مکمل کودک کہانی : چالاک لڑکا

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "چالاک لڑکا" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل پانچ اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
chL1.gif
 

مقدس

لائبریرین
چالاک لڑکا

عائشہ خالد

بہت دنوں کی بات ہے کہ ایران کے بہت پرانے شہر اصفہان میں ایک لڑجا رہا کرتا تھا۔ اس کا نام تھا امین۔ ایک دن وہ جنگل میں چلا جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک لمبا چوڑا دیو مل گیا۔ امین سوچنے لگا کہ اب کیا کروں! بات دراصل یہ تھی کہ دیو بڑے خطرناک ہوا کرتے تھے۔ وہ انسانوں کو اپنا غلام بنا لیتے اور اکثر کھا بھی جاتے تھے۔ امین کی جیب میں صرف نمک کا ایک ڈلا اور ایک انڈا تھا۔ اس کے سوا کچھ نہ تھا اور کوئی ہتھیار تو تھا ہی نہیں۔

کہتے ہیں کہ بچاؤ کی بہترین ترکیب یہ ہے کہ پہلے خود حملہ کر بیٹھے۔ چناں چہ امین بڑھ کر دیو کے قریب پہنچا اور بولا: “جناب دیو صاحب!آئیے ذرا طاقت آزمائی کر لی جائے۔“ یہ سن کر دیو ذرا دیر کے لیے حیران رہ گیا۔، کیوں کہ انسان اس سے اس قسم کی باتیں کبھی نہیں کرتے تھے اور دیکھتے ہی ڈر جاتے تھے وہ بولا: “تم بہت زیادہ طاقت ور تو دکھائی نہیں دیتے مجھ سے بھلا کیا طاقت آزماؤ گے۔“

امین نے کہا: “میں بہ ظاہر طاقت ور نہیں ، لیکن کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ ظاہری حالت سے اکثر دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔ لیجیئے میں اپنی طاقت کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک پتھر اٹھا لیا اور بولا: “اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کو دبا کر پانی نکالیں۔“

دیو نے پتھر لے لیا اور کوشش کی، پھر بولا: “نہیں، یہ ناممکن ہے۔“

اس پر امین نے کہا: “جی نہیں جناب! یہ تو بالکل آسان کام ہے۔“

جس وقت دیو پتھر کو اپنی مٹھی میں دبا رہا تھا، اس وقت امین نے ایک انڈا اپنی مٹھی میں رکھ لیا تھا۔ اب اس نے پتھر کو اسی مٹھی میں لے لیا اور خوب زور سے دبایا۔ انڈا پھوٹ گیا۔ اور دیو
 

مقدس

لائبریرین
نے دیکھا کہ امین کی مٹھی میں سے کوئی رقیق چیز نکل رہی ہے۔ دیو نے یہ بھی دیکھا کہ امین کوئی زیادہ زور نہیں لگا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت روشنی کم تھی، اس لیے دیو کو ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اس کے بعد امین نے ایک دوسرا پتھر اٹھا لیا اور بولا: “اس میں نمک ہے، ذرا اس کو اپنی انگلیوں سے چورا چورا کر دیجیئے۔“

دیو نے پتھر کو دیکھا اور بولا کہ یہ کام اس سے نہ ہو سکے گا۔

امین نے کہا: “لائیے، مجھ کو دیجیے۔“ اس نے پتھر کو اس مٹھی میں رکھ لیا، جس میں اس نے نمک کا ڈلا پہلے سے چھپا رکھا تھا اور پھر نمک کو چورا چورا کر کے دیو کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔

دیو بولا: “اچھا، اب تم آج رات میرے گھر پر مہمان رہو۔

امین راضی ہو گیا، کیوں کہ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ دیو کو بےوقوف بنانے میں
 

مقدس

لائبریرین
کام یاب ہو جائے گا۔

جب یہ دونوں دیو کے بڑے سے غار میں پہنچ گئے تو دیو نے امین کو ایک بہت بڑی مشک دی، جو کم ازکم چھے بیلوں کی کھال سے بنائی گئی ہو گئی اور بولا: “جاؤ، اس میں پانی بھر لاؤ، میں اتنے میں کھانا پکانے کے لیے آگ جلاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ لکڑیاں اکٹھی کرنے چلا گیا۔

امین سوچنے لگا کہ پانی کے لیے کیا کرے، اتنے میں اسے ایک ترکیب سوجھ گئی۔ مشک تو اتنی بھاری تھی کہ وہ اسے چند گز بھی نہیں گھسیٹ سکا، لہذا اس کو تو چھوڑ دیا اور ندی سے ایک نہر کھودنے لگا۔ تھوڑی دیر میں دیو واپس آ گیا اور چلایا: “اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو؟ کیا تم ایک چھوٹی سی مشک بھی نہیں اٹھا سکتے؟“

امین بولا: “نہیں جناب! بات دراصل یہ ہے کہ آپ چوں کہ میری اتنی خاطر کر رہے ہین، لہذا میں نے طے کیا ہے کہ ایک نہر کھود ڈالوں تاکہ آپ کو ہر وقت پانی ملتا رہے۔ یہ دیکھیے، میں نے
 

مقدس

لائبریرین
کام شروع کر دیا ہے۔ بلاوجہ طاقت کا مظاہرہ کرنا بےکار سی بات ہے۔“

دیو کو بڑے زور کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ بولا: “اچھا تم پانی کو چھوڑو۔ میں لے آتا ہوں۔“

یہ کہہ کر اس نے مشک کو اس طرح اٹھا لیا جیسے وہ کسی پرندے کا پر ہو اور اسے دریا سے بھر لایا، پھر بولا: “تم اپنی نہر کل کھود لینا۔“

اس کے بعد دیو نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ غار کے اندھیرے کونے میں امین بھی جھوٹ موٹ کھاتا رہا۔ پھر دیو نے امین کو سونے کے لیے ایک جگہ بتا دی۔ امین نے دیو کی آنکھوں سے شرارت ٹپکتی دیکھ لی، لہذا اس نے اس جگہ پر ایک بڑا سا تکیہ رکھ دیا، جہاں پر اسے سونا تھا اور خود ایک کونے میں چھپ گیا۔

صبح ہونے سے ذرا دیر پہلے دیو جاگ گیا اور اس نے ایک موٹے سے ڈنڈے کو اٹھا کت اس جگہ پر دے مارا، جہاں امین کا بستر تھا۔ امین کے کراہنے کی آواز بھی سنائی نہ دی۔ دیو مسکرانے لگا اور سمجھا کہ امین کا بھرتا بن گیا ہو گا۔ پھر بھی احتیاطاً اس نے امین کے بستر پر سات بار ڈنڈا مارا اور اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ جوں ہی دیو بستر پر لیٹا، امین اپنے بستر پر چپکے سے واپس آگیا اور چلایا: “ ارے دیو صاحب! یہ کون سا کیڑا تھا جو اپنے بر پھڑاپھڑا رہا تھا۔ میں نے سات بار اس کے پروں کی آواز سنی۔ حال آنکہ ایسی چیزیں انسانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ پھر بھی سوتے ہوئے آدمی کی نیند ضرور خراب ہو جاتی ہے۔“

یہ سن کر دیو اس قدر خوف زدہ ہو گیا کہ وہ گھبرا کر وہاں سے بھاگ گیا اور اپنے غار کو امین کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا۔ امین کو غار میں ایک بندوق مل گئی، جو غالباً کسی آدمی کو مار کر دیو لے آیا ہو گا، چناں چہ بندوق لے کر آدمی باہر نکلا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ کیا دیکھتا ہے دیو واپس چلا آ رہا ہے۔ دیو کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈنڈا تھا اور اس کے ساتھ ایک لومڑی بھی تھی۔
 

مقدس

لائبریرین
امین سمجھ گیا کہ چالاک لومڑی نے دیو کو وہ ساری باتیں بتا دی ہوں گی، جن کی وجہ سے وہ بےوقوف بن گیا، لہذا امین نے بندوق اٹھا کر گولی چلا دی۔ گولی لومڑی کے سر کو پھاڑتی ہوئی نکل گئی۔

پھر امین بولا: “ یہ ہے نافرمانی کی سزا۔“

پھر دیو کو مخاطب کر کے کہا: “ یہ جھوٹی لومڑی مجھ سے وعدہ کر گئی تھی کہ سات دیووں کو میرے پاس لے آئے گی، تاکہ میں کو زنجیروں سے جکڑ کر شہر اصفہان لے جاؤں، مگر یہ لومڑی صرف تم کو لے کر آ گئی۔ تم تو پہلے ہی میرے غلام ہو چکے ہو۔

یہ سنتے ہی دیو بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے ڈنڈے کے سہارے پتھروں اور ڈھلوانوں پر کودتا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

××××××××
 
Top