کیکر کے کانٹے پھول اور دوستی

میرے جاننے والے دو دوست جو اتفاقاً بٹ بھی تھے کیسی بات پر ایک دوسرے سے ناراض ہوگئے. دونوں اچھے دوست تھے یا یوں کہیئے کہ دونوں میں گاڑی چھنتی تھی. خالد بٹ اور عمران بٹ دونوں خانیوال پنجاب کے رہنے والے ہیں. ایک ہی شہر سے تعلق رکھنے کیوجہ طیبعت پسند و ناپسند بھی تقریباً ایک جیسے تھے یا نظر آتے تھے. دونوں ا سٹوڈنٹ ویزہ پر مقیم تھے لیکن تعلیم کرنے کے بعد پاکستان جانے کے بجائے یہی پر سیٹل ہونے کی کوشش کر رہے تھے. دونوں میں تھوڑا سا فرق انداز گفتگو کا تھا خالد بٹ خانیوال کے شہری علاقے جبکہ عمران شہر کے اطراف کے رہنے والے تھے. شاید یہی وجہ تھی کہ خالد کی گفتگو میں گالیوں کا بے وجہ استعمال موجود تھا. عمران کم گو اور حد سے زیادہ مہذب تھا. دو مہینے پہلے خالد ویزہ کی اپیل مسترد ہونے پر خانیوال سدھار گئے. عمران نے ویزہ مسترد ہونے پر افسردہ ضرور ہوئے لیکن ویزہ میں چند ترامیم کرکے نئے وکیل کے ذریعہ اپیل دائر کردی. کچھ دن پہلے عمران سے ملاقات ہوئے تو عمران سے ناراضگی کیوجہ دریافت کرنے کے ساتھ اس کو خالد کو الوداع تک نہ آنے پر شرمندہ کرنا چاہا تو عمران بٹ کہنے لگا ” حیدر بھائی خالد بہت اچھا ادمی ہے وہ ایک شریف اور بہت باعزت خاندان کا چشم و چراغ ہے. میں اس سے یہاں یونیورسٹی میں ملا کچھ عرصے بعد کچھ اور سٹوڈنس کے ساتھ ہم ایک گھر میں رہنے لگے. خالد کی کچھ عادتیں بہت بری تھی وہ کھبی ہنسی مذاق تو کھبی غصے میں گالیاں دینے باز نہیں آیا میں نے اٌسے بہت سمجھایا لیکن وہ میری بات سمجھنے کی بجائے یہ کہہ کر مذاق میں اٌڑاتا دیتا تھا کہ یار آگر میں تمہیں کھبی “کتا” کہو تو اس کا مطلب “کتا” نہیں بلکہ کتے کا بھونکنا یا اسکا حریص پن ہوتا ہے. آپ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر مت لیا کر. خالد کی دوسری کمزوری اسکا ہر بات اپنا احسان جتانا ہوتا تھا. میں اسکا کوئی کام کرتا تھا تو وہ معمول تھا لیکن جس دن وہ کوئی کام کرتا وہ اسے ہر دوسرے بات میں مجھے یاد دلاتا. تیسری کمزوری اسکا اپنا پسند و ناپسند مجھ پر مسلط کرنا تھا. کہاں جانا ہے کیا کھانا ہے کس کو گھر مہمان بنانا اور کس کو نہیں سب اختیار اسکا تھا”. تھوڑے دیر رکنے کے بعد عمران نے میرے کندھے پر ہاتھ رکتے ہوئے کہا” حیدر بھائی میں اسکا دوست بن کر آیا تھا وہ مجھے اپنا ذاتی ملازم سمجھ بیٹھا. اٌسے میرے جذبات خیالات اور احساسات کا کوئی خیال نہیں تھا. اس نے کھبی مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ میری لئے خالد کی مثال کیکر کی درخت کی تھی. میں دوستی کی خاطر کیکر پر چڑھ بیٹھا میں اس کی دوستی کو مسخر کرنا چاہتا تھا. لیکن وہ کیکر تھا. میں کیکر کے پھولوں کی خوشبوں سونگھنا چاہتا تھا لیکن میں یہ بھول گیا تھا کہ کیکر کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے. میں اپنے ہاتھ لہولہان کر بیٹھا میرا چہرا خراشوں سے بھر گیا. میری عزت اور خودی کی دامن جیسے مجھے پھولوں سے بھرنا تھا کانٹوں سے تار تار ہوگئی. پھول “انا” اور” تکبر” کے جن پتلی شاخوں میں تھے وہ مبری بردباری اور انکساری کا وزن اٌٹھانے کی قابل نہیں تھی. میں کئی سال اپنے زخم چاٹتا رہا لیکن انا سے بھرے پھول میرے پاس آنے کی بجائے تکبر کی شاخوں پر سوکھ گئے. اچھا ہوا وہ چلا گیا مجھے اسے الوداع نہ کہنے کا کوئی افسوس نہیں. حیدر بھائی ایک دن وہ ٹی وی پر چینل بدل رہا تھا مجھے غصہ آیا اور اٌٹھ کر اپنے کمرے میں سونے کی کوشش کرنے لگا اسکو میری یہ جسارت بہت بری لگی. اس نے میرے کمرے میں آکر مجھے مغلظات سنانے کے بعد میری ماں باپ کو بھی چند گالیاں دے ڈالی. میں نے اٌسی دن فیصلہ کر لیا تھا کہ خالد کے “غصے” اور “مذاق” کی کوئی “حد” نہیں. دوستی میں شکواہ شکایت نارمل بات ہے لیکن یو ذلیل کرنا اور پھر میرے ماں باپ نے کیا غلطی کی تھی؟ حیدر بھائی غلطی میری تھی آگر میں پہلے گالی پر اسے ایک تھپڑ لگا دیتا تو یہ بات اتنی دور تک نہ پہنچتی
 
Top