کیا آپ نے کبھی ان میں سے کوئی کریم استعمال کی ہے؟ بی بی سی نے سب کی اصلیت بے نقاب کر دی، حقیقت جان ک

asif_shahzad87

محفلین
السلام علیکم

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں تقریباً ہر چیز کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے اور عوام کو معیاری اشیاءکی فراہمی کیلئے کوئی نظام بھی موجود نہیں، تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ بدقسمتی سے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کیلئے تمام حدیں پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور کھانے پینے کی اشیاء، میک اپ کے سامان سمیت کسی بھی چیز میں ملاوٹ کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پاکستان میں غیر معیاری اور ناقص اشیاءکی فروخت کے قصے تو اب زبان زد عام ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری ان حرکات کے باعث اب بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
  • غیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی نے پاکستان میں تیار ہونے والی بیوٹی کریمز کے معیار پر روشنی ڈالی ہے جس کے باعث انہیں بنانے والوں کا مکروہ چہرہ تو بے نقاب ہوا ہی ہے لیکن اس کیساتھ پاکستان کا نام بھی بدنام ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ”ریکارڈ“ فروخت کے باعث ان کریموں کو بیرون ممالک فروخت کیلئے بھیجا گیا لیکن یہ افراد شائد اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ دیگر ممالک کے لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور چیزوں کے معیار کو پرکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی شامت بھی آئی ہے اور اسے فروخت کرنے والوں کو جرمانہ کرنے کیساتھ ساتھ ان کریمو ںسے متعلق ایک رپورٹ بھی شائع کر دی ہے۔​
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں فروخت ہونے والی چند معروف کریموں ”فائزہ بیوٹی کریم، سٹلمنز سکن بلیچ کریم، فیس فریش، میکسی لائٹ اور گولڈن پرل“ کو دکھایا ہے اور انہیں انتہائی ناقص قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں مرکری جیسے زہریلے کیمیکل استعمال کئے جا رہے ہیں جو انسانی اعضاءکے ناکارہ ہونے اور کینسر کا باعث بنتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتیں ان کریموں کی فروخت کو مجرمانہ فعل قرار دے رہی ہیں اور یہ منافع کیلئے زہر بیچنے کے مترادف ہے اور یہ بالکل بھی ایسی سرگرمی نہیں ہے جس کی بناءپر لوگ یہ سمجھیں کہ وہ بالکل قانونی کاروبار کر رہے ہیں اور اس جیسی کریموں کو فروخت کر سکیں۔ لندن ٹریڈنگ سٹینڈرڈز نے یہ کریمیں فروخت کرنے والی 15 دکانیں پکڑی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو اوسط 11 ہزار پاﺅنڈجرمانہ کیا گیا ہے جو ایک ریکارڈ بھی ہے جبکہ پہلی مرتبہ چند دکانداروں کو قید کی سزا بھی دی گئی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں دکھائی گئی بہت ساری کریموں سمیت دیگر مصنوعات پاکستان میں کھلے عام بک رہی ہیں اور ان میں سے بہت ساری تو ”نمبر ایک“ پراڈکٹ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ انہیں یہ نمبر کس نے دیا ہے اور کس بنیاد پر دیا ہے۔ ان کریموں کو استعمال کرنے والی خواتین کو یہ بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ ناصرف اپنے پیسے برباد کر رہی ہیں بلکہ اپنی زندگی کے ساتھ بھی کھیل رہی ہیں اور کینسر جیسی بیماریاں پیدا کرنے والے کیمیکل دن رات اپنے چہرے پر لگا رہی ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
بہت شکریہ

آج کل مارکیٹ میں مکس کریموں کی بھرمار ہے۔ مختلف کریمیں مکس کرکے ایک کریم بنادی جاتی ہے جو سراسر چہرے پر ظلم ہے ۔ چہرے کچھ عرصہ کیلئے تو صاف ہوجاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ چہرے پر کالے دھبے پڑجاتے ہیں
 

ہادیہ

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے اللہ نے جیسا پیدا کیا ہے انسان کو شکر ادا کرنا چاہیئے۔ اکثر لڑکیوں پر یہ خبط سوار ہوتا ہے کہ رنگ گورا ہوجائے۔ میں نے بہت سی لڑکیوں کو دیکھا ہے جو مکس کریم استعمال کرتی ہیں پہلے تو رنگ بہت فئیر ہوجاتا ہے مگر کچھ عرصے بعد سکن کا ستیاناس بھی ہوتا ہے کالے نشان، داغ ،دانے اور سیاہی وغیرہ سے چہرہ بھر جاتا ہے پھر اس کا حل کسی سکن اسپیشلسٹ کے پاس بھی نہیں ہوتا۔اور جن کریموں کا نام لیا ہے ان میں فیس فریش آج کل بہت زیادہ استعمال ہورہی ہے اور ٹی وی پر کمرشل بھی زیادہ تر اسی کی ہوتی ہے۔
 

حسیب

محفلین
چند ماہ پہلے گولڈن پرل والوں کے مقامی ڈسٹری بیوٹر کے ایک سیل مین سے بات ہو رہی تھی وہ بتا رہا تھا کہ
گولڈن پرل والوں کے پاکستان میں دو سو ڈسٹری بیوٹرز ہیں اور صرف ایک ڈسٹری بیوٹر (سیالکوٹ والے) کی ایوریج ماہانہ سیل ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے
اس سے اندازہ لگا لیں کہ صرف گولڈن پرل والوں کی پاکستان میں کتنی سیل ہو گی
اور جو ایکسپورٹ کرتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے
وہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ اب ساری بیوٹی کریمیں یورپ میں بین ہو چکی ہیں ورنہ پہلے یورپ میں بھی ایکسپورٹ ہوتی تھی
آج کل افریقہ میں کافی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں

یعنی افریقیوں کو گورا کرنے کا پروگرام ہے
 
ہمارے محلے کے ایک مولوی صاحب کی اہلیہ دو نمبر گولڈن پرل کریم بنا کر مختلف دیہاتوں میں فروخت کرتی ہے اور اس کا کاروبار بھی دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے
 
Top