پروف ریڈ اول کودک کہانی : محافظِ بینک

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "محافظِ بینک" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل سات اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

mbk1.gif
 

مقدس

لائبریرین
نور پور ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، جہاں کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ وہاں غربت تھی، اس لیے زیادہ تر جھونپڑیاں اور کچے پکے مکانات تھے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ وہاں کی زمین میں تیل ہے، لیکن ابھی تک کسی نے نہ تو زمین خریدی تھی، نہ کوئی کنکواں کھدوایا تھا۔ اس قصبے میں ایک مشہور بینک کی شاخ اور چند سرکاری دفاتر بھی تھے۔ محمد عاقل اس شاخ میں خزانچی تھے۔ اس کے علاوہ بینک میں دو کلرک، ایک ٹائپسٹ، ایک چپراسی اور ایک مینجر تھا۔

عاقل تھا تو خزانچی، مگر ہیڈ آفس سے آنے والی ڈاک بھی دیکھتا اور دوسرے کام بھی کرتا تھا، کیوں کہ بینک میں زیادہ عملہ نہیں تھا۔ اس روز اس نے ڈاک کھولی تو اس میں ایک خط ایسا بھی دکھائی دیا، جو ہیڈ آفس کی طرف سے آیا تھا۔ اس میں ہدایت کی گئی تھی کہ ملک کے مشہور صنعت کار باقر علی نور پور آ رہے ہیں، لہذا ان کا خاص خیال رکھا جائے۔ وہ اپنے رشتے داروں
 

مقدس

لائبریرین
کے پاس ٹھیریں گے، لیکن وہ بینک سے جو تعاون طلب کریں، انھیں مہیا کیا جائے۔

عاقل کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ باقر علی کا نام سن چکا تھا اور ان کی بہت سی تصویریں اخبارات میں دیکھ چکا تھا۔ ان کی پیٹرول کی کمپنی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اگر باقر علی سے اس کی جان پہچان ہو گئی تو اس کے لیے کراچی جیسے شہر میں تبادلہ کرانا ممکن ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس کی ترقی کے امکانات پیدا ہو جائیں گے، ورنہ نور پور میں رہتے ہوئے تو وہ خزانچی کے عہدے پر ہی رہے گا۔

مینجر کو یہ اطلاع دینا بہرحال ضروری تھی۔ چناں چہ وہ ڈاک لے کر ان کے کمرے میں گیا۔ وہ کمرے میں تنہا تھے اور چند کاغذات دیکھ رہے تھے۔ عاقل نے ڈاک ان کے سامنے رکھ دی اور خاص طور پر وہ خط ان کی طرف بڑھا دیا۔

ممتاز صاحب نے وہ خط اس کے ہاتھ سے لے لیا اور اس پر سرسری نظر ڈالی، پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر گہرا سانس لیا اور کہا: "ان جیسے بڑے آدمی کا ہم کیا خیال رکھیں گے؟ بہرحال جو سہولت مانگیں گے، ہم انھیں مہیا کر دیں گے۔ تم ان سے واقف ہو؟"

عاقل بولا: "میں نے بس اخبارات میں ان کی تصویر دیکھی ہے۔ کل انھیں جیتا جاگتا دیکھ لوں گا اور ان سے مصافحہ بھی کر لوں گا۔"

"میری بھی ان سے ایک بار ملاقات ہوئی ہے۔ بہت بددماغ اور چڑچڑے ہیں۔ خاص طور پر ان کی کنجوسی کے قصے تو بہت مشہور ہیں۔"

"اللہ خیر کے۔" عاقل نے کہا اور سر کجھانے لگا۔

ممتاز صاحب بولے: "پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم سے ہیڈ کواٹر نے جتنا کہا ہے، ہم اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔"

عاقل نے سر ہلایا اور کمرے سے نکل آیا۔ اسے ممتاز صاحب کی بات سن کر مایوسی ہوئی
 

مقدس

لائبریرین
تھی اور اپنے خواب چکنا چور ہوتے دکھائی دیے۔

دوسرے روز جب وہ بینک گیا تو کچھ پریشان سا تھا۔ کام کے دوران میں اس کی نگاہ بار بار گھڑی کی طرف اٹھ رہی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ مضطرب ہے اور اس پر گھبراہت طاری ہے۔

گیارہ بجے کے قریب جب بینک میں کافی لوگ تھے تو ایک مرسیڈیز کار آکر بینک کے دروازے پر رکی، اس کا ڈرائیور اترا اور اس نے پچھلی نشست کادروازہ کھولا۔ ایک بھاری بھر کم آدمی جو قیمتی سوٹ پہنے تھا، اس میں سے اترا۔ پھر وہ باوقار انداز سے چلتا ہوا بینک کی طرف بڑھا۔ عاقل کی نگاہ دروازے کی طرف تھی، اس لیے اس نے باقر علی کو پہچان لیا۔

وہ سیدھے چلتے ہوئے عاقل کے پاس پہنچ گئے۔ انھوں نے کہا: "مجھے باقر علی کہتے ہیں۔"
 

مقدس

لائبریرین
عاقل نے مسکرا کر ان سے مصافحہ کیا اور بولا: "میں محمد عاقل ہوں اور کیش سنبھالتا ہوں۔"

"ہوں! تھیں میرے آنے کی ہیڈ کوارٹر سے اطلاع مل گئی ہو گی؟"

"جی ہاں۔"

وہ بینک کا جائزہ لیتے ہوئے بولے: "میں یہاں کاروباری دورے پر آیا ہوں۔ اتفاق سے اپنا پرس لانا بھول گیا ۔ کیا تم مجھے پانچ ہزار روپے ادھار دے دو گے؟"

عاقل حیران رہ گیا۔ اس نے کہا: "آپ اتنے بڑے آدمی ہیں، ادھار مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کے پاس چیک بک تو ہو گی؟ چیک کاٹ دیجیئے، ہم ہید آفس بھیج کر کیش کروا دیں گے۔"

وہ بولے: " میں اتفاق سے اتنی جلدی میں تھا کہ اپنے ضروری کاغذات لانا بھی بھول گیا۔ اب تم مجھے پانچ ہزار رپے دے دو۔"

عاقل نے اٹکتے ہوئے کہا: "لیکن۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔"

اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ جواب میں کیا کہے، اس لیے کہ اس کے پانچ ہزار رپے تو تھے، لیکن وہ اپنی جیب سے انھیں ادھار کیوں دیتا؟ اس رقم کی ان کے نزدیک کیا حثیت ہو سکتی تھی؟ یہ بھی تو ممکن تھا کہ وہ رقم لے کر بھول جاتے۔

انھوں نے ناگواری سے کہا: "تم مجھے رقم ے رہے ہو یا نہیں؟ ہاں یا نہ میں جواب دو۔"

عاقل نے گھبرا کر کہا: "آپ ایک منٹ ٹھیریے۔ میں مینجر صاحب سے بات کر کے آتا ہوں۔"

اس نے کیش کی درازیں لاک کیں اور مینجر کے کمرے میں جا کر انھیں باقر علی کے آنے کی اطلاع دی۔ ممتاز صاحب نے کہا: "انھیں میرے کمرے میں بھیج دو۔"
 

مقدس

لائبریرین
عاقل کمرے سے باہر نکل کر باقر صاحب کے پاس گیا اور ادب سے بولا: "مینجر صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ اس طرف تشریف لے جائیے۔"

باقر صاحب نے اس کی طرف ناک سکیڑ کر دیکھا اور مینجر کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ انھوں نے مینجر کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنا تعارف کرایا اور اس کے بعد چند رسمی باتیں کرنے کے بعد بولے: " مجھے پانچ ہزار رپے کی ضرورت ہے۔ اگر مل جائیں تو شکر گزار ہوں گا۔"

مینجر کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے بھی وہی بات کی ، جو اس کے خزانچی نے کہی تھی۔

باقر صاحب نے کرخت آواز میں کہا: "مجھے پانچ ہزار رپے کی ضرورت ہے۔ بتاؤ، تم دے رہے ہو یا نہیں؟ صرف ہاں یا نہ میں جواب دو۔"

عاقل کی طرح ممتاز صاحب کے لیے بھی انھیں جواب دینا دشوار ہو گیا۔ بہرحال ایک مالدار آدمی کا معاملہ تھا۔ اگر وہ انکار کر دیتے تو ہو سکتا تھا کہ ہیڈ کوارٹر ان سے جواب طلبی کرتا، اس لیے انھوں نے اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا: "میں دینے کو تیار ہوں۔" انھوں نے اپنا پرس نکالا اور پانچ ہزار رپے نکال کر ان کی طرف بڑھا دیے۔

رپے گنے بغیر باقر صاحب نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیے۔ پھر ملائمت سے بولے: " اب میں اس کی رسید لکھنے کو تیار ہوں۔"

ممتاز صاحب نے مسکرا کر کہا: "ارے! اس کی کیا ضرورت ہے؟"

باقر صاحب نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا: "ضرورت ہے۔ تم بینک میں مینجر ہو اور رسید کی اہمیت کو نہیں سمجھتے؟"

ممتاز صاحب نے ایک کاغذ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انھوں نے رسید لکھی اور دستخط کر کے ممتاز صاحب کو واپس کر دی، جسے انھوں نے اپنی میز کی دراز میں ڈال دیا۔
 

مقدس

لائبریرین
باقر صاحب نے کہا: "میری کار باہر کھڑی ہے۔ یہ لو اس کی چابی۔ اسے اپنے گیراج میں کھڑی کر دو۔ میں چند روز میں آکر لے جاؤں گا۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔"

"تھیریے، چائے تو پیتے جائیے۔"

"میں ذرا جلدی میں ہوں۔" یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے۔

ان کے جانے کے بعد ممتاز صاحب نے کار کو بینک کے گیراج میں کھڑا کر دیا، جہاں ان کی کار پہلے ہی کھڑی تھی۔ گیراج میں دو کاروں کے لیے گنجائش تھی۔

×××××××

نور پور کوئی بڑا قصبہ تو تھا نہیں، ممتاز صاحب کو شام تک معلوم ہو گیا کہ باقر صاحب خفیہ طور پر وہاں آئے ہیں، تاکہ اس زمین کو خرید سکیں، جہاں تیل نکلنے کا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس سلسے میں انھوں نے انتہائی رازداری برتی ہے اور کسی کو اپنے ساتھ نہیں لائے ہیں۔ ان کے ساتھ صرف ایک ماہر ارضیات ہے، جو مٹی پر تجربات کرے گا، پھر یہ بتائے گا کہ وہاں تیل نکل سکتا ہے یا نہیں۔

بیک کے مینجر ان کا شدت سے انتظار کرتے رہے، کیوں کہ ان کے پانچ ہزار رپے پھنسے ہوئے تھے۔ بہرحال باقر صاحب ایک ماہ بعد بینک آگئے اور انھوں نے ممتاز صاحب سے کہا: "آپ میرے یہاں آنے کے بارے میں کسی کو نہ بتائیے گا۔ ورنہ گڑبڑ ہو جائے گی۔"

ممتاز صاحب سر ہلا کر رہ گئے۔

"یہ لیجیے اپنے پانچ ہزار رپے۔" انھوں نے کوٹ کی اندرونی جیب سے نوٹ نکالے اور ان کی طرف بڑھا دیے۔ معلوم نہیں کیوں ممتاز صاحب کو ایسا لگا کہ جیسے وہ وہی نوٹ ہوں، جو انھوں نے ایک ماہ پہلے باقر صاحب کو دیے تھے۔ بہرحال وہ کچھ نہیں بولے۔"

"اب لائیے میری رسید۔"
 

مقدس

لائبریرین
ممتاز صاحب نے رسید نکال کر ان کی طرف بڑھا دی۔

"اب بتائیے کہ آپ نے جو پانچ ہزار رپے دیے تھے۔ اس پر بینک کے مقرر کردہ ضابطے کے تحت ایک ماہ میں منافع کی کتنی رقم بنی؟"

"ارے! اس کیا کیا ضرورت ہے؟"

"ضرورت ہے۔ آپ بینک کے مینجر ہیں اور آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ رقم پر منافع لیا اور دیا جاتا ہے۔"

انھوں نے کیلکولیٹر اٹھایا اور اس پر حساب لگا کر بتایا: "ساٹھ رپے۔"

باقر صاحب نے جیب سے پرس کھینچ کر ساٹھ رپے نکالے اور ان کی طرف بڑھا دیے۔ پھر وہ دروازے کی طرف جانے سے پہلے بولے: "آپ اب تک حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں نے رقم ادھار کیوں لی؟"

"جی ہاں۔"

"یہاں آنے سے پہلے ایک بات مجھے پریشان کر رہی تھی کہ میں اپنی قیمتی کار کو کہاں پارک کروں گا۔ میرے دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ نور پور سے آگے ایک شہر شہبازنگر ہے، میں اپنی کار کو وہاں کسی بڑے ہوٹل میں پارک کر دوں۔ اس پر گردودھول نہیں پڑے گی اور چوری چکاری کا بھی خطرہ نہیں ہو گا، جب کہ نور پور میں یہ دونوں خطرات لاحق رہیں گے۔ میں نے ان سے شرط لگائی تھی کہ میں سو رپے سے بھی کم کرائے میں اسے نور پور ہی میں پارک کر دوں گا۔ میں نے کار کو آپ کے گیراج میں پارک کر دیا اور آپ کوساٹھ رپے بھی ادا کر دیے۔ میں نے ساٹھ رپے میں ایک مہینے کے لیے پارکنگ کی، گویا دو رپے روز ادا کیے۔ اللہ حافظ۔"

وہ مینجر کو حیران و پریشان چھوڑ کر کمرے سے نکل گئے۔

××××××
 
Top