پروف ریڈ اول کودک کہانی : عقل کی مار

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

عقل کی مار

AkM%20-%20001.gif
 

مقدس

لائبریرین
عقل کی مار

پرانے زمانے کی جتنی کہانیاں سنو گے، ان میں دیوؤں ، پریوں ، بھوتوں اور جنوں کا ذکر ہو گا یا جادو کا کھیل۔ یہ آج تک پتا نہیں چلا کہ وہ لوگ دل بہلانے کے لیے ایسی ڈراؤنی باتیں کیوں کیا کرتے تھے؟ کیا کبھی سچ مچ یہ چیزیں ہوتی تھیں؟ اور مزہ یہ ہے کہ جس سرزمین کے لوگ زیادہ عالم فاضل، عقل کے پتلے کہے جاتے ہیں، سب سے زیادہ ایسی کہانیوں کی کھیتی وہیں ہوئی ہے۔

یونان اور روم قدیم تاریخوں میں یہ دو نام بڑی تعظیم کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کی پرورش ان ہی کے ہاں ہوئی ہے اور یہیں غالباً سب سے پہلے بھوتوں، ہریوں، دیوی، دیوتاؤں اور جادو طلسم کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یونان کی اپنی زبان میں یہی چیزیں بھری پڑی ہیں اور روم تو کہتے ہیں، سرتاپا جادو تھا۔ وہاں کی ایک مہشور کہانی پیش کی جا رہی ہے۔ بتانے والے تو اسی تاریخی قصہ بتاتے ہیں۔ بہرحال ہم تو کہانی کی طرح سنائیں گے اور آپ بھی کہانی کی طرح سنئیے۔

کہتے ہیں، شہر روم کے چوراہے پر کسی لکڑی کا تراشا ہوا ایک بت سا کھڑا تھا۔ اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پیرپر یہ دو لفظ کھدے ہوئے تھے، "پرکیوٹ بک" یعنی یہاں اترو۔ کوئی دو سو برس سے یہ بت آںدھی بارش اندھیرے اجالے میں کھڑا اپنی انگلی کے اشارے سے ہر آنے جانے والے کو برابر یہی کہہ رہا تھا۔ آبادی کا مرکز تھا۔ ہزاروں آدمی پڑھے لکھے، ان پڑھ روزانہ صبح سے شام تک گزرتے، اس کے پاس ٹھیرتے۔ اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتئ لیکن مطلب کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان دو لفظوں میں کیا معما بند ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
سال ہا سال اسی طرح گزر گئے، عمریں بیت گئیں، ایک شخص بھی اس بھید کو نہیں سمجھا۔ آخر ایک دن کوئی سیاح پھرتا پھراتا آ نکلا۔ اس نے ان سیدھے لفظوں کو پڑھا اور بالکل ٹھیک پڑھا۔ یہ دراصل سسلی کا رہنے ولاا تھا اور کئی زبانوں کا عالم تھا، جس کی ساری عمر علم کے مشغلوں میں گزری تھی۔ جادو منتر بھی اسے خوب آتے تھے، لیکن اس کی تقدیر خراب تھی۔ اتنے علم و کمال کے باوجود اسے غربت و مصیبت سے چھٹکارا نہ ملا۔ بد نصیبی کو دور کرنے کی کوئی ترکیب ہاتھ نہ آئی۔

جس وقت اس کی نگاہ لکڑی کے اس بت پر پڑی اور غور سے اس نے اس پر لکھے ہوئے الفاظ پڑھے، وہ سفر کی ساری تکلیفیں بھول گیا۔ روم سے سارے مناظر، روم والوں کی تمام دل چسپیاں بلکہ اب تک جن جن مقامات کی اس نے سیر کی تھی، ان کے کل عجائبات اس کی نظروں کے سامنے بے قیمت ہو گئے۔ دنیا کو چھوڑ کر وہ اس بت کے پیچھے پڑ گیا۔ دن میں کئی کئی مرتبہ آتا۔ بت کے چاروں طرف چکر لگاتا اور ان دو لفظوں کے بھید کو پانے کی کوشش کرتا۔ وپ اپنے علم اور عقل کے بھروسے پر اچھی طرح جان گیا تھا کہ یہ کسی جادو کا دروازہ ہے اور اس کا بنانے والا کوئی استاد جادوگر ہوگا۔

ایک روزٹھیک دوپہر کے وقت وہ چوک میں آکر بت کے پاس کھرا ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ بڑی استادی کا کام کیا ہے، ظالم نے اپنا کمال دکھا دیا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہاں اس کے پیچھے ضرور کوئی طلسمی کارخانہ ہے۔ اتفاق سے اسی وقت بادل کا ایک ٹکڑا ایسا آسمان پر آیا کہ سورج چھپ گیا۔ بادل کا ٹکڑا زیادہ لمبا چوڑہ نہ تھا۔ پلک جھپکنے کی دیر تھی کہ دھوپ نکل آئی۔ دھوپ کے ساتھ بت کی چھوٹی سی پرشھائیں زمین ہر پڑی۔ پرچھائیں دیکھتے ہی وہ چلا اٹھا: "میں نے پا لیا، اب میں نے اس کا بھید پا لیا۔ٓ"
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہین رہا۔ گرمیوں کے دن تھے، دوپہر کا وقت
 

مقدس

لائبریرین
تھا، لوگوں کی آمدورفت کم تھی۔ جب اطمینان ہو گیا کہ کوئی قریب نہیں تو جلدی سے اس مقام پر جھکا، جہاں بت کا سایہ پڑ رہا تھا اور چاقو کی نوک سے پکے فرش پر ایک نشانی بنا دی، تاکہ دوسرے وقت آئے تو جگہ پہنچانی جائے۔ اس کے بعد وہ اپنے مکان پر واپس آگیا اور نہایت ضبر کے ساتھ رات ہونے کا انتظار کرنے لگا، جب کہ بازار سنسان ہو جاتے ہیں۔

آدھی رات ہوتے ہی وہ اپنے مکان سے نکلا۔ دبے پاؤں لالٹین لیے، کدال اور پھاؤڑا کندھے پر رکھے اور ایک مضبوط چمڑے کا تھیلا بغل میں دبائے چوک کی طرف چلا۔ وہ جو کہتے ہیں۔ "سوئے سنسار جاگے پاک پرودگا۔"

ساری بستی سو رہی تھی اور یہ سامان سے لدا پھندا احتیاط سے قدم اٹھاتا، سنسان سڑکوں پر س گزرتا، منھ اٹھائے چوک کی سیدھ میں چلا جاتا تھا۔ پہرے، چوکی ان وقتوں میں کہاں تھے جو کوئی روکتا ٹوکتا، بےکھٹکے بت کے پاس جا پہنچا۔ لالٹین کی روشنی میں اپنا بنایا ہوا نشان پہچانا اور کدال چلانا شروع کر دی۔ چوکوں کا فرش ادھیڑ ڈالا۔ ہاتھوں میں بلا کی پھرتی تھی۔ تھوڑی دیر میں زمین کھود کر ایک اچھا خاصا غار سا بنا لیا۔ کھودتے کھودتے کدال کسی سخت چیز سے ٹکڑائی، مٹی ہٹا کر لالٹین سے جو دیکھا تو کلائی کے برابرموٹا پیتل کا زنگ آلود کڑا ہے، جو تانبے کے تختے میں لگا ہوا ہے۔ اس پر درختوں جانوروں اور پھولوں کی عجیب و غریب تصویریں بنی ہیں۔

تانبے کے تختے پر کھدے ہوئے نقش صاف اس بات کی علامتیں تھیں کہ جو اسے اٹھائے گا، وہ جادو میں پھنس جائے گا، لیکن بھوکے کو تو ہر آگ کا الاؤ تندور والے کی دکان نظر آتا ہے۔ ان عالم فاضل کی ناک میں خزانے کی بو آئی۔ سمجھے کہ اس کے نیچے دولت کے انبار لگے ہوں گے۔ وہ لالچ میں آنکھیں بند کر طلسم میں اترنے کو تیار ہا گیا۔ دل میں کہا کہ ٹھیک ہے' کوئی بڑا جادوگر تھا۔ ایسے لوگوں کی یہی باتیں سنی گئی ہیں۔ وہ مال و دولت اسی طرح چھپا کر رکھا کرتے تھے اور جادو بنانے سے یہ غرض ہوتی تھی کہ جس کی تقدیر اچھی ہوگی، وہی نکال لے گا۔
 

مقدس

لائبریرین
اس نے یہاں اپنا خزانہ رکھ کر یہ لکڑی کا بت کھڑا کر دیا ہے کہ جس کو خدا دلوائے۔ سمجھ کی بات ہے ہزاروں نے ان الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کی ہوگئی، مگر نہیں سمجھے۔ دولت تو میرے حصے کی تھی، کوئی دوسرا کیوں سمجھتا، تو اب دیر کس بات کی ہے؟ میں نے اس مقصد کو پا لیا۔ جس جگہ کا ارادہ تھا، اسے بھی کھود ڈالا۔ ساری علامتیں موجود ہیں، مدتوں بعد نصیب جاگا ہے، ہچکچانا کیا؟ اللہ دے اور بندہ لے۔


یہ سوچ کر اس نے بےتکلف کرے میں ہاتھ ڈال دیے اور پوری طاقت سے تختے کو اٹھانا چاہا۔ سمجھا تھا کہ خدا جانے کب کا جما ہوا تختہ ہے، کتنا زور لگانا پڑے گا، مگر یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ پہلے ہی جھٹکے میں تختہ اٹھ آیا۔ تختے کے نیچے جو نگاہ ڈالی تو بل کھاتی ہوئی سیڑھیاں تھیں۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور ایک قسم کی دھیمی دھیمی آوازیں آنے لگیں۔ زینوں پر چراغ جل رہے تھے۔ لالٹین کی بھی ضرورت نہ رہی۔ در و دیوار، ہر چیز صاف دکھائی دیتی تھی۔ اتنا اجالا تھا کہ دیواروں پر بنی ہوئی بادشاہوں، شاہزادیوں، تلوار باز نوجوانوں کی بہت سی تصویریں الگ الگ دیکھ لو۔ سیاح عالم دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سڑھیاں اترتا جاتا اور آپ ہی آپ کہتا جاتا کہ فال تو نہایت نیک ہے، جس کا ایسا شان دار دروازہ ہو، اس تہ خانے میں دولت بھہ بے انتہا ہونی چاہیے۔ میرے گمان سے زیادہ، میری امید سے بڑھ کر۔

زینے کے آخر میں ایک سبز رنگ کا مخملی پردا لٹکا ہوا تھا، جس پر سنہری حرفوں سے کوئی عبارت لکھی ہوئی تھی۔ اپنی ساری قابلیت صرف کر دی۔ جتنی زبانیں پڑھنی آتی تھیں، سب پڑھ کر دیکھ لیں، لیکن وہ عبارت نہ پڑھی گئی اور جب پڑھی نہ گئی تو مطلب کیا سمجھ میں آتا؟ ہار کا بغیر اسے ہاتھ لگائے ایک طرف سے اندر گیا۔ اندر قدم رکھتے ہی آدمیوں کی سی جھلک نظر آئی۔ ٹھنک کر پیچھے ہٹا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک نہایت قیمتی سامان سے آراستہ کمرے میں کھڑا ہے۔ سامنے ایک چبوترے پر بادشاہ، ملکہ اور امرا بیٹھے ہیں۔ پہلے کچھ ڈرا، پھر سوچا کہ آنکھیں تو دھوکا نہیں دے رہیں، واہمہ کی مصوری نہ ہو، تاہم آگے بڑھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ خوف لمحہ بہ لمحہ بڑھتا
 

مقدس

لائبریرین
جانا تھا۔ بہت ہمت باندھی، نہ بندھی۔ مڑ کر بھاگنا چاہا۔ لیکن جودو کی دنیا میں سے نکلنا کوئی بچوں کا کھیل ہے۔ زینے کی طرف سے ہوا کا ایک جھونکا ایسا آیا کہ سارے چراغ بجھاتا ہوا نکل گیا۔

دل میں دہشت تہ خانے میں قبر سا اندھیرا، راستہ ٹٹولے نہ ملتا تھا۔ کیا کرے؟ تاریکی میں پیچھے سے موت کا انتظار کرنا حماقت تھی۔ سوچا کہ سامنے تو چلو۔ آدمی ہیں یا جادو کے پتلے، دیکھو تو سہی۔ پھر پلیٹ کر پردا ہٹا کر اندر آیا اس کمرے میں داخل ہونے سے چبوترے پر بیٹھنے والوں میں کسی قسم کی حرکت نہیں ہوئی۔ نہ کسی کی انگلی ہلی، نہ پلک تک جھپکتی دکھائی دی۔ نظر جمائے ہوئے آہستہ آہستہ اور آگے بڑھا۔ قریب جا کر جو دیکھا تو پتا لگا کہ یہ تو مردہ جسم ہیں اور مردا بھی بہت عرصے کے، لیکن کسی نے ان لاشوں پر ایسا کمال کا مسالا لگا کر اس طرح انھیں محفوظ کیا ہے کہ زندوں سے سرموفرق نہیں۔

چبوترے پر دو چار نہیں بلکہ بہت سے مردہ جسم تھے۔ بیچ میں بادشاہ بیٹھا تھا، جس کی سفید لمبی داڑھی، سہنری ملبوس شاہی پر گھنٹوں تک لٹک رہی تھی۔ پہلو میں ملکہ صاحبہ بیٹھی تھیں۔ ملکہ سبز چوبی پاجامہ، نہایت قیمتی زر کاکار دو شالہ اوڑھے، کمر میں جگ مگ جگ مگ کرتی سونے کی جڑاؤ پیٹی، گلے میں جواہرات مرصع کا ہار۔۔۔ بادشاہ اور ملکہ کے دونوں طرف چوب دار، بلم بردار اوروزار کھڑے تھے۔ پشت پر دیکھا کہ مسلح فوجی افسروں، غلاموں اور گویوں کی ٹولیاں اپنے اپنے قرینے سے کھڑی ہیں۔ بادشاہ کے سر پر ایک سونے کا چراغ لٹک رہا ہے۔ اس کی لو سے کچھ ایسی تیز شعاعیں نکل رہی تھیں کہ سارے کمرے میں لال رنگ کی روشنی تھی۔ گھور کر دیکھنے پر معلوم ہو کہ چھت میں لٹکا ہوا چراغ نہیں بلکہ سرخ رنگ کا ایک بڑا پتھر ہے۔ بےوقوف نے اسے لعل شب چراغ سمجھا اور اس پر ہاتھ مارنے کی تدبیر سوچنے لگا۔

چھت سے جو نظر نیچے اتری تو چبوترے سے چند قدم کے فاصلے پر دیکھا کہ ایک
 

مقدس

لائبریرین
تیر انداز کا مجسمہ کمان ہاتھ میں لیے، تیر جوڑے اس چراغ یا لال پتھر کی طرف نگاہ جمائے کھڑا ہے۔ اس جادوئی کارخانے کو دو چار منٹ تک تو وہ حیرت سے دیکھتا رہا، پھر چاروں طرف گشت لگایا اور ایک ایک چیز کو خوب پرکھا۔ دل ہی دل میں بنانے والے کی تعریفیں کیں۔ اس کے بعد اچانک اسے خیال آیا کہ رات گزر جاتی ہے۔ سیر ہو چکی، دن نک آیا اور بازاروں میں لوگوں کی آمدورفت شروع ہو گئی تو پکڑا نہ جاؤں۔ اپنا کام کر کے چلنا چاہیے۔ جلد جلد جو سیمتا جا سکے، سمیٹ لو۔ یہ مرے ہوئے انسان میرا ہاتھ کیا روک سکتے ہیں۔ سب سے ہیکے اٹھی کے زیورات اتارو۔

اس خیال کے ساتھ ہی اس نے اپنا چمڑے کا تھیلا کھولا اور بادشاہ کے ہاتھ میں جو سونے کا جڑواؤ پیالہ تھا، اس سے بسم اللہ کی۔ بادشاہ کے ہاتھ سے پیالہ لے کر تھیلے میں دال لیا۔ پیالہ بادشاہ کے ہاتھ سے لینے کے بعد اسے تھوڑا بہت جو شبہ تھا کہ شاید کوئی شفوفہ پھوٹے، بادشاہ اٹھ کر کلائی پکرے یا چور چور کہہ کر غل مچانے لگے، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا، نہ بادشاہ کے مجسمے میں کوئی حرکت ہوئی، نہ منھ سے بھاپ نکلی، نہ پلک چھپکی۔ مردہ جوں کا توں بیٹھا رہا۔

اب تو جناب عالم کے حوصلے کا کیا کہنا تھا۔ دل برھ کر شیر ہو گیا۔ ملکہ کے قریب جا کر اس کے گلے کا ہار اتار لیا۔ بادشاہ اور ملکہ دونوں کے تاج جھپٹے۔ پٹیاں کھولیں۔ غرض کہ جتنے زیور وہ پہنے ہوئے تھے، ایک ایک کر کے سب ہی تھیلے میں بھر لیے، جوتیاں تک نہ چھوڑیں۔ لالچ کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ تھیلا اتنا ٹھسا ٹھس بھر گیا تھا کہ اس کا اٹھانا دشوار ہو گیا۔ پیٹھ پر لادا تو ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں، تاہم جس طرح بنا اسے اٹھا کر چلا۔ پردے تک پہنچتے پہنچتے اس کی نگاہ ایک نہایت چمکیلے پتھر پڑی۔ یہ فرش کے بیچوں بیچ جڑا ہوا ایک بڑا زمرد تھا۔ "واہ واہ! کیسا نفیس پتھر ہے! اسے بھی لینا چاہیے۔ سات بادشاہتوں میں بھی اس کی جوڑ کا نہ ہو گا۔" یہ کہتا ہوا جھکا اور زمرد کو اکھیڑنا چاہا۔ ہر ممکن کوشش کی ، مگر وہ ہلا تک نہیں۔ گھبرا کر اپنا تھیلا رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے ہلانا شروع کیا۔ زور لگاتے لگاتے دم لینے کے لیے جو اس نے
 

مقدس

لائبریرین
گردن اٹھائی اور مردوں کی محفل پر پر نظر پڑی تو اوسان جاتے رہے۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے، کیسا زمرد اور کس کا نکالنا۔ بےتحاشا چیختا ہوا کھڑا ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ کمان دار کے مجسمے نے چلے میں جڑا ہوا تیر کھینچا، جیسے چھت میں لٹکے ہوئے سرخ پتھر کو نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔ یہ کیا؟ جادوئی پتلے حرکت میں آگئے؟ جتنا خوف اور جس قدر وحشت نہ ہوتی، کم تھا۔ تھینلے کو کھینچتا ہوا پردے کی طرف جھپٹا کہ نکل جائے مگر نحوست سر پر منڈلا رہی تھی۔ ادھر پردہ ہلا اور ادھر تیر ہوا میں سنسناتا ہوا چاغ پر لگا۔ پل کی پل میں اندھیا گھپ۔ دروازہ چبوترا اور مردوں کی شکلیں غائب۔

ایسے اندھیرے میں دولت لوٹنے والے کے ہوش کیا ٹھکانے رہتے۔ عقل و ہوش سب اندھے ہو گئے۔ بڑی دیر کے بعد جو حواس کچھ درست ہوئے تو اٹھا۔ دیوراوں سے ٹکراتا اور راستہ ٹٹولتا، لیکن کسی طرف سے نکلنے کی راہ نہ ملتی، سرنگ بند ہو گئی تھی۔ سسیرھیوں کا پتا نہ تھا۔ غرض یہ کہ اسی طرح ٹکراتے ٹکراتے دولت کے طلسم کا قیدی بھوکا پیاسا کچھ عرصے بعد سسک سسک کر مر گیا۔ وہ خزانہ جس کے لالچ میں ایک غریب نے اپنی جان خطرے میں ڈالی تھی، اپنی جگہ جوں کا توں رہا، بلکہ ایک سیاح کی روح اس کے محافظوں میں شامل ہو گئی۔

ادھر تو اندرون طلسم ایک لالچ کا مارا رزق مقدر کا ناشکرا بندہ تڑپتڑپ کر جان توڑ رہا تھا اور ادھر ابھی پورا دن نہیں نکلا تھا کہ طوفان باد وباراں نے سارے شہر روم کو آ گھیرا۔ بجلی کڑک کر اس لکڑی کے بت پر گری، جس کی انگلی سسلی کے ماہر علوم کے انکام کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔

آگ کے شعلوں سے وہ تانبے کی سل بھی جو غار کے منھ پر ڈھکی ہوئی تھی، جلا کر بھسم کر دی اور میٹھ کا ایک ریلا ایسا آیاکہ گڑھا وڑھا اٹ کر میدان صاف ہو گیا۔

لوگ آتے اور بت کی بربادی کا تماشا دیکھتے۔ کسی کو کیا خبر کہ اس کی تباہی میں کوئی انسانی ہاتھ بھی شریک ہو گا اور اس کا کیا حشر ہوا؟ یہی سمجھا گیا کہ طوفان نے یہ تباہی مچائی ہے۔

××××
 
Top