گاندھی گارڈن ایک طنزیہ:از: محمد خلیل الرحمٰن

آپ بالکل کامیاب رہے ہیں انکل جی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ انگریزی ناول ڈاون لوڈ کر لیا ہے۔
اینمل فارم نہیں پڑھا لیکن یہ اس سے اچھا ہوگا
لیجیے اصل ناول پڑھے بغیر دو قیمتی سرٹیفکیٹ مل گئے۔

ہمیں یوں تو یہ غلط فہمی ہرگز نہیں کہ ہماری تخلیق اصل کی عشرِ عشیر بھی ہوگی، لیکن جیہ بٹیا اور راشد اشرف بھائی آپ دونوں کے سرٹیفکیٹ بہت پیارے لگے۔ خوش رہیے
 

راشد اشرف

محفلین
اس تحریر کو پڑھتے وقت کچھ دیر کے لیے میں شہر کراچی کے ہنگاموں سے دور چلا گیا، ایک ایسی جگہ جہاں چڑیا گھر کے جانوروں کا راج ہے، ایک مخصوص پیرائے میں وہ آپ کو باتوں باتوں میں بہت کچھ بتاتے ہیں، کئی اہم مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ تحریر کا یہی کمال ہے کہ دلچسپی بنی رہتی ہے۔
یقینا اسے شائع ہونا چاہیے
 

راشد اشرف

محفلین
۔۔۔۔۔۔ببر شیر نے اپنا گلہ صاف کیا تو سارا چڑیا گھر لرز اُٹھا۔ پھر ا س نے اپنی پاٹ دار آواز میں گانا شروع کیا۔

۔۔۔۔۔۔ایک جانب جونا شیر جو آج کل گویا سارے زمانے سے خفا تھا، منہ موڑے لیٹا تھا، اسکے قریب ہی اس کی بہن پھاتاں شیرنی لیٹی تھی۔ایک طرف کرنالی شیر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔باورچی خانے سے متصل کال کوٹھری سے کچی شراب کی بوتل اُٹھائی باقی ماندہ شراب کو تلچھٹ تک چاٹ گئے۔پھراِس بوتل کو یونہی فرش پر لڑھکاتے ہوئےدبے دبے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھے۔

۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی کوئی جانور نیند میں بڑبڑانے لگتا ۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا
پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا

یہ فقرے مزہ دے گئے
 
اس قدر معلوماتی ،دلچسپ اور خوبصورت تحریر سے میں کیسے لاعلم رہ گیا۔آج دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی چاچو نے کیا خوب لکھا ہے ۔پڑھ رہا ہوں اور عش عش کر رہا ہوں ۔بہت عمدہ ہے حالانکہ ابھی پوری نہیں پڑھی ہے ۔آدھا ہی پڑھ سکا۔تعریف نہ کرنا ناانصافی ہوگا اس لئے سوچا مکمل کرنے سے پہلے ہی اتنی اچھی تحریر پر مبارکباد دے دوں ۔
 
قیصرانی بھائی جان کہاں ہیں آپ
اس کو ضرور پڑھئے کا ۔آپ پسند کریں گے کہ آپ کا یہ پسندیدہ موضوع ہے شاید۔

جزاک اللہ جناب

قیصرانی بھائی تو پڑھ چکے ہونگے اسے :) :)

جی ہاں بالکل پڑھ چکے ہیں قیصرانی بھائی بلکہ زبردست کی ریٹنگ بھی دے ہیں۔

خوش رہیے دونوں حضرات۔ اللہ رب العزت کے حضور آپ دونوں کے لیے دعائیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
۔ انھیں ببر شیر، جونا شیر اور کرنالی شیر کی یاد آتی لیکن وہ اسے ایک بھولا بسرا خواب سمجھ کر نظر انداز کردیتے۔ کبھی کبھی کوئی جانور نیند میں بڑبڑانے لگتا ۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا
پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا
دوسرے جانور اسے سن کر حیران رہ جاتے۔ شاید یہ بے معنی قسم کے الفاظ انھوں نے پہلے بھی سنے تھے، یا شاید انھوں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ کچھ الفاظ تو اِس قدر عجیب تھے کہ جن کو سن کر اِن کی چیخیں نکل جایا کرتیں مثلاً​
چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا​
جن جانوروں کے پنجرے پانی کی ٹنکی کے سامنے تھے، وہ دیکھتے تھے کہ اِس ٹنکی پر جانورستان کا انوکھا نعرہ درج تھا۔’’ تمام جانور آپس میں برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں‘‘۔ بندروں کو یقین تھا کہ کسی زمانے میں اس ٹنکی پر اور کچھ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا لیکن اُن کے معصوم ذہن اس سے آگے سوچنے سے معذور تھے۔ اب تو یہی ان کا حال تھا اور یہی ان کا مستقبل۔​
بہت خوبصورت تحریر۔ خاص کر یہ آخری پیراگراف تو جیسے دل کو سنسان سا کر گیا۔ مجھے لگ رہا ہے جیسے کچھ کھو گیا ہے۔ جیسے ،جیسے کوئی محرومی ہے۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم پہ رحم کر۔ ہمارے پاکستان پہ رحم کر۔ ہم جیسے بھی ہیں،ہم جیسے بھی ہوں۔۔۔۔۔۔تُو تو اللہ ہے۔ تُو تو رب ہے۔
آپ نے تو رلا دیا خلیل الرحمٰن بھائی!
کوئی ایسی تحریر بھی تو دیں جس میں امیدیں ہوں، تعبیریں ہوں،۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔مزاحیہ نہیں۔۔۔۔۔امید بھری۔۔۔۔میرا بڑا دل چاہتا ہے،چاہ رہا ہے۔۔۔۔۔ایسی باتیں سننے کو،پڑھنے کو۔۔۔۔سوچنے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسم سے بہت دل چاہتا ہے۔۔۔۔
 
بلا شبہ بہترین اور عمدہ نثری پیروڈی ہے۔ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تحریر کی شگفتگی اور تازگی برقرار ہے ۔طنز و مزاح سے بھر پور ،چٹ پٹی اور مصالحے دار ،بہت بہت مبارک باد ایسی زبردست اور اعلی تخلیق پر۔
 
بلا شبہ بہترین اور عمدہ نثری پیروڈی ہے۔ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تحریر کی شگفتگی اور تازگی برقرار ہے ۔طنز و مزاح سے بھر پور ،چٹ پٹی اور مصالحے دار ،بہت بہت مبارک باد ایسی زبردست اور اعلی تخلیق پر۔

جزاک اللہ اور آداب محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی۔

ہمارے پانچ سال پرانے دھاگے کو دوبارہ منظرِ عام پر لانے کا بھی شکریہ قبول فرمائیے۔
 

محمد مسلم

محفلین
نئے پاکستان بننے کے بعد شدت سے اس کہانی کو دوبارہ پڑھنے کا شوق ہوا، سو دوبارہ تلاش کر کے پڑھا، نئے سرے سے مزا آیا۔
 
Top