کیا بسم اللہ کے لئے 786 استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اگر یہ علم اس پائے کا ہے تو میں انتہائی سنجیدگی سے اس کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔ پر یہاں اس دھاگے میں نہیں کیوں کہ اس دھاگے کا مزاج ڈیبیٹ کی شکل لئے ہوئے ہے۔ بہتر ہوگا کہ اہل علم حضرات اس پر ایک دھاگہ کھول لیں۔ اور جزباتیت سے ہٹ کر حقیقت پسندی سے اس علم کا تعارف، اس کی تاریخ، فوائد و نقصانات، مصرف، اس کی اصلی شکل، عقلی توجیہات اور سب سے آخر میں اسلامی تناظر میں اس کا استعمال۔ از راہ مہربانی آخری بات کو آخری ہی رکھا جائے کیوں کہ جیسے اس اسٹیج تک بات پہونچے گی، تضاد و فساد شروع ہو جائیں گے۔ اور دھاگہ مقفل کرنے تک کی نوبت آجائے گی۔ مجھے امید ہے کہ اگر یہ واقعی سنجیدہ علم ہوا تو اس شکل میں‌ ہرگز نہیں ہوگا جس میں یہ اب ہے۔ اور از راہِ‌ مہربانی حقائق بیان کریں‌، مخاطب کو منوانے کی سعی لا حاصل نہ کریں۔

ایسے ہی ایک علم دست شناسی کے ضًن میں سوال کیا تھا میں نے۔ کیوں‌کہ اس کی بھی اصلی شکل جاننی چاہی تھی۔ پر جو سب سے اوّل اوّل تھے وہی نہ جانے کہاں چلے گئے۔ اور میں آج بھی تشنہ ہوں۔

والسلام!
 

طالوت

محفلین
اگر قرانی آیات کی جگہ اعداد قابل قبول ہیں تو کمال اتا ترک کو عربی کی بجائے ترکی میں عبادات کا حکم دینے پر لعنت ملامت کیوں ؟
جواز مقصد کا نہ دیجیئے گا ۔۔
وسلام
 
علم جفر ایک نہایت نفیس فن اور حضرات اہلبیت علیہم الرضوان کا علم ہے۔
کتاب"جفر جامع" میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے ما کان ومایکون تحریر فرما دیا۔
علم جفر میں لکھی گئی اسلاف کی تصانیف کا تذکرہ۔

جفر بیشک نہایت نفیس جائز فن ہے حضرات اہلبیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کا علم ہے ۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کا اظہار فرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اسے معرض کتابت میں لائے۔کتاب مستطاب جفر جامع تصنیف فرمائی۔علامہ سید شریف رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں:امام جعفر صادق نے جامع میں ماکان وما یکون تحریر فرما دیا۔(شرح المواقف المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران 22-6)
سیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ نے "الدرالمکنون و الجوھرالمصئون" میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدنا آدم و سیدنا شیث وغیرہما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور ان میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔( الدرالمکنون و الجوھرالمصئون)
عارف باللہ سیدی امام عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے ایک رسالہ اس کے جواب میں لکھا۔اس کا انکار نہ کرے گا مگر ناواقف یا گمراہ متعسف۔
السلام علیکم ، بھائی رضا صاحب """ ما کان و ما یکون """ کا کیا معنی و مفہوم ہےآپ کے ہاں ؟؟؟
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے کس سے یہ علم سیکھا تھا ؟؟؟
اور کیا وہ ایسے تھے کہ خیر کی بات کو صرف خواص تک پہنچاتے ؟؟؟ مجھے تو ایسی بات امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی شان امانت کے خلاف لگتی ہے ،
اور میرے محترم بھائی ، اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی امت پر اللہ کے بڑے بڑے انعامات میں سے ایک """ علم اسماء الرجال """ بھی ہے ، کسی کے کچھ لکھ دینے اور بات کو کسی سے جوڑ دینے سے بات واقعتا اس کی نہیں مانی جاتی ،
ایک بہت بنیادی سی بات ہے کہ اگر اللہ سبحانہ و تعالی کے ہاں ناموں کو ارقام میں لکھا پڑھا جانا اچھا ہوتا تو اللہ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذریعے اس کی تعلیم بھی کرواتے ، جیسا کہ ہر خیر والے کام کی تعلیم کروا دی ، اور دین مکمل فرما دیا ، اب اگر خواص اور عوام اور ظاہر اور باطنی وغیرہ کی بات کی جائے تو بھائی اس قسم کے فلسفے کی براہ راست زد کس کے عدل و انصاف اور رحمت و شفقت پر پڑتی ہے ، اور کس کی امانت و صداقت ہر ، ذرا غور فرمایے ، و السلام علیکم۔
 
جب کبھی میں یہ بات کہیں سنتا ہوں یا پڑھتا ہوں کہ قرآن کے کچھ خاس‌باطنی معنی ہیں یا تصوف شریعت کے تابع و معاون ہونے کے بجائے شریعت سے جداگانہ کوئی حقیقت رکھتا ہے یا ایسے ہی علم جفر وغیرہ کے بارے میں تو مجھے قدرت اللہ شہاب مرحوم کی ایک بات بہت یاد آتی ہے دیکھیئے بڑے پتہ کی بات ہے
یہ تو دوکاندار پیروں فقیروں کی منگھڑت ہے کہ بیعت کے بغیر وہ خاص اسرار نہ بتائیں گئے۔وہ اسرار ہی کونسے ہیں جن کو وہ نہ بتائیں گئے؟ جن اسرار کی ضرورت تھی ان کو تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر اور پہاڑون اور منبروں پر چڑھ کر علی الا علان بیان کر دیا ہے۔ ان کے علاوہ دین میں‌کوئی راز ہیں نہ اسرار البتہ اشرار ضرور ہیں ، جن کی بدولت لوگوں کو جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ شہاب نامہ 1166
 
اگر یہ علم اس پائے کا ہے تو میں انتہائی سنجیدگی سے اس کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔ پر یہاں اس دھاگے میں نہیں کیوں کہ اس دھاگے کا مزاج ڈیبیٹ کی شکل لئے ہوئے ہے۔ بہتر ہوگا کہ اہل علم حضرات اس پر ایک دھاگہ کھول لیں۔ اور جزباتیت سے ہٹ کر حقیقت پسندی سے اس علم کا تعارف، اس کی تاریخ، فوائد و نقصانات، مصرف، اس کی اصلی شکل، عقلی توجیہات اور سب سے آخر میں اسلامی تناظر میں اس کا استعمال۔ از راہ مہربانی آخری بات کو آخری ہی رکھا جائے کیوں کہ جیسے اس اسٹیج تک بات پہونچے گی، تضاد و فساد شروع ہو جائیں گے۔ اور دھاگہ مقفل کرنے تک کی نوبت آجائے گی۔ مجھے امید ہے کہ اگر یہ واقعی سنجیدہ علم ہوا تو اس شکل میں‌ ہرگز نہیں ہوگا جس میں یہ اب ہے۔ اور از راہِ‌ مہربانی حقائق بیان کریں‌، مخاطب کو منوانے کی سعی لا حاصل نہ کریں۔

ایسے ہی ایک علم دست شناسی کے ضًن میں سوال کیا تھا میں نے۔ کیوں‌کہ اس کی بھی اصلی شکل جاننی چاہی تھی۔ پر جو سب سے اوّل اوّل تھے وہی نہ جانے کہاں چلے گئے۔ اور میں آج بھی تشنہ ہوں۔

والسلام!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائی ابن سعید ، میں نے ابھی ایک مضمون ارسال کیا ہے جو مندرجہ ذیل لنک ہر میسر ہے ، اس کا مطالعی شاید آپ کی تشنگی کا کچھ مداوا کر سکے باذن اللہ ، و السلام علیکم۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=15749
 
جب کبھی میں یہ بات کہیں سنتا ہوں یا پڑھتا ہوں کہ قرآن کے کچھ خاس‌باطنی معنی ہیں یا تصوف شریعت کے تابع و معاون ہونے کے بجائے شریعت سے جداگانہ کوئی حقیقت رکھتا ہے یا ایسے ہی علم جفر وغیرہ کے بارے میں تو مجھے قدرت اللہ شہاب مرحوم کی ایک بات بہت یاد آتی ہے دیکھیئے بڑے پتہ کی بات ہے
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا ، ماشاء اللہ بھائی ابن حسن ، بات آپ کی بھی اچھی ہے اور قدرت اللہ شہاب صاحب کی بھی ،
اللہ تعالی نے تکمیل دین کا اعلان فرما دیا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی طرف سے خیر اور شر کی ہر بات پہنچا دی ، لاکھوں نے اس کی گواہی دی اور اللہ اس پر گواہ ہوا ، یہ سب معاذ اللہ جھوٹے اور چند قصے کہانیاں سچی !!! سبحان اللہ ھذا بپتانٌ عظیم ،،،،،،،،،،،، و لکن اکثر الناس لا یعلمون ، و السلام علیکم۔
 

رضا

معطل
پہلی بات آپ کی پوسٹ سے تو ایسے لگ رہا ہے۔جیسے جفر،نجوم وغیرہ کا علم سیکھنا یا جاننا کوئی کفر ہو۔
اگر ایسا ہے تو پھر بڑے بڑے علماء جو اس علم کو جانتے تھے ۔وہ بھی اس فتوی کفر کی زد میں آئیں گے۔۔۔۔

میری اوپر والی پوسٹ نامکمل رہ گئی تھی۔
مجھے جتنا اس کے بارے میں علم ہوا میں نے لکھ دئیے۔
ماننے نہ ماننے کا اختیار آپ کے پاس ہے۔



سوال:
کسی نے ایک عالم سے علمِ جفر و علمِ نجوم کے بارے میں سوال پوچھا۔ کہ۔۔۔اس بندہ کو شوق حصولِ علم جفر ہوا۔(علم جفر سیکھنے کا شوق پیدا ہوا) نقوش و ادعیات مرتبہ قاعدہ جفر زيادہ تر اثرات بروج و کواکب(برجوں او ر ستاروں و سیاروں) کے مبنی اور محتوی ہیں لہذا تھوڑا حصہ علم نجوم کا بھی معلوم کرنا لازمی ہوا۔اوقات و ساعات سبعہ سیارہ و منازل و بروج سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ٹھہرا،
پس "کچھ لوگوں" نے یک دم سرے سے علم نجوم ہی کو کل کفر ٹھہرایا۔اور بوجوہ ایں(اس وجہ سے) کہ احوالِ مغیبات(مستقبل کے حالات غیبیہ) نجوم و جفر سے دریافت ہوتے ہیں۔لہذا علم جفر کو اس کا چھوٹا بھائی بتایا اور ایک حدیث مشکوٰۃ کی ثبوتِ کفر میں پیش کی کہ کاہن و ساحر و منجم(نجومی) یک حکم (ایک ہی حکم)رکھتے ہیںاور علم نجوم سیکھنا اور سکھانا دونوں ہی کفر ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ علم نجوم کل کفر ہو نہيں سکتا کیونکہ علماء و فضلاء و حکماء و مفسرین و محدثین کو تھوڑی واقفیت حقیقت اشیاء و جزئیات امور علم نجوم کی بھی ضرور ہے۔تا استدلال و تردید مذاہب باطلہ کی وہ بخوبی کرسکیں اور اس کی حقیقت و ماہیت و افعال و خواص سمجھیں اور بتائیں چنانچہ تمثیل و تطبیق میں مولانا روم علیہ الرحمۃ دفتر اول مثنوی معنوی میں فرماتےہیں۔
1۔۔۔۔ ہر کرابا اخترے پیوستگی ست ۔۔۔۔ مردر ابا اخترے خودہمتگی ست
2 ۔۔۔۔ طالعش گر زہرہ باشد باطرب ۔۔۔۔ میل کلی دار دآں عشق و طلب
3 ۔۔۔ دربود مریخی و خونریز خو ۔۔۔۔ جنگ و بہتان و خصومت جویداد
ترجمہ:1۔۔جس شخص کو ستاروں سے وابستگی ہے مرد کو ستاروں سے خود ہی ہمت لڑانی چاہیے۔
2۔عیش و عشرت رکھتے ہوئے ،جس کا طالع زہرہ ستارہ ہے وہ مکمل رجحان عشق کی جستجو کی طرف رکھتا ہے۔
3۔اگر اس کا طالع ستارہ مریخ ہے تو وہ خونریزی کی عادت اور لڑائی جھگڑا اور بہتان تراشی ڈھونڈتا رہتا ہے۔
اگر بے وجود ہوتا اور ضلالت کی بات تھی۔تو مولانا نے اس پر کیوں واقفیت حاصل کی؟اور مزید برآں(اس پر مزید یہ کہ) دوسرے مسلمانوں کے واقفیت عامہ کیلئے کیوں رقم فرمایا۔علم نجوم اور احکام نجوم جو منجمین(نجومی) پیشنگوئیاں کہہ کر کماتے پھرتے یہ دونوں دو چیز ہے۔یہ البتہ ضرور ہے اور بیشک ہم اس پر معمل(عمل پیرا) ہیں کہ احکام نجوم پر ہم ایمان نہیں رکھتے کہ بالیقین یہی ہو کے رہے گا۔ستاروں کو فاعل حقیقی ہم ہرگز نہیں مانتے،مصدر خیر وشر ستاروں کو ہم کبھی نہیں جانتے مگر ہاں تاثیرات ان کے بیشک مانتے ،افعال اثر خوب یا خراب جو اللہ نے ان میں دے کر متعین بکار عالم کیا ہے وہ بیشک بمرضی اللہ پاک یوماً و لیلاً جاری ہوا کرتا۔

تفسیر مولانا عبدالحق حقانی میں بہ تفسیر سورہ فاتحہ آیۃ اھدنا الصراط المستقیم دربیان و تشریح افراط و تفریط فی العبادات و افراط و تفریط فی العلوم ،کے آخر عبارت میں صاف درج و مستنبط ہے کہ علم نجوم و طلسم و نیرنجات و کیمیا وغیرہ علوم و دیگر فنو ن کا افراط منع و یکدم تفریط بھی ناجائز حالت درمیانی بہتر اور اسی کو حکمت کہتے اور حکم وجہ کمال انسان اور مصداق صراط مستقیم۔(تفسیر حقانی)
جلد اول مولانا مفسر دہلوی شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ کے درج ہے سوالات عشرہ جو شاہ بخارا نے ان کو لکھا تھا اس کے جواب سوال ہفتم میں علم منطق و علم انگریزی و علم فارسی و علم فقہ و علم نجوم و رمل و علم قیافہ و سحر کے بارے میں یہ تحریر کہ جو حکم صاحب آلہ کا وہی حکم آلہ کا اور تحصیل علم(علم حاصل کرنے)کی وجہ سے گنہگار نہیں ہوسکتا الخ۔۔۔ اور اسی دفتر اول فتاوی میں بحصہ آخر مرقوم کہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایک شخص کو حفظ حرمت و عزت کے لئے انگشتری نقرئی پر اسم عزیز بقاعدہ تکسیر علم جفر کندہ کرانے کو بوقت شرف قمر فرمایا۔پس علم جفر اگر بحکم کفریہ تھا تو اس علم کے قاعدہ میں اسم الہی کا کیوں نقش بنایا اور علم نجوم بحکم کفر تھا تو اس کی ساعت اور اہل نجوم سے تحقیق کرلینے کو کیوں اجازت دیا؟؟؟اور بقول منکر ان سعد و نحس ستارگان کوئی چیز نہیں تو تخصیص شرف قمر کیا چیز ٹھہری؟ اور مولانا محدث ہو کر خود ان دونوں علوم کفریہ کوسیکھا و جانا۔اور دوسرے اہل اسلام کو کیوں بتایا؟؟
اب آپ کی خدمت عالی میں بیّنو توجروا (بیان کرو اجر دئیے جاؤ گے) کی عرض و تصدیع ہے کہ دربارہ امر متذکرہ جو کچھ بحکم آیات و حدیث ثابت و مستنبط ہوتا ہو اس سے مطلع فرمائیں۔تاکہ معترضان پر الزام بدیہ جو عائد ہو رہا ہے بطریق احسن دفع کردیا جائے۔

----------------------------------------------------------------------------------------------
سوال کا جواب:
علم جفر و علم نجوم اور طلسم کے بارے میں سوال کا جواب۔۔۔۔

فہرست
علم جفر ایک نہایت نفیس فن اور حضرات اہلبیت علیہم الرضوان کا علم ہے
کتاب"جفر جامع" میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے ما کان ومایکون تحریر فرما دیا
علم جفر میں لکھی گئی اسلاف کی تصانیف کا تذکرہ
نجوم کے دو ٹکڑے ہیں۔علم و فن تاثیر
علم نجوم کے متعلق قرآن مجید سے استنباط
نجوم کا فن تاثیر باطل ہے
حرکات فلکیہ مثل حرکات نبض علامات ہیں
قرآن مجید سے تائید
نبض کا اختلاف سے اعتدال سے طبیعت کے انحراف پر دلیل ہے
علم تکیسر علم جفر سے جدا دوسرا فن ہے۔
طلسم و نیر نجات سراسر ناجائز ہیں
نیرنج شعبدہ ہے اور شعبدہ حرام ہے
طلسم تصاویر سے خالی نہیں اور تصویر حرام ہے
----------------------------------------------------------------------------------------------

جفر بیشک نہایت نفیس جائز فن ہے۔حضرات اہلبیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کا علم ہے ۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کا اظہار فرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اسے معرض کتابت میں لائے۔کتاب مستطاب جفر جامع تصنیف فرمائی۔علامہ سید شریف رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں:امام جعفر صادق نے جامع میں ماکان وما یکون تحریر فرما دیا۔(شرح المواقف المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران 22-6)
سیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ نے "الدرالمکنون و الجوھرالمصئون" میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدنا آدم و سیدنا شیث وغیرہما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور ان میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔( الدرالمکنون و الجوھرالمصئون)
عارف باللہ سیدی امام عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے ایک رسالہ اس کے جواب میں لکھا۔اس کا انکار نہ کرے گا مگر ناواقف یا گمراہ متعسف۔
نجوم کے دو ٹکڑے ہیں۔علم و فنِ تاثیر
اول کی طرف تو قرآن عظیم میں ارشاد ہے۔
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ [٥٥:٥] ،وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ [٣٦:٣٨]وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [٣٦:٣٩]،لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [٣٦:٤٠] ، وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا [١٧:١٢]،وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ [٨٥:١] ، تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا [٢٥:٦١]،فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [٨١:١٥]،الْجَوَارِ الْكُنَّسِ [٨١:١٦]،وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [٣:١٩١]،أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا [٢٥:٤٥]،ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا [٢٥:٤٦]،الی غیر ذلک من آیات کثیرہ۔
سورج اور چاند حساب سے ہیں،اور سورج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراؤ کے لیے (ف۴۹) یہ حکم ہے زبردست علم والے کا (ف۵۰) ،اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں (ف۵۱) یہاں تک کہ پھر ہوگیا جیسے کھجور کی پرانی ڈال (ٹہنی) (ف۵۲) ،سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑے (ف۵۳) اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے (ف۵۴) اور ہر ایک، ایک گھیرے(مرکز مدار) میں تیر رہا ہے، اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی)دو نشانیاں بنایا (ف۳۲) تو رات کی نشانی مٹی ہوئی رکھی(یعنی اسے مدھم کردیا) (ف۳۳) اور دن کی نشانیاں دکھانے والی(روشن) (ف۳۴) کہ اپنے رب کا فضل(رزق حلال) تلاش کرو (ف۳۵) اور (ف۳۶) برسوں کی گنتی اور حساب جانو (ف۳۷) اور ہم نے ہر چیز خوب اچھی طرح تفصیل سے بیان کردیا (ف۳۸)، قسم آسمان کی، جس میں برج ہیں،بڑی برکت والا ہے وہ(اللہ تعالی) جس نے آسمان میں برج بنائے (ف۱۱۲) اور ان میں چراغ رکھا (ف۱۱۳) اور چمکتا چاند،تو قسم ہے ان (تاروں)(ف۱۶) کی جو الٹے پھریں،سیدھے چلیں تھم رہیں،اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں (ف۳۷۸) (پھر عرض کرتے ہیں)اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا (ف۳۷۹) پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے،کیا آپ نے اپنے پرودگار کے(بے شمار نشانات قدرت میں سے اس نشانی کو)نہیں دیکھا (ف۸۳) کہ کس طرح سایہ کو پھیلا دیتا ہے (ف۸۴) اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا کردیتا (ف۸۵) پھر ہم نےاس کے وجود پر سورج کو دلیل ٹھہرا دیا، پھر ہم آہستہ آہستہ اسے(سایہ کو) اپنی طرف سمیٹتے رہتے ہیں۔ (ف۸۶)،پس آیات مذکور کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات قرآنیہ ہیں (جو علم نجوم کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔)

اور اس کا فن تاثیر باطل ہے۔ تدبیر عالم سے کواکب کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا نہ ان کیلئے کوئی تاثیر ہے غایت درجہ حرکات فلکیہ مثل حرکات بنض علامات ہیں کما قال اللہ تعالی
وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [١٦:١٦]
اور علامتیں (ف۲۵) اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں (ف۲۶)
نبض کا اختلاف اعتدال سے طبیعت کے انحراف پر دلیل ہوتا ہے مگر وہ انحراف اس کے اثر نہیں بلکہ یہ اختلاف اس کے سبب سے ہے اس علامت ہی کی وجہ سے کبھی اس کی طرف اکابر نے نظر فرمائی۔
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [٣٧:٨٨]،فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ [٣٧:٨٩]
پھر اس نے ایک نگاہ ستاروں کو دیکھا (ف۸۶) ، پھر کہا میں بیمار ہونے والا ہوں (ف۸۷)
زمانہ قحط میں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ باران کیلئے دعا کرو اور منزل قمر کا لحاظ کرلو۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے منقول ہے۔
لا تسافروا والقمر فی العقرب۔سفر نہ کرو جبکہ چاند برج عقرب میں ہو۔
اگرچہ علماء سے اس کی یہ تاویل فرمائی ہے کہ عقرب ایک منزل تھی اور قمر ایک راہزن کا نام تھا۔کہ اس منزل میں تھا۔علم تکسیر ،علم جفر سے جدا دوسرا فن ہے اگرچہ جفر میں تکسیر کا کام پڑتا ہے۔یہ بھی اکابر سے منقول ہے۔امام حجۃ الاسلام غزالی و امام فخر الدین رازی و شیخ اکبر محی الدین ابن عربی و شیخ ابو العباس یونی وشاہ محمد غوث گوالیاری وغیرہم رحمہم اللہ تعالی اس فن کے مصنف و مجتہد گزرے ہیں اس میں شرف قمر وغیرہ ساعات کا لحاظ اگر اسی علامت کے طور پر ہو جس کی طرف ارشاد فاروقی نے اشارہ فرمایا تو لاباس بہ ہے اور پابندی اوہام منجمین(نجومی) کے طور پر ہو تو ناجائز۔
مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ [١٢:٤٠]
وہ تو نہیں مگر نرے نام (فرضی نام) جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے تراش لیے ہیں (ف۱۰۶) اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری، حکم نہیں مگر اللہ کا اس نے فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو (ف۱۰۷) یہ سیدھا دین ہے (ف۱۰۸) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (ف۱۰۹)

یہی ٹھیک دین ہے ، لیکن زیادہ تر لوگ(اس حقیقت کو) نہیں مانتے ۔

طلسم و نیر نجات سراسر ناجائز ہیں نیز نج تو شعبدہ ہے اور شعبدہ حرام کما فی الدرالمختار وغیرہ من الاسفار(جیسا کہ درمختار وغیرہ بڑی بڑی کتابوں میں مذکور ہے۔)
اور طلسم تصاویر سے خالی نہیں۔اور تصویر حرام۔(حدیث میں ہے۔)
روزقیامت سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب اس کو ہوگا کہ جس نے کسی نبی کو شہید کیا یا اسے کسی نبی نے مار ڈالا اور تصویریں بنانے والوں کو ۔(المعجم الکبیر حديث10497،10515)واللہ تعالی اعلم۔
 

طالوت

محفلین
ستاروں کا تعلق صرف اتنے سے علم سے ہے کہ ان کی مدد سے راستوں کا تعین کیا جاتا ہے یا عربوں کے یہاں موسمی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیئے بھی استمعال کیا جاتا ہے ۔۔ جبکہ اعداد کا علم ، اس کے ماہرین کی گفتگو سن کر سوائے مسکرانے کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔
وسلام
 
پہلی بات آپ کی پوسٹ سے تو ایسے لگ رہا ہے۔جیسے جفر،نجوم وغیرہ کا علم سیکھنا یا جاننا کوئی کفر ہو۔
اگر ایسا ہے تو پھر بڑے بڑے علماء جو اس علم کو جانتے تھے ۔وہ بھی اس فتوی کفر کی زد میں آئیں گے۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، رضا بھائی یہ مندرجہ بالا خطاب کس سے ہے ؟ کیا یہ میرے مضمون """ ستارے سیارے اور ان کی چال """ کے بارے میں ہے؟ اگر آپ کا جواب مثبت ہے تو بہتر ہے کہ ہم وہیں بات کریں ، ان شا اللہ ،
یہاں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر میری کوئی بات ، اللہ کے کلام قران اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کسی صحیح ثابت شدہ حدیث کی دلیل کے بغیر ہے اور احکام شریعت جاننے کے لیے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ کسوٹیوں پر پورا نہیں اترتا تو اس کی نشاندہی فرمایے ، اللہ آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے ،
میرے بھائی اگر کسی کا کوئی عمل قران اور صحیح حدیث کے خلاف ہے تو اس کے عمل پر وہی حکم لگے گا جو اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں ہے ، عربی کی ایک کہاوت ہے """[arabic] لا یُعرف الحق بالرجال ، بل الرجال یُعرفون بالحق[/arabic] ::: حق لوگوں کی شخصیات پر نہیں پرکھا جاتا بلکہ لوگوں کی شخصیات حق پر پرکھی جاتی ہیں """ و السلام علیکم۔
 

طالوت

محفلین
حیرت ہے جدید سائنسی علم سے تو یہ دور بھاگتے ہیں اور "سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے" کا راگ الاپتے ہیں مگر یہاں ۔۔۔۔۔۔!
وسلام
 
حیرت ہے جدید سائنسی علم سے تو یہ دور بھاگتے ہیں اور "سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے" کا راگ الاپتے ہیں مگر یہاں ۔۔۔۔۔۔!
وسلام
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، طالوت بھائی ، یہ مندرجہ بالا بات اگر میری معروضات سے کوئی تعلق رکھتی ہے تو کچھ وضاحت کر دیجیے ، سورج دھرتی کے ہھیرے کرتا ہے یا نہیں ، مجھے ضرور چکر آ جائیں گے ، :roll: و السلام علیکم۔
 
آپ پریشان نہ ہوں جناب جن سے کہا ہے ، امید ہے وہ سمجھ چکے ہوں گے
وسلام
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، جزاک اللہ خیرا ، بھائی طالوت ، اللہ آپ کی پریشانی (اگر کوئی ہے تو ) دُور فرمائے ، اور جسے جو سمجھنا چاہیے وہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ، و السلام علیکم۔
 

رضا

معطل
خطوط پر 786 لکھنا کیسا ہے؟

اوہام ذہنیہ کو دور کرنے کے سلسلے میں اہم فتوٰی
مفتیان کرام
فقہیہ العصر حضرت علامہ مولانا شریف الحق امجدی مدظلہ
حضرت علامہ مولانا نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ



خطوط پر 786 لکھنا کیسا ہے۔؟

مسئلہ نمبر 1:- کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ اپنے خطوط وغیرہ کے اوپر 786 لکھتے ہیں جبکہ سنت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنا ہے جیسا کہ ان دعوت ناموں سے ظاہر ہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اطراف و جوانب کے سلاطین کے نام بھیجے تھے۔ 786 ایک گنتی ہے یہ بسم اللہ کی جگہ نہیں لے سکتی، اور یہ کہنا کہ "786 بسم اللہ کا عدد ہے اس لئے ہم اس کو بسم اللہ کی جگہ لکھتے ہیں" اس لئے صحیح نہیں کہ یہی اعداد "ہری کرشنا" کے بھی ہیں۔ آج کل وہابی لوگ اس پر اعتراض کر رہے ہیں۔

الجواب:-
یہ صحیح ہے کہ خطوط وغیرہ کی ابتداء تسمیہ سے کرنا سنت ہے، مگر یہ سنت موکدہ نہیں کہ اس کا چھوڑنا ممنوع ہو اور اس کی عادت گناہ ہو، سنت غیر موکدہ ہے کہ اگر کوئی اس پر عمل کرے تو ثواب پائے گا، لیکن خطوط وغیرہ کو لوگ لاپرواہی سے ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں جس سے بے ادبی ہوتی ہے اور بسم اللہ شریف قرآن شریف کی آیت ہے جسے بے وضو چھونا بھی جائز نہیں۔ ارشاد ہے لا یمسہ الا المطھرون "اسے صرف وہی لوگ چھوئیں جو خوب پاک ہوں" جس پر غسل واجب نہ ہو وہ بھی خوب پاک نہیں، خوب پاک اس وقت ہوگا جبکہ باوضو ہو۔ خط کے سرنامے (یعنی خط کی پیشانی) پر بسم اللہ شریف لکھی ہوگی تو بے وضو لوگوں کا ہاتھ پڑ جائے گا۔ پھر ڈاکخانے کے ذریعے جو خطوط بھیجے جاتے ہیں ان ۔خطوط کی کیا درگت بنتی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ ڈاکخانے والے ان پر پاؤں بھی رکھ دیا کرتے ہیں پھر عموماً وہ مشرکین1، ہوتے ہیں۔ یہ مشرکین لیٹربکس سے نکالتے ہیں، انتہائی بدتمیزی سے اس پر مہریں مارتے ہیں، تھیلوں میں بند کرتے ہیں، گھسیٹتے ہوئے جہاں چاہتے ہیں لے جاتے ہیں حتٰی کہ اس پر بیٹھتے بھی ہیں۔ پھر یہی مشرکین اپنے ہاتھوں سے اسے چھانٹتے ہیں اور کئی بار میں نے دیکھا ہے کہ خطوط کو مکتوب الیہ2، کے سامنے پھینک دیتے ہیں۔ کیا یہ سب اللہ عزوجل کے اسمائے مبارکہ اور قرآن مجید کی ایتوں کی بے ادبیاں نہیں، کیا کسی مسلمان کو یہ جائز ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ قرآن مجید کی ضرور توہین ہوگی اس کی اجازت ہے کہ اللہ عزوجل کے اسمائے مبارکہ یا قرآن مجید کو اس طرح غیر کے ہاتھوں میں دے دے۔ علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ قران مجید کو کفار کی بستیوں میں نہ لے جائیں کہ اس کا اندیشہ ہے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے اور کفار اس کی بے حرمتی نہ کرنے لگیں۔ تو جب خطوط میں اس کا اندیشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ضرور اس کی بے حرمتی ہوگی تو اس لئے اہلسنت نے خطوط پر بسم اللہ شریف لکھنے کو پسند نہیں فرمایا۔ یہ مسلمہ (یعنی تسلیم شدہ) قاعدہ ہے کہ کسی چیز میں نفع و نقصان دونوں ہوں تو اس کو ترک کر دیا جائے جلبِ منافع (یعنی منافع کے حاصل کرنے) پر دفعِ مضرت (ضرر کا دور کرنا) مناسب ہے۔
"786" بقاعدہء جمل3، بسم اللہ کا عدد ہے۔ علمائے کرام نے اس کا لحاظ کرتے ہوئے خطوط کی ابتداء میں اسے لکھنے کا رواج دیا تا کہ من وجہ (یعنی کچھ نہ کچھ) بسم اللہ شریف نہ لکھنے کی مکافات (یعنی بدلہ) ہو جائے، اسمائے مبارکہ کو ان کے اعداد کے ساتھ خاص مناسبت ہے اور ان اعداد میں فوائد بھی ہیں جس پر تجربہ شاہد (یعنی گواہ) ہے، دیوبندیوں اکابرین تعویذیں لکھتے تھے اور ان تعویذوں کے اوپر 786 لکھتے تھے اور تعویذوں میں بھی صرف اعداد لکھتے تھے اگر اسمائے مبارکہ کے اعداد میں کوئی اثرو فائدہ نہ ہوتا تو دیوبندی اکابر اسے کیوں لکھا کرتے تھے۔
پھر یہ چیز مسلم الثبوت (یعنی مانی ہوئی) مشائخ سے متوارث (یعنی موروثی طور پر) چلی آرہی ہے حتٰی کہ دیوبندی اور غیرمقلدین کے مشترکہ پیشوا اور مستند شاہ ولی اللہ صاحب اور شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما بھی تعویذیں لکھا کرتے تھے جو صرف اعداد ہی سے پُر ہوتی تھیں۔ ہر حرف کو اس کے عدد کے ساتھ ایک باطنی ربط (یعنی پوشیدہ تعلق) ہے جسے اہل کشف (یعنی غیب کی باتوں کو ظاہر کرنے والوں) نے دریافت کیا۔ یہ ایسا نہیں کہ کسی نے اٹکل پچو (یعنی صرف اندازے سے) اسے بنا لیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حروف کے اعداد حرج تہجی کی ترتیب سے نہیں بلکہ اس کی ترتیب الگ4، ہے جو ابجد، ہوز، حطی میں مذکور ہے بلکہ علامہ قاضی بیضاوی کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ عزوجل اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان اعداد کا اعتبار فرمایا۔
الم مقطعات قرآنیہ کی بحث میں لکھتے ہیں اولی مدد اقوام واجال بحساب الجمل کما قالہ ابو العالیۃ متمسکا بماروی انہ علیہ الصلاۃ والسلام لما اتاہ الیھود تلے علیھم الم بقرۃ فحسبوہ وقالوا کیف ندخل فی دین مدتہ احدا وسبعون سنۃ فتبسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقالوا فھل غیرہ فقال المص والر فقالوا خلطت علینا فلا ندری بایھا ناخذ فان تلاوۃ ایاھا بھذا الترتیب علیھم وتقریرھم علی استنباطھم دلیل علی ذالک۔
یا یہ حروف قوموں کی مدت اور میعاد کی طرف اشارہ ہے جمل کے حساب سے جیسا کہ اس کا ابوالعالیہ نے کہا اس حدیث سے دلیل لاتے ہوئے کہ "یہود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے سورہء بقرہ کا الم پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اس کا حساب لگایا اور کہا "ہم اس دین میں کیسے داخل ہوں جس کی مدت 71سال ہے" یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پڑھا: المص۔ الرا۔ المرا۔، یہ سن کر یہود نے کہا "آپ نے ہماری سوچی ہوئی بات کو خلط ملط کر دیا ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کس کو لیں۔"
علامہ بیضاوی فرماتے ہیں "حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اس ترتیب سے پڑھ کر یہود کو سنانا اور انہوں نے جو حساب لگایا تھا رد بہ کرنا اس کی دلیل ہے کہ یہ قوموں کی میعاد بتانے کے لیے ہے۔" اس کے تحت شیخ زادہ میں ہے فان تلاوتہ علیہ الصلاۃ والسلام تلک الفواتح بھذا الترتیب وھو ذکر انا کثر بعد الاقل فی معرض الجواب عن قولھم فھل غیرہ وکذا تقریرہ علیھم الصلاۃ والسلام ایاھم علی استنباطھم ذالک وعدم انکارہ علیھم فی تسلیم ذالک یدل علی انہ سلم ان المراد منھا الاشارۃ الی المدۃ۔
"حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ان فواتح سور (یعنی سورتوں کے شروع کرنے والے حروف) کا یہود کے سامنے اس ترتیب سے پڑھنا کہ اکثر (یعنی زیادہ تعداد والوں) کو اقل (یعنی کم تعداد والوں) کے بعد پڑھا ان کے اس قول کے جواب میں "کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟" اور ایسے ہی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم کا ان کے استنباط (یعنی نتیجہ اخذ کرنے) کو مان لینا اور اس پر انکار نہ کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک بھی اس سے اشارہ مدت کی طرف ہے۔"
ان سب کا حاصل یہ ہے کہ "الم کے عدد 71" ہیں۔ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے یہ تلاوت کی تو اس عدد کا لحاظ کرکے یہود نے کہا اس دین کی مدت 71 سال ہے اس لیے کہ جمل کے حساب سے الم کے "71" عدد ہیں۔ اگر اعداد کا اعتبار کچھ نہیں تھا تو کوئی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم فرما دیتے کہ "تم کیا بکتے ہو حروف کے اعداد کا کوئی اعتبار نہیں یہ کالعدم (نہ ہونے کی طرح) ہیں۔ بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ترتیب اور دوسرے مقطعات پڑھے وہ بھی اس ترتیب سے کہ پہلے چھوٹے اعداد کے پڑھے`پھر بڑے اعداد کے مثلاً المص، اس کے عدد 161 ہیں، پھر الرا جس کے اعداد231 ہیں، پھر المرا جس کے اعداد271 ہیں اور یہ قاعدہء مقررہ (یعنی ثابت شدہ) ہے کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی بات کہی جائے اور اسے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم رد نہ فرمائیں تو وہ حدیث مرفوع ہے اور یہاں صرف سکوت ہی نہیں بلکہ انہیں الزام دینے کے لیے ترتیب وار مقطعات کی تلاوت بھی ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ حروف کے ان مخصوص اعداد کا اعتبار خود حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے اور یہ منزل من اللہ (یعنی اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا) بھی ہے۔ نیز ملا عبدالحکیم خیالی لکھتے ہیں:۔ والمقصود منھا الشارۃ باعتبار مسمیا تھا الی مدد بقاء اقوام واجال امور قال الجوفی قد استخرج بعض الائمۃ من قولہ تعالی الم غلبت الروم ان البیت المقدس یفتح المسلمون فی سنۃ ثلاث وثمانین وخمسمائۃ ووقع کما قال وقال السھیلی لعل عدد حروف اللتی فی اوائل السور مع حرف المکرر للاشارۃ الی مدۃ بقاء ھذہ الامۃ۔۔۔ ان امور سے مقصود ان کے مسمیات(یعنی نام رکھے گئے) کے اعتبار سے کچھ قوموں کی بقاء کی مدت اور کچھ امور کی میعاد کی طرف اشارہ ہے جوفی نے کہا "آیۃ کریمہ""الم غلبت الروم"سے بعض ائمہ نے یہ استخراج فرمایا (یعنی نتیجہ نکالا) کہ بیت المقدس کو مسلمان 583ء؁ میں فتح کریں گے جیسا انہوں نے کہا تھا ویسے ہی ہوا ۔ سہیلی نے کہا ہو سکتا ہے کہ ان حروف کے عدد جو سورتوں کے اوائل (یعنی شروع) میں ہے اس امت کی بقا کی مدت کے اشارے کے لیے ہے۔"
بدایہ اور نہایہ میں ہے کہ "اس استخراج کو سب سے پہلے علامہ ابو الحکم ابن برجام اندلسی نے 522ء؁ کے حدود میں ذکر کیا۔" (جلد نمبر12 ص:326)
حاصل یہ نکلا کہ جمل کے حساب سے حروف کے اعداد کا اعتبار خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اور اس وقت سے اس وقت، سلف (پہلے گزر جانے والوں) سے لیکر خلف (بعد میں آنے والوں) تک اس کا اعتبار رہا ہے اور نہ یہ بدعت ہے اور نہ لغو 5،و مہمل6،۔۔ اس لیے خطوط کی ابتدا میں؂786 لکھنا یا اس کے ساتھ 92 لکھنا لغوومہمل نہیں بلکہ سلف کے طریقوں سے مستخرج (نکالا ہوا) و مستحسن (پسندیدہ) ہے۔ وہابیوں کا یہ کہنا کہ یہ ہری کرشنا کا عدد ہے ان کی "جہالت اور شرارت" ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جمل کا حساب عربی حروف کے ساتھ خاص ہے، ہندی یا سنسکرت میں نہ یہ طریقہ رائج نہ ان کے حروج تہجی کے مطابق۔ غور کیجئے جمل کے حساب میں جو گنتیاں ہیں وہ بھی 28 ہی اور عربی کے حروف تہجی بھی 28 ہیں۔ اور سنسکرت کے حروج تہجی 36 ہیں جس میں سرے سے الف ہے ہی نہیں "الف ک یہ شبد (حرف) نہیں مانتے۔" ماترا (یعنی ہندی حرفوں کے اعراب) مانتے ہیں" جبکہ جمل کے حساب میں پہلا حرف الف ہے جس کا عدد ایک ہے نیز جمل کے بہت سے حروف سنسکرت میں غائب ہیں مثلاً حاء، خاء، ذ، ظا، ص، ض، طا، ظا، ع، غ، فاء، ق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بہت سے ایسے حروف سنسکرت کے حروف تہجی میں ہیں جو جمل مین نہیں۔ مثلاً، بھ، پ، ٹ، ٹھ، جھ، چ، چھ، دھا، ڈھا، کھا، گ، گھا، وغیرہ۔ اگر جمل کا حساب سکسرتے ہندی وغیرہ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کے لیے ہوتا تو ان کے ہر حرف تہجی کا کوئی نہ کوئی عدد ہوتا۔ سنسکرت اور ہندی کے تمام حروفِ تہجی کا عدد نہ ہونا اور عربی کے ہر ہر حرف تہجی کا عدد ہونا اس کی دلیل ہے کہ جمل کا حساب صرف عربی کلمات اور حروف میں معتبر ہے۔" دیگر زبانوں کےکلمات اور حروف میں اس کا اعتبار نہیں" اس لیے یہ کہنا کہ "786 ہری کرشنا کے بھی عدد ہیں" فریب دینا ہے۔ اعداد کی مطابقت سے کچھ نہیں ہوتا جس زبان میں اور جس زبان کے کلمات کے لیے ان اعداد کا اعتبار رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اور اسلاف نے فرمایا وہ صرف عربی ہے اس لیے صرف عربی کلمات کے جو اعداد ہیں ان کا اعتبار ہے۔ اس سے بھی قطع نظر اعتبار ان حروف کا ہوتا ہے جو لکھے جائیں، خواہ پڑھے جائیں یا نہ پڑھے جائیں اگر کچھ الفاظ پڑھے جا رہے ہیں مگر لکھے نہیں جا رہے ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں مثلاً اسمِ جلالت، اللہ کے عدد 66 ہیں، حالانکہ جب لام کے بعد الف پڑھا جا رہا ہے تو 67 ہونا چاہئیے، مگر چونکہ درمیانہ الف لکھا نہیں جاتا اس لیے اس کا جمل کے حساب میں اعتبار نہیں نیز اسمِ کریم "الرحمٰن" کے اعداد 329 ہیں حالانکہ لام پڑھا نہیں جاتا مگر چونکہ لام لکھا جاتا ہے اس لیے اس کے عدد کا اعتبار ہے اور درمیانی الف پڑھا جاتا ہے مگو چونکہ لکھا نہیں جاتا اس لیے اس کے عدد کا اعتبار نہیں۔ چنانچہ اپنی جہالت اور جمل کے حساب سے ناواقفی یا شرارت کی وجہ سے وہابیوں کو یہ دھوکہ لگا اور انہوں نے کہہ دیا کہ بسم اللہ شریف کے اعداد 786 نہیں787 ہیں۔ جمل کے اس قاعدے کی رو سے ہری کرشنا کے اعداد 786 ہرگز نہیں اس لیے کہ اعتبار اسی رسم الخط(یعنی طرزِ تحریر) کا ہوگا جس زبان کا وہ کلمہ ہے۔ ہری کرشنا سنسکرت کا لفظ ہے سنسکرت میں اسے جیسے لکھتے ہیں انہیں آپ کود جوڑیئے ان کو کسی بھی طرح مان کر 786عدد پورا کرنا جمل کے حساب سے خارج ہے اور وہابی شرارت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ یہ لفظ اردر کا ہے اور نہ اردو رسم الخط کا اعتبار ہوگا، جس زبان کا لفظ ہے اسی زبان کے رسم الخط کا اعتبار لازم ہے اور اس لحاظ سے سنسکرت میں بسم اللہ کے اعداد 786 نہیں بلکہ 436 ہیں۔"
دوسری خاص بات یہ ہے کہ اہلسنت خطوط کے سرنامے پر 786 لکھتے ہیں تو نہ اسے فرض جانتے ہیں نہ واجب نہ سنت بلکہ مستحسن۔ اور استحسان کے لیے یہی کافی ہے کہ امت کے معتمد (یعنی اعتماد شدہ) علماء اور مشائخ کا اس پر عمل ہے اس کے لیے قرآن و حدیث میں اس سے ممانعت نہیں اور امت کے عوام و خواص کا اس پر عمل در آمد ہے۔ اگر ہر چیز کے لیے قرآن و حدیث سے تصریح (یعنی وضاحت) تلاش کی جائے تو چلنا پھرنا جینا مشکل ہو جائے گا۔ وہابی کہتے ہیں کہ "786 نہ رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم) نے لکھا، نہ صحابہء کرام نے، اس لیے یہ بدعت ہے تو لازم آئے گا کہ اردو لکھنا بھی بدعت ہو، نہ صحابہء کرام نے لکھا نہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے لکھا۔ جو جواب وہابی اس کا دیں گے وہی جواب 786 کے سلسلے میں ہمارا بھی ہوگا۔
واللہ تعالٰی اعلم
1،۔۔۔۔ یہ بھارتی ماحول کے مطابق ہے۔
2،۔۔۔۔ یعنی جس کی طرف خط بھیجا گیا۔
3،۔۔۔۔۔ ابجد کے عددوں کے قاعدہ کے سبب۔ ابجد، حروف تہجی کو کہتے ہیں۔ عربی کے حروف تہجی 28 ہیں۔ ان کی عددی قیمتیں درج ذیل ہیں: ا ب ج د ہ و ز ح ط ی ک ل م ن س ع ف ص ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ غ
4،۔۔۔۔۔ جیسا کہ حاشیہ سابقہ میں آپ نے ملاحظہ فرمایا
5، ۔۔۔۔ بے کار
6،۔۔۔۔ بے معنی
 

شمشاد

لائبریرین
فیصل بھائی ان کا مراسلہ

اصل پيغام ارسال کردہ از: رضا
علم جفر ایک نہایت نفیس فن اور حضرات اہلبیت علیہم الرضوان کا علم ہے۔
کتاب"جفر جامع" میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے ما کان ومایکون تحریر فرما دیا۔
علم جفر میں لکھی گئی اسلاف کی تصانیف کا تذکرہ۔

جفر بیشک نہایت نفیس جائز فن ہے حضرات اہلبیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کا علم ہے ۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کا اظہار فرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اسے معرض کتابت میں لائے۔کتاب مستطاب جفر جامع تصنیف فرمائی۔علامہ سید شریف رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں:امام جعفر صادق نے جامع میں ماکان وما یکون تحریر فرما دیا۔(شرح المواقف المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران 22-6)
سیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ نے "الدرالمکنون و الجوھرالمصئون" میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدنا آدم و سیدنا شیث وغیرہما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور ان میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔( الدرالمکنون و الجوھرالمصئون)
عارف باللہ سیدی امام عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے ایک رسالہ اس کے جواب میں لکھا۔اس کا انکار نہ کرے گا مگر ناواقف یا گمراہ متعسف۔

جو کہہ رہا ہے، میں نے تو اسی کی بابت پوچھا ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
فیصل بھائی ان کا مراسلہ



جو کہہ رہا ہے، میں نے تو اسی کی بابت پوچھا ہے۔

شمشاد بھائی خطوط پر بسم اللہ کی بجائے 786 لکھنے کی بابت سوال کیا گیا ہے اور جوابی فتوٰی جواز میں بڑی حد تک ساتھ علتوں کہ بیان کہ بات واضح کردی گئی ہے کہ 786 ہرگز کہ بسم اللہ کا نعم البدل نہیں ہوسکتا مگر چوں کہ علم جفر کہ اعداد کی نسبت بسم اللہ سے ہے اس لیے کسی حد تک بسم اللہ نہ لکھنے کہ بدل کہ بطور اس علماء نے 786 لکھنے کہ رواج کا آغاز کیا لہزا 786 بسم اللہ کا نہیں بلکہ بسم اللہ نہ لکھ سکنے کا بدل ضرور ہے ۔۔ ۔ باقی واللہ اعلم
 

شمشاد

لائبریرین
عابد بھائی بسم اللہ، اللہ جل جلالہ یا محمد رسول اللہ لکھنے کے عوض اعداد لکھنا کسی بھی حالت میں درست نہیں ہے۔ اب لوگ بے شک تاویلیں گھڑتے رہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
عابد بھائی بسم اللہ، اللہ جل جلالہ یا محمد رسول اللہ لکھنے کے عوض اعداد لکھنا کسی بھی حالت میں درست نہیں ہے۔ اب لوگ بے شک تاویلیں گھڑتے رہیں۔
بھائی یہ ‌آپ کا فتوٰی ہے جبکہ دوسری جانب بھی ایک فتوٰی ہے اس لیے آپ وہی کیجیئے جو آپ کو مناسب لگتا ہے بحث کاہے کی ؟؟؟'
 
Top