گلِ سنگم گلِ سنگم چہ بگم از دلِ تنگم

گلِ سنگم گلِ سنگم چہ بِگَم از دلِ تنگم
مثلِ آفتاب اگر بر من نتابی سردم و بی رنگم

ہمہ آہم ہمہ دردم مثلِ طوفان دورِ گردم
بادِ مستم بے تو صحرا می پیچم دورِ تو مے گردم

مثلِ باران اگر نباری خبر از حالِ من نداری
بے تو پر پر میشم دو روزہ دلِ سنگت بر ام می سوزہ


ترجمہ:
میں پتھر کا بنا ہوا پھول ہوں، میں پتھر کا بنا ہوا پھول ہوں، میں اپنے دلِ تنگ کے بارے میں کیا کہوں؟
اگر تو مجھ پر مثلِ آفتاب نہیں چمکتا تو میں سرد اور بے رنگ ہوں۔

میری فریاد اور میرا درد ایک طوفان کی طرح میرے گرد ہے۔
میں مستاں ہوا ہوں جو تیرے بغیر پیچ و تاب کھاتی ہے اور تیرے گرد سرگرداں رہتی ہے۔

آخری شعر کے صحیح ترجمے کے لئے برادرم حسان خان سے درخواست کروں گا۔

ایرانی خوانندہ ہایدہ کی آواز میں یہ گانا اس ویڈیو پر سنا جاسکتا ہے
 
آخری تدوین:
ایرانی فارسی میں "ہ" کو "ے" پڑھا جاتا ہے
"ے" ایرانی فارسی میں موجود نہیں، لہٰذا اسے "ی" پڑھا جاتا ہے۔

ہایدہ کا گانا مکمل طور پر ایرانی فارسی میں ہے، جبکہ افغان خوانندہ احمد ظاہر نے اس گانے میں دو تین لفظوں کو ایرانی فارسی کی طرز پر بولا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

1) بے رنگ کو بی رنگ
2) مے پَیچم کو می پِیچم
3) دو روزہ کو دو روزے
4) سوزہ کو سوزے
 

حسان خان

لائبریرین
ہمہ آہم ہمہ دردم مثلِ طوفان دورت گردم
بادِ مستم بے تو صحرا می پیچم دورِ تو مے گردم
همه آهم همه دردم مثلِ طوفان پُرِ گردم
بادِ مستم که تو صحرا می‌پیچم و دورِ تو می‌گردم
میں پوری کی پوری آہ و درد ہوں، اور طوفان کی طرح گَرد سے پُر ہوں۔
میں بادِ مست ہوں کہ صحرا میں تاب کھاتی ہوں اور تمہارے گِرد گھومتی ہوں۔

تہرانی گفتاری فارسی میں تُو 'در' کو کہتے ہیں۔ تو صحرا یعنی در صحرا۔
پس نوشت: تہرانی فارسی میں 'تم' والے 'تو' کا تلفظ to جبکہ 'در' والے 'تو' کا تلفظ tu ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مثلِ باران اگر نباری خبر از حالِ من نداری
بے تو پر پر میشم دو روزہ دلِ سنگت بر ام می سوزہ
مثلِ بارون اگه نباری خبر از حالِ من نداری
بی تو پرپر می‌شم دو روزه، دلِ سنگت برام می‌سوزه
اگر تم بارش کی طرح نہیں برستے تو تم میرے حال پر مطلع نہیں ہو۔ میں تمہارے بغیر دو روز میں مرجھا جاؤں گی اور پھر تمہارا سنگی دل میرے لیے جلے گا۔

بارون = باران
اگہ = اگر
می‌شم = می‌شوم
برام = برایم/برائے من
می‌سوزه = می‌سوزد
 
آخری تدوین:
بےانتہاء سپاسگزار ہوں کہ ہماری راہ نمائی فرمائی۔
احمد ظاہر اور ہایدہ کا گائے ہوئے گانوں کا متن باہمدگر قدرے مختلف ہیں۔ جیسے بارون کو احمد ظاہر نے باران کہا۔
کیا یہ پر پر شدن کا مطلب افسردن ہے؟ اور کیا یہ صرف تہرانی فارسی میں مستعمل ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
احمد ظاہر اور ہایدہ کا گائے ہوئے گانوں کا متن باہمدگر قدرے مختلف ہیں۔ جیسے بارون کو احمد ظاہر نے باران کہا۔
فارسی میں جو الفاظ 'ان' اور 'ام' پر ختم ہوتے ہیں، تہرانی فارسی میں اُن کی آواز 'ون' اور 'وم' میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثلاً:
باران > بارون
آرام >آروم
ایک افغان کے لیے شاید یہ تغیر عجیب ہو، اسی لیے احتمالاً احمد ظاہر نے اپنے کابلی لہجے کے مطابق باران پڑھا ہے۔
کیا یہ پر پر شدن کا مطلب افسردن ہے؟ اور کیا یہ صرف تہرانی فارسی میں مستعمل ہے؟
پرپر شدن یعنی پتا پتا ہو کر بکھر جانا۔اس معنی میں شاید یہ ایران ہی میں مستعمل ہے۔
فی الاصل یہ ایک ایرانی نغمہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ہایدہ کا گانا مکمل طور پر ایرانی فارسی میں ہے
یہ نغمہ در اصل ایرانی ہی ہے۔ اِس نغمے کے الفاظ 'بیژن سمندر' نے لکھے تھے جب کہ موسیقی 'انوشیروان روحانی' کی ترتیب دادہ ہے، اور دونوں کا تعلق ایران سے ہے۔ اِسی باعث اِس میں تہرانی گفتاری فارسی کا استعمال ہوا ہے۔
 
Top