مکمل کودک کہانی : سرائے والی بڑھیا

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "سرائے والی بڑھیا" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل تین اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کہانی کو عائشہ عزیز ٹائپ کر رہی ہیں۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

شکریہ

swb1.gif

 

فہیم

لائبریرین
سرائے والی بڑھیا

شیشم کے درختوں کے گھنے جنگل کے کنارے سندیل پور نامی ایک سرسبز قصبہ واقع ہے۔ شہری لوگ یہاں سے عمارتی لکڑی خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہاں تین چار مال دار آڑھتی رہتے ہیں۔ اس قصبے کی طرف ایک پکی سڑک بھی جاتی ہے، جس پر کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ کچھ فاصلے پر کچی سڑک ہے، جس سے فاصلہ دس بارہ میل کم ہوجاتا ہے، لیکن اس کچی سڑک پر جیپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہی چل سکتی ہیں۔
دو برس پہلے جب دو صحافی کسی دوست کی شادی میں سندیل پور گئے تھے تو انھوں نے یہی کچا راستہ اختیار کیا تھا۔ وہ دونوں موٹرسائیکلوں پر سوار تھے۔ اس کچی سڑک پر صرف ایک جھگی نما سرائے تھی۔ ان دونوں صحافی دوستوں نے وہاں ٹھہر کر چائے پی تھی۔ اس جھگی سرائے کی مالکہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ اب دوسری بار وہ دونوں اسی راستے سے سندیل پور جارہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ جھگی سرائے کی جگہ ایک پکی عمارت کھڑی ہے، جس پر "سندیل پور سرائے" لکھا تھا۔
دونوں دوست موٹر سائیکلوں کو سائے میں کھڑی کرکے سرائے کے اندر گئے۔ اندر وہی بڑی بی موجود تھیں۔ صاف ستھری چینی کی پیالیوں میں چائے لائی گئی۔ ایک صحافی سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ ہی لیا:"اماں جی! یہ تو بتائیں کہ یہ کایا کیسے پلٹی، کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا کیا؟"
بڑی بی بولیں:"اللہ جب دینے پر آتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے۔"
دوسرے صحافی نے کہا:"تو پھر اپنی کہانی سناڈالیں۔ اگر مزے دار ہوئی تو میں اپنے اخبار میں چھپوادوں گا۔ لوگ پڑھیں گے، سندیل پور سرائے کی شہرت ہوگی اور بیٹھے بٹھائے آپ کی آمدنی بڑھ جائے گی۔ تو پھر شروع کریں اپنی کہانی۔"
بڑی بی کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ بولیں:"بیٹا! میرا میاں بہت بوڑھا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ اور جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں پائج ہوکر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ بکریاں تھیں۔ ایک دن وہ انھیں چرانے لے گیا تو جنگل میں اسے ایک چھوٹی سی شیشی ملی، جس میں سفید پوڈر سا تھا۔ میرا میاں وہ شیشی اٹھا لایا کہ شاید یہ کوئی دوا ہے۔ دوسرے دن جنگل میں ایک مردی آدمی ملا۔ پولیس نے بتایا کہ اس آدمی نے زہر کھا کر خودکشی کی ہے۔ میرے میاں نے وہ شیشی طاق کے کونے میں رکھ دی۔ جب اس کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا تو زہر کھا کر مرجانے کی بات کرتا۔ میں نے وہ شیشی چھپّر کے کونے میں چھپادی۔ کچھ دن بعد وہاں فاختہ کے جوڑے نے گھونسلا بنالیا۔"
بڑی نے تھوڑا رک کر کہا:"اب آگے کی سنو کہ کس طرح کہانی کے تانے بانے بنتے چلے گئے۔ ڈیڑھ دو سال گزرے تھے کہ سرائے کہ آگے ایک سبز رنگ کی جیپ آکر رکی۔ دو مسٹنڈے جوان اتر کر سرائے میں آگھسے۔ تیسرے آدمی نے جیپ درختوں کے پیچھے چھپا کر کھڑی کردی اور خود بھی سرائے میں آگیا۔ ایک آدمی نے ساتھ لائے ہوئے تھیلے میں سے دو ذبح کیے ہوئے مرغے نکالے اور مجھے حکم دیا کہ جا بڑھیا! جلدی سے یہ مرغے بھون لا۔ پھر وہ تینوں آدمی ایک چار پائی پر بیٹھ کر بھنے ہوئے مرغوں کا انتظار کرنے لگے۔ میں کھانا پکانے لگی۔ اتنے میں ایک آدمی نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور تینوں اس پر جھک کر کانا پھوسی کرنے لگے۔ مجھے وہ لوگ اٹھائی گیر لگ رہے تھے۔ میں مرغے بھون کر لائی تو وہ منٹوں میں چٹ کرگئے اور مجھے حکم دیا کہ اے بڑھیا! کھڑی کیا دیکھ رہی ہے۔ تھوڑٰی سی کھیر بناکر لا۔ ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ تھوڑی دیر میں کھیر تیار ہوگئی۔ وہ بھی انھوں نے چٹ کرڈالی۔
ایک آدمی بولا:"بکری کے دودھ کی بہت مزے دار تھی۔ جا! پوری دیگچی اٹھالا۔"میں دیگچی لارہی تھی تو وہ خود دیگچی کی طرف لپکا۔ چھپرے کے گھونسلے سے ایک فاختہ پھڑ پھڑا کر اڑی اور وہ چھوٹی سی سفید پوڈر والی شیشی کھیر کی دیگچی میں آپڑی۔ اس آدمی نے دیگچی چھین لی۔ میں اسے روکتی رہ گئی۔ ان تینوں نے ساری دیگچی صاف کرڈالی تب میں کیا دیکھتی ہوں کہ وہ تینوں فرش پر ذبح کیے مرغوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اتنے میں چار جیپ گاڑیاں سرائے کے سامنے رکیں اور دس بارہ پولیس والے سرائے میں گھس آئے۔ انھوں نے اب تینوں اٹھائی گیروں کو ہتھکڑیاں لگادیں۔ ایک پولیس والے نے ان کی سبز جیپ بھی ڈھونڈ نکالی۔ تینوں اٹھائی گیروں کی حالتیں بہت بری تھیں، لٰہذا انھیں ایک جیپ میں فوراً اسپتال کی طرف رواہ کردیا گیا۔
تھانے دار صاحب نے کہاَ:" بڑٰ بی تم نے وہ کام کردکھایا۔ جو ہم نہیں کرسکے۔ ان تینوں نے ہم پولیس والوں کی نیندیں حرام کررکھی تھیں۔ یہ تینوں اشتہاری ڈاکو ہیں۔ ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر دس دس ہزار روپے کا سرکاری انعام ہے۔"اس واقعہ کے ہفتہ بھر بعد چند پولیس افسر آئے اور مجھے تیس ہزار روپے دے گئے۔ میں اتنی بڑی رقم چھپا کر کہاں رکھتی۔ یہ روپے سندیل پور کے ایک ایمان دار آڑھتی کے پاس رکھوادیے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو اپنے شوہر کا شہر لے جاکر علاج کراؤ۔ باقی روپوں سے پکی سرائے بنواؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ رقم محفوظ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
بیٹا! تمہیں یہ کہانی لگتی ہوگئی، مگر یہ سچی کہانی ہے۔ اللہ تعالٰی کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملتی جاتی ہے۔ مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ میرا میاں صحت مند ہوجائے گا اور میری جھگی سرائے پکی سندیل پور سرائے بن جائے گی۔ یہ سب مرے اللہ کا کرم ہے۔ دن رات میں اللہ تعالٰی کے گن گاتی رہتی ہوں۔"
 

زلفی شاہ

لائبریرین
سرائے والی بڑھیا


شیشم کے درختوں کے گھنے جنگل کے کنارے سندیل پور نامی ایک سرسبز قصبہ واقع ہے۔ شہری لوگ یہاں سے عمارتی لکڑی خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہاں تین چار مال دار آڑھتی رہتے ہیں۔ اس قصبے کی طرف ایک پکی سڑک بھی جاتی ہے، جس پر کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ کچھ فاصلے پر کچی سڑک ہے، جس سے فاصلہ دس بارہ میل کم ہوجاتا ہے، لیکن اس کچی سڑک پر جیپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہی چل سکتی ہیں۔
دو برس پہلے جب دو صحافی کسی دوست کی شادی میں سندیل پور گئے تھے تو انھوں نے یہی کچا راستہ اختیار کیا تھا۔ وہ دونوں موٹرسائیکلوں پر سوار تھے۔ اس کچی سڑک پر صرف ایک جھگی نما سرائے تھی۔ ان دونوں صحافی دوستوں نے وہاں ٹھہر کر چائے پی تھی۔ اس جھگی سرائے کی مالکہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ اب دوسری بار وہ دونوں اسی راستے سے سندیل پور جارہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ جھگی سرائے کی جگہ ایک پکی عمارت کھڑی ہے، جس پر "سندیل پور سرائے" لکھا تھا۔
دونوں دوست موٹر سائیکلوں کو سائے میں کھڑی کرکے سرائے کے اندر گئے۔ اندر وہی بڑی بی موجود تھیں۔ صاف ستھری چینی کی پیالیوں میں چائے لائی گئی۔ ایک صحافی سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ ہی لیا:"اماں جی! یہ تو بتائیں کہ یہ کایا کیسے پلٹی، کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا کیا؟"
بڑی بی بولیں:"اللہ جب دینے پر آتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے۔"
دوسرے صحافی نے کہا:"تو پھر اپنی کہانی سناڈالیں۔ اگر مزے دار ہوئی تو میں اپنے اخبار میں چھپوادوں گا۔ لوگ پڑھیں گے، سندیل پور سرائے کی شہرت ہوگی اور بیٹھے بٹھائے آپ کی آمدنی بڑھ جائے گی۔ تو پھر شروع کریں اپنی کہانی۔"
بڑی بی کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ بولیں:"بیٹا! میرا میاں بہت بوڑھا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ اور جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں اپاہج ہوکر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ بکریاں تھیں۔ ایک دن وہ انھیں چرانے لے گیا تو جنگل میں اسے ایک چھوٹی سی شیشی ملی، جس میں سفید پوڈر سا تھا۔ میرا میاں وہ شیشی اٹھا لایا کہ شاید یہ کوئی دوا ہے۔ دوسرے دن جنگل میں ایک مردہ آدمی ملا۔ پولیس نے بتایا کہ اس آدمی نے زہر کھا کر خودکشی کی ہے۔ میرے میاں نے وہ شیشی طاق کے کونے میں رکھ دی۔ جب اس کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا تو زہر کھا کر مرجانے کی بات کرتا۔ میں نے وہ شیشی چھپّر کے کونے میں چھپادی۔ کچھ دن بعد وہاں فاختہ کے جوڑے نے گھونسلا بنالیا۔"
بڑی بی نے تھوڑا سا رک کر کہا:"اب آگے کی سنو کہ کس طرح کہانی کے تانے بانے بنتے چلے گئے۔ ڈیڑھ دو سال گزرے تھے کہ سرائے کے آگے ایک سبز رنگ کی جیپ آکر رکی۔ دو مسٹنڈے جوان اتر کر سرائے میں آگھسے۔ تیسرے آدمی نے جیپ درختوں کے پیچھے چھپا کر کھڑی کردی اور خود بھی سرائے میں آگیا۔ ایک آدمی نے ساتھ لائے ہوئے تھیلے میں سے دو ذبح کیے ہوئے مرغے نکالے اور مجھے حکم دیا کہ جا بڑھیا! جلدی سے یہ مرغے بھون لا۔ پھر وہ تینوں آدمی ایک چار پائی پر بیٹھ کر بھنے ہوئے مرغوں کا انتظار کرنے لگے۔ میں کھانا پکانے لگی۔ اتنے میں ایک آدمی نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور تینوں اس پر جھک کر کانا پھوسی کرنے لگے۔ مجھے وہ لوگ اٹھائی گیرے لگ رہے تھے۔ میں مرغے بھون کر لائی تو وہ منٹوں میں چٹ کرگئے اور مجھے حکم دیا کہ اے بڑھیا! کھڑی کیا دیکھ رہی ہے۔ تھوڑی سی کھیر بناکر لا۔ ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ تھوڑی دیر میں کھیر تیار ہوگئی۔ وہ بھی انھوں نے چٹ کرڈالی۔
ایک آدمی بولا:"بکری کے دودھ کی کھیربہت مزے دار تھی۔ جا! پوری دیگچی اٹھالا۔"میں دیگچی لارہی تھی تو وہ خود دیگچی کی طرف لپکا۔ چھپرے کے گھونسلے سے ایک فاختہ پھڑ پھڑا کر اڑی اور وہ چھوٹی سی سفید پوڈر والی شیشی کھیر کی دیگچی میں آپڑی۔ اس آدمی نے دیگچی چھین لی۔ میں اسے روکتی رہ گئی۔ ان تینوں نے ساری دیگچی صاف کرڈالی تب میں کیا دیکھتی ہوں کہ وہ تینوں فرش پر ذبح کیے مرغوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اتنے میں چار جیپ گاڑیاں سرائے کے سامنے رکیں اور دس بارہ پولیس والے سرائے میں گھس آئے۔ انھوں نے اب تینوں اٹھائی گیروں کو ہتھکڑیاں لگادیں۔ ایک پولیس والے نے ان کی سبز جیپ بھی ڈھونڈ نکالی۔ تینوں اٹھائی گیروں کی حالتیں بہت بری تھیں، لٰہذا انھیں ایک جیپ میں فوراً اسپتال کی طرف روانہ کردیا گیا۔
تھانے دار صاحب نے کہا:" بڑی بی تم نے وہ کام کردکھایا۔ جو ہم نہیں کرسکے۔ ان تینوں نے ہم پولیس والوں کی نیندیں حرام کررکھی تھیں۔ یہ تینوں اشتہاری ڈاکو ہیں۔ ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر دس دس ہزار روپے کا سرکاری انعام ہے۔"اس واقعہ کے ہفتہ بھر بعد چند پولیس افسر آئے اور مجھے تیس ہزار روپے دے گئے۔ میں اتنی بڑی رقم چھپا کر کہاں رکھتی۔ یہ روپے سندیل پور کے ایک ایمان دار آڑھتی کے پاس رکھوادیے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو اپنے شوہر کا شہر لے جاکر علاج کراؤ۔ باقی روپوں سے پکی سرائے بنواؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ رقم محفوظ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
بیٹا! تمہیں یہ کہانی لگتی ہوگی، مگر یہ سچی کہانی ہے۔ اللہ تعالٰی کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملتی جاتی ہیں۔ مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ میرا میاں صحت مند ہوجائے گا اور میری جھگی سرائے پکی سندیل پور سرائے بن جائے گی۔ یہ سب مرے اللہ کا کرم ہے۔ دن رات میں اللہ تعالیٰ
سرائے والی بڑھیا


شیشم کے درختوں کے گھنے جنگل کے کنارے سندیل پور نامی ایک سرسبز قصبہ واقع ہے۔ شہری لوگ یہاں سے عمارتی لکڑی خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہاں تین چار مال دار آڑھتی رہتے ہیں۔ اس قصبے کی طرف ایک پکی سڑک بھی جاتی ہے، جس پر کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ کچھ فاصلے پر کچی سڑک ہے، جس سے فاصلہ دس بارہ میل کم ہوجاتا ہے، لیکن اس کچی سڑک پر جیپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہی چل سکتی ہیں۔
دو برس پہلے جب دو صحافی کسی دوست کی شادی میں سندیل پور گئے تھے تو انھوں نے یہی کچا راستہ اختیار کیا تھا۔ وہ دونوں موٹرسائیکلوں پر سوار تھے۔ اس کچی سڑک پر صرف ایک جھگی نما سرائے تھی۔ ان دونوں صحافی دوستوں نے وہاں ٹھہر کر چائے پی تھی۔ اس جھگی سرائے کی مالکہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ اب دوسری بار وہ دونوں اسی راستے سے سندیل پور جارہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ جھگی سرائے کی جگہ ایک پکی عمارت کھڑی ہے، جس پر "سندیل پور سرائے" لکھا تھا۔
دونوں دوست موٹر سائیکلوں کو سائے میں کھڑی کرکے سرائے کے اندر گئے۔ اندر وہی بڑی بی موجود تھیں۔ صاف ستھری چینی کی پیالیوں میں چائے لائی گئی۔ ایک صحافی سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ ہی لیا:"اماں جی! یہ تو بتائیں کہ یہ کایا کیسے پلٹی، کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا کیا؟"
بڑی بی بولیں:"اللہ جب دینے پر آتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے۔"
دوسرے صحافی نے کہا:"تو پھر اپنی کہانی سناڈالیں۔ اگر مزے دار ہوئی تو میں اپنے اخبار میں چھپوادوں گا۔ لوگ پڑھیں گے، سندیل پور سرائے کی شہرت ہوگی اور بیٹھے بٹھائے آپ کی آمدنی بڑھ جائے گی۔ تو پھر شروع کریں اپنی کہانی۔"
بڑی بی کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ بولیں:"بیٹا! میرا میاں بہت بوڑھا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ اور جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں پائج ہوکر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ بکریاں تھیں۔ ایک دن وہ انھیں چرانے لے گیا تو جنگل میں اسے ایک چھوٹی سی شیشی ملی، جس میں سفید پوڈر سا تھا۔ میرا میاں وہ شیشی اٹھا لایا کہ شاید یہ کوئی دوا ہے۔ دوسرے دن جنگل میں ایک مردی آدمی ملا۔ پولیس نے بتایا کہ اس آدمی نے زہر کھا کر خودکشی کی ہے۔ میرے میاں نے وہ شیشی طاق کے کونے میں رکھ دی۔ جب اس کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا تو زہر کھا کر مرجانے کی بات کرتا۔ میں نے وہ شیشی چھپّر کے کونے میں چھپادی۔ کچھ دن بعد وہاں فاختہ کے جوڑے نے گھونسلا بنالیا۔"
بڑی نے تھوڑا رک کر کہا:"اب آگے کی سنو کہ کس طرح کہانی کے تانے بانے بنتے چلے گئے۔ ڈیڑھ دو سال گزرے تھے کہ سرائے کہ آگے ایک سبز رنگ کی جیپ آکر رکی۔ دو مسٹنڈے جوان اتر کر سرائے میں آگھسے۔ تیسرے آدمی نے جیپ درختوں کے پیچھے چھپا کر کھڑی کردی اور خود بھی سرائے میں آگیا۔ ایک آدمی نے ساتھ لائے ہوئے تھیلے میں سے دو ذبح کیے ہوئے مرغے نکالے اور مجھے حکم دیا کہ جا بڑھیا! جلدی سے یہ مرغے بھون لا۔ پھر وہ تینوں آدمی ایک چار پائی پر بیٹھ کر بھنے ہوئے مرغوں کا انتظار کرنے لگے۔ میں کھانا پکانے لگی۔ اتنے میں ایک آدمی نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور تینوں اس پر جھک کر کانا پھوسی کرنے لگے۔ مجھے وہ لوگ اٹھائی گیر لگ رہے تھے۔ میں مرغے بھون کر لائی تو وہ منٹوں میں چٹ کرگئے اور مجھے حکم دیا کہ اے بڑھیا! کھڑی کیا دیکھ رہی ہے۔ تھوڑٰی سی کھیر بناکر لا۔ ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ تھوڑی دیر میں کھیر تیار ہوگئی۔ وہ بھی انھوں نے چٹ کرڈالی۔
ایک آدمی بولا:"بکری کے دودھ کی بہت مزے دار تھی۔ جا! پوری دیگچی اٹھالا۔"میں دیگچی لارہی تھی تو وہ خود دیگچی کی طرف لپکا۔ چھپرے کے گھونسلے سے ایک فاختہ پھڑ پھڑا کر اڑی اور وہ چھوٹی سی سفید پوڈر والی شیشی کھیر کی دیگچی میں آپڑی۔ اس آدمی نے دیگچی چھین لی۔ میں اسے روکتی رہ گئی۔ ان تینوں نے ساری دیگچی صاف کرڈالی تب میں کیا دیکھتی ہوں کہ وہ تینوں فرش پر ذبح کیے مرغوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اتنے میں چار جیپ گاڑیاں سرائے کے سامنے رکیں اور دس بارہ پولیس والے سرائے میں گھس آئے۔ انھوں نے اب تینوں اٹھائی گیروں کو ہتھکڑیاں لگادیں۔ ایک پولیس والے نے ان کی سبز جیپ بھی ڈھونڈ نکالی۔ تینوں اٹھائی گیروں کی حالتیں بہت بری تھیں، لٰہذا انھیں ایک جیپ میں فوراً اسپتال کی طرف رواہ کردیا گیا۔
تھانے دار صاحب نے کہاَ:" بڑٰ بی تم نے وہ کام کردکھایا۔ جو ہم نہیں کرسکے۔ ان تینوں نے ہم پولیس والوں کی نیندیں حرام کررکھی تھیں۔ یہ تینوں اشتہاری ڈاکو ہیں۔ ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر دس دس ہزار روپے کا سرکاری انعام ہے۔"اس واقعہ کے ہفتہ بھر بعد چند پولیس افسر آئے اور مجھے تیس ہزار روپے دے گئے۔ میں اتنی بڑی رقم چھپا کر کہاں رکھتی۔ یہ روپے سندیل پور کے ایک ایمان دار آڑھتی کے پاس رکھوادیے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو اپنے شوہر کا شہر لے جاکر علاج کراؤ۔ باقی روپوں سے پکی سرائے بنواؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ رقم محفوظ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
بیٹا! تمہیں یہ کہانی لگتی ہوگئی، مگر یہ سچی کہانی ہے۔ اللہ تعالٰی کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملتی جاتی ہے۔ مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ میرا میاں صحت مند ہوجائے گا اور میری جھگی سرائے پکی سندیل پور سرائے بن جائے گی۔ یہ سب مرے اللہ کا کرم ہے۔ دن رات میں اللہ تعالٰی کے گن گاتی رہتی ہوں۔"

کے گن گاتی رہتی ہوں۔"
 
Top