سیٹھ ارشاد اپنے بنگلے کی اندونی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ انھوں نے دوبارہ اپنی آنکھیں ملیں ، لیکن منظر پھر بھی وہی رہا۔ پانچ روز پہلے ہی وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک قریبی عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے یہاں سے روانہ ہوئے تھے ۔ شادی ایک دوسرے شہر احمد نگر میں تھی ۔ تقریب میں سب کی شرکت ضروری تھی ، اس لیے وہ اپنے گھریلو چوکی دار اور خانساماں کو گھر کا امین بنا کر چلے گئے ۔
سیٹھ ارشاد کے عزیز انھیں آج بھی جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن انھوں نے دفتری مصروفیات کا بہانہ کرکے ان سے اجازت لے لی ، البتہ انھوں نے اپنی بیگم اور بچوں کو مزید دو دن رہنے کی اجازت دے دی تھی ۔ ان کا خیال تھا کہ اتوار کے روز وہ گھر والوں کو واپس لے جائیں گے۔ اکیلے سفر کرنا اور گھر میں رہنا ان کے بس کی بات نہیں تھی ، اس لیے وہ اپنے بڑے بیٹے غفران کو اپنے ساتھ گاڑی میں لے کر روانہ ہو گئے، گھر پہنچے تو وہاں کا نقشہ ہی بدلہ ہوا دیکھا۔
وہ ڈرائنگ روم سے کچن اور کچن سے ٹی وی لاؤنج اور دوسرے کمروں کی طرف دوڑے ۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتے رہے ، ان کی حیرانی اور پریشانی بڑھتی گئی۔ سردی کے موسم میں ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔
خانساماں تو انھوں نے ایک سال پہلے ہی رکھا تھا ، لیکن چوکیدار تو گزشتہ آٹھ برسوں سے ان کے ہاں ملازمت کررہاتھا۔ اگر کوئی اس کے بارے میں رائے لیتا تو وہ اس کی ایمان داری کی قسم کھانے کے لیے تیار ہوجاتے تھے۔ آج وہ دونوں غائب تھے اور ان کے بنگلے کا سامان بھی ۔ ان کی حیرانی اس بات پر تھی کہ چوروں کے گھر کا بڑا سامان تک نہیں چھوڑا تھا۔
اچانک سیٹھ ارشاد کو گھر میں رکھی ہوئی دس لاکھ کی نقدی ، بیگم کے زیورات اور ہیرے کے