:::گناہ اور ایمان والے نفس کی جنگ ، کون کیسے جیتتا ہے؟ :::خشیئت اللہ ہے جو گناہوں کو مات کرتی ہے :::

:::::: قران و حدیث کے باغ میں سے :::::::

::::::: گناہ اور ایمان والے نفس کی جنگ ، کون کیسے جیتتا ہے؟ :::::::

:::::: خشیئت اللہ وہ صِفت ہے جو گناہوں کو مات کرتی ہے :::::::
:::::: خشیئت اللہ وہ صِفت ہے جو گناہوں کو مات کرتی ہے :::::::

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم

بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ

اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
گناہ کو ظاہر ہونے کا موقع اُسی وقت ملتا ہے جب سوچیں بے قابو ہوتی ہیں ، اور نفسانی خواھشات اُن پر حاوی ہوجاتی ہیں ، اور شیطان اُن کو خوب سجا سنوار کر رکھ دیتا ہے ، اُس وقت نفس اللہ کے ذِکر ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی سے غافل ہو جاتاہےاور معاشرتی زندگی میں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان اپنی شرم و حیاءاور عِزت کو بھی بھول جاتا ہے ،
ابو عبدالرحمٰن إحمد بن الحسین رحمہ ُ اللہ نے اپنی کتاب ‘‘‘‘‘ عیوب النفس ’’’’’ میں امام ابو بکر الرازی رحمہ ُ اللہ سے اُن کی سند کے مطابق سن کر اِبراھیم الخواص رحمہُ اللہ کا ایک بہت ہی حکمت بھرا قول نقل کیا ہے ، جِس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ‘‘‘‘‘ گناہ کی ابتداء شائبہ کی صورت ہوتی ہے ، جس کی سوچ میں ایسا کوئی شائبہ آئے اور وہ (گناہ کے لیے)کراہیت (کا احساس)کے ساتھ اس کو دُور کر دے تو وہ بچ جائے گا ، اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ شائبہ ، مخالف بن کر سامنے آئے گا ، اور اب اگر وہ شخص اس مخالف کو (ایمانی اور علمی)رد کے ذریعے دُور کر دے تو وہ بچ جائے گا ، اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ مخالف ، وسوسہ بن جائے گا ، اور پھر اگر وہ شخص جسے یہ وسوسہ درپیش ہو ، اپنے نفس کو مضبوطی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت پر قائم رہنے کے مجاھدے کے ساتھ اُس وسوسے کو دُور کر دے تو وہ شخص بچ جائے گا ، اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو اُس وسوسے میں سے شہوات اور گمراہیاں اُبل کر باہر نکل پڑیں گی اور اُس شخص کے اپنے پاس موجود ، اور اس کے اِرد گِرد اُسے دکھائی دینے اور ملنے والے عِلم ،عقل اورسمجھ داری سب ہی کچھ کو اپنے اندر ڈھانپ لیں گی ( یعنی وہ شخص ایک شائبے کی صُورت میں شروع ہونے والے گناہ کا شِکار ہو ہی جائے گا )’’’’’ ،
اچھے انسان کے ضمیر میں برے کاموں کے لیے انکار موجود ہوتا ہے ، اور مسلمان کے اندر یہ انکار اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان اور اللہ کے خوف کی بنا پر کسی غیر مسلم کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط اور مستقل ہوتا ہے ، ایسے لوگوں کے اندر گناہوں اور برائیوں کی جاذبیت اور ان کے لیے اِس انکار کے درمیان ایک مسلسل جنگ ہوتی رہتی ہے ، دونوں میں سے جس کی طرف دِل و دِماغ کا میلان اور توجہ زیادہ ہوتی ہے وہ دوسرےپر غالب آجاتا ہے ،
پس جب کسی مسلمان کے دِل میں اللہ کی خشیئت کمزور پڑتی ہے گناہوں اور برائیوں کی جاذبیت اسے لے ڈوبتی ہے اور وہ گناہوں کا شکار ہو جاتا ہے ، جِس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ گناہوں اور برائیوں کی جاذبیت اور ان کی طرف توجہ کو کمزور کرتے کرتے اُنہیں بالکل ہی ختم کرنے کے لیے دِل و دِماغ میں اللہ تبارک تعالیٰ کے خوف کا قوی وجود دائمی طور پر لازم ہے ،کیونکہ اللہ جلّ و علا کے خوف کا غائب ہونا ، یا کمزور ہونا شیطان کے بہترین موقع ہوتا ہے پس وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان کے نفس کی بری خواہشات کو خوب مضبوطی کے ساتھ ابھارتا ہے اور مزید نئی خواہشات بھی داخل کرتا ہے ،اور اسے گناہ کرنے پر مائل کرتے کرتے اُس سے گناہ کروا ہی لیتا ہے ،
علامہ محمد عبدالروؤف المناوی رحمہُ اللہ نے ‘‘‘‘‘ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر/حدیث رقم 1505 ’’’’’کی شرح میں لکھا ہے ‘‘‘‘‘(اللہ کے)خوف کی قلت کے مطابق ہی گناہوں کی طرف مائل ہوا جاتا ہے ، اور اگر یہ خوف بالکل ہی کم ہو جائے اور غفلت انسان پر حاوی ہوجائے ، تو یہ اُس انسان کی بد بختی کی علامت ہے ، اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ [ گناہ کفر کی پیش آمد ہوتے ہیں ] ’’’’’،
یاد رکھیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے خوف میں کمی کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوتاکہ انسان کا نفس گناہ سے جنگ ہار جاتا ہے اور گناہ اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ انسان کوئی گناہ کر لیتا ہے ، اور آخرت میں اُس کے کھاتے میں ایک گناہ پڑ جاتا ہے ، جی نہیں ، معاملہ صرف اتنا ہی نہیں رہتا ، بلکہ اُن کے سارے ہی اچھے اعمال غارت ہوجانے والے بن جاتے ہیں ،
ثوبان رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِى يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا فَيَجْعَلُهَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا ::: میں اپنی اُمت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت والے دِن اس حال میں آئیں گے کہ اُن کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی ،تو اللہ عزّ و جلّ ان نیکیوں کو (ہوا میں منتشر ہوجانے والا) غُبار بنا(کر غارت کر)دے گا)))))
تو ثوبان رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا ‘‘‘‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لاَ نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لاَ نَعْلَمُ::: اے اللہ کے رسول ، ہمیں اُن لوگوں کی نشانیاں بتائیے ،ہمارے لیے اُن لوگوں کا حال بیان فرمایے ، تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمیں انہیں جان نہ سکیں اور ان کے ساتھ ہوں جائیں’’’’’
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللہِ انْتَهَكُوهَا:::وہ لوگ تُم لوگوں کے (دینی)بھائی ہوں گے اور تُم لوگوں کی جِلد (ظاہری پہچان اسلام )میں سے ہوں گے ، اور رات کی عبادات میں سے اُسی طرح (حصہ) لیں گے جس طرح تم لوگ لیتے ہو(یعنی تُم لوگوں کی ہی طرح قیام اللیل کیا کریں گے)لیکن اُن کا معاملہ یہ ہوگا کہ جب وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو تنہائی میں پائیں گے تو انہیں استعمال کریں گے)))))سُنن ابن ماجہ /حدیث/4386کتاب الزُھد/باب29، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
لہذا یاد رکھیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے خوف کا فقدان صرف ایک یا چند ایک گناہوں کے ارتکاب اور ان گناہوں کی سزا کا ہی سبب نہیں ہوتا بلکہ ساری ہی نیکیوں کے ضائع ہوجانے کا سبب بھی بن سکتا ہے ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ سے خوف میں کمی یا اُس کا فُقدان یقیناً ایک بیماری ہے جو اِیمان کو خاتمے تک لے جاتی ہے ،
علامہ محمد عبدالروؤف المناوی رحمہُ اللہ نے ‘‘‘‘‘ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر/حدیث رقم 1505 ’’’’’کی شرح میں یہ بھی لکھا ہے کہ ‘‘‘‘‘اگر دِل (اللہ کے)خوف سے بھر جائے تو جسم کے سارے ہی أعضاء گناہوں کے خِلاف مدافعت کرنے لگتے ہیں ’’’’’،
یعنی اگر اللہ سے خوف میں کمی یا اُس خوف کے ختم ہو جانے کی بیماری لگ جائے تو مریض کے جسمانی أعضاء گناہوں میں ملوث ہونے لگتے ہیں ، اس بیماری کی دواء دو چیزوں سے بنتی ہے ،
::::: (1) ::::: اپنے نفس پر مجاہدہ کرتے ہوئے اُسے سختی کے ساتھ اللہ کی ناراضگی اور اللہ کے عذاب کی یاد دہانی کرواتے رہنا ،
::::: (2) ::::: اور اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کے لیے دُنیا اور آخرت میں جو کچھ عذاب تیار کر رکھے ہیں اور دُنیا میں جو کچھ گناہ گاروں کو اللہ تعالیٰ جو عذاب دیتا ہے اُن میں غور فِکر کرتے رہنا ،اور اُن گناہ گاروں کو حال دیکھ کر ، حال جان کر عبرت حاصل کرتے رہنا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایسے بہت سے گناہ گاروں کا ذِکر اسی لیے فرمایا ہے کہ اللہ کے بندے اُن گناہ گاروں کا حال جان کر عبرت حاصل کریں ، مثلاً ،فرعون کو عذاب دینے کا ذِکر فرمایا (((((فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰ:::تو اللہ نے اُسے دُنیا اور آخرت کے عذاب میں پکڑ لیا )))))سُورت النازعات (79)/آیت25،
اور پھر اُس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ (((((إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ::: بے شک اس واقعے میں (اللہ سے )ڈرنے والے کے لیے بڑی عبرت ہے))))) سُورت النازعات (79)/آیت26،
گناہ گاروں کو اللہ کی طرف سے ملنے والے دُنیاوی اور اُخروی عذاب کی خبر جان کر وہ دِل تو ضرور نصیحت حاصل کرے گا ، جس دِل میں تقویٰ بچا ہو گا،کیونکہ یہ بھی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی دی ہوئی خبر ہے ،
یہودیوں کے ایک گروہ کو عذاب کے طور پر بندر بنا دینے کا ذِکر فرمانے کے بعد اِرشاد فرمایا (((((فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ::: پس ہم نے اُن لوگوں کے انجام کو اُس وقت کے لوگوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت بنا دِیا اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت بنا دیا)))))سُورت البقرہ(2)/آیت66،
اللہ جلّ و علا سے خوف کی کمی یا اُس سے خوف کے فقدان کی دواء کے مذکورہ بالا دو اجزاء کے ساتھ اگر ایک اور چیز بھی شامل کر لی جائے تو گناہوں کی جاذبیت سے لڑنے ، اور گناہوں سے بچنے کے لیے ناقابل بیان اور نا قابل تسخیر قوت کا حصول عین ممکن ہو جاتا ہے ، اور وہ تیسری چیز ہے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی ذات اور صِفات کی وہ معرفت جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے ہمارے لیے مہیا فرمائی ، یا اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اُن کی احادیث مبارکہ کے ذریعے ہمارے لیےمیسر فرمائی ، کیونکہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی صِفات کو ان دو ذرائع سے جانیں گے تو اِن شاء اللہ ہمارے دِلوں میں اللہ تعالیٰ سے خوف کے ساتھ ساتھ اُس کی محبت بھی داخل ہو جائے گی ، اوریُوں یہ ممکن ہو جائے گا کہ کبھی تو ہم اللہ سے خوف کی وجہ سے گناہوں سے دُور رہیں اور کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے گناہوں سے دُور رہیں ،
اور یہی ہے ’’’ خشیئت ‘‘‘، جسے عام طور پر خوف ہی کہا جاتا ہے ،
لیکن ‘‘‘ خوف ’’’ اور ‘‘‘خشیئت ’’’ میں ایک لطیف مگر بڑا أہم اور مضبوط فرق ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ‘‘‘ خوف ’’’ میں ‘‘‘خائف ’’’ اِدھر اُدھر بھاگ کر اُس سے بچنا چاہتا ہے جِس سے وہ خوف رکھتا ہو،

اور ‘‘‘ خشیئت ’’’ میں عِلم کے ذریعے وہ اُس چیز کے تکلیف دہ اثرات سے بچنے کی تدابیر اختیار کرتا ہے جِس چیز سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے ، اس کی مثال یوں سمجھے جیساکہ کوئی شخص کسی مرض سے بچنے کے لیے اُس جگہ کو ہی چھوڑ نے کی سوچنے لگے جہاں مرض ظاہر ہوا ہو ، جب کہ طب کاعِلم رکھنے والا کوئی ماہرطبیب ایسا نہیں سوچے گا بلکہ وہ اُس مرض کے علاج کے لیے دوا ء ڈھونڈے گا اور اس کا علاج کرے گا ،
غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں یہ ہی سمجھایا ہے کہ اُس کےجو بندے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اور صِفات کا علم اور معرفت رکھتے ہیں ، وہی اُس سے ڈرتے ہیں ، اور یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ جِس قدر اللہ کی ذات اور صِفات کا عِلم زیادہ ہو گا اُسی قدر اُس کی خشیئت میں بڑھے گی (((((إِنَّمَا يَخْشَى اللہ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ:::یقیناً اللہ سے تو اُس کے عالِم بندے ہی ڈرتے ہیں ، بے شک اللہ بہت زبردست اور بخشش کرنے والا ہے)))))سُورت فاطر (35)/آیت28 ،
امام ابن کثیر رحمہ ُ اللہ اپنی معروف تفسیر میں ، اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ‘‘‘‘‘إنما يخشاه حق خشيته العلماء العارفون به؛ لأنه كلما كانت المعرفة للعظيم القدير العليم الموصوف بصفات الكمال المنعوت بالأسماء الحسنى -كلما كانت المعرفة به أتمّ والعلم به أكمل، كانت الخشية له أعظم وأكثر :::اللہ کی معرفت رکھنے والے عالم لوگ ہی اللہ سے ڈرنے کے حق کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہیں ، کیونکہ جُوں جُوں (اللہ) العظیم ، القدیر، العلیم جو کہ کمال والی صفات سے موصوف ہے جن صِفات کی اسماء الحسنیٰ میں تعریف فرمائی گئی ہے ، جُوں جُوں (اِن صفات کےعلم کے ساتھ )اللہ کی معرفت، اور اللہ کے بارے میں عِلم کی تکمیل ہوتی جائے گی اُسی قدر اللہ سے خوف بھی بڑھتا اور زیادہ ہوتا جائے گا’’’’’،
دِلوں میں اللہ اللہ کی خشیئت کا حصول اور اس کا رہنا اللہ کی اُس معرفت کے بغیر ممکن نہیں ، جو معرفت اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتابوں میں دی ، اور جو معرفت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کی باتوں کے ذریعے دی، جو کہ ہم مسلمانوں کے لیے اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب قران کریم ،اور اللہ کے مقرر کردہ آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کے ذریعے دی ،
جی ہاں ، اللہ کی کتاب قران کریم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےصحیح ثابت شدہ فرامین اور افعال مبارکہ کے بغیر اللہ جلّ و علا کی ذات اور صِفات کی حق معرفت حاصل نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ سُنت اپنائی کہ اُس نے اپنے بندوں کے لیے اُس کی ذات اور صِفات کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنےنبیوں اور رسولوں کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں رکھا ، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی فرعون سے گفتگو کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا (((((وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ::: اور میں تجھے تیرے رب کی طرف راہنمائی کروں تاکہ تو (اُس سے )ڈرنے لگے)))))سُورت النازعات (79)/آیت 19،
اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیئت ایسی عظیم فائدہ مند صِفت ہے کہ اللہ کے حبیب ، اور اللہ کی تمام تر اولین اور آخرین مخلوق میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کی معرفت رکھنے والے اور سب سے بڑھ کراللہ کی خشیئت رکھنے والے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ، اُس کی خشیئت کے دائمی اور ہر حال میں موجود رہنے کا سوال کیا کرتے تھے کہ (((((اللَّهُمَّ وَأَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِى الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ::: اے اللہ اور میں اپنے ظاہر اور چھپے ہوئے ہر حال کے لیے تُجھ سے تیری خشیئت کا سوال کرتا ہوں)))))سُنن النسائی /حدیث /1313کتاب السھو/باب62،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
ہماری زندگیوں کے معمول میں سے یہ بھی ہے کہ کسی وقت کہیں اللہ کے بندوں سے ڈھکے چُھپے حال میں ، یا کہیں کسی وقت اللہ کے بندوں کے سامنے ہی ہم سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے ، یا ہم کوئی گناہ کرتے ہیں ، تو ایسی صُورت میں ہمیں ابلیس اور اس کے پیروکاروں کے کسی اور دھوکے کا شِکار ہونے کی بجائے سچی ندامت اور پھر سے نہ کرنے کے سچے اِرادے کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہیے ، اور استغفار یعنی اللہ سے اُس کی بخشش کا سوال کرنا چاہیے ،
معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں کوئی نصیحت فرمائیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((عَلیکَ بِتقوی اللہ ِ ما استطعتَ ، وَاذْكُرَ اللهَ عِنْدَ كُلِّ حَجَرٍ وَشَجَرٍ ، ومَا عملتَ مِن سُوءٍ فأحدث لهُ توبة ،السِّرُّ بِالسِّرِّ وَالْعَلاَنِيَةُ بِالْعَلاَنِيَةِ::: اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچتے رہنے کو لازم رکھو ، اور ہر پتھر اور ہر پودے کے پاس اللہ کا ذِکر کرتے رہو ، اور( اگر )کوئی گناہ کربیٹھو تو اس کے لیے (فوراً )توبہ (بھی) کرلو، لوگوں سے چھپے ہوئے(گناہ ) کے بدلے لوگوں سے چُھپ کر(ہی توبہ کرو) اور اعلانیہ(کیے ہوئے گناہ ) کے بدلے(توبہ بھی ) اعلانیہ کرو)))))امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، السلسلہ الصحیحہ /حدیث 3320،
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خشیئت بہت ہی عظیم اور بہت فائدے والی صِفت ہے ، اور اس صِفت کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ بندہ صِرف اور صِرف اللہ سے ڈرتا ہو، جب اُس کے آس پاس اللہ کے بندوں میں سے کوئی نہ ہو اور وہ اللہ کو بن دیکھے ، اس یقین کے ساتھ اپنے اندر اللہ کی خشیئت پاتا ہو کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے (((((مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ ::: جو کوئی رحمٰن کو بن دیکھے اُس ڈرا اور(اللہ کے پاس اللہ ہی کی طرف)رجوع کرنے والا دِل لے کر آیا)))))سُورت ق(50)/آیت 33،
اور اِرشاد فرمایا (((((إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ::: آپ تو اُسے ہی ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرنے والا ہو اور رحمٰن سے اسے بن دیکھے ڈرتا ہو، پس آپ ایسے شخص کو بخشش اور عزت والے اجر کی خوشخبری سنا دیجیے)))))سُورت یٰس (36)/آیت11 ،
اور اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقدس و پاکیزہ زبان سے یہ خبر ادا کروائی کہ (((((ثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ شُحٌّ مُطَاعٌ وَهَوًى مُتَّبَعٌ وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ، وَثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ خَشْيَةُ اللهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ، وَالْقَصْدَ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَكَلِمَةُ الْحَقِّ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ::: تین چیزیں ھلاک کر دینے والی ہیں(1)ایسا لالچ جس کا حکم مانا جائے ، اور (2)ایسی نفسانی(بری)خواہشات جن کی پیروی کی جائے، اور ، (3)خود پسندی ، اور تین چیزیں نجات دِلوانے والی ہیں(1)سب کے سامنے اور تنہائی میں اللہ کی خشیئت، اور ، (2)تونگری اور غریبی دونوں ہی حالات میں میانہ روی ، اور ، (3)خوشی اور غصے دونوں ہی کیفیات میں حق بات کرنا)))))درجہ صحت ‘‘‘حسن’’’، السلسلہ الصحیحہ / حدیث 1802،
غور فرمایے کہ اس حدیث شریف میں بھی اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے جو خبر ادا کروائی اُس میں تنہائی میں پائی جانے والی خشیئت اللہ کا ذِکر سب کے سامنے پائی جانے والی خشیئت اللہ سے پہلے فرمایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا فرامین مبارکہ کےعین مطابق اِس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ خشیئت اللہ کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ بندہ صِرف اور صِرف اللہ سے ڈرتا ہو، جب اُس کے آس پاس اللہ کے بندوں میں سے کوئی نہ ہو اور وہ اللہ کو بن دیکھے ، اس یقین کے ساتھ اپنے اندر اللہ کی خشیئت پاتا ہو کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے،
میں اِس بات کا ذِکر کرنا بھی بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی زندگی کے ہر حال اور ہر وقت میں خشیئت اللہ کو اپنے اندر موجود اور مہیا رکھنا اور اسے تقویت کے اسباب بہم پہنچاتے رہنا محض اضافی اعمال نہیں، یا نفلی اعمال میں سے نہیں ، بلکہ خشیئت اللہ کو اپنے دِلوں میں موجود رکھنا ہم پر فرض ہے ،
جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، کیونکہ ہمارے واحد لاشریک خالق و مالک اللہ عزّ وجلّ نے حکم فرمایا ہے کہ (((((وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ،،،،،ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ::: اور بے حیائی والے کاموں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کام ظاہری ہوں یا خُفیہ ہوں،،،،، اور یہ وہ کام ہیں جِن کا اللہ تُم لوگوں کو حکم دے رہا ہے ، تاکہ تُم لوگ (حق اور تمہاری ہی خیر کو)سمجھ سکو)))))سُورت الانعام (6)/آیت 151،
اور حکم فرمایا ہے کہ (((((قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ::: (اے محمد)آپ فرما دیجیے کہ بلا شک میرے رب نے بے حیائی والے کام حرام قرار دیے ہیں ، خواہ وہ کام ظاہری ہوں یا چُھپے ہوئے ہوں ، اور گناہ اور نا حق زیادتی کرنا (بھی حرام قرار دیے ہیں)اور اللہ کی طرف سے کسی واضح ثبوت کے بغیر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا (بھی حرام قرار دیا ہے)اور یہ بھی (حرام قرار دِیا ہے) کہ تُم لوگ اللہ سے وہ بات منسوب کرو جو کچھ اللہ نے نہیں فرمائی)))))سُورت الاعراف (7)/آیت33،
اور یہ سبق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو سکھاتے ، جیسا کہ ابی ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے اِرشاد فرمایا(((((اتَّقِ اللهَ حَيْثُمَا كُنْتَ وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ:::جہاں کہیں بھی ہو (یعنی لوگوں میں ہو یا تنہائی میں ) اللہ (کی ناراضگی اور عذاب )سے بچتے رہو ، اور (اگر کوئی)گناہ (ہو جائے)تو اُس کے پیچھے پیچھے نیکی بھیجو وہ گناہ کو مٹا دے گی ،اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق و کِردار والا معاملہ رکھو))))) سُنن الترمذی ،حدیث2115،کتاب البر والصلہ ،باب55، امام الترمذی رحمہُ اللہ اور امام الالبانی رحمہُ اللہ نے حسن قرار دیا ،
معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ نے بھی اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یہی سبق دیے جانے کی روایت کی ہے ، مُسند احمد ، حدیث 22709، مسند معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 77، اور یہ روایت بھی صحیح ہے ،
خشیئت اللہ کے ثمرات میں سے سب سے بڑا پھل یہ ہے کہ خشیئت اللہ کا حامل ہی اُن میں شامل ہوسکتا ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین مبارکہ سے نصیحت حاصل کرتے ہیں ، اور جن میں یہ صِفت نہیں ہوتی وہ اللہ کے کلام پاک سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اللہ کا کلام پڑھنے اور سننے کے باوجود گمراہ ہوتے ہیں،
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے (((((مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰOإِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ::: (اے محمد) ہم نے یہ قران آپ پر اس لیئے نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں O بلکہ اُس شخص کو نصیحت دینے کے لیے (نازل کیا) ہے جو (اللہ سے )ڈرتا ہو)))))سُورت طہٰ (20)،آیات 2، 3،
اور اِرشاد فرمایا ہے (((((سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ ::: جو تو اللہ سے ڈرتا ہے وہ نصیحت حاصل کرے گا))))) سُورت الاعلیٰ (87)،آیت10 ،
اور پھر جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ سے نصیحت حاصل کرے گا تو یقیناً وہ آسانی سے گناہوں کو شکار نہیں ہو گا ، بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ مجاھدہ کرتا رہے گا اور خشیئت اللہ کے دوسرے بڑے پھل کا حقدار ہو جائے گا جو پھل اُسے آخرت میں ملنے والا ہے ،
اس کی دلیل کے طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے دو فرامین مبارکہ تو میں ابھی ابھی ذِکر کرچکا ہوں ،
ایک تو یہ فرمان مبارک ہے (((((مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ ::: جو کوئی رحمٰن کو بن دیکھے اُس ڈرا اور(اللہ کے پاس اللہ ہی کی طرف)رجوع کرنے والا دِل لے کر آیا)))))سُورت ق(50)/آیت 33،
اس کے سیاق و سباق میں اس آیت کریمہ میں مذکور خشیئت اللہ رکھنے والوں کے لیے اللہ کی جنت میں داخلے اور جنت کے انعامات ملنے کی خوشخبریاں ہیں ،
اور دوسری دلیل یہ فرمان شریف ہے (((((إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ::: آپ تو اُسے ہی ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرنے والا ہو اور رحمٰن سے اسے بن دیکھے ڈرتا ہو، پس آپ ایسے شخص کو بخشش اور عزت والے أجر کی خوشخبری سنا دیجیے)))))سُورت یٰس (36)/آیت11 ،
اور تیسری دلیل اللہ جلّ و علا کا یہ فرمان مبارک ہے (((((جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ :::اُن لوگوں کے رب کے پاس اُن لوگوں کی جزاءہمیشہ ہمیشہ رہنے والے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، وہ لوگ اُن باغات میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، یہ سب کچھ اُس کے لیے ہے جِس نے اپنے رب سے خوف رکھا)))))سُورت البینہ(98)/آیت8 ،
تو حاصل کلام یہ ہوا کہ خشیئت اللہ وہ صِفت ہے جو کسی اِیمان والے کو اُس کے نفس میں آجانے والے گناہوں کے خیالات اور اسے گناہوں کی طرف مائل کرنے والے وسواس کو مات دینے والی ہے ، جب خشیئت اللہ اپنے اعلی ترین درجہ پر پہنچ جائے تو پھر اس سے موصوف اِیمان والا گناہوں کے لیے ایک نا قابل تسخیر ہستی بن جاتا ہے اور اپنے اللہ کی توفیق سے اپنے نفس میں آنے والے گناہوں کے شائبوں کو کچل کر رکھ دیتا ہے ،اور کسی بھی طور اُس کے سامنے نہیں ٹھہر پاتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اُس بندے کو گناہوں کا شِکار ہونے سے محفوظ کر دیتا ہے ۔والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ ’’’ یہاں ‘‘‘ سے اتارا جا سکتا ہے ۔
 
اس بارے میں صوفیاء نے بہت نفیس بات کی ہے۔۔انکا کہنا ہے کہ نفسانی خواہشات اور جہنم دونوں کی فطرت ایک ہے یعنی دونوں حل من مزید کے نعرے لگاتے ہیں۔ نفس بھی خواہشات سے سیر نہیں ہوتا اور جہنم کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب سارے جہنمیوں کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا تب بھی دوزخ سیر نہیں ہوگا اور کہے گا کہ حل من مزید؟ یعنی "ہے کوئی اور؟"۔چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوزخ پر ایک خاص تجلی فرمائیں گے جسے بخاری کی حدیث شریف کے مطابق یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم دوزخ میں رکھ دیں گے جسکے بعد اسکی بیقراری کو قرار آجائے گا اور اطمینان حاصل ہوجائے گا اور ہل من مزید کا تقاضا ختم ہوجائے گا۔۔۔چنانچہ صوفیاء کا یہ کہنا ہے کہ نفسانی خواہشات کے جہنم کو بھی سرد کرنے کی یہی ایک سبیل ہوسکتی ہے کہ اس پر ایک ایسی تجلی واقع ہو جو نفس کو نفسِ مطمئنہ میں بدل دے۔۔۔اور جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم جب آگ میں داخل ہوئے تو اللہ کے ھکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی ، یا نار کونی برداّ و سلاما۔۔۔اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا۔۔۔چنانچہ صوفیاء کا یہ ماننا ہے کہ نفس کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کسی خلیل صفت کا قدم اس میں آنا ضروری ہے۔۔۔۔ورنہ بقول سلطان باھو۔۔۔ظالم نفس نہ مردا ھُو۔۔۔:)
 

تلمیذ

لائبریرین
اس موضوع پر تحقیق کے ساتھ تحریر کردہ مستند حوالوں کا حامل ایک انتہائی جامع مضمون ہے جوقارئین کے لئےیقیناً اثر انگیز ثابت ہوگا۔ اللہ تعالےٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو عمل کرنے کی توقیق عنایت فرمائے۔
عادل سہیل صاحب، یہاں پر پوسٹ کرنے کے لئےآپ کا شکریہ، جزاک ا للہ!
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی یہ ایمان پرور مضمون فراہم کرنے بہت شکریہ اللہ رب العزت آپ کی نعمتوں میں برکت دے اور اپنا شکرگزار بندہ بنائے ۔
آمین

اس بارے ایک سوال ہے کہ قرآن میں بیان کردہ قصص عموما تو کافروں کے ہیں قرآن پڑھنے والا مسلمان تو ایسے گناہوں کی طرف کم ہی پہنچتا ہے یعنی خدائی کا دعویٰ، انبیاء علیہم السلام کی تضحیک اور ایمان نہ لانا۔
ان واقعات سے عبرت کیسے؟
اس سوال کو تنقید کے تناظر میں نہ دیکھیں۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی یہ ایمان پرور مضمون فراہم کرنے بہت شکریہ اللہ رب العزت آپ کی نعمتوں میں برکت دے اور اپنا شکرگزار بندہ بنائے ۔
آمین

اس بارے ایک سوال ہے کہ قرآن میں بیان کردہ قصص عموما تو کافروں کے ہیں قرآن پڑھنے والا مسلمان تو ایسے گناہوں کی طرف کم ہی پہنچتا ہے یعنی خدائی کا دعویٰ، انبیاء علیہم السلام کی تضحیک اور ایمان نہ لانا۔
ان واقعات سے عبرت کیسے؟
اس سوال کو تنقید کے تناظر میں نہ دیکھیں۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی دعا قبول فرمائے اور آپ کو اس بھی بہترین عطا فرمائے جس کے دعا آپ نے میرے لیے کی ہے ،
محترم بھائی ، آپ کے سوال کا جواب اسی مضمون میں موجود ہے ،میں نے لکھا ہے ،،،
::::: (2) ::::: اور اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں کے لیے دُنیا اور آخرت میں جو کچھ عذاب تیار کر رکھے ہیں اور دُنیا میں جو کچھ گناہ گاروں کو اللہ تعالیٰ جو عذاب دیتا ہے اُن میں غور فِکر کرتے رہنا ،اور اُن گناہ گاروں کو حال دیکھ کر ، حال جان کر عبرت حاصل کرتے رہنا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایسے بہت سے گناہ گاروں کا ذِکر اسی لیے فرمایا ہے کہ اللہ کے بندے اُن گناہ گاروں کا حال جان کر عبرت حاصل کریں ، مثلاً ،فرعون کو عذاب دینے کا ذِکر فرمایا (((((فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰ:::تو اللہ نے اُسے دُنیا اور آخرت کے عذاب میں پکڑ لیا )))))سُورت النازعات (79)/آیت25،
اور پھر اُس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ (((((إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ::: بے شک اس واقعے میں (اللہ سے )ڈرنے والے کے لیے بڑی عبرت ہے))))) سُورت النازعات (79)/آیت26،
گناہ گاروں کو اللہ کی طرف سے ملنے والے دُنیاوی اور اُخروی عذاب کی خبر جان کر وہ دِل تو ضرور نصیحت حاصل کرے گا ، جس دِل میں تقویٰ بچا ہو گا،کیونکہ یہ بھی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی دی ہوئی خبر ہے ،
یہودیوں کے ایک گروہ کو عذاب کے طور پر بندر بنا دینے کا ذِکر فرمانے کے بعد اِرشاد فرمایا (((((فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ::: پس ہم نے اُن لوگوں کے انجام کو اُس وقت کے لوگوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت بنا دِیا اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت بنا دیا)))))سُورت البقرہ(2)/آیت66،
۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ ایسی مثالوں سے مراد یہ نہیں کہ جو لوگ یہ ہی کام کریں گے ان کے انجام میں عبرت ہے ، بلکہ عمومی طور پر گناہ گاروں کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی تعلیم ہے ،
مذکورہ بالا دو مثالوں میں سے پہلی مثال تو الوہیت کے دعوے کا گناہ کرنے والی کی ہے ، تو دوسری مثال اللہ کے ایک حکم کا عملی انکار کرنے کا گناہ کرنے والوں کی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلی قوموں کے واقعات اسی لیے بیان فرمائے کہ اللہ جل و علا نے ان میں سب ہی درست عقل والوں کے لیے عبرت رکھی ہے، ((((( لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ::: یقیناً اُن (پہلی قوموں) کے واقعات میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے ))))) سورت یوسف ، آیت ۱۱۱،
پس ان سب ہی واقعات میں عبرت ہے ، خواہ اُن میں بیان کردہ گناہ مسلمانوں میں نہ ہوتا ہو تو بھی اُس گناہ کے مسلمانوں میں نہ ہوسکنے کی تاکید نہیں ، اوردوسری بات یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی یہ کتاب سارے ہی انسانوں کے لیے نازل فرمائی ہے ، پس اس میں بیان کیے گئے واقعات سب ہی کے لیے عبرت کی دعوت لیے ہوئے ہیں ،
موجو بھائی تنقید اگر مثبت ہو تو میں اسے بھی خوش آمدید کہتا ہوں ، لہذا اگر آپ میری کسی بات پر کوئی مثبت اور علمی دلائل پر مبنی تنقید بھی کریں تو پیشگی خوش آمدید ، والسلام علیکم۔
 
Top