذا مہیا کرتی ہے۔ گنے کا تعلق گھاس کے خاندان سے ہے۔ یہ موسمی پودا ہے حالانکہ اس کی جڑیں سارا سال زندہ رہتی ہیں۔ گنا 2.5 سے 4.25 میٹر لمبا ہوتا ہے۔ گنے کا تنا مختلف محیط رکھتا ہے لیکن عام طور پر 2.5 سے 8 سینٹی میٹر تک گول ہوتا ہے۔ تنے پر بہت سی گرہیں ہوتی ہیں جو ہر چند سینٹی میٹر کے بعد بنی ہوتی ہیں۔ گنا ہندوستان کا مقامی پودا ہے۔ یہ بر صغیر میں ویدوں کے دور سے کاشت کیاجا رہا ہے۔
اس کا تذکرہ قدیم تحریروں سے بھی ملتا ہے۔ سکندر اعظم اور اس کے فوجی 325 قبل مسیح میں گنے کے پودے ہندوستان سے مغرب میں لے گئے۔ آج کل گنا پوری دنیا میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اس کی کاشت میں ہندوستان سرفہرست ہے۔ اس کے بعد برازیل‘ کیوبا‘ میکسیکو‘ پاکستان‘ شمالی امریکا‘ جنوبی افریقہ اور کولمبیا کا نمبر آتا ہے۔
غذائی صلاحیت
گنے کو نچوڑ کر اس کا رس نکالا جاتا ہے۔ یہ مشروب غذائیت بخش اور فرحت بخش ہوتا ہے۔ اس میں پندرہ فیصد قدرتی شکر ہوتی ہے جبکہ نامیاتی نمک اور وٹامنز بھی خوب پائے جاتے ہیں۔ ابتداء4 میں جنوب مشرقی ایشیا میں گنا صرف دانتوں سے چبا کر چوسنے کیلئے اگایا جاتا تھا۔ مگر اب گنے کا رس پینے اور شکر بنانے کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ رس مفرح اور تسکین بخش ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ بہتر بنانے کیلئے تھوڑا سا لیموں کا رس بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ گنے کے ایک سو گرام میں 90.2 فیصد رطوبت 0.1 فیصد پروٹین‘ 0.2فیصد چکنائی‘ 0.4 فیصد معدنی اجزاء4 اور 9.1 فیصد کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنی اور حیاتنی اجزا میں 10 ملی گرام کیلشیم‘ 10 ملی گرام فاسفورس اور 1.1 ملی گرام آئرن شامل ہیں۔ اس کے ایک سو گرام میں 39 کیلوریز پائی جاتی ہیں۔
قدرتی فائدے اور طبی استعمال
گنے کے رس میں بہت سی طبی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ معدے ‘ گردوں‘ دل‘ آنکھوں‘ دماغ اور جنسی اعضاء4 کو تقویت دیتا ہے۔
بخار
متعدد قسم کے بخاروں میں گنے کا رس شفاء4 بخش ہے۔ اگر بخار کا سبب پروٹین کی کمی ہو تو وافر مقدار میں گنے کا رس پینے سے یہ کمی دور ہو جاتی ہے اور بخار کی حدت اور شدت کم ہوتے ہوئے ختم ہو جاتی ہے۔
پیشاب کی بیماریاں
قلت پیشاب میں گنے کا رس پینا ‘ یہ تکلیف دور کردیتا ہے۔ یہ پیشاب کا اخراج بڑھا کر گردوں کے فعل کو باقاعدہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔ تیزابیت بڑھ جانے پر پیشاب جل کر آتا ہے۔ امراض مخصوصہ‘ پراسٹیٹ گلینڈز کے بڑھ جانے‘ مثانے کی سوزش اور سوزاک میں بھی پیشاب جل کر آتا ہے اور یہ کیفیت اذیت ناک ہوتی ہے۔ گنے کا رس پینے سے یہ تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ بہتر نتائج کیلئے گنے کے رس میں لیموں کا رس ‘ ادرک کا جوس اور ناریل کا پانی شامل کر لینا چاہیے۔
یرقان
گنے کا جوس لیموں کے جوس کے ساتھ ملا کر پینے سے یرقان کے مریض تیزی سے صحت یاب ہوتے ہیں لیکن ضروری بات یہ ہے کہ جو س بالکل صاف ہو‘ چنانچہ بہتر یہی ہوتا ہے کہ بازار سے خریدنے کی بجائے گھر میں تیار کیا جائے۔ ہیپاٹائٹس میں بدن کی قوت مزاحمت کم ہو جاتی ہے‘ اگر جوس میں جراثیم ہوں تو صورت حال خراب ہو جاتی ہے۔
کمزور دانت
گنے سے براہ راست رس چوسنا کمزور دانتوں کیلئے بہت مفید رہتا ہے کیونکہ نرم غذا کا اضافی استعمال دانتوں کی مشق ختم کر دیتا ہے۔ گنا چبا کر چوسنے سے دانتوں کی مشق ہوتی ہے اور یہ انہیں مضبوط بنانے میں مدد دیتی ہے۔ یہ عمل دانتوں کو صاف کرتا ہے اور ان کی زندگی بڑھ جاتی ہے۔
دبلا پن
گنے کا رس فربہ کرتا ہے‘ اس لئے دبلا پن دور کرنے کیلئے یہ موثر علاج بالغذا ہے۔ گنے کے رس کے باقاعدہ استعمال سے تیزی سے جسمانی وزن بڑھتا ہے۔
آنکھوں کے امراض
گنے کے پودے کے لمبے پتوں پر پڑنے والی شبنم کے قطرے جمع کر لئے جائیں تو یہ آنکھوں کی متعدد بیماریوں میں مفید ہیں۔ شبنم کے پانی کو آنکھوں میں ڈالنے سے بینائی کا خلل‘ موتیا بند‘ آشوب چشم‘ آنکھوں کا جلنا اور زیادہ مطالعہ سے آنکھوں کا دباؤ ختم ہو جاتا ہے۔

FikroKhabar - Online Urdu News Portal - گنا پودوں کی سلطنت کا ایک اہم رکن
 
Top